تزکیہ نفس از بنت الاسلام

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
تزکیہ نفس کا مفہوم ، اہمیت اور تاکید

تزکیہ نفس کا مفہوم

حضرت ابو ذر غفاری بیان کرنے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ خدائے بزرگ و برتر ارشاد فرماتا ہے :

اے میرے بندو ، میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام کر دیا ہے ، پس ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو ۔

اے میرے بندو ، تم سب بے راہ ہو مگر جس کو میں راہ پر چلاؤں ، پس مجھ سے ہدایت مانگو ، میں تمھیں ہدایت دونگا ۔

اے میرے بندو ، تم سب بھوکے ہو مگر جس کو میں کھانا کھلاؤں ۔ پس تم مجھ سے کھانا مانگو، میں تمھیں کھلاوں گا ۔

اے میرے بندو ، تم سب عریاں ہو ، مگر جس کو میں پہناؤں ۔ تم مجھ سے لباس مانگو ، میں تمھیں پہناوں گا ۔

اے میرے بندو ، تم سب رات دن خطائیں کرتے ہو اور میں سب کے گناہ بخشنے والا ہوں ۔ تم سب مجھ سے بخشش مانگو ، میں تمہیں بخش دوں گا ۔

اے میرے بندو ، تم مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے کہ مجھے ضرر پہنچاؤ ، نہ تم مجھے کوئی نفع پہنچا سکتے ہو کہ مجھے نفع پہنچاؤ ۔

اے میرے بندو ، اگر اول سے آخر تک سب انسان اور جن تم میں سے سب زیادہ متقی دل والے آدمی کی طرح ہو جائیں تو اس سے میری بادشاہت میں کچھ بڑھ نہیں جائے گا ۔

اے میرے بندو ، اگر اول سے آخر تک سب انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ بدکار دل والے آدمی کی طرح بن جائیں تو اس سے میرے ملک میں کوئی نقص واقع نہیں ہو گا ۔

اے میرے بندو ، اگر ا‎ؤل سے آخر تک سب انسان اور جن ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور مجھ سے ( اپنی مرادیں ) مانگیں اور میں ہر ایک کو مرادیں پوری کرد‎ؤں تو اس سے میرے خزانوں میں سے اس سے زیادہ کم نہیں ہو سکتا جتنا کہ سوئي کو دریا میں داخل کر کے نکال لینے سے ( دریا کا پانی کم ہوتا ہے ) ۔

اے میرے بندو، یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے ہی لیے گن گن کر رکھتا ہوں اور پھر تمھیں وہ پورے پورے دوں گا ۔ پس جو بھلائی پائے وہ خدا کی حمد کرے اور جو اس کے سوا پائے وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرے ۔ ( مسلم )

اس حدیث قدسی کے آخر میں جس حقیقت کو واضح کیا گيا ہے ، وہ یہ ہے کہ لوگوں کے نیک بن جانے سے اللہ تعالی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور لوگوں کے بد بن جانے سے اس کی سلطنت میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا ۔ اس کے باوجود جو وہ انسان کو بار بار حکم دیتا ہے کہ گناہوں سے بچو اور نیکیاں اختیار کرو ، تو یہ خود انسان ہی کے فائدے کی خاطر ہے ۔ تاکہ انسان ہلاکت اور خسارے سے بچ جائے اور اپنے لیے زیادہ سے زیادہ اچھے اجر کو لینے کا بندوبست کرلے ۔ جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

" یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے ہی لیے گن گن کر رکھتا ہوں اور پھر وہ تمھیں پورے پورے دوں گا ۔ "

عربی زبان میں تزکیہ کا لغوی مفہوم یہ ہے کہ کسی شے کو صاف ستھرا بنایا جائے اور اس کو نشوونما دے کر پروان چڑھایا جائے اور اصطلاح میں تزکیہ مطلب یہ ہے کہ آپ کو غلط رجحانات ، میلانات ، اور اعمال سے ہٹا کر نیکی اور خدا ترسی کی راہ پر ڈالا جائے ۔ اس تعریف کی رو سے تزکیہ نفس کی مہم قدرتی طور پر دو حصوں میں بٹ جاتی ہے ۔

( الف ) ۔ اپنا محاسبہ کر کے دیکھنا کہ ہم میں کیا کیا برائیاں ہیں اور پھر انہیں دور کرنے کی کوشش کرنا ۔
( ب ) ۔ اپنا محاسبہ کر کے دیکھنا کہ ہم میں کیا کیا اچھائیاں نہیں ہیں اور پھر انہیں اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ۔

جو عقل مند شخص اس مہم کا بیڑا اٹھا لے کہ اپنے نفس سے برائیاں دور کروں اور اس میں اچھائیاں پیدا کروں ، اس کے لیے سب سے زیادہ غور طلب امر یہی ہو جاتا ہے کہ وہ کون کونسے اعمال ہیں جو مجھے اس مہم کامیاب ہونے میں امداد دے سکتے ہیں اور وہ کون کونسے افعال ہیں جن کو اگر چھوڑ ا نہ گیا تو یہ مہم کبھی بھی سر نہ ہو سکے گی ۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہ لیجیئے کہ جو شخص اپنے نفس کا تزکیہ کرنے کا خواہشمند ہو گا ، اس کی سب سے بڑی سوچ یہی ہو گي کہ کیا کروں کہ گنہگار نفس گناہوں کے بے پنہاں نقصانات کا صحیح احساس کر کے اس سے متنفر ہو جائے ۔

اور کیا کیا قدم اٹھاؤں کہ غافل دل نیکیوں کے لا محدود فوائد اور برکات کو بچشم سر دیکھ کر اس کی طرف بے باکانہ لپکے ۔

واضح رہے کہ انسانی نفس ان اعمال کو ہمیشہ بے فائدہ اور لا حاصل سمجھتا ہے جن کے فوائد اس کے ذہن نشین نہ ہوں ۔ اس لیے تزکیہ نفس کا خیال بھی صرف اس شخص کے دل میں آ سکتا ہے ، جسے اچھی طرح پتہ چل چکا ہو کہ برائیاں میرے لیے ہلاکت خیز اور اچھائیاں میرے لیے فائدہ مند ہیں ۔ اس لیے انسان کے لیے پہلی ضروری بات تو یہی ہے کہ اسے قلبی یقین حاصل ہو جائے کہ خدا نے مجھے جن باتوں سے روکا ہے ، اس سے اسی لیے روکا ہے کہ وہ ہلاک کرنے والی ہیں اور کے کرنے کا حکم دیا ہے ، وہ ہیں ہی ایسی لیے کہ مجھے دنیوی اور اخروی دونوں سعادتوں سے ہمکنار کرنے والی ہیں ۔ یعنی اسے اپنے خالق و مالک کی شفقت و محبت پر پورا سچا قلبی یقین ہو چکا ہو اور اس کا ایمان ہو کہ وہ رو‎ؤف و رحیم ہادی صرف میرے ہی فائدے کی خاطر مجھے زہر کھانے سے رکے رہنے اور آب حیات پینے کا حکم دے رہا ہے ۔

علامہ اقبال اپنے ایک خط میں ، جو انہوں نے خان محمد نیاز الدین خاں کو لکھا ، تزکیہ نفس کے بارے میں فرماتے ہیں :

"۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلامی نقطہ خیال میں تزکیہ نفس کا مقصد محض از ریا د یقین و استقامت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ "

حضرت علی فرماتے ہیں : خدا تعانی نے اطاعت پر ثواب اور گناہ پر عذاب قرار دیا ہے تاکہ اپنے بندے کو قہر و غضب سے بچا کر جنت کی طرف بھیج سکے ۔ "

ذرا غور کیجئے کہ انسان کو اپنی معمولی سی تخلیق بھی کتنی پیاری ہوتی ہے ۔ کجا اس خالق اکبر کی اتنی نادر تخلیق یعنی انسان ۔۔۔۔۔ اس موجد اعظم کو تو اپنی یہ ایجاد اتنی پیاری ہے کہ وہ خود کہتا ہے :

" جو کوئی بھلائی لے کے آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر بھلائی ہے ۔ اور جو برائی لے کر آئے گا ، تو برائیاں کرنے والے کو ویسا ہی بدلہ ملے گا جیسے عمل وہ کرتے تھے ۔ ( القصص : 84 )

حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا حضرت محمد اپنے بزرگ و برتر رب کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
اللہ تعالی نیکیاں اور بدیاں لکھ دی ہیں اور پھر اس طرح ان کی وضاحت فرمائی ہے کہ جس شخص نے کیسی نیکی کا ارادہ کیا ، مگر ابھی اس پر عمل نہیں کیا تو اللہ اس کے لیے ایک پوری نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر اس نے نیکی کا ارادہ کیا اور پھر اسے عملاً کر بھی لیا تو اللہ اس کے لیے دس نیکیوں سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ مزید بہت سی نیکیاں لکھ لیتا ہے ۔ جس نےکسی برائی کا ارادہ کیا ، پھر اس پر عمل
 
نہ کیا تو اللہ تعالی اس کو بھی اس شخص کے لے اپنے ہاں ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے اور اگر اس نے برائی کا ارادہ کیا اور پھر اسے عملاً کر بھی لیا تو اللہ تعالی اس کے لیے صرف ایک ہی برائي لکھتا ہے ۔ ( بخاری )

جس رحیم و کریم کو اپنے مخلوق اتنی پیاری ہے کہ وہ اس کی ایک نیکی کا سات سو گنا اجر دیتا ہے اور برائی کا قصد کر کے اس پر عمل نہ کرنے کو بھی اس کے حق میں نیکی قرار دیتا ہے ، وہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اس کے بندے سے دنیوی اذیتوں اور اخروی عذاب کا شکار ہوں ۔

پھر ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ کیسی مشین کا ماہر ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے کل پرزوں کو درست رکھنے کے لیے کون سا تیل مفید ہوگا اور کونسا انہیں درست رکھنے کے بجائے ان کا ستیاناس کر دے گا ۔ لہذا انسان کو خلق کرنے والے ہی کو ٹھیک معلوم ہے کہ انسان کے لیے کون کون سے اعتقادات ، نظریات ، جذبات ، میلانات اور اعمال مفید ہیں اور کون کون سے اسے تباہی کے گڑھے میں گرانے والے ہیں ۔چنانچہ رحمت و رافت کے باعث اس نے انسان کے لیے مفید ثابت ہونے والے اعتقادات و اعمال کا نام " نیکی " رکھ دیا اور اسے اختیار کرنے کا حکم دیا اور مضر ثابت ہونے والے اعتقادات و اعمال کو " بدی " سے موسوم کیا اور انہیں حرام قرار دے دیا ۔

پھر اپنی شفقت و محبت کی انتہا ہی کے باعث اس نے ترغیب و ترہیب سے بھی کام لیا اور بار بار انسان کو یاد دلایا کہ اگر وہ نیکی کی راہ اختیار کے گا ۔ تو اسے وہ راحت و سکون ، آرام و آسائیش اور شان و شکوہ کے سامان عطا کیے جائیں گے ، جنہیں ،

" ۔۔۔۔۔۔۔ کہ کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کسی کان نے سنا ، نہ کسی بشر کے دل میں ان کا خیال گزرا ۔ "

اور اگر وہ بدی کی راہ پر چلے گا ۔ تو سب سے زیادہ ہلکا عذاب جو اسے ملے گا ، وہ یہ ہوگا کہ اس کی ،

" ۔۔۔۔۔۔۔ چپلیں اور ان چپلوں کے تسمے آگ کے ہوں گے ۔ ان کی گرمی سے ان کا دماغ اس طرح کھولے گا اور جوش مارے گا ، جس طرح چولہے پر دیگ کھولتی ہے ۔۔۔۔۔ "

ایک دفہ کلام پاک کو شروع سے لے کر آخر تک پڑھ جائیے اور دیکھے کہ کس طرح ان گنت بار اللہ تعالی نے انسان کو نیک اعمال کا شیریں انجام بتایا ہے اور برے اعمال کے انجام بد سے ڈرایا ہے خلانکہ انسان کے ایک بن جانے سے اسے کوئي فائدہ نہیں پہنچتا اور اس کے بد بن جانے سے اسے کسی نقصان کا خدشہ نہیں ۔ جیسے کہ اس نے خود ہی فرمایا ہے :

" ۔۔۔۔۔ اگر اول سے آخر تک سب انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ متقی دل والے آدمی کی طرح ہو جائیں تو اس سے میری بادشاہت میں کچھ بڑھ نہیں جائے گا ۔
اگر اول سے آخر تک سب انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ بد کار دل والے آدمی کی طرح بن جائیں تو اس سے میرے ملک میں کوئي تقص واقع نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔ "
لہذا اللہ تعالی کا انسان کا بار بار نیک کے شیریں اور برائي کے تلخ انجام کی خبر دینا اسی لیے ہے کہ اسان دنیا کی اذیتوں سے بھی بچے اور آخرت کے عتاب سے بھی اور دنیا میں بھی سکون قلب ، عزت و احترام ع خوشحالی و کامرانی حاصل کے اور آخرت میں بھی ابدی غوز و فلاح کا مستحق ہو ۔

حضرت علی کا فرمان ہے : " جو شخص برائی کا نقصان نہیں جانتا ، وہ اس کے واقع ہونے سے نہیں بچ سکتا اور جو بھلائی کا فائدہ معلوم نہیں کرتا ، وہ اس کے کرنے پر قادر نہیں ہوتا ۔ "

واضح رہے کہ کلام الہی ، احادیث نبوی اور سلف صالحین کے اعمال و اقوال ہمارے لیے ہمہ وقت یہ بندوبست کیے رہتے ہیں کہ ہم برائی کے نقصان کو جان لیں اور بھلائی کے فوائد معلوم کر لیں ۔ بشرطیکہ ہم تزکیہ نفس کے ان ماخذوں کی طرف طلب صادق کے ساتھ رجوع ہوں اور عزم صادق کے ساتھ ان پر عمل پیرا ہونے کی جدوجہد کریں ۔

جہاں سے برائی کے اخروی عذاب اور نیکی کے اخروی ثواب کا تعلق ہے کوئي عام انسان درسری دنیا میں جا کر واپس نہیں آیا کہ آ کر وہاں کے خسم دید حالات بتاتا ۔ لہذا ہمیں انہیں معلومات پر بھروسہ کرنا ہوگا ، جو خدا کے انبیا نے ہم تک پہنچائی ہیں اور خدا کے انبیاہ تاریخ میں سب سے زیادہ سچ بولنے والا گروہ تھے ، مگر جہاں تک برائی اور نیکی کے دنیوی عذاب و ثواب کا تعلق ہے وہ تو ہم خود بھی دیکھ سکتے ہیں ، بشرطیکہ چشم عبرت حاصل ہو ۔ قوموں ، حماعتوں اور افراد کی زندگی یک عروج و زوال اور نیک نامی اور رسوائي کی تاریخ پکار پکار کر بتا رہی ہے کہ بد اعمالیوں نے انسان کو اس دنیا میں بھی جان لیوا مشکلات اور اذیتوں کا شکار بنا دیا اور خدا ترسی نے انسان کو اس عالم آب و گل میں بھی عروج ، نیک نامی ، رزق کی فراوانی اور سکون قلب کی دولتوں سے نوازا ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top