تسلیم کسی حال میں ظلمت نہیں کرتے

اچھی کوشش ہے راجا صاحب۔
اس ایک شعر میں ’’کیا‘‘ استفہامیہ کی بندش ٹھیک کر لیجئے گا:
وہ لوگ کیا جانیں کہ جہاں کتنا حسیں ہے
گھٹ گھٹ کے جو جیتے ہیں، محبت نہیں کرتے
’’جو جیتے ہیں‘‘ اوزان میں تو ٹھیک تاہم پڑھنے میں ثقیل ہے۔
توجہ فرمائیے گا۔
 
تسلیم کسی حال میں ظلمت نہیں کرتے​
ہم صاحبِ ایمان ہیں بدعت نہیں کرتے​
ہم خاک نشینوں کی بڑی پختہ نظر ہے​
دولت کی چمک دیکھ کے عزت نہیں کرتے​
ہوتا ہے اجالا بھی کبھی ان کا مقدر؟​
جو لوگ اندھیروں سے بغاوت نہیں کرتے​
اک عمر چکاتے ہیں وہ خودداری کی قیمت​
حالات کے ہاتھوں پہ جو بیعت نہیں کرتے​
تقدیر کے، تدبیر کے معنی جو سمجھ لیں​
وہ لوگ مقدر کی شکایت نہیں کرتے​
ہم امن و محبت کے مبلغ ہیں جہاں میں​
انساں کے کسی روپ سے نفرت نہیں کرتے​
وہ لوگ کیا جانیں کہ جہاں کتنا حسیں ہے
گھٹ گھٹ کے جو جیتے ہیں، محبت نہیں کرتے
ہم اہلِ قلم حق کے علمدار ہیں راجا​
ہم لوگ اصولوں کی تجارت نہیں کرتے​

اچھا لکھا جناب نے۔
”کیا “سے الف کا گرنا مکروہ ہے۔ اور جناب نے گرا دیا ہے۔ بہر حال مصرعے میں تبدیلی ممکن ہے۔ اور یہ راجا صاحب کو خود کرنی پڑے گی۔ :cool:
 
اچھا لکھا جناب نے۔
”کیا “سے الف کا گرنا مکروہ ہے۔ اور جناب نے گرا دیا ہے۔ بہر حال مصرعے میں تبدیلی ممکن ہے۔ اور یہ راجا صاحب کو خود کرنی پڑے گی۔ :cool:
شکریہ مزمل بھیا!
خود کوئی کام مت کرنا سارا بوجھ مجھ بےچارے پر ہی :(
اتنا نہیں کہ الف کو مکروہ ہونے سے بچانے کی کوئی تدبیر ہی کی جائے :angry:
 
اچھی کوشش ہے راجا صاحب۔
اس ایک شعر میں ’’کیا‘‘ استفہامیہ کی بندش ٹھیک کر لیجئے گا:

’’جو جیتے ہیں‘‘ اوزان میں تو ٹھیک تاہم پڑھنے میں ثقیل ہے۔
توجہ فرمائیے گا۔
تشریف آوری کا شکریہ استادِ محترم!
دوبارہ کوشش کرتا ہوں۔
 
واہ وا راجا صاحب، تسلیم کسی حال میں ظلمت نہیں کرتے، بہت اچھا کرتے ہیں۔ غزل پڑھ کر بہت مزہ آیا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ واہ واہ

بہت ہی خوب راجہ بھائی بہت اچھی غزل ہے۔ ہم نے آج دیکھی۔

بہت سی داد حاضرِ خدمت ہے۔

خوش رہیے۔
 
Top