امجد علی راجا
محفلین
حوصلہ افزائی کے لئے شکریہ آپی!تقدیر کے، تدبیر کے معنی جو سمجھ لیں
وہ لوگ مقدر کی شکایت نہیں کرتے
ہم امن و محبت کے مبلغ ہیں جہاں میں
انساں کے کسی روپ سے نفرت نہیں کرتے
بہت خوب کلام امجد علی راجا
حوصلہ افزائی کے لئے شکریہ آپی!تقدیر کے، تدبیر کے معنی جو سمجھ لیں
وہ لوگ مقدر کی شکایت نہیں کرتے
ہم امن و محبت کے مبلغ ہیں جہاں میں
انساں کے کسی روپ سے نفرت نہیں کرتے
بہت خوب کلام امجد علی راجا
پسندیدگی کے لئے شکرگزار ہوں
’’جو جیتے ہیں‘‘ اوزان میں تو ٹھیک تاہم پڑھنے میں ثقیل ہے۔وہ لوگ کیا جانیں کہ جہاں کتنا حسیں ہے
گھٹ گھٹ کے جو جیتے ہیں، محبت نہیں کرتے
تسلیم کسی حال میں ظلمت نہیں کرتےہم صاحبِ ایمان ہیں بدعت نہیں کرتےہم خاک نشینوں کی بڑی پختہ نظر ہےدولت کی چمک دیکھ کے عزت نہیں کرتےہوتا ہے اجالا بھی کبھی ان کا مقدر؟جو لوگ اندھیروں سے بغاوت نہیں کرتےاک عمر چکاتے ہیں وہ خودداری کی قیمتحالات کے ہاتھوں پہ جو بیعت نہیں کرتےتقدیر کے، تدبیر کے معنی جو سمجھ لیںوہ لوگ مقدر کی شکایت نہیں کرتےہم امن و محبت کے مبلغ ہیں جہاں میںانساں کے کسی روپ سے نفرت نہیں کرتےوہ لوگ کیا جانیں کہ جہاں کتنا حسیں ہےگھٹ گھٹ کے جو جیتے ہیں، محبت نہیں کرتےہم اہلِ قلم حق کے علمدار ہیں راجاہم لوگ اصولوں کی تجارت نہیں کرتے
حالانکہ سمجھ میں نہیں آئی۔۔
اتنے دن بعد سمجھ آیا۔۔۔
اتنے دن بعد دیکھا انیس بھیا۔۔۔اتنے دن بعد سمجھ آیا۔۔۔
شکریہ مزمل بھیا!اچھا لکھا جناب نے۔
”کیا “سے الف کا گرنا مکروہ ہے۔ اور جناب نے گرا دیا ہے۔ بہر حال مصرعے میں تبدیلی ممکن ہے۔ اور یہ راجا صاحب کو خود کرنی پڑے گی۔
تشریف آوری کا شکریہ استادِ محترم!اچھی کوشش ہے راجا صاحب۔
اس ایک شعر میں ’’کیا‘‘ استفہامیہ کی بندش ٹھیک کر لیجئے گا:
’’جو جیتے ہیں‘‘ اوزان میں تو ٹھیک تاہم پڑھنے میں ثقیل ہے۔
توجہ فرمائیے گا۔