تشدید والے حروف کی تقطیع

تشدید والے حروف کی تقطیع

  • 2

    Votes: 0 0.0%
  • 2

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    0

ابن رضا

لائبریرین
استادِ محترم الف عین صاحب درجذیل دونوں اشعار کے پہلے مصرے کس طرح با وزن ہیں ذرا وضاحت فرمایئے گا۔ کیونکہ تشدید والے حرف کو دو بار شمار کیا جاتا ہے اسی طرح آخر آخر بھی ہجائے بلند ہیں

اوّل اوّل کی محبت کے نشے یاد تو کر
بن پیئے ہی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں

آخر آخر تو یہ عالم
تھا کہ اب یاد نہیں
رگِ مِینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں


رمل مثمّن مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن

=-==--==--==--=
 

سید عاطف علی

لائبریرین
استادِ محترم الف عین صاحب درجذیل دونوں اشعار کے پہلے مصرے کس طرح با وزن ہیں ذرا وضاحت فرمایئے گا۔ کیونکہ تشدید والے حرف کو دو بار شمار کیا جاتا ہے اسی طرح آخر آخر بھی ہجائے بلند ہیں

اوّل اوّل کی محبت کے نشے یاد تو کر
بن پیئے ہی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں

آخر آخر تو یہ عالم
تھا کہ اب یاد نہیں
رگِ مِینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں


رمل مثمّن مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن

=-==--==--==--=
رضا صاحب ۔ دوسرے شعر کے پہلے مصرع میں تو کوئی بھی حرف مشدّد نہیں۔اور اوزان میں بھی کوئی اشکال نہیں۔البتہ پہلے فاعلاتن کی جگہ فعلاتن (ع مکسورہ) باندھا گیا ہے جو جائز ہے۔
البتّہ پہلے شعر میں لفظ اول کے دو ۔۔۔واؤ ۔۔۔لفظ محبت کا۔۔ ب ۔۔ اور لفظ نشہ کا ۔۔ش۔۔ مشدّد ہیں ۔
اوزان میں مسئلہ محض ۔۔ ش۔۔ کی وجہ سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔۔۔
جس کی وضاحت یہ ہو گی کہ ۔ لفظ نشہ ۔ کا۔۔ ش ۔۔اگر چہ مشدّد ہوتا ہے لیکن اردو میں اسے عموما " بغیر تشدید کے استعمال کیا جاتا ہے اورکبھی کبھی تشدید کے ساتھ بھی۔
 

ابن رضا

لائبریرین
رضا صاحب ۔ دوسرے شعر کے پہلے مصرع میں تو کوئی بھی حرف مشدّد نہیں۔اور اوزان میں بھی کوئی اشکال نہیں۔البتہ پہلے فاعلاتن کی جگہ فعلاتن (ع مکسورہ) باندھا گیا ہے جو جائز ہے۔
البتّہ پہلے شعر میں لفظ اول کے دو ۔۔۔ واؤ ۔۔۔ لفظ محبت کا۔۔ ب ۔۔ اور لفظ نشہ کا ۔۔ش۔۔ مشدّد ہیں ۔
اوزان میں مسئلہ محض ۔۔ ش۔۔ کی وجہ سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔۔۔
جس کی وضاحت یہ ہو گی کہ ۔ لفظ نشہ ۔ کا۔۔ ش ۔۔اگر چہ مشدّد ہوتا ہے لیکن اردو میں اسے عموما " بغیر تشدید کے استعمال کیا جاتا ہے اورکبھی کبھی تشدید کے ساتھ بھی۔
جی محترم شکریہ ۔ تشدید کے لیے صرف مصرع اولی کی بابت ہی استفسار تھا۔ تاہم جو دوسرے شعر میں فاعلاتن کی جگہ (آخر اخر) اس کی سمجھ نہیں آئی ذرا مزید روشنی ڈالیئے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جی محترم شکریہ ۔ تشدید کے لیے صرف مصرع اولی کی بابت ہی استفسار تھا۔ تاہم جو دوسرے شعر میں فاعلاتن کی جگہ فعلاتن باندھا گیا (آخر اخر) کے لیے اس کی سمجھ نہیں آئی ذرا مزید روشنی ڈالیئے۔
برادر رضا صاحب۔۔۔۔ یہاں دوسرے شعر کے دوسرے مصرع میں پہلے فاعلاتن کی جگہ فعِلاتن (ع مکسورہ) کا جو ذکر میں کیا ہے وہ رگِ مینا کے متقابل ہے ۔اس کا پہلے مصرع سے کوئی تعلق نہیں ۔۔۔۔جبکہ پہلے مصرع کا ۔۔آخر آخر ۔۔( آخراخر ) ۔۔تو بالکل فاعلاتن کا ہم وزن ہے۔اس طرح کہ بیچ والا مداور ہمزہ کا صدور الف کے ادغام سے روانی میں خود ہی حذف ہو جاتا ہے۔ اور فاعلاتن کے متقابل ہم وزن ہوجاتا ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
برادر رضا صاحب۔۔۔ ۔ یہاں دوسرے شعر کے دوسرے مصرع میں پہلے فاعلاتن کی جگہ فعِلاتن (ع مکسورہ) کا جو ذکر میں کیا ہے وہ رگِ مینا کے متقابل ہے ۔اس کا پہلے مصرع سے کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ ۔جبکہ پہلے مصرع کا ۔۔آخر آخر ۔۔( آخراخر ) ۔۔تو بالکل فاعلاتن کا ہم وزن ہے۔اس طرح کہ بیچ والا مداور ہمزہ کا صدور الف کے ادغام سے روانی میں خود ہی حذف ہو جاتا ہے۔ اور فاعلاتن کے متقابل ہم وزن ہوجاتا ہے۔
جی محترم
دراصل الف کا ایصال تو سن رکھا تھا لیکن مد کو بھی گرایا جا سکتا ہے اس کا علم ابھی ہوا۔ بہت شکریہ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جی محترم
دراصل الف کا ایصال تو سن رکھا تھا لیکن مد کو بھی گرایا جا سکتا ہے اس کا علم ابھی ہوا۔ بہت شکریہ
میرے خیال میں تو اردو کا الف مد در اصل الف ہی ہوتا ہے۔مد تو صرف شروع کرنے کے لیے لگایا جاتا ہے۔اس میں تمدید الف سے زیادہ نہیں ہوتی۔
 
درج ذیل دونوں اشعار کے پہلے مصرے کس طرح با وزن ہیں ذرا وضاحت فرمایئے گا۔ کیونکہ تشدید والے حرف کو دو بار شمار کیا جاتا ہے اسی طرح آخر آخر بھی ہجائے بلند ہیں

اوّل اوّل کی محبت کے نشے یاد تو کر
بن پیئے ہی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں

آخر آخر تو یہ عالم
تھا کہ اب یاد نہیں
رگِ مِینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں


رمل مثمّن مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن

=-==--==--==--=

میں اِن شعروں کی تقطیع یوں کرتا : ’’فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن‘‘ جس میں آخری ’’فاعلتن‘‘ کے مقابل فاعلتان، مفعولن یا مفعولات بلا اکراہ واقع ہو سکتے ہیں۔

اوّل اوّل کی محبت کے نشے یاد تو کر
فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن
بن پیئے ہی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں
فاعلن فاعلتن فاعلتن مفعولن
آخر آخر تو یہ عالم
تھا کہ اب یاد نہیں
فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن
رگِ مِینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
فاعلن فاعلتن فاعلتن مفعولن
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تو اسی طرح ہم آپ کو اَپ بھی باندھ سکتے ہیں؟؟
نہیں نہیں ۔۔۔لیکن لفظ ۔آپ ۔ کو کسی پچھلے لفظ سے ملا سکتے ہیں۔جیسا کہ مندرطہ ذیل شعر میں استاد سودا نے باندھا ہے۔
رکھنا قدم تصوّر ِجاناں سنبھال کے
کائی ہے جا بہ جا مری چشم پرآب میں
اور مرزا غالب کی غزل۔۔ کب وہ سنتا ہے کہانی میری ۔۔کایہ مصرع کہ ۔ مگر آشفتہ بیانی میری۔
 
تو اسی طرح ہم آپ کو اَپ بھی باندھ سکتے ہیں؟؟
ایسا نہیں ہے۔ ’’آپ‘‘ کے ہجے ہیں: الف الف پ : آپ پہلا الف گرا سکتے ہیں بہ شرطے کہ دوسرے الف کا ایصال لفظ ماقبل کے آخری حرف سے ہو رہا ہو۔
مصرع میں موقع محل کے مطابق : مثلاً (متفاعلن متفاعلن) ۔۔ اگر آپ کو بھی خبر نہیں (صوتیت: اَ گَ را پ کو بِ خَ بَر نَ ہی)
 

ابن رضا

لائبریرین
میں اِن شعروں کی تقطیع یوں کرتا : ’’فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن‘‘ جس میں آخری ’’فاعلتن‘‘ کے مقابل فاعلتان، مفعولن یا مفعولات بلا اکراہ واقع ہو سکتے ہیں۔

اوّل اوّل کی محبت کے نشے یاد تو کر
فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن
بن پیئے ہی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں
فاعلن فاعلتن فاعلتن مفعولن
آخر آخر تو یہ عالم
تھا کہ اب یاد نہیں
فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن
رگِ مِینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
فاعلن فاعلتن فاعلتن مفعولن
استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب ، نظر فرمانے کا بہت شکریہ یہ تقطیع قائدے کے مطابق زیادہ بہتر ہے جس میں اخری رکن میں تبدیلی کی جاتی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میں اِن شعروں کی تقطیع یوں کرتا : ’’فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن‘‘ جس میں آخری ’’فاعلتن‘‘ کے مقابل فاعلتان، مفعولن یا مفعولات بلا اکراہ واقع ہو سکتے ہیں۔

اوّل اوّل کی محبت کے نشے یاد تو کر
فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن
بن پیئے ہی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں
فاعلن فاعلتن فاعلتن مفعولن
آخر آخر تو یہ عالم
تھا کہ اب یاد نہیں
فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن
رگِ مِینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
فاعلن فاعلتن فاعلتن مفعولن
آسی صاحب میرے خیال میں یہ ایک ہی بحر ہے جس کی قرا ءت ہم دو محتلف طریقوں کے موسیقائی زیر وبم سے کر رہے ہیں۔۔۔شاید ۔۔۔
اسےشاید ذو بحرین بھی کہا جاسکتا ہے۔
 
تسلسل ۔۔۔۔۔۔۔ اسی بحر (متفاعلن متفاعلن) میں: یہ تو آپ کو بھی پتہ نہیں (صوتیت: یَ تُ آپ کو بِ پ تہ نَ ہی)
یہاں ’’آپ‘‘ کا الف گرانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔
شکریہ۔
 
آسی صاحب میرے خیال میں یہ ایک ہی بحر ہے جس کی قرا ءت ہم دو محتلف طریقوں کے موسیقائی زیر وبم سے کر رہے ہیں۔۔۔ شاید ۔۔۔ اسےشاید ذو بحرین بھی کہا جاسکتا ہے۔
محترمی سید صاحب۔ توجہ کے لئے ممنون ہوں: ذو بحرین بالکل مختلف چیز ہے۔
یہاں ۔۔۔ فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن ۔۔۔ اور ۔۔۔ فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن (یا مفعولن) مکمل طور پر منطبق ہیں؛ حرکات و سکنات کی ترتیب اور تعداد ہر جگہ برابر ہے ۔ زیر و بم میں بھی کوئی فرق نہیں آیا۔
یعنی یہ دونوں عروضی عبارتیں در اصل ایک ہی بحر میں ارکان بندی کے دو مختلف انداز ہیں۔

ذوبحرین پر پھر بات کریں گے، ان شاء اللہ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
محترمی سید صاحب۔ توجہ کے لئے ممنون ہوں: ذو بحرین بالکل مختلف چیز ہے۔
یہاں ۔۔۔ فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن ۔۔۔ اور ۔۔۔ فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن (یا مفعولن) مکمل طور پر منطبق ہیں؛ حرکات و سکنات کی ترتیب اور تعداد ہر جگہ برابر ہے
یعنی یہ دونوں عروضی عبارتیں در اصل ایک ہی بحر میں ارکان بندی کے دو مختلف انداز ہیں۔

ذوبحرین پر پھر بات کریں گے، ان شاء اللہ۔
بہ سرو چشم ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
محترمی سید صاحب۔ توجہ کے لئے ممنون ہوں: ذو بحرین بالکل مختلف چیز ہے۔
یہاں ۔۔۔ فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن ۔۔۔ اور ۔۔۔ فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن (یا مفعولن) مکمل طور پر منطبق ہیں؛ حرکات و سکنات کی ترتیب اور تعداد ہر جگہ برابر ہے ۔ زیر و بم میں بھی کوئی فرق نہیں آیا۔
یعنی یہ دونوں عروضی عبارتیں در اصل ایک ہی بحر میں ارکان بندی کے دو مختلف انداز ہیں۔

ذوبحرین پر پھر بات کریں گے، ان شاء اللہ۔
استادِ محترم اگر ایک کی تقطیع یوں درست ہو گی اَ گَ رے ک(1211)؟؟
 
تشدید والے الفاظ کے بارے میں یہ امربھی توجہ طلب ہے کہ بہت سارے الفاظ اردو میں مشدد اور غیر مشدد دونوں طرح رائج ہیں اور درست مانے جاتے ہیں: نشہ اور نشّہ ۔
حقّ : اس میں اصلاً ق مشدد ہے، اردو میں بغیر شد کے بھی رائج ہے: حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ وغیرہ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
Top