تشدید والے حروف کی تقطیع

تشدید والے حروف کی تقطیع

  • 2

    Votes: 0 0.0%
  • 2

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    0

سید عاطف علی

لائبریرین
میں اِن شعروں کی تقطیع یوں کرتا : ’’فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن‘‘ جس میں آخری ’’فاعلتن‘‘ کے مقابل فاعلتان، مفعولن یا مفعولات بلا اکراہ واقع ہو سکتے ہیں۔

اوّل اوّل کی محبت کے نشے یاد تو کر
فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن
بن پیئے ہی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں
فاعلن فاعلتن فاعلتن مفعولن
آخر آخر تو یہ عالم
تھا کہ اب یاد نہیں
فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن
رگِ مِینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
فاعلن فاعلتن فاعلتن مفعولن
مجھے لگ رہا ہے کہ رگ جاں میں شاعر نے کسی جواز کے اصول کو برتا ہے۔
 
مجھے لگ رہا ہے کہ رگ جاں میں شاعر نے کسی جواز کے اصول کو برتا ہے۔
آپ شاید رگِ مینا کی بات کر رہے ہیں، رگِ جاں کی نہیں۔
رگِ مِینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
بجا ارشاد ۔ غالب نے بھی ایسا کیا ہے اور میر نے بھی، فوری طور پر شعر یاد نہیں آ رہے۔
 
استادِ محترم اگر ایک کی تقطیع یوں درست ہو گی اَ گَ رے ک(1211)؟؟
سراج اورنگ آبادی کا یہ شعر دیکھئے:
چلی سمت غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
(متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن)
مَ گَ رے ک شا (متفاعلن) خِ نِ ہالِ غم (متفاعلن) جِ سِ دِل کَ ہے (متفاعلن) سُ ہَ ری رَ ہی (متفاعلن)۔
 
Top