فارقلیط رحمانی
لائبریرین
عقیدہ توحید کے بعد اسلام کا دوسرا بنیادی عقیدہ، عقیدہ رسالت ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں اپنی طرف سے رسول اور نبی بھیجے جو انسانیت کی ہدایت کے لیے اللہ کی طرف سے پیغام لے کر آتے رہے۔ یہ سلسلہ آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور ہمارے نبی محمد ﷺپر ختم ہوا۔ آپ ﷺ نے رسالت کا حق ادا کر دیا، اورامت کو بہترین انداز میں نصیحت کی ۔
تمام انبیاءو رسل اس لیے دنیا میں تشریف لائے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی بالا دستی قائم ہو اور لوگوں پر حجت نہ رہے کہ انہیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت، اطاعت اور فرماں برداری کیسے کرنی ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا:
"پیغمبروں کو (اللہ تعالی) نے خوشخبری سنانے والا، ڈرسنانے والا بنا کر بھیجا تا کہ رسولوں کو بھیجنے کے بعد لوگوں کی اللہ پر کوئی حجت نہ رہے" (قرآن مجید، سورہ نساء– 165)
جو لوگ منصب رسالت پر سرفراز کئے گئے، اللہ تعالی کی طرف سے ان کو غیر معمولی علم، تدبر، قوت فیصلہ اور نور بصیرت عطا کیا گیا۔ اسی لیے ایک رسول اور فلسفی میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ فلسفی جو کچھ کہتا ہے وہ عقل و ظن کی بنیاد پر کہتا ہے جبکہ انبیاء ورسل جو کچھ کہتے ہیں وہ وحی کی بنیاد پر کہتے رہے۔ انہوں نے جو دعوت پیش کی علم اور دلیل کے ساتھ پیش کی۔ سب رسول بشر تھے، مگر اللہ تعالی کی مخلوق میں علی الاطلاق افضل و اکمل تھے۔ جب تک تمام انبیاءو رسل پر ایمان نہ رکھا جائے کوئی بھی شخص صاحب ایمان نہیں ہو سکتا۔ رسول کی اطاعت ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم کو اللہ کے احکام و فرامین پہنچتے ہیں۔ کوئی اطاعت اللہ اور رسول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے۔ رسولﷺ کی پیروی سے منہ موڑنا، اللہ کی اطاعت سے بغاوت ہے۔ ، اللہ تعالی کے رسول دنیا کی تمام قوموں میں آئے اور ان سب نے اسلام کی تعلیم دی اورہمارے نبی ﷺوہی تعلیم دینے کے لیے سب سے آخر میں تشریف لائے، اس لحاظ سے اللہ کے تمام رسول ایک گروہ کے لوگ تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشادہے:
"ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجا (تا کہ وہ لوگوں کو بتائے) اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے دورر ہو ۔"
(قرآن مجید، سورہ نحل : 6-3)
ایک مسلمان اور مومن کے لیے اپنی ذات کی معرفت اتنی ضروری نہیں جتنی کہ محمد رسول اللہ ﷺکی ذات گرامی کی معرفت ضروری ہے، کیونکہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالر سالت کو تکمیل ایمان کی شرط کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور اس نور پرجو ہم نے اتارا۔"
(قرآن مجید، سورہ تغابن 64، آیت :
رسول اللہ ﷺکی اطاعت تمام انسانوں پر بالعموم اور ایمان والوں پر بالخصوص فرض ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشادہے :
"اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ رسول آ گیاہے اس پر ایمان لے آو – اس میں تمہاری بھلائی ہے۔" (قرآن مجید، سورہ نساء-170)
اللہ تعالی نے مزید ارشاد فرمایا:
" (اے محبوب!) کہو کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔"
(قرآن مجید، سورہ اعراف 7، آیت : 158 )
خود آپ ﷺنے فرمایا : " ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے اور میں تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔"
ان آیات اور احادیث سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آپ صرف اپنے ملک، اپنے زمانے اور اپنی قوم کے لیے ہی نہیں بلکہ آپ قیامت تک پوری نوع انسانی کے لیے رسول مبعوث فرمائے گئے۔
لہذا رسالت پرایمان لانے میں یہ داخل ہے کہ آپ کو انسانیت کی طرف اللہ کا آخری رسول ماناجائے،اوریہ عقیدہ رکھا جائے کہ رسول جوکچھ بتائے وہ حق ہے جو کچھ کہے وہ سچ اور جو عمل کرے وہ قابل اتباع ہے۔ ان کی بتائی ہوئی تمام باتوں پر عمل کرنا فرض ہے، خواہ ان باتوں کا تعلق عبادت و معاملات، تہذیب و معاشرت، اخلاق و کردار یا زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہو، اس لیے کہ یہی اسوہ کامل ہے۔ آپ کا ارشاد ہے : "میری ساری کی ساری امت جنت میں داخل ہو گی، سوائے اس شخص کے، جس نے انکار کیا۔ پوچھا گیا :انکار کا کیا مطلب ہے، آپ نے فرمایا: جو میری اطاعت کرے گا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا۔جو نافرمانی کرے گا، وہ انکار کرےگا۔"
اطاعت کا مطلب اتباع ہے، ہر وہ عمل جو آپ کے قول و فعل اور تقریر سے صحیح طور ثابت ہو، وہ سنت ہے، جس کی اتباع ضروری ہے۔ اسی اتباع کا نام اطاعت ہے۔ اللہ کا ارشادہے :
" اوررسول جوکچھ( حکم) تمہیں دیں اس کو لے لو اور جس(چیز) سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔"
( قرآن مجید، سورة الحشر59، آیت :7)
اللہ تعالی کا ارشادہے :
" اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا(رعب اور طاقت)اکھڑ جائے گی۔"
(قرآن مجید، سورہ انفال8، آیت : 46 )
اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت ہی میں ہمارا امن اور ہماری وحدت ہے۔ جو کوئی اس اطاعت سے منحرف ہوا، گویا وہ غیر فطری راہوں پر چل نکلا۔ جس کے لیے نہ دنیا میں کوئی کامیابی ہے اور نہ آخرت میں۔
تمام انبیاءو رسل اس لیے دنیا میں تشریف لائے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی بالا دستی قائم ہو اور لوگوں پر حجت نہ رہے کہ انہیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت، اطاعت اور فرماں برداری کیسے کرنی ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا:
"پیغمبروں کو (اللہ تعالی) نے خوشخبری سنانے والا، ڈرسنانے والا بنا کر بھیجا تا کہ رسولوں کو بھیجنے کے بعد لوگوں کی اللہ پر کوئی حجت نہ رہے" (قرآن مجید، سورہ نساء– 165)
جو لوگ منصب رسالت پر سرفراز کئے گئے، اللہ تعالی کی طرف سے ان کو غیر معمولی علم، تدبر، قوت فیصلہ اور نور بصیرت عطا کیا گیا۔ اسی لیے ایک رسول اور فلسفی میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ فلسفی جو کچھ کہتا ہے وہ عقل و ظن کی بنیاد پر کہتا ہے جبکہ انبیاء ورسل جو کچھ کہتے ہیں وہ وحی کی بنیاد پر کہتے رہے۔ انہوں نے جو دعوت پیش کی علم اور دلیل کے ساتھ پیش کی۔ سب رسول بشر تھے، مگر اللہ تعالی کی مخلوق میں علی الاطلاق افضل و اکمل تھے۔ جب تک تمام انبیاءو رسل پر ایمان نہ رکھا جائے کوئی بھی شخص صاحب ایمان نہیں ہو سکتا۔ رسول کی اطاعت ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم کو اللہ کے احکام و فرامین پہنچتے ہیں۔ کوئی اطاعت اللہ اور رسول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے۔ رسولﷺ کی پیروی سے منہ موڑنا، اللہ کی اطاعت سے بغاوت ہے۔ ، اللہ تعالی کے رسول دنیا کی تمام قوموں میں آئے اور ان سب نے اسلام کی تعلیم دی اورہمارے نبی ﷺوہی تعلیم دینے کے لیے سب سے آخر میں تشریف لائے، اس لحاظ سے اللہ کے تمام رسول ایک گروہ کے لوگ تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشادہے:
"ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجا (تا کہ وہ لوگوں کو بتائے) اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے دورر ہو ۔"
(قرآن مجید، سورہ نحل : 6-3)
ایک مسلمان اور مومن کے لیے اپنی ذات کی معرفت اتنی ضروری نہیں جتنی کہ محمد رسول اللہ ﷺکی ذات گرامی کی معرفت ضروری ہے، کیونکہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالر سالت کو تکمیل ایمان کی شرط کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور اس نور پرجو ہم نے اتارا۔"
(قرآن مجید، سورہ تغابن 64، آیت :
رسول اللہ ﷺکی اطاعت تمام انسانوں پر بالعموم اور ایمان والوں پر بالخصوص فرض ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشادہے :
"اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ رسول آ گیاہے اس پر ایمان لے آو – اس میں تمہاری بھلائی ہے۔" (قرآن مجید، سورہ نساء-170)
اللہ تعالی نے مزید ارشاد فرمایا:
" (اے محبوب!) کہو کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔"
(قرآن مجید، سورہ اعراف 7، آیت : 158 )
خود آپ ﷺنے فرمایا : " ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے اور میں تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔"
ان آیات اور احادیث سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آپ صرف اپنے ملک، اپنے زمانے اور اپنی قوم کے لیے ہی نہیں بلکہ آپ قیامت تک پوری نوع انسانی کے لیے رسول مبعوث فرمائے گئے۔
لہذا رسالت پرایمان لانے میں یہ داخل ہے کہ آپ کو انسانیت کی طرف اللہ کا آخری رسول ماناجائے،اوریہ عقیدہ رکھا جائے کہ رسول جوکچھ بتائے وہ حق ہے جو کچھ کہے وہ سچ اور جو عمل کرے وہ قابل اتباع ہے۔ ان کی بتائی ہوئی تمام باتوں پر عمل کرنا فرض ہے، خواہ ان باتوں کا تعلق عبادت و معاملات، تہذیب و معاشرت، اخلاق و کردار یا زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہو، اس لیے کہ یہی اسوہ کامل ہے۔ آپ کا ارشاد ہے : "میری ساری کی ساری امت جنت میں داخل ہو گی، سوائے اس شخص کے، جس نے انکار کیا۔ پوچھا گیا :انکار کا کیا مطلب ہے، آپ نے فرمایا: جو میری اطاعت کرے گا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا۔جو نافرمانی کرے گا، وہ انکار کرےگا۔"
اطاعت کا مطلب اتباع ہے، ہر وہ عمل جو آپ کے قول و فعل اور تقریر سے صحیح طور ثابت ہو، وہ سنت ہے، جس کی اتباع ضروری ہے۔ اسی اتباع کا نام اطاعت ہے۔ اللہ کا ارشادہے :
" اوررسول جوکچھ( حکم) تمہیں دیں اس کو لے لو اور جس(چیز) سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔"
( قرآن مجید، سورة الحشر59، آیت :7)
اللہ تعالی کا ارشادہے :
" اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا(رعب اور طاقت)اکھڑ جائے گی۔"
(قرآن مجید، سورہ انفال8، آیت : 46 )
اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت ہی میں ہمارا امن اور ہماری وحدت ہے۔ جو کوئی اس اطاعت سے منحرف ہوا، گویا وہ غیر فطری راہوں پر چل نکلا۔ جس کے لیے نہ دنیا میں کوئی کامیابی ہے اور نہ آخرت میں۔