معذرت کے ساتھ آپ کے دیے کے لنک پر موجود محمد کاشف کا تبصرہ یہاں پیش کر رہی ہوں
بلاشبہ کئی ایسے مفکر موجود تھے جن کا خیال تھا کہ ایک علیحدہ مسلم ریاست ہونی چاہیئے۔ اس کا سرسری اظہار ہوتا رہا ہے۔ لیکن جس طرح علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے خطبہ الہ آباد کے دوران عوامی طور پر اس کا اظہار کیا تھا وہ اس سے پہلے کسی مسلم رہنما نے نہیں کیا تھا۔ آپ نے نہ صرف علحدہ ریاست کے قیام پر زور دیا بلکہ آُ نے اس ریاست کا ایک اجمالی خاکہ بھی پیش کیا۔ آپ کے الفاظ تھے
” مغربی ممالک کی طرح ہندوستان کی یہ حالت نہیں ہے کہ اس میں ایک ہی قوم آباد ہو۔ ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے جن کی نسل‘ زبان‘ مذہب سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں وہ احساس پیدا نہیں ہو سکا ہے جو ایک ہی نسل کے مختلف افراد میں ہوتا ہے۔
ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں، ان میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گزشتہ ایک ہزار سال میں اپنی الگ حیثیت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ہی ملک میں رہنے کے باوجود ہم میں یک جہتی کی فضا اس لیے قائم نہیں ہو سکی کہ یہاں ایک دوسرے کی نیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ کس طرح فریق مقابل پر غلبہ اور تسلط حاصل کیا جائے۔
میں یہ چاہتا ہوں کہ صوبہ پنجاب، صوبہ شمال مغربی سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کی شکل دی جائے یہ ریاست برطانوی ہند کے اندر اپنی حکومت خوداختیاری حاصل کرے‘ خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا ہی پڑے گی۔”
دوسرے رہنماؤں نے ریاست کے قیام کی صرف بات کی تھی لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ نے بجا طور پر اس ریاست کا ایک ایسا تصور مسلمانان ہند کو دیا جس پر آنے والے دنوں میں تحریک آزادی کی سمت متعین ہوئی۔ اور یہ شائد پہلی بار عوامی سطح پر کہا گیا تھا