آبی ٹوکول
محفلین
تصوف اور واقعۂ کربلا... وجدان۔۔۔۔۔ڈاکٹرصغرا صدف
واقعۂ کربلا اورتصوف میںگہری مماثلت ہے۔ اپنی اثر انگیزی اوررجحان کے حوالے سے دونوں عالمگیریت کے حامل ہیں۔ تصوف ادیان کا مغز اور روح ہے، تمام مذاہب کی قدروں سے استفادہ ہی اسے آفاقی پہچان اور رتبہ عطا کرتا ہے اس لئے اسے کسی خاص مذہب یا فکر تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ہر بشر کی روح میں روحِ مطلق ظہور کرتی ہے جو مادیت کا خول پہن کر بھی اپنے اصل محبوب کی محبت سے جڑی رہتی ہے اور یہی جڑت انسان اورخدا کے درمیان ایک روحانی تعلق کا باعث بنتی ہے۔ روحِ مطلق سے اس روحانی سمبندھ کے باعث ہر انسان کے دل پر الوہی بشارتیں وارد ہوتی ہیں مگر مادیت کا غلبہ اس رابطے کو استوار ہونے میں رکاوٹ کا باعث بنتا رہتا ہے۔صوفی وہ جوہری ہے جو نفس کے بت کو ریاضت کی آگ میں جلا کر خاکستر کرنے کا ہنر جانتا ہے اور دِل کے آس پاس بھٹکتے وہم و خیال کے آلودہ سائے اشکوں سے دھونے کی ترکیب سے واقف ہے۔ دل کی شفافیت نظر کو حقیقی مناظر سے روشناس کرتی ہے تو سوائے ایک ہستی کے سب اوجھل ہو جاتا ہے۔ صوفیاء محبت کی آگ میں جلے ہوئےایسے لوگ ہیںجن کے دل کھوٹ اور آلودگی سے پاک ہیں۔
صوفی واقعتاً کربلا کا مسافر ہے۔ یہ کربلا اس کے باطن میںبھی ہےاوراس کے اردگرد بھی۔کربلا اس کے لئے استعارہ نہیں حقیقی درسگاہ ہے جہاں زبانی تقریر، تحریر یا مناظرے کی بجائے عملی تجربے سے علم منتقل کیا جاتا ہے۔ صوفی کے دل پر حضرت امام حسین ؓ کی کربلا میں قیام کے دوران جو پہلی بشارت نازل ہوتی ہے وہ ہے عشقِ حقیقی یعنی ذاتِ مطلق سے تن اور من کی پوری سچائی کے ساتھ محبت کا زبانی و عملی اظہار، زبان جو اقرار کرے دِل اس پر اثبات کی مہر لگائے اور وجود اس حکم کو خود پر نافذ کرے۔ اس لئے وہ ایسے ظاہر پرستوں کی مخالفت کرتا ہے جن کے ظاہر اور باطن الگ الگ سمتوں کی طرف رواں ہیں۔ وہ بظاہر ذکر اذکار میں مصروف دکھائی دیتے ہیں مگر ان کے دِل و دماغ نفع و نقصان اور جنت و دوزخ کے حساب کتاب میں غرق ہوتے ہیں۔ صوفی کی عبادت محبوب سے والہانہ محبت کا اظہار ہے اس کے علاوہ اس کا ہر پل محبوب کی یاد سے بندھا رہتا ہے اس لئے کبھی بھی کوئی خیال عاشق و معشوق کے درمیان حائل نہیں ہو سکتا۔ صوفی رضائے الٰہی کو ہر حال میں مقدم سمجھتا ہے۔ وہ نفی ٔ ذات کے مراحل طے کرتے ہوئے اپنی انا، مرضی، ارادے اور اختیار خدا کی رضا کے تابع کرتا ہے۔ بقول میاں محمد بخشؒ
گل میری ہتھ تیرے سجناں اُچا ساہ نہ بھرناں
جو کجھ چاہیں سویو چنگا جو آکھیں سو کرناں
محبوب کی خوشنودی کے علاوہ صوفی کی کوئی اور مُراد یا تمنا نہیں۔وہ دنیا کی بے ثباتی اورفانی و عارضی حیثیت کے باعث اس کی بجائے دوسری دنیا کا طالب ہے جہاں محبوبِ حقیقی سے وصال ہو گا، جو اس کا مقصدِ حیات ہے لیکن وہاں معتبر مقام کے حصول کیلئےمتعین مشکل امتحان میں کامیاب ہونا بھی ضروری ہے۔ تمام پرچوں کے سوالات روزِ ازل سے آئوٹ کر دیئے گئے ہیں اس لئے عذر کی حجت باقی نہیں۔ یوں وہ ہر لمحہ مصروفِ عمل ہے، وہ کلمہ ٔ حق کی عملی تفسیر ہے اور اس کا وجود حق کی تائید اور باطل کی نفی کی علامت ہے۔کسی دنیاوی جبر اور ظلم کا خوف اسے کلمہ ٔ حق کہنے سے گریز کی طرف راغب نہیں کر سکتا۔ صوفیاء کی شاعری اور واقعہ ٔ کربلا کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صوفیاء نے خود کو صرف اس واقعے کے بیان تک محدود نہیں کیا بلکہ اس سے حاصل ہونے والی حکمت اور نتائج کو اپنی تحریر میں سمویا ہے۔صوفیاء کی شاعری کی ڈِکشن ملاحظہ کریں تو وہاں ایک پورا علامتی نظام موجود ہے۔ واقعہ ٔ کربلا حق و باطل اور خیر و شر کی داستان ہے جس میں خیر غالب ہے اگرچہ وقتی اور ظاہری طور پر شر طاقتور دکھائی دیتا ہے لیکن حضرت امام حسینؓکی استقامت اور قربانیوں کے باعث خیر کا جو عالمگیر فلسفہ اجاگر ہوا ہے وہ رہتی دنیا تک انسانیت کی میراث رہے گا۔ حضرت امام حسینؓ نے اپنے عمل کے ذریعے ثابت کیا کہ وہ خدا کے سچے عاشق ہیں اور اس کی رضا کو ہر شے سے مقدم سمجھتے ہیں۔ خدا کی رضا کے سامنے سر جھکانے کی روش اختیار کرتے ہوئے وہ کسی لمحے بھی ایسی دعا اور التجا نہیں کرتے جس میں مشکلات اور ظلم کا خاتمہ مقصود ہو بلکہ وہ ہمیشہ اپنی ثابت قدمی کے لئے جستجو کرتے ہیں۔اگر خدا سے کوئی مکالمہ کیا تو صرف یہی کہ اس قربانی کے بعد کیا تو راضی ہے؟ کیا تو نے میرے اس عمل کو منظور کیا ہے؟ تاریخ میں ایسی کوئی شخصیت نہیں ملتی جس نے ربِّ کائنات کی رضا کے لئے اپنے سامنے اپنے پیاروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ گرتے دیکھے اور ثابت قدم رہی۔ حق اور باطل کی یہ جنگ جو خیر کی بالا دستی اور شر کو مغلوب کرنے کے لئے برپا ہوئی اور جس کا مقصد پوری کائنات کے انسانوں کو یہ سبق دینا مقصود تھا کہ اصول کے سامنے کوئی رشتہ، کوئی تعلق، کوئی مشکل رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ صرف اسی صورت حق غالب آ سکتا ہے۔ واقعہ ٔ کربلا نے ادب کی مختلف اصناف مرثیہ، قصیدہ، نوحہ، حسینی دوہڑے اور منقبت وغیرہ کا دامن معنویت اور اثر انگیزی سے مالا مال کر دیا ہے۔ یہ اصناف واقعہ ٔ کربلا سے پہلے بھی رائج تھیں لیکن آج انہیں صرف اس واقعے کے حوالے سے منسوب کیا جاتا ہے۔ کربلا ایک لفظ نہیں ایک نظریۂ حیات اور مکتبہ ٔ فکر ہے جس کے باطن میں انسانیت کی پوری تاریخ پوشیدہ ہے۔ اگر کربلا کے واقعے کو ہمارے ادب سے نکال دیا جائے تو یہ معنوی حوالے سے کنگال ہو جائے گا کیوں کہ بہت سارے لفظ، استعارے اور تشبیہات کا تعلق اس واقعے سے ہے۔ صوفیاء کا کلام واقعہ ٔ کربلا سے اخذ شدہ حقیقت کا عکاس ہے۔ کربلا صرف ایمان کی سلامتی نہیں عشق کی سلامتی کا استعارہ ہے اس لئے ذاتی مفاد، اقتدار اور دنیاوی رتبوں سے بالاتر ہے۔ مقصد صرف انسانیت کی خیر اور فلاح ہے۔ خدا کرے آج کا انسان بھی ظاہر پرستی کا خول اتار کر عشق کا رستہ اختیار کرے کیوں کہ اسی طرح خدا کی خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بقول سلطان باہوؒ
جے کر دین علم وچ ہوندا سر نیزے کیوں چڑھدے ہو
اٹھارہ ہزار جو عالم آہے اگے حسین ؑ کیوں مردے ہو
ربط
واقعۂ کربلا اورتصوف میںگہری مماثلت ہے۔ اپنی اثر انگیزی اوررجحان کے حوالے سے دونوں عالمگیریت کے حامل ہیں۔ تصوف ادیان کا مغز اور روح ہے، تمام مذاہب کی قدروں سے استفادہ ہی اسے آفاقی پہچان اور رتبہ عطا کرتا ہے اس لئے اسے کسی خاص مذہب یا فکر تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ہر بشر کی روح میں روحِ مطلق ظہور کرتی ہے جو مادیت کا خول پہن کر بھی اپنے اصل محبوب کی محبت سے جڑی رہتی ہے اور یہی جڑت انسان اورخدا کے درمیان ایک روحانی تعلق کا باعث بنتی ہے۔ روحِ مطلق سے اس روحانی سمبندھ کے باعث ہر انسان کے دل پر الوہی بشارتیں وارد ہوتی ہیں مگر مادیت کا غلبہ اس رابطے کو استوار ہونے میں رکاوٹ کا باعث بنتا رہتا ہے۔صوفی وہ جوہری ہے جو نفس کے بت کو ریاضت کی آگ میں جلا کر خاکستر کرنے کا ہنر جانتا ہے اور دِل کے آس پاس بھٹکتے وہم و خیال کے آلودہ سائے اشکوں سے دھونے کی ترکیب سے واقف ہے۔ دل کی شفافیت نظر کو حقیقی مناظر سے روشناس کرتی ہے تو سوائے ایک ہستی کے سب اوجھل ہو جاتا ہے۔ صوفیاء محبت کی آگ میں جلے ہوئےایسے لوگ ہیںجن کے دل کھوٹ اور آلودگی سے پاک ہیں۔
صوفی واقعتاً کربلا کا مسافر ہے۔ یہ کربلا اس کے باطن میںبھی ہےاوراس کے اردگرد بھی۔کربلا اس کے لئے استعارہ نہیں حقیقی درسگاہ ہے جہاں زبانی تقریر، تحریر یا مناظرے کی بجائے عملی تجربے سے علم منتقل کیا جاتا ہے۔ صوفی کے دل پر حضرت امام حسین ؓ کی کربلا میں قیام کے دوران جو پہلی بشارت نازل ہوتی ہے وہ ہے عشقِ حقیقی یعنی ذاتِ مطلق سے تن اور من کی پوری سچائی کے ساتھ محبت کا زبانی و عملی اظہار، زبان جو اقرار کرے دِل اس پر اثبات کی مہر لگائے اور وجود اس حکم کو خود پر نافذ کرے۔ اس لئے وہ ایسے ظاہر پرستوں کی مخالفت کرتا ہے جن کے ظاہر اور باطن الگ الگ سمتوں کی طرف رواں ہیں۔ وہ بظاہر ذکر اذکار میں مصروف دکھائی دیتے ہیں مگر ان کے دِل و دماغ نفع و نقصان اور جنت و دوزخ کے حساب کتاب میں غرق ہوتے ہیں۔ صوفی کی عبادت محبوب سے والہانہ محبت کا اظہار ہے اس کے علاوہ اس کا ہر پل محبوب کی یاد سے بندھا رہتا ہے اس لئے کبھی بھی کوئی خیال عاشق و معشوق کے درمیان حائل نہیں ہو سکتا۔ صوفی رضائے الٰہی کو ہر حال میں مقدم سمجھتا ہے۔ وہ نفی ٔ ذات کے مراحل طے کرتے ہوئے اپنی انا، مرضی، ارادے اور اختیار خدا کی رضا کے تابع کرتا ہے۔ بقول میاں محمد بخشؒ
گل میری ہتھ تیرے سجناں اُچا ساہ نہ بھرناں
جو کجھ چاہیں سویو چنگا جو آکھیں سو کرناں
محبوب کی خوشنودی کے علاوہ صوفی کی کوئی اور مُراد یا تمنا نہیں۔وہ دنیا کی بے ثباتی اورفانی و عارضی حیثیت کے باعث اس کی بجائے دوسری دنیا کا طالب ہے جہاں محبوبِ حقیقی سے وصال ہو گا، جو اس کا مقصدِ حیات ہے لیکن وہاں معتبر مقام کے حصول کیلئےمتعین مشکل امتحان میں کامیاب ہونا بھی ضروری ہے۔ تمام پرچوں کے سوالات روزِ ازل سے آئوٹ کر دیئے گئے ہیں اس لئے عذر کی حجت باقی نہیں۔ یوں وہ ہر لمحہ مصروفِ عمل ہے، وہ کلمہ ٔ حق کی عملی تفسیر ہے اور اس کا وجود حق کی تائید اور باطل کی نفی کی علامت ہے۔کسی دنیاوی جبر اور ظلم کا خوف اسے کلمہ ٔ حق کہنے سے گریز کی طرف راغب نہیں کر سکتا۔ صوفیاء کی شاعری اور واقعہ ٔ کربلا کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صوفیاء نے خود کو صرف اس واقعے کے بیان تک محدود نہیں کیا بلکہ اس سے حاصل ہونے والی حکمت اور نتائج کو اپنی تحریر میں سمویا ہے۔صوفیاء کی شاعری کی ڈِکشن ملاحظہ کریں تو وہاں ایک پورا علامتی نظام موجود ہے۔ واقعہ ٔ کربلا حق و باطل اور خیر و شر کی داستان ہے جس میں خیر غالب ہے اگرچہ وقتی اور ظاہری طور پر شر طاقتور دکھائی دیتا ہے لیکن حضرت امام حسینؓکی استقامت اور قربانیوں کے باعث خیر کا جو عالمگیر فلسفہ اجاگر ہوا ہے وہ رہتی دنیا تک انسانیت کی میراث رہے گا۔ حضرت امام حسینؓ نے اپنے عمل کے ذریعے ثابت کیا کہ وہ خدا کے سچے عاشق ہیں اور اس کی رضا کو ہر شے سے مقدم سمجھتے ہیں۔ خدا کی رضا کے سامنے سر جھکانے کی روش اختیار کرتے ہوئے وہ کسی لمحے بھی ایسی دعا اور التجا نہیں کرتے جس میں مشکلات اور ظلم کا خاتمہ مقصود ہو بلکہ وہ ہمیشہ اپنی ثابت قدمی کے لئے جستجو کرتے ہیں۔اگر خدا سے کوئی مکالمہ کیا تو صرف یہی کہ اس قربانی کے بعد کیا تو راضی ہے؟ کیا تو نے میرے اس عمل کو منظور کیا ہے؟ تاریخ میں ایسی کوئی شخصیت نہیں ملتی جس نے ربِّ کائنات کی رضا کے لئے اپنے سامنے اپنے پیاروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ گرتے دیکھے اور ثابت قدم رہی۔ حق اور باطل کی یہ جنگ جو خیر کی بالا دستی اور شر کو مغلوب کرنے کے لئے برپا ہوئی اور جس کا مقصد پوری کائنات کے انسانوں کو یہ سبق دینا مقصود تھا کہ اصول کے سامنے کوئی رشتہ، کوئی تعلق، کوئی مشکل رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ صرف اسی صورت حق غالب آ سکتا ہے۔ واقعہ ٔ کربلا نے ادب کی مختلف اصناف مرثیہ، قصیدہ، نوحہ، حسینی دوہڑے اور منقبت وغیرہ کا دامن معنویت اور اثر انگیزی سے مالا مال کر دیا ہے۔ یہ اصناف واقعہ ٔ کربلا سے پہلے بھی رائج تھیں لیکن آج انہیں صرف اس واقعے کے حوالے سے منسوب کیا جاتا ہے۔ کربلا ایک لفظ نہیں ایک نظریۂ حیات اور مکتبہ ٔ فکر ہے جس کے باطن میں انسانیت کی پوری تاریخ پوشیدہ ہے۔ اگر کربلا کے واقعے کو ہمارے ادب سے نکال دیا جائے تو یہ معنوی حوالے سے کنگال ہو جائے گا کیوں کہ بہت سارے لفظ، استعارے اور تشبیہات کا تعلق اس واقعے سے ہے۔ صوفیاء کا کلام واقعہ ٔ کربلا سے اخذ شدہ حقیقت کا عکاس ہے۔ کربلا صرف ایمان کی سلامتی نہیں عشق کی سلامتی کا استعارہ ہے اس لئے ذاتی مفاد، اقتدار اور دنیاوی رتبوں سے بالاتر ہے۔ مقصد صرف انسانیت کی خیر اور فلاح ہے۔ خدا کرے آج کا انسان بھی ظاہر پرستی کا خول اتار کر عشق کا رستہ اختیار کرے کیوں کہ اسی طرح خدا کی خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بقول سلطان باہوؒ
جے کر دین علم وچ ہوندا سر نیزے کیوں چڑھدے ہو
اٹھارہ ہزار جو عالم آہے اگے حسین ؑ کیوں مردے ہو
ربط