صوفیت یا ہندومت
قرآن و حدیث
دین اسلام کی بنیاد قرآن وحدیث پر ہے لیکن صوفیاء کے نزدیک ان دونوں کا مقام اور مرتبہ کیا ہے اس کا اندازہ ایک مشہور صوفی عفیف الدین تلمسانی کے اس ارشاد سے لگائيے:
"قرآن میں توحید ہے کہاں؟ وہ تو پورے کا پورا شرک سے بھرا پڑاہے،
جو شخص اس کی اتباع کرے گا وہ کبھی توحید کے بلند مرتبے پر نہیں پہنج سکتا"
(شریعت و طریقت ص:152، امام ابن تیمیہ از کوکن عمری ص:321)
حدیث شریف کے بارے میں جناب بایزید بسطامی کا یہ تبصرہ پڑھ لینا کافی ہوگا کہ:
"تم (اہل شریعت) نے اپنا علم فوت شدہ لوگوں (یعنی محدثيں سے حاصل کیا ہے اور ہم نے اپنا علم اسی ذات سے حاصل کیا ہے جو ھمیشہ زندہ ہے (یعنی براہ راست اللہ تعالی سے) ہم لوگ کہتے ہیں میرے دل نے اپنے رب سے روایت کیا اور تم کہتے ہو فلاں (راوی) نے مجھ سے روایت کیا (اور اگر سوال کیا جائے کہ) وہ راوی کہاں ہے؟ جواب ملتا ہے مرگیا (اور اگر پوچھا جائے کہ) اس (فلاں) راوی نے (فلاں) راوی سے بیان کیا تو وہ کہان ہے/ جواب وہی کہ مرگیا"
(شریعت و طریقت ص؛152، امام ابن تیمیہ از کوکن عمری ص:321)
قرآن وحدیث کا یہ استہزاء اور تمسخر اور اس کے ساتھ ہوائے تنفس کی اتباع کے لیے
"حدثنی قلبی عن ربی"
(میرے دل نے میرے رب سے روایت کیا)
{فتوحات مکیہ از ابن عربی ج1، ص:57}
کا پر فریب جواز کس قدر جسارت ہے اللہ اور اس کے رسول ۖ کے مقابلے میں؟ امام ابن الجوزی اس باطل دعوای پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" جس نے حدثنی قلبی عن ربی کہا اس نے درپردہ اس بات کا اقرار کیا وہ رسول اللہ ۖ سے مستغنی ہے، پس جو شخص ایسا دعوای کرے وہ کافر ہے"
( تلبیس ابلیس ص:374)
عبادت و ریاضت
یہاں ہم صوفیاہ کی عبادت اور ریاضت کے بعض ایسے خود ساختہ طریقوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جنہیں صوفیاء کے ہاں بڑی قدر و منزلت سے دیکھا جاتا ہے لیکن کتاب و سنت میں ان کا جواز تو کیا شدید مخالفت پائی جاتی ہے-
چند مثالیں ملاحظہ کریں:
1/
پیران پیر (حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی) پندرہ سال تک عشاء کے بعد طلوع صبح سے پہلے ایک قرآن شریف ختم کرتے آپ نے یہ سارے قرآن پاک ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر ختم کیے، نیز خود فرماتے ہیں میں 25 سال تک عراق کے جنگلوں تنہا ایک سال تک ساگ گھانس اور پھینکی ہوئی چيزوں پر گزارا کرتا رہا اور پانی مطلقانہ پیا پھر ایک سال تک پانی پیتا رہا پھر تیسرے سال صرف پانی پر گزارہ کرتا رہا پھر ایک سال تک نہ کچھ کھایا، نہ پیا نہ سويا۔
(غوث الثقلین ص:83، شریعت و طریقت ص:431)
احادیث میں مروی ہے کہ آپ صہ رات کے آخری پہر میں اٹھ کی خشوع اور خضوع کے ساتھ نماز میں قرآن پڑہا کرتے تھے۔ آپ صہ نے کب ایک پیر پر کھڑا ہوکر قرآن پڑہنے کا حکم دیا ہے؟
2/
حضرت بایزید بسطامی 30 سال تک شام کے جنگلوں میں ریاضت و مجاہدے کرتے رہے ایک سال آپ حج کو گئے تو ہر قدم پر دوگانہ ادا کرتے یہاں تک کہ 12 سال میں مکہ معظمہ پہنچے-
(صوفیاء نقشبندی ص:155، شریعت و طریقت ص:591)
3/
حضرت معین الدین چشتی اجمیری کثیر المجاہدہ تھے 70 برس تک رات بھر نہیں سوئے-
(مشائخ چشت از مولانا زکریا ص:155، شریعت و طریقت ص:591)
4/
حضرت فرید الدین گنج شکر نے 40 روز کنویں میں بیٹھ کر چلہ کشی کی-
(مشائخ چشت از مولانا زکریا ص:178، شریعت و طریقت ص:340)
5/
حضرت جنید بغدادی کامل 3 سال تک عشاء نماز پڑھنے کے بعد ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر اللہ اللہ کرتے رہے۔ (صوفیاء نقشبندی ص:79، شریعت و طریقت ص:491)
نبی پاک صہ دونوں پائوں پر کھڑے ہوکر اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ ایک پائوں پر کھڑے ہوکر عبادت کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ بلکہ یہ صریح نبی پاک صہ کے طریقہ کے خلاف ہے۔
6/
خواجہ محمد چشتی نے اپنے مکان میں ایک گہرا کنواں کھدوا رکھا تھا جس میں الٹے لٹک کر عبادت الہی میں مصروف رہتے۔ (سیرت الاولیاء ص:46، شریعت و طریقت ص:431)
7/
حضرت ملا شاہ قادری فرمایا کرتے تھے "تمام عمر ہم کو غسل جنابت اور احتلام کی حاجت نہیں ہوئی کیونکہ یہ دونوں غسل، نکاح اور نیند سے متعلق ہیں، ہم نے نہ نکاح کیا ہے نہ سوتے ہیں۔ (حدیقۃ الاولیاء ص:57، شریعت و طریقت ص:271)
عبادت و ریاضت کے یہ تمام طریقے کتاب و سنت سے تو دور ہی ہیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ جس قدر یہ طریقے کتاب و سنت سے دور ہیں اسی قدر ہندو مذھب کی عبادت اور ریاضت کے طریقوں سے قریب ہیں، نیچے کی تحریروں کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ دونوں مذاھب میں کس کس قدر ناقابل یقین حد تک یگانت اور مماثلت پائی جاتی ہے-
جزا وسزا
فلسفہ وحدۃ الوجود اور حلول کے مطابق چونکہ انسان خود تو کچھ بھی نہیں بلکہ وہی ذات برحق کائنات کی ہر چيز (بشمول انسان) میں جلوگر ہے لہذا انسان وہی کرتا ہے جو ذات برحق چاہتی ہے انسان اسی راستے پر چلتا ہے جس پر وہ ذات برحق چلانا چاہتی ہے-
"انسان کا اپنا کوئی ارادہ ہے نہ اختیار" اس نطریے نے نے اہل تصوف کے نزدیک نیکی اور برائی، حلال اور حرام، اطاعت اور نافرمانی، ثواب وعذاب، جزاء و سزا کا تصور ہی ختم کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر صوفیاء حضرات نے اپنی تحریروں میں جنت اور دوزح کا تمسخر اور مذاق اڑایا ہے-
حضرت نظام الدین اولیاء اپنے ملفوظات فوائد الفوائد میں فرماتے ہیں:
" قیامت کے روز حصرت معروف کرخی کو حکم ہوگا بہشت میں چلو وہ کہیں گے "میں نہیں جاتا میں نے تیری بہشت کے لیے عبادت نہیں کی تھی" چنانچہ فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ انہیں نور کی زنجیروں میں جکڑ کر کھینچتے کھینچتے بہشت میں لے جاؤ-" ( شریعت و طریقت ص:500)
"حضرت رابعہ بصری (آدھی قلندر) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک روز داہنے ہاتھ میں پانی کا پیالہ اور بائيں ہاتھ میں آگ کا انگارہ لیا اور فرمایا یہ جنت ہے اور یہ جہنم ہے، اس جنت کو جہنم پر انڈیلتی ہوں تاکہ نہ رہے جنت نہ رہے جہنم اور خالص اللہ کی عبادت کریں-" (بحوالہ سابقہ)
کرامات
صوفیاء کرام، وحدۃ الوجود اور حلول کے قائل ہونے کی وجہ سے خدائی اختیارات رکھتے ہیں، اس لیے زندوں کو مارسکتے ہيں، مردوں کو زندہ کرسکتے ہیں، ہوا میں اڑ سکتے ہین، قسمتیں بدل سکتے ہیں، چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
1/
ایک دفعہ پیران پیر حصرت عبدالقادر جیلانی نے مرغی کا سالن کھاکر ہڈیاں ایک طرف رکھ دیں، ان ہڈیوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا قم باذن اللہ وہ مرغی زندہ ہوگئی- (سیرت غوث ص: 191)
2/
ایک گوئیے کی قبر پر پیران پیر نے قم باذنی کہا قبر پھٹی اور مردہ گاتا ہوا نکل آیا- (تفریح الخاطر ص:19)
3/
خواجہ ابو اسحاق چشتی جب سفر کا ارادہ فرماتے تو 200 آدمیوں کے ساتھ آنکھ بند کرکے منزل مقصود پر پہنچ جاتے- (تاریخ مشائخ چشت از مولانا زکریا ص:192)
4/
سید مودود چشتی کی وفات 97 سال کی عمر میں ہوئي آپ کی نماز جنازہ اول رجال الغیب (فوت شدہ بزرگ) نے پڑھائی پھر عام آدمی نے، اس کے بعد جنازہ خودبخود اڑنے لگا اس کرامت سے بے شمار لوگوں نے اسلام قبول کیا- (تاریخ مشائخ چشت از مولانا زکریا ص:160)
نوٹ: یہ عمل صریحا قرآن اور حدیث کے خلاف ہے۔ سلیمان علیہ السلام کے بارے میں قرآن مجید میں ہے: قَالَ رَبِّ اغۡفِرۡ لِىۡ وَهَبۡ لِىۡ مُلۡكًا لَّا يَنۡۢبَغِىۡ لِاَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِىۡۚ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡوَهَّابُ (سورة ص آیت 35)
ترجمہ: (سلیمان علیہ السلام نے) دعا کی کہ اے پروردگار مجھے مغفرت کر اور مجھ کو ایسی بادشاہی عطا کر کہ میرے بعد کسی کو شایاں نہ ہو۔ بےشک تو بڑا عطا فرمانے والا ہے۔
اسی سورة میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَسَخَّرۡنَا لَهُ الرِّيۡحَ تَجۡرِىۡ بِاَمۡرِهٖ رُخَآءً حَيۡثُ اَصَابَ (ایضا)
ترجمہ: پھر ہم نے ہوا کو ان کے زیرفرمان کردیا کہ جہاں وہ پہنچنا چاہتے ان کے حکم سے نرم نرم چلنے لگتی۔
حاصل مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ عہ کی دعا قبول فرمائی اور اس کے بعد ایسا اختیار کسی کو بھی نہیں دیا، چنانچہ احادیث میں آتا ہے، نبی پاک صہ نے ایک جن کو پکڑا، اور آپ نے خواہش ظاہر کی کہ اسے مدینہ کے ستون سے باندھ دیا جائے، لیکن آپ صہ کو سلیمان علیہ السلام کی یہ دعا یاد آئی تو آپ نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن چشتی صاحب تو اللہ کے اس قول کو نعوذ باللہ چھوٹا ثابت کرتے ہیں۔
5/
خواجہ غثمان ہارونی نے وصو کا دوگانہ ادا کیا اور ایک کمسن بچے کو گود میں لے کر آگ میں چلے گئے اور دو گھنٹے اس میں رہے آگ نے دونوں پر کوئی اثر نہیں کیا اس پر بہت سے آتش پرست مسلمان ہوگئے-(تاریخ مشائخ چشت از مولانا زکریا ص:124)
6/
ایک عورت خواجہ فریدالدین گنج شکر کے پاس روتی ہوئی آئی اور کہا بادشاہ نے میرے بے گناہ بچے کو تختہ دیر پر لٹکوادیا ہے آّپ اصحاب سمیت وہاں پہنچے اور کہا" یا الہی اگر یہ بے گناہ ہے تو اسے زندہ کردے" لڑکا زندہ ہوگیا اور ساتھ چلنے لگا یہ کرامت دیکھ کر (ایک) ہزار ہندو مسلمان ہوگئے- (اسرار الاولیاء ص:110-111)
نوٹ: اس قسم کی کرامات نبی پاک صہ سے کبھی صادر نہیں ہوئیں۔ چنانچہ جب ان کے فرزند ارجمند فوت ہوئے تو آپ صہ شدت غم سے آنسو بہانے لگے، لیکن اللہ کی رضا پر راضی رہے۔ اور اپنے بیٹے کو زندہ نہ کرسکے۔
7/
ایک شخص نے بارگاہ غوثیہ میں لڑکے کی درخواست کی آپ نے اس کے حق میں دعا فرمائی اتفاق سے لڑکی پیدا ہوگئی آپ نے فرمایا اسے گھر لے جاؤ اور قدرت کا کرشمہ دیکھو جب گھر پہنچے تو اس لڑکی کے بجائے لڑکا پایا- (سفینہ الاولیاء ص:17)
8/
"پیران پیرغوث اعظم مدینہ سے حاضری دے کر ننگے پاؤں بغداد آرہے تھے راستے میں ایک چور ملا جو لوٹنا چاہتا تھا، جب چور کو علم ہوا کہ آپ غوث اعظم ہیں تو قدموں پر گر پڑا اور زبان پر "یا سیدی عبدالقادرشیئنا للہ" جاری ہوگیا آپ کو اس کی حالت پر رحم آگیا اس کی اصلاح کے لیے بارگاہ الہی میں متوجہ ہوئے غیب سے ندا آئی "چور کو ھدایت کی رہنمائی کرتے ہوئی قطب بنادو چنانچہ آپ کی اک نگاہ فیض سے وہ قطب کے درجہ پر فائز ہوگيا-"
(سیرت غوث ص:640)
9/
میاں اسماعیل لاھور المعروف میاں کلاں نے صبح کی نماز کے سلام پھیرتے وقت جب نگاہ کرم ڈالی تو دائيں طرف کے مقتدی سب کے سب حافظ قرآن بن گئے اور بائيں طرف کے ناظرۃ پرھنے والے۔ (حدیقہ الاولیاء ص:176)
10/
خواجہ علاؤالدین صابر کلیری کو خواجہ فرید الدین گنج شکر نے کلیر بھیجا ایک روز خواجہ صاحب امام کے مصلے پر بیٹھ گغے لوگوں نے منع کیا تو فرمایا "قطب کا رتبہ قاصی سے بڑھ کر ہے" لوگوں نے زبردستی مصلی سے اٹھادیا حضرت کو مسجد میں نماز پڑھنے کی لیے جگہ نہ ملی تو مسجد کو مخاطب کرکے فرمایا " لوگ سجدہ کرتے ہیں تو بھی سجدہ کر" یہ بات سنتے ہی مسجد مع چھت اور دیوار کے لوگوں پر گر پڑی اور سب لوگ ہلاک ہوگئے-
(حدیقہ الاولیاء ص:70)
باطنیت
کتاب و سنت سے براہ راست متصادم عقائد وافکار پر پردہ ڈالنے کے لیے اہل تصوف نے باطنیت کا سہارا بھی لیا ہے- کہا جاتا ہے کہ قرآن وحدیث کے الفاظ کے دو دو معانی ہیں' ایک ظاہری اور دوسری باطنی (یا حقیقی) یہ عقیدہ باطنیت کہلاتا ہے' اہل تصوف کے نزدیک دونوں معانی کو آپس میں وہی نسبت ہے جو چھلکے کو مغز سے ہوتی ہے' یعنی باطنی معنی ظاہری معنی سے افضل اور مقدم ہیں۔ ظاہری معانی سے تو علماء واقف ہیں لیکن باطنی معانی کو صرف اہل اسرار و رموز ہی جانتے ہیں اس اسرار و رموز کا منبع اولیاء کرام کے مکاشے' مراقبے' مشاہدے اور الہام یا پھر بزرگوں کا فیض و توجہ قرار دیا گیا جس کے ذریعے شریعت مصہرہ کی من مانی تاویلیں کی گئيں مثلا قرآن مجید کی آیت:
" واعبد ربک حتّی یاتیک الیقین"
"اپنے رب کی عبادت اس آخری گڑی تک کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے (یعنی موت) (سورۃ الحجرات آیت99)
اہل تصوف کے نزدیک یہ علماء (اہل ظاہر) کا ترجمہ ہے اس کا باطنی یا حقیقی ترجمہ یہ ہے کہ:
"صرف اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرو جب تک تمہیں یقین (معرفت) حاصل نہ ہوجائے"
(یقین یا معرفت سے مراد معرفت الہی ہے یعنی جب اللہ کی پہچان ہوجائے تو صوفیاء کے نزدیک نماز، روزہ، زکواۃ، حج اور تلاوت وغیرہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔)
چنانچہ اسلام کا ایک بھی بنیادی رکن ترک کرنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے۔
اسی طرح بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 میں ہے کہ:
" وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ"
(یعنی تیرے ربّ نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر اس کی)
یہ علماء کا ترجمہ ہے اور اہل اسرار و رموز کا ترجمہ یہ ہے:
" تم نہ عبادت کرو گے مگر وہ اسی (اللہ) کی ہوگی جس چيز کی بھی عبادت کرو گے"
اس کا مطلب یہ ہے کہ تم خواہ کسی انسان کو سجدہ کرو یا قبر کو یا کسی مجسمے اور بت کو وہ درحقیقیت اللہ ہی کی عبادت ہوگی' کلمہ توحید: " لاالہ الااللہ" کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ " اللہ کے سوا کوئی چيز موجود نہیں" صوفیاء کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ "لا موجود الا اللہ"یعنی دنیا میں اللہ کے سوا کوئی چيز موجود نہیں- الہ کا ترجمہ موجود کرکے اہل تصوف نے کلمہ توحید سے اپنا نظریہ وحدۃ الوجود ثابت کردیا لیکن ساتھ ہی کلمہ توحید کی کمہ شرک میں بدل ڈالا:
" فبدّل الذین ظلمو قولا غیر الذی قیل لھم"
( جو بات ان سے کہی گئي تھی ظالموں نے اسے بدل کر کچھ اور کردیا)
سورہ بقرہ آیت 59
باطنیت کے پردے میں کتاب و سنت کے احکامات اور عقائد کی من مانی تاویلوں کے علاوہ اہل تصوف نے کیف، جذب، مستی، استغراق، سکر (بے ہوشی) اور صحو (ہوش) جیسی اصطلاحات وضع کرکے جسے چاہا حلال کردیا جسے چاہا جرام ٹھرادیا، ایمان کی تعریف یہ کی گئی یہ دراصل عشق حقیقی (عشق الہی) دوسرا نام ہے اس کے ساتھ ہی یہ فلسفہ تراشا گیا کہ عشق حقیقی کا حصول عشق مجازی کے بغیر ممکن ہی نہیں چنانچہ عشق مجازی کے لوازمات، غنا، موسیقی، رقص وسرور، سماع، وجد، حال وغیرہ اور حسن و عشق کی داستانوں اور جام و سبو کی باتوں سے لبریز شاعری مباح ٹھری-
"شیخ حسین لاہوری المعروف مادھو لال جن کے ایک برہمن لڑکے کے ساتھ عشق کے بارے میں "خزینتہ الاصفیاء" میں لکھا ہے کہ "وہ بہلول دریائی کے خلیفہ تھے 36 سال ویرانے میں ریاضت و مجاہدہ کیا رات کا داتا گنچ بخش کے مزار پر اعتکاف میں بیٹھے- آپ نے طریقہ ملامتیہ اختیار کیا چار ابروکا صفایا، ہاتھ میں شراب کا پیالہ، سرور و نغمہ،چنگ و رباب، تمام قیود شرعی سے آزاد جس طرف چاہتے نکل جاتے"
(شریعت و طریقت، ص:204)
یہ ہے وہ باطنیت کہ جس کے خوشنما پردے میں اہل ہوا و ہوس دین اسلام کے عقائد ہی نہیں اخلاق اور شرم و حیا کا دامن بھی تار تار کرتے رہے اور پھر بھی بقول مولانہ الطاف حسین حالی رحمہ اللہ:
"نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے"
قارئین کرام! فلسفہ وحدۃ الوجود اور حلول کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گمراہی کا یہ مختصر سا تعارف ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کو الحاد اور کفر و شرک کے راستہ پر ڈالنے میں اس باطل فلسفہ کا کتنا بڑا حصہ ہے؟
ہندو پاک کا قدیم مذھب' ہندومت
1500 سال قبل مسیح، جہاں گرد آرین اقوام وسط ایشیاء سے آکر سندہ کے علائقے ہڑپہ اور موہنجوڈارو میں آباد ہوئيں- یہ علاقے اس وقت برصغیر کی تہذیب و تمدن کا سر چشمہ سمجھے جاتے تھے- ہندوؤں کی پہلی مقدس کتاب "رگ وید" انہی آرین اقوام کے مفکرین نے لکھی جو ان کی دیوی دیوتاؤں کی عظمت کے گیتوں پر مشتمل ہے- یہیں سے ہندو مذھب کی ابتداء ہوئی-
( مقدمہ ارتھ شاستر،ص:59)
جس کا مطلب یہ ہے کہ ہندو مذھب گوشتہ ساڑھے تین ھزار سال سے برصغیر کی تہذیب و تمدن، معاشرت اور مذاھب پر اثرانداز ہوتا چلا آرہا ہے-
ہندو مت کے علاوہ بدھ مت اور جین مت کا شمار بھی قدیم ترین مذاھب میں ہوتا ہے بدھ مت کا بانی گوتم بدھ 483 ق-م میں پیدا ہوا اور 563 ق-م میں 80 سال کی عمر میں فوت ہوا جبکہ جین مت کا بانی مہاویر جین 527 ق-م میں پیدا ہوا اور 72 سال کی عمر میں 599 ق-م میں فوت ہوا، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں مذاھب بھی کم از کم 4 یا 500 سال قبل مسیح سے برصغیر کی تہذیب و تمدن، معاشرت اور مذاھب پر اثر انداز ہورہے ہیں-
ہندو مت، بدھ مت اور جین مت تینوں مذاھب وحدۃ الوجود اور حلول کے فلسفہ پر ایمان رکھتے ہیں- بدھ مت کے پیروکار گوتم بدھ کو اللہ تعالی کا اوتار سمجھ کر اس کے مجسموں اور مورتیوں کی پوجا اور پرستش کرتے ہیں، جین مت کے پیروکار مہاویر کے مجسمے کے علاوء تمام مظاہر قدرت مثلا سورج، چاند، ستارے، حجر، شجر، دریا، سمندر، اگ اور ہوا وغیرہ کی پرستش کرتے ہیں، ہندو مت کے پیروکار اپنی اپنی قوم کی عظیم شخصیات (مرد و عورت) کے مجسموں کے علاوہ مظاہر قدرت کی پرستش بھی کرتے ہیں ہندو عتب میں اس کے علاوہ جن چيزوں کو قابل پرستش کہا گیا ہے ان میں گائے (بشمول گائے کا مکھن، دودھ، گھی، پیشاب اور گوبر) بیل، آگ پیپل کا درخت، ہاتھی، شیر، سانپ، چوہے، سور اور بندر ھبی شامل ہین ان کے بت اور مجسمے بھی عبادت کے لیے مندروں میں رکھے جاتے ہیں عورت اور مرد کے اعضاء تناسل بھی قابل پرستش سمجھے جاتے ہیں چنانچہ شوجی مہاراج کی پوچا اس کے مردانہ عصو تناصل کی پوجا کرکے کی جاتی ہے اور شکتی دیوی کی پوجا اس کے زنانہ عضو تناسل کی پوجا کرکے کی جاتی ہے-
برصغیر میں بت پرستی کے قدیم ترین تینوں مذاھب کے محتصر تعارف کے بعد ہم ہندو مذھب کی بعض تعلیمات کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ اندازہ کیا جاسکے کہ برصغیر پاک و ہند میں شرک کی اشاعت اور توریج میں ہندومت کے اثرات کس قدر گہرے ہیں۔ ان شاءاللہ
ہندومذھب میں عبادت اور ریاضت کے طریقے
ہندو مذھب کی تعلیمات کے مطابق نجات حاصل کرنے کے لیے ہندو دور جنگلوں اور غاروں میں رہتے اپنے جسم کو ریاضتوں سے طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتے- گرمی ، سردی، بارش اور رتیلی زمینوں پر ننگے بدن رہنا اپنی ریاضتوں کا مقدس عمل سمجھتے جہاں یہ اپنے آپ کو دیوانہ وار تکلیفیں پہنچا کر انگاروں پر لوٹ کر، گرم سورج میں ننگے بدن بیٹھ کر، کانٹوں کے بستر پر لیٹ کر، درخت کی شاخوں پر گھنٹوں لٹک کر اور اپنے ہاتھوں کو بے حرکت بناکر، یا سر سے اونچا لے جاکر اتنے طویل عرصے تک رکھتے تاکہ وہ بے حس ہوجائيں اور سوکھ کر کانٹا بن جائيں-
ان جسمانی آزار کی ریاضتوں کے ساتھ ہندومت میں دماغی اور روحانی مشقتوں کو بھی نجات کا ذریعہ سمجھا جاتا چنانچہ ہندو تنہا شہر سے باہر غور وفکر میں مصروف رہتے اور ان میں سے بہت سے جھونپڑیوں میں اپنے گرو کی رہنمائی میں گروپ بناکر بھی رہتے- ان میں سے کجھ گروپ بھیک پر گزارہ کرتے ہوئے سیاحت کرتے ان میں سے کچھ مادرزاد برہنہ رہتے اور کچھ لنگوٹی باندھ لیتے- بھارت کے طول و عرض میں اس قسم کے چٹادھاری یا ننگ دھڑنگ اور خاکستر میلے سادھوؤں کی ایک بڑی تعداد جنگلوں، دریاؤں اور پہاڑوں میں کثرت سے پائی جاتی ہے، اور عام ہندو معاشرے میں ان کی پوجا تک کی جاتی ہے-
(مقدمہ ارتھ شاستر:99)
روحانی قوت اور ضبط نفس کے حصول کی خاطر ریاضت کا اہم طریقہ "يوگا" ایجاد کیا گیا جس پر ہندو مت، بدھ مت اور جین مت کے پیروکار بھی عمل کرتے ہیں اس طریقہ ریاضت میں یوگی اتنی دیر تک سانس روک لیتے ہیں کہ موت کا شبہ ہونے لگتا ہے دل کی حرکت کا اس پر اثر نہیں ہوتا- سردی گرمی ان پر اثر انداز نہیں ہوتی يوگی طویل ترین فاقے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں- ارتھ شاستر کے نامہ نگارکا اس طرز ریاضت پر تبصرہ کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں کہ یہ ساری باتیں مغربی علم الاجسام کے ماہرین کے لیے تو حیران کن ہوسکتی ہے لیکن مسلمان صوفیاء کے لیے چنداں حیران کن نہیں، کیونکہ اسلامی تصوف کے بہت سے سلسلوں بالخصوص نقشبندی کے سلسلے فنا نی اللہ یا فنا فی الشیخ یا ذکر قلب کے اوراد میں حبس دم کے کئے طریقے ہیں جن پر صوفیاء عالم ہوتے ہیں-
( مقدمہ ارتھ شاستر:129)
يوگا عبادت کا ایک بھیانک نظاوہ سادھوؤں اور يوگیوں کا دہکتے ہوئے شعلہ نشاں انگاروں پر ننگے قدم چلنا اور بغیر جلے سالم نکل آنا، تیز دھار نوکیلے خنجر سے ایک گال سے دوسرے گال تک اور ناک کے دونوں حصوں تک اور دونوں ہونٹوں کے آرپارخنجر اتاردینا اور اس طرح گنٹوں کھڑے رہنا' تازہ کانٹوں اور نوکیلے کیلوں کے بستر پر لکٹے رہنا یا رات دن دونوں پیروں یا ایک پیر کے سہارے کھڑے رہنا یا ایک ٹانگ اور ایک ہاتھ کو اس طویل عرصہ تک بے مصروف بنادیا کہ وہ سوکھ جائے یا مسلسل الٹے لٹکے رہنا، ساری عمر ہر موسم اور بارش میں برہنہ رہنا، تمام عمر سنیاسی یعنی کنوارا رہنا یا اپنے تمام اہل خانہ سے الگ ہوکر بلند پہاڑوں کے غاروں میں گیان کرنا وغیرہ بھی يوگا عبادت کے مختلف طریقے ہیں- اسے ہندو يوگی ہندو دھرم یا دیدانت یعنی تصوف کے مظاہر قرار دیتے ہیں-
(مقدمہ ارتو شاستر:130)
ہندو مت اور بدھ مت میں جنتر منتر اور جادو کے ذریعے عبادت کا طریقہ بھی رائج ہے، عبادت کا یہ طریقہ اختیار کرنے والوں کو " تانترک" فرقہ کہتے ہیں یہ لوگ جادوئی منتر جیے آدم منی :پدمنی او: يوگا کے انداز میں گیان دھیان کو نجات کا ذریعہ سمجتھے ہیں قدیم ویدھ لٹریچر بتاتا ہے کہ سادھو اور ان کے بعض طبقات جادو اور سفلی عملیات پر مہارت حاصل کرنے کے عمل دھرایا کرتے تھے اس فرقہ میں تیز بے ہوش کرنے والی شرابوں کا پینا، گوشت اور مچھلی کھانا، جنسی افعال کا بڑھ چڑھ کر کرنا، غلاظتوں کو غذا بنانا مذھبی رسموں کے نام پر قتل کرنا جیسی قبیح اور مکروہ حرکات بھی عبادت سمجھی جاتی ہیں- (مقدمہ ارتھ شاستر:117)
ہندو بزرگوں کے مافوق الفطرت اختیارات
جس طرح مسلمانوں کے غوث، قطب، نجیب، ابدال، ولی۔ فقیر اور درویش وغیرہ مختلف مراتب اور مناصب کے بزرگ سمجھے جاتے ہیں، جنہیں مافوق الفطر قوت اور اختیارات حاصل ہوتے ہیں اسی طرح ہندوؤں میں رشی، منی، مہاتما، اوتار، سادھو، سنیاسی، یوی، گیانی، شاستری اور چتھرویدی وغیرہ مختلف مراتب اور مناصب کے بزرگ سمجھے جاتے ہیں جنہیں مافوق الفطرت قوت اور اختیارات حاصل ہوتے ہیں- ہندوؤں کی مقدس کتابوں کے مطابق یہ بزرگ ماضی، حال اور مستقبل کو دیکھ سکتے ہیں، جنت میں دوڑتے ہوئے جاسکتے ہیں، دیوتاؤں کے دربار میں ان کا بڑے اعزاز سے استقبال کیا جاتا ہے۔ یہ اتنی زبردست جادوئی طاقت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر چاہیں تو پہاڑوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں، یہ ایک نگاہ سے دشمنوں کو جلا کر خاکستر کر سکتے ہیں، تمام فصلوں کو برباد کرسکتے ہیں، اگر خوش ہوجائيں تو تو پورے شہر کو تباہی سے بچالیتے ہیں، دولت میں زبردست اظافہ کرسکتے ہیں، قحط سالی سے بچاسکتے ہیں، دشمنوں کے حملے روک سکتے ہیں-
(مقدمہ ارتھ شاستر:99-100)-
منی وہ مقدس انسان ہیں جو کوئی کپڑا نہیں پہنتے، ہوا کو بطور لباس استعمال کرتے ہیں، جن کی غذا ان کی خاموشی ہے، وہ ہوا میں اڑ سکتے ہیں اور پرندوں سے اوپر جاسکتے ہیں، یہ منی تمام انسانوں کے اندر پوشیدہ خیالوں کو جانتے ہیں کیونکہ انہوں نے وہ شراب پی ہوئی ہے جو عام انسانوں کے لیے زہر ہے- (بحوالہ سابق)
شیو جی کے بیٹے لارڈ گنیش کے بارے میں ہندوؤں کا عقیدہ ہےکہ وہ کسی بھی مشکل کو آسان کرسکتے ہیں اگر چاہیں تو کسی کے لیے بھی مشکل پیدا کرسکتے ہیں اس لیے بچہ جب پڑھنے کی عمر کو پہنچتا ہے تو سب سے پہلے اسے گنیش کی پوجا کرنا ہی سکھایا جاتا ہے-
(بحوالہ سابق: 9
ہندو بزرگوں کی بعض کرامات
ہندوؤں کی مقدس کتب میں اپنے بزرگوں سے منسوب بہت سی کرامات کا تذکرہ ملتا ہے ہم یہاں چند مثالوں پر ہی اکتفا کریں گے-
1/ ہندوؤں کی مذھبی کتاب رامائن میں رام اور راون کا طویل قصہ دیا گیا ہے کہ رام اپنی بیوی سیتا کے ساتھ جنگلات میں زندگی بسر کررہا تھا کہ لنکا کا راجہ راون اس کی بیوی اغوا کرکے لے گیا راو نے ہنو مان (بندروں کے شہنشاہ) کی مدد سے خونی جنگ کے بعد اپنی بیوی واپس حاصل کرلی لیکن مقدس قوانین کے تحت اسے بعد میں الگ کردیا گیا- سیتا یہ غم برداشت نہ کرسکی اور اپنے آپ کو ہلاک کرنے کے لیے آگ میں کود گئی، اگنی دیوتا جو مقدس آگ کے مالک ہیں انہوں نے آگ کو حکم دیا کہ بجھ جائے اور سیتا کو نہ جلائے اس طرح سیتا دہکتی آگ سے سالم نکل آئی اور اپنے بے داغ کردار کا ثبوت فراہم کردیا- (مقدمہ ارتھ شاستر: 101-102)
2/ ایک بار بدھ مت کے درویش (بھکشو) نے یہ معجزہ دکھایا کہ ایک پتھر سے ایک ہی رات میں اس نے ھزاروں شاخوں والا آم کا درخت پیدا کردیا-
3/ محبت کے دیوتا (کاما) اور اس کی دیوی (رتی) اور ان دونوں دیوی دیوتاؤں کے دوست خاص طور سے موسم بہار کے خدا جب باہم کھیلتے تو "کاما دیوتا" اپنے پھولوں کے تیروں سے "شیو دیوتا" پر بارش کرتے اور شیو دیوتا اپنی تیسری آںکھ سے ان تیروں پر نگاھ ڈالتے تو تو یہ تیر بھجی ہوئی خاک کی شکل میں تباہ ہوجاتے اور وہ ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہتا کیونکہ وہ جسمانی شکل سے آزاد تھا- (مقدمہ ارتھ شاستر:90)
ہندو مت کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مسلمانوں کے ایک بڑے فرقے 'اہل تصوف" کے عقائد اور تعلیمات ہندو مذھب سے کس قدر متاثر ہیں عقیدہ وحدۃ الوجود اور حلول یکساں- عبادت اور ریاضت کے طریقے یکساں- بزرگوں کے مافق الفطرت اختیارات یکساں اور بزرگوں کی کرامات کا سلسلہ بھی یکساں- اگر کوئی فرق ہے تو وہ ہے صرف ناموں کا- تمام معاملات میں ہم آہنگی اور یکسانیت پالینے کے بعد ہمارے لیے ہندوستان کی تاریخ میں ایسی مثالیں باعث تعجب نہیں رہتیں کہ ہندو لوگ، مسلمانوں پیروں فقیروں کے مرید کیوں بن گئے اور مسلمان ہندو سادھوں اورجوگیوں کے گیان دھیان میں کیوں حصہ لینے لگے- اس اختلاط کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت جس اسلام پر آج عمل پیرا ہے اس پر کتاب و سنت کی بحائے ہندو مذھب کے نقوش کہیں زیادہ گہرے اور نمايا ہے۔
اس سلسلہ میں چند صوفیوں کی مثالیں ملاحظہ کیجیے:
1/ ذھدۃ العارفین قدوۃ السالکین حافظ غلام قادر اپنے زمانے کے قطب الاقطاب اور غوث الاغواث اور محبوب خدا تھے جن کا فیض روحانی ہر عام و خاص کے لیے اب تک جاری ہے یہی وجہ تھی کہ ہندو، سکھ، عیسائی، ہر قوم اور فرقہ کے لوگ آپ سے فیض روحانی حاصل کرتے تھے، آپ کے عرس میں تمام فرقوں کے لوگ حاضر ہوتے تھے آپ کے تمام مریدان با صفا فیض روحانی سے مالا مال اور پابند شرع شریف ہیں- (ریاض السالکین ص:272 بحوالہ شریعت و طریقت ص:477)
2/ اسماعیلیہ فرقہ کے پیر شمس الدین صاحب کشمیر تشریف لائے تو تقیہ کرکے اپنے آپ کو یہاں کے باشندوں کے رنگ میں رنگ لیا ایک دن ہندو دسہرے کی خوشی میں گربا رقص کررہے تھے پیر صاحب بھی اس رقص میں شریک ہوگئے اور 28 گربا کیت تصنیف فرمائے-
3/ پیر صدر الدین صاحب (اسماعیلی) نے ہندوستان میں آکر اپنا ہندووانہ نام "ساہ دیو" (بڑا درویش) رکھ لیا اور لوگوں کو بتایا کہ وہ وشنو کا دسواں اوتار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکل میں ظاہر ہوچکا ہے، اس کے پیرو صوفیوں کی زبان میں محمد اور علی کی تعریف کے بھجن گیا کرتے تھے- (اسلامی تصوف میں غیر اسلامی تصوف کی آمیزش، ص:32-33)
یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے
صنم کندہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
(اردو مجلس سے اخذ کردہ)