تصوف نابغہ ءروزگار لوگوں‌کی آخری پناہ گاہ ہے۔

ادریس آزاد

محفلین
علامہ اقبال نے دی ری کنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام میں لکھا ہے کہ
"مذہبی پہلو سے دیکھا جاءے تو تصوف عبارت ہے اس بغاوت سے جو فقہاے متقدمین کی لفظی حیلہ تراشیوں کے خلاف پیدا ہوءی۔اس سلسلے میں‌سفیان ثوری کی مثال ہمارے سامنے ہے جن کا شمار اس عہد کے بہترین قانونی دماغوں میں‌ہوتا ہے اور جو تقریبا ً ایک مذہب فقہ کی بنا ڈال چکے تھے۔لیکن جن کے دل و دماغ پر چونکہ روحانیت کا غلبہ تھا، لہٰذا فقہاے معاصرین کی خشک بحثوں‌سے بد دل ہو کر انہوں نے بالآخر رہبانی تصوف کا راستہ اختیار کیا"۔ ترجمہ سید نذیر نیازی۔صفحہ نمبر ۲۳۱۔
تشکیل جدید میں مزید مقامات پر بھی وضاحت ہے۔ طلب کرنے پر پیش کی جاسکتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوا کہ آیا یہ نابغوں کاکرشمہ تو نہیں جسے ہم تصوف کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ سوال کہ وہ لوگ جو عقل کی نفی کرتے ہیں، تصوف کا سہارا لے کرِِ،وہ اس خیال سے متفق ہوں‌گے کہ نہیں کہ تصوف نابغہء روزگار لوگوں کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے۔اور انہیں کے اکتشافات کا مجموعہ؟؟؟؟؟
 
تصوف نابغہء روزگار لوگوں کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے
ویسے آج کل تو یہ بے روزگار لوگوں کی آخری پناہ گا ہے،یعنی لوگوں کو بے وقوف بنانے اور ان سے پیسہ ہتھیانے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ کسی مزار کے سجادہ نشین بن جاو اور اپنی دکان کھول لو۔
 

الف نظامی

لائبریرین
قل عشق محمد مذھبی و حبہ ملتی و طاعتہ منزلی
(یہ کہہ) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق میرا مذھب ، محبت میری ملت اور اتباع میری منزل ہے
از حضرت ابوانیس محمد برکت علی لدھیانوی (صوفی)
 

گُلاں

محفلین
بلکل ٹھیک خیال پیش کیا لیکن اُن لوگوں کا کیا ھو گا جو اِس کو اپنی پناہ جانتے ہں کیا یہ ایک خیال ہی رہے گا سوسائٹی کو کر وٹ کو ن دلائے گا ؟ وہ تبلغ جوعلما دے رہے ہں یا وہ کتابیں جو مصنف لکھ رہے ہں؟
 
ميرے خیال میں تصوف ایک راستہ ہے یہ آخری پناہ گاہ نہیں یہ وہ راستہ ہے جس پر چل کر آپ قرب الہی کی منزل کو پا سکتے ہیں کیونکہ تصوف خالق اور مخلوق سے محبت کا نام ہی ہے۔
 

خلیل بہٹو

محفلین
ميرے خیال میں تصوف ایک راستہ ہے یہ آخری پناہ گاہ نہیں یہ وہ راستہ ہے جس پر چل کر آپ قرب الہی کی منزل کو پا سکتے ہیں کیونکہ تصوف خالق اور مخلوق سے محبت کا نام ہی ہے۔

تصوف قربِ الٰہی کی منزل نہیں بلکہ خدا سے دوری کی منزل ہے۔ صوفیوں کی کارستانیاں جاننے کیلئے یہ کتاب پڑہیں:

http://www.fileden.com/files/2009/2/17/2326687/The Fact of Sufism.pdf
 

خرم

محفلین
خلیل بھیا کتابیں تو کس کے خلاف نہیں لکھی جاتیں؟ آپ یہ بتائیے کہ آپ نے کسی صوفی کا نام سُنا ہے؟ کسی صوفی کی داستان پڑھی ہے؟ یہ جانتے ہیں کہ صوفی ہوتا کیا ہے؟ اور تصوف کہتے کسے ہیں؟ یہ جن "شیخ" کی کتاب آپ نے دکھائی ہے انہوں نے کہیں سے ایک بات اُڑا کر کہیں سے دوسری اُٹھا کر ایک رسالہ لکھ دیا اور بس۔ اہل تصوف کا ہرکام بدعت نظر آتا ہے، وہ ان کے ملک پر جب عراق کا قبضہ ہوا تھا تو ان کے بادشاہ کے حرم کی کیا تعداد تھی؟ اس کے متعلق یہ کیوں‌نہیں بولتے؟
 

خلیل بہٹو

محفلین
آپ انہیں مصنف کی کتاب "الفکر الصوفی" پڑہیں۔ جہاں یہ سب کچھ تفصیل سے لکھا ہوا ہے۔
کئی صوفیوں کو پڑہا ہے۔ جنہیں پڑہنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ "دین میں جتنا بگاڑ ان صوفیاء حضرات نے پیدا کیا ہے، شاید ہی کسی اور طبقہ نے ایسا کیا ہو۔"
اللہ ہمیں اپنی امان میں رکھے۔ (آمین)
 
آپ انہیں مصنف کی کتاب "الفکر الصوفی" پڑہیں۔ جہاں یہ سب کچھ تفصیل سے لکھا ہوا ہے۔
کئی صوفیوں کو پڑہا ہے۔ جنہیں پڑہنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ "دین میں جتنا بگاڑ ان صوفیاء حضرات نے پیدا کیا ہے، شاید ہی کسی اور طبقہ نے ایسا کیا ہو۔"
اللہ ہمیں اپنی امان میں رکھے۔ (آمین)

آپ صرف ایک نقطہ نظر پڑھتے ہیں اسی لئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔ اب دوسرا نقظہ نظر –میرا مطلب ہے– صوفیاء کا نقظہ نظر پڑھنے کی بجائے کسی عارف کی صحبت کو پڑھئے انشاء اللہ افاقہ ہو گا اور حجابات اٹھ جائیں گے۔
 

ساجد

محفلین
آپ انہیں مصنف کی کتاب "الفکر الصوفی" پڑہیں۔ جہاں یہ سب کچھ تفصیل سے لکھا ہوا ہے۔
کئی صوفیوں کو پڑہا ہے۔ جنہیں پڑہنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ "دین میں جتنا بگاڑ ان صوفیاء حضرات نے پیدا کیا ہے، شاید ہی کسی اور طبقہ نے ایسا کیا ہو۔"
اللہ ہمیں اپنی امان میں رکھے۔ (آمین)
صاحب ، کچھ تذکرہ بھی کرتے جائیے ان خرابیوں کا۔ کہ ہم جیسے کم علم بھی کچھ سیکھ سکیں۔
 

خلیل بہٹو

محفلین
صوفیت یا ہندومت

قرآن و حدیث

دین اسلام کی بنیاد قرآن وحدیث پر ہے لیکن صوفیاء کے نزدیک ان دونوں کا مقام اور مرتبہ کیا ہے اس کا اندازہ ایک مشہور صوفی عفیف الدین تلمسانی کے اس ارشاد سے لگائيے:
"قرآن میں توحید ہے کہاں؟ وہ تو پورے کا پورا شرک سے بھرا پڑاہے،
جو شخص اس کی اتباع کرے گا وہ کبھی توحید کے بلند مرتبے پر نہیں پہنج سکتا"
(شریعت و طریقت ص:152، امام ابن تیمیہ از کوکن عمری ص:321)

حدیث شریف کے بارے میں جناب بایزید بسطامی کا یہ تبصرہ پڑھ لینا کافی ہوگا کہ:
"تم (اہل شریعت) نے اپنا علم فوت شدہ لوگوں (یعنی محدثيں سے حاصل کیا ہے اور ہم نے اپنا علم اسی ذات سے حاصل کیا ہے جو ھمیشہ زندہ ہے (یعنی براہ راست اللہ تعالی سے) ہم لوگ کہتے ہیں میرے دل نے اپنے رب سے روایت کیا اور تم کہتے ہو فلاں (راوی) نے مجھ سے روایت کیا (اور اگر سوال کیا جائے کہ) وہ راوی کہاں ہے؟ جواب ملتا ہے مرگیا (اور اگر پوچھا جائے کہ) اس (فلاں) راوی نے (فلاں) راوی سے بیان کیا تو وہ کہان ہے/ جواب وہی کہ مرگیا"
(شریعت و طریقت ص؛152، امام ابن تیمیہ از کوکن عمری ص:321)

قرآن وحدیث کا یہ استہزاء اور تمسخر اور اس کے ساتھ ہوائے تنفس کی اتباع کے لیے
"حدثنی قلبی عن ربی"
(میرے دل نے میرے رب سے روایت کیا)
{فتوحات مکیہ از ابن عربی ج1، ص:57}

کا پر فریب جواز کس قدر جسارت ہے اللہ اور اس کے رسول ۖ کے مقابلے میں؟ امام ابن الجوزی اس باطل دعوای پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" جس نے حدثنی قلبی عن ربی کہا اس نے درپردہ اس بات کا اقرار کیا وہ رسول اللہ ۖ سے مستغنی ہے، پس جو شخص ایسا دعوای کرے وہ کافر ہے"
( تلبیس ابلیس ص:374)

عبادت و ریاضت

یہاں ہم صوفیاہ کی عبادت اور ریاضت کے بعض ایسے خود ساختہ طریقوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جنہیں صوفیاء کے ہاں بڑی قدر و منزلت سے دیکھا جاتا ہے لیکن کتاب و سنت میں ان کا جواز تو کیا شدید مخالفت پائی جاتی ہے-
چند مثالیں ملاحظہ کریں:

1/
پیران پیر (حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی) پندرہ سال تک عشاء کے بعد طلوع صبح سے پہلے ایک قرآن شریف ختم کرتے آپ نے یہ سارے قرآن پاک ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر ختم کیے، نیز خود فرماتے ہیں میں 25 سال تک عراق کے جنگلوں تنہا ایک سال تک ساگ گھانس اور پھینکی ہوئی چيزوں پر گزارا کرتا رہا اور پانی مطلقانہ پیا پھر ایک سال تک پانی پیتا رہا پھر تیسرے سال صرف پانی پر گزارہ کرتا رہا پھر ایک سال تک نہ کچھ کھایا، نہ پیا نہ سويا۔
(غوث الثقلین ص:83، شریعت و طریقت ص:431)

احادیث میں مروی ہے کہ آپ صہ رات کے آخری پہر میں اٹھ کی خشوع اور خضوع کے ساتھ نماز میں قرآن پڑہا کرتے تھے۔ آپ صہ نے کب ایک پیر پر کھڑا ہوکر قرآن پڑہنے کا حکم دیا ہے؟

2/
حضرت بایزید بسطامی 30 سال تک شام کے جنگلوں میں ریاضت و مجاہدے کرتے رہے ایک سال آپ حج کو گئے تو ہر قدم پر دوگانہ ادا کرتے یہاں تک کہ 12 سال میں مکہ معظمہ پہنچے-
(صوفیاء نقشبندی ص:155، شریعت و طریقت ص:591)

3/
حضرت معین الدین چشتی اجمیری کثیر المجاہدہ تھے 70 برس تک رات بھر نہیں سوئے-
(مشائخ چشت از مولانا زکریا ص:155، شریعت و طریقت ص:591)

4/
حضرت فرید الدین گنج شکر نے 40 روز کنویں میں بیٹھ کر چلہ کشی کی-
(مشائخ چشت از مولانا زکریا ص:178، شریعت و طریقت ص:340)

5/
حضرت جنید بغدادی کامل 3 سال تک عشاء نماز پڑھنے کے بعد ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر اللہ اللہ کرتے رہے۔ (صوفیاء نقشبندی ص:79، شریعت و طریقت ص:491)
نبی پاک صہ دونوں پائوں پر کھڑے ہوکر اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ ایک پائوں پر کھڑے ہوکر عبادت کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ بلکہ یہ صریح نبی پاک صہ کے طریقہ کے خلاف ہے۔

6/
خواجہ محمد چشتی نے اپنے مکان میں ایک گہرا کنواں کھدوا رکھا تھا جس میں الٹے لٹک کر عبادت الہی میں مصروف رہتے۔ (سیرت الاولیاء ص:46، شریعت و طریقت ص:431)

7/
حضرت ملا شاہ قادری فرمایا کرتے تھے "تمام عمر ہم کو غسل جنابت اور احتلام کی حاجت نہیں ہوئی کیونکہ یہ دونوں غسل، نکاح اور نیند سے متعلق ہیں، ہم نے نہ نکاح کیا ہے نہ سوتے ہیں۔ (حدیقۃ الاولیاء ص:57، شریعت و طریقت ص:271)

عبادت و ریاضت کے یہ تمام طریقے کتاب و سنت سے تو دور ہی ہیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ جس قدر یہ طریقے کتاب و سنت سے دور ہیں اسی قدر ہندو مذھب کی عبادت اور ریاضت کے طریقوں سے قریب ہیں، نیچے کی تحریروں کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ دونوں مذاھب میں کس کس قدر ناقابل یقین حد تک یگانت اور مماثلت پائی جاتی ہے-

جزا وسزا

فلسفہ وحدۃ الوجود اور حلول کے مطابق چونکہ انسان خود تو کچھ بھی نہیں بلکہ وہی ذات برحق کائنات کی ہر چيز (بشمول انسان) میں جلوگر ہے لہذا انسان وہی کرتا ہے جو ذات برحق چاہتی ہے انسان اسی راستے پر چلتا ہے جس پر وہ ذات برحق چلانا چاہتی ہے-
"انسان کا اپنا کوئی ارادہ ہے نہ اختیار" اس نطریے نے نے اہل تصوف کے نزدیک نیکی اور برائی، حلال اور حرام، اطاعت اور نافرمانی، ثواب وعذاب، جزاء و سزا کا تصور ہی ختم کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر صوفیاء حضرات نے اپنی تحریروں میں جنت اور دوزح کا تمسخر اور مذاق اڑایا ہے-
حضرت نظام الدین اولیاء اپنے ملفوظات فوائد الفوائد میں فرماتے ہیں:

" قیامت کے روز حصرت معروف کرخی کو حکم ہوگا بہشت میں چلو وہ کہیں گے "میں نہیں جاتا میں نے تیری بہشت کے لیے عبادت نہیں کی تھی" چنانچہ فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ انہیں نور کی زنجیروں میں جکڑ کر کھینچتے کھینچتے بہشت میں لے جاؤ-" ( شریعت و طریقت ص:500)

"حضرت رابعہ بصری (آدھی قلندر) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک روز داہنے ہاتھ میں پانی کا پیالہ اور بائيں ہاتھ میں آگ کا انگارہ لیا اور فرمایا یہ جنت ہے اور یہ جہنم ہے، اس جنت کو جہنم پر انڈیلتی ہوں تاکہ نہ رہے جنت نہ رہے جہنم اور خالص اللہ کی عبادت کریں-" (بحوالہ سابقہ)

کرامات

صوفیاء کرام، وحدۃ الوجود اور حلول کے قائل ہونے کی وجہ سے خدائی اختیارات رکھتے ہیں، اس لیے زندوں کو مارسکتے ہيں، مردوں کو زندہ کرسکتے ہیں، ہوا میں اڑ سکتے ہین، قسمتیں بدل سکتے ہیں، چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

1/
ایک دفعہ پیران پیر حصرت عبدالقادر جیلانی نے مرغی کا سالن کھاکر ہڈیاں ایک طرف رکھ دیں، ان ہڈیوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا قم باذن اللہ وہ مرغی زندہ ہوگئی- (سیرت غوث ص: 191)

2/
ایک گوئیے کی قبر پر پیران پیر نے قم باذنی کہا قبر پھٹی اور مردہ گاتا ہوا نکل آیا- (تفریح الخاطر ص:19)
3/

خواجہ ابو اسحاق چشتی جب سفر کا ارادہ فرماتے تو 200 آدمیوں کے ساتھ آنکھ بند کرکے منزل مقصود پر پہنچ جاتے- (تاریخ مشائخ چشت از مولانا زکریا ص:192)

4/
سید مودود چشتی کی وفات 97 سال کی عمر میں ہوئي آپ کی نماز جنازہ اول رجال الغیب (فوت شدہ بزرگ) نے پڑھائی پھر عام آدمی نے، اس کے بعد جنازہ خودبخود اڑنے لگا اس کرامت سے بے شمار لوگوں نے اسلام قبول کیا- (تاریخ مشائخ چشت از مولانا زکریا ص:160)

نوٹ: یہ عمل صریحا قرآن اور حدیث کے خلاف ہے۔ سلیمان علیہ السلام کے بارے میں قرآن مجید میں ہے: قَالَ رَبِّ اغۡفِرۡ لِىۡ وَهَبۡ لِىۡ مُلۡكًا لَّا يَنۡۢبَغِىۡ لِاَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِىۡ‌ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡوَهَّابُ (سورة ص آیت 35)
ترجمہ: (سلیمان علیہ السلام نے) دعا کی کہ اے پروردگار مجھے مغفرت کر اور مجھ کو ایسی بادشاہی عطا کر کہ میرے بعد کسی کو شایاں نہ ہو۔ بےشک تو بڑا عطا فرمانے والا ہے۔
اسی سورة میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَسَخَّرۡنَا لَهُ الرِّيۡحَ تَجۡرِىۡ بِاَمۡرِهٖ رُخَآءً حَيۡثُ اَصَابَ (ایضا)
ترجمہ: پھر ہم نے ہوا کو ان کے زیرفرمان کردیا کہ جہاں وہ پہنچنا چاہتے ان کے حکم سے نرم نرم چلنے لگتی۔
حاصل مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ عہ کی دعا قبول فرمائی اور اس کے بعد ایسا اختیار کسی کو بھی نہیں دیا، چنانچہ احادیث میں آتا ہے، نبی پاک صہ نے ایک جن کو پکڑا، اور آپ نے خواہش ظاہر کی کہ اسے مدینہ کے ستون سے باندھ دیا جائے، لیکن آپ صہ کو سلیمان علیہ السلام کی یہ دعا یاد آئی تو آپ نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن چشتی صاحب تو اللہ کے اس قول کو نعوذ باللہ چھوٹا ثابت کرتے ہیں۔

5/
خواجہ غثمان ہارونی نے وصو کا دوگانہ ادا کیا اور ایک کمسن بچے کو گود میں لے کر آگ میں چلے گئے اور دو گھنٹے اس میں رہے آگ نے دونوں پر کوئی اثر نہیں کیا اس پر بہت سے آتش پرست مسلمان ہوگئے-(تاریخ مشائخ چشت از مولانا زکریا ص:124)

6/
ایک عورت خواجہ فریدالدین گنج شکر کے پاس روتی ہوئی آئی اور کہا بادشاہ نے میرے بے گناہ بچے کو تختہ دیر پر لٹکوادیا ہے آّپ اصحاب سمیت وہاں پہنچے اور کہا" یا الہی اگر یہ بے گناہ ہے تو اسے زندہ کردے" لڑکا زندہ ہوگیا اور ساتھ چلنے لگا یہ کرامت دیکھ کر (ایک) ہزار ہندو مسلمان ہوگئے- (اسرار الاولیاء ص:110-111)
نوٹ: اس قسم کی کرامات نبی پاک صہ سے کبھی صادر نہیں ہوئیں۔ چنانچہ جب ان کے فرزند ارجمند فوت ہوئے تو آپ صہ شدت غم سے آنسو بہانے لگے، لیکن اللہ کی رضا پر راضی رہے۔ اور اپنے بیٹے کو زندہ نہ کرسکے۔

7/
ایک شخص نے بارگاہ غوثیہ میں لڑکے کی درخواست کی آپ نے اس کے حق میں دعا فرمائی اتفاق سے لڑکی پیدا ہوگئی آپ نے فرمایا اسے گھر لے جاؤ اور قدرت کا کرشمہ دیکھو جب گھر پہنچے تو اس لڑکی کے بجائے لڑکا پایا- (سفینہ الاولیاء ص:17)

8/
"پیران پیرغوث اعظم مدینہ سے حاضری دے کر ننگے پاؤں بغداد آرہے تھے راستے میں ایک چور ملا جو لوٹنا چاہتا تھا، جب چور کو علم ہوا کہ آپ غوث اعظم ہیں تو قدموں پر گر پڑا اور زبان پر "یا سیدی عبدالقادرشیئنا للہ" جاری ہوگیا آپ کو اس کی حالت پر رحم آگیا اس کی اصلاح کے لیے بارگاہ الہی میں متوجہ ہوئے غیب سے ندا آئی "چور کو ھدایت کی رہنمائی کرتے ہوئی قطب بنادو چنانچہ آپ کی اک نگاہ فیض سے وہ قطب کے درجہ پر فائز ہوگيا-"
(سیرت غوث ص:640)

9/
میاں اسماعیل لاھور المعروف میاں کلاں نے صبح کی نماز کے سلام پھیرتے وقت جب نگاہ کرم ڈالی تو دائيں طرف کے مقتدی سب کے سب حافظ قرآن بن گئے اور بائيں طرف کے ناظرۃ پرھنے والے۔ (حدیقہ الاولیاء ص:176)

10/

خواجہ علاؤالدین صابر کلیری کو خواجہ فرید الدین گنج شکر نے کلیر بھیجا ایک روز خواجہ صاحب امام کے مصلے پر بیٹھ گغے لوگوں نے منع کیا تو فرمایا "قطب کا رتبہ قاصی سے بڑھ کر ہے" لوگوں نے زبردستی مصلی سے اٹھادیا حضرت کو مسجد میں نماز پڑھنے کی لیے جگہ نہ ملی تو مسجد کو مخاطب کرکے فرمایا " لوگ سجدہ کرتے ہیں تو بھی سجدہ کر" یہ بات سنتے ہی مسجد مع چھت اور دیوار کے لوگوں پر گر پڑی اور سب لوگ ہلاک ہوگئے-
(حدیقہ الاولیاء ص:70)

باطنیت

کتاب و سنت سے براہ راست متصادم عقائد وافکار پر پردہ ڈالنے کے لیے اہل تصوف نے باطنیت کا سہارا بھی لیا ہے- کہا جاتا ہے کہ قرآن وحدیث کے الفاظ کے دو دو معانی ہیں' ایک ظاہری اور دوسری باطنی (یا حقیقی) یہ عقیدہ باطنیت کہلاتا ہے' اہل تصوف کے نزدیک دونوں معانی کو آپس میں وہی نسبت ہے جو چھلکے کو مغز سے ہوتی ہے' یعنی باطنی معنی ظاہری معنی سے افضل اور مقدم ہیں۔ ظاہری معانی سے تو علماء واقف ہیں لیکن باطنی معانی کو صرف اہل اسرار و رموز ہی جانتے ہیں اس اسرار و رموز کا منبع اولیاء کرام کے مکاشے' مراقبے' مشاہدے اور الہام یا پھر بزرگوں کا فیض و توجہ قرار دیا گیا جس کے ذریعے شریعت مصہرہ کی من مانی تاویلیں کی گئيں مثلا قرآن مجید کی آیت:
" واعبد ربک حتّی یاتیک الیقین"
"اپنے رب کی عبادت اس آخری گڑی تک کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے (یعنی موت) (سورۃ الحجرات آیت99)

اہل تصوف کے نزدیک یہ علماء (اہل ظاہر) کا ترجمہ ہے اس کا باطنی یا حقیقی ترجمہ یہ ہے کہ:
"صرف اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرو جب تک تمہیں یقین (معرفت) حاصل نہ ہوجائے"
(یقین یا معرفت سے مراد معرفت الہی ہے یعنی جب اللہ کی پہچان ہوجائے تو صوفیاء کے نزدیک نماز، روزہ، زکواۃ، حج اور تلاوت وغیرہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔)
چنانچہ اسلام کا ایک بھی بنیادی رکن ترک کرنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے۔

اسی طرح بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 میں ہے کہ:
" وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ"
(یعنی تیرے ربّ نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر اس کی)

یہ علماء کا ترجمہ ہے اور اہل اسرار و رموز کا ترجمہ یہ ہے:
" تم نہ عبادت کرو گے مگر وہ اسی (اللہ) کی ہوگی جس چيز کی بھی عبادت کرو گے"
اس کا مطلب یہ ہے کہ تم خواہ کسی انسان کو سجدہ کرو یا قبر کو یا کسی مجسمے اور بت کو وہ درحقیقیت اللہ ہی کی عبادت ہوگی' کلمہ توحید: " لاالہ الااللہ" کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ " اللہ کے سوا کوئی چيز موجود نہیں" صوفیاء کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ "لا موجود الا اللہ"یعنی دنیا میں اللہ کے سوا کوئی چيز موجود نہیں- الہ کا ترجمہ موجود کرکے اہل تصوف نے کلمہ توحید سے اپنا نظریہ وحدۃ الوجود ثابت کردیا لیکن ساتھ ہی کلمہ توحید کی کمہ شرک میں بدل ڈالا:
" فبدّل الذین ظلمو قولا غیر الذی قیل لھم"
( جو بات ان سے کہی گئي تھی ظالموں نے اسے بدل کر کچھ اور کردیا)
سورہ بقرہ آیت 59

باطنیت کے پردے میں کتاب و سنت کے احکامات اور عقائد کی من مانی تاویلوں کے علاوہ اہل تصوف نے کیف، جذب، مستی، استغراق، سکر (بے ہوشی) اور صحو (ہوش) جیسی اصطلاحات وضع کرکے جسے چاہا حلال کردیا جسے چاہا جرام ٹھرادیا، ایمان کی تعریف یہ کی گئی یہ دراصل عشق حقیقی (عشق الہی) دوسرا نام ہے اس کے ساتھ ہی یہ فلسفہ تراشا گیا کہ عشق حقیقی کا حصول عشق مجازی کے بغیر ممکن ہی نہیں چنانچہ عشق مجازی کے لوازمات، غنا، موسیقی، رقص وسرور، سماع، وجد، حال وغیرہ اور حسن و عشق کی داستانوں اور جام و سبو کی باتوں سے لبریز شاعری مباح ٹھری-
"شیخ حسین لاہوری المعروف مادھو لال جن کے ایک برہمن لڑکے کے ساتھ عشق کے بارے میں "خزینتہ الاصفیاء" میں لکھا ہے کہ "وہ بہلول دریائی کے خلیفہ تھے 36 سال ویرانے میں ریاضت و مجاہدہ کیا رات کا داتا گنچ بخش کے مزار پر اعتکاف میں بیٹھے- آپ نے طریقہ ملامتیہ اختیار کیا چار ابروکا صفایا، ہاتھ میں شراب کا پیالہ، سرور و نغمہ،چنگ و رباب، تمام قیود شرعی سے آزاد جس طرف چاہتے نکل جاتے"
(شریعت و طریقت، ص:204)
یہ ہے وہ باطنیت کہ جس کے خوشنما پردے میں اہل ہوا و ہوس دین اسلام کے عقائد ہی نہیں اخلاق اور شرم و حیا کا دامن بھی تار تار کرتے رہے اور پھر بھی بقول مولانہ الطاف حسین حالی رحمہ اللہ:
"نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے"

قارئین کرام! فلسفہ وحدۃ الوجود اور حلول کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گمراہی کا یہ مختصر سا تعارف ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کو الحاد اور کفر و شرک کے راستہ پر ڈالنے میں اس باطل فلسفہ کا کتنا بڑا حصہ ہے؟
ہندو پاک کا قدیم مذھب' ہندومت

1500 سال قبل مسیح، جہاں گرد آرین اقوام وسط ایشیاء سے آکر سندہ کے علائقے ہڑپہ اور موہنجوڈارو میں آباد ہوئيں- یہ علاقے اس وقت برصغیر کی تہذیب و تمدن کا سر چشمہ سمجھے جاتے تھے- ہندوؤں کی پہلی مقدس کتاب "رگ وید" انہی آرین اقوام کے مفکرین نے لکھی جو ان کی دیوی دیوتاؤں کی عظمت کے گیتوں پر مشتمل ہے- یہیں سے ہندو مذھب کی ابتداء ہوئی-
( مقدمہ ارتھ شاستر،ص:59)
جس کا مطلب یہ ہے کہ ہندو مذھب گوشتہ ساڑھے تین ھزار سال سے برصغیر کی تہذیب و تمدن، معاشرت اور مذاھب پر اثرانداز ہوتا چلا آرہا ہے-
ہندو مت کے علاوہ بدھ مت اور جین مت کا شمار بھی قدیم ترین مذاھب میں ہوتا ہے بدھ مت کا بانی گوتم بدھ 483 ق-م میں پیدا ہوا اور 563 ق-م میں 80 سال کی عمر میں فوت ہوا جبکہ جین مت کا بانی مہاویر جین 527 ق-م میں پیدا ہوا اور 72 سال کی عمر میں 599 ق-م میں فوت ہوا، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں مذاھب بھی کم از کم 4 یا 500 سال قبل مسیح سے برصغیر کی تہذیب و تمدن، معاشرت اور مذاھب پر اثر انداز ہورہے ہیں-
ہندو مت، بدھ مت اور جین مت تینوں مذاھب وحدۃ الوجود اور حلول کے فلسفہ پر ایمان رکھتے ہیں- بدھ مت کے پیروکار گوتم بدھ کو اللہ تعالی کا اوتار سمجھ کر اس کے مجسموں اور مورتیوں کی پوجا اور پرستش کرتے ہیں، جین مت کے پیروکار مہاویر کے مجسمے کے علاوء تمام مظاہر قدرت مثلا سورج، چاند، ستارے، حجر، شجر، دریا، سمندر، اگ اور ہوا وغیرہ کی پرستش کرتے ہیں، ہندو مت کے پیروکار اپنی اپنی قوم کی عظیم شخصیات (مرد و عورت) کے مجسموں کے علاوہ مظاہر قدرت کی پرستش بھی کرتے ہیں ہندو عتب میں اس کے علاوہ جن چيزوں کو قابل پرستش کہا گیا ہے ان میں گائے (بشمول گائے کا مکھن، دودھ، گھی، پیشاب اور گوبر) بیل، آگ پیپل کا درخت، ہاتھی، شیر، سانپ، چوہے، سور اور بندر ھبی شامل ہین ان کے بت اور مجسمے بھی عبادت کے لیے مندروں میں رکھے جاتے ہیں عورت اور مرد کے اعضاء تناسل بھی قابل پرستش سمجھے جاتے ہیں چنانچہ شوجی مہاراج کی پوچا اس کے مردانہ عصو تناصل کی پوجا کرکے کی جاتی ہے اور شکتی دیوی کی پوجا اس کے زنانہ عضو تناسل کی پوجا کرکے کی جاتی ہے-
برصغیر میں بت پرستی کے قدیم ترین تینوں مذاھب کے محتصر تعارف کے بعد ہم ہندو مذھب کی بعض تعلیمات کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ اندازہ کیا جاسکے کہ برصغیر پاک و ہند میں شرک کی اشاعت اور توریج میں ہندومت کے اثرات کس قدر گہرے ہیں۔ ان شاءاللہ
ہندومذھب میں عبادت اور ریاضت کے طریقے

ہندو مذھب کی تعلیمات کے مطابق نجات حاصل کرنے کے لیے ہندو دور جنگلوں اور غاروں میں رہتے اپنے جسم کو ریاضتوں سے طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتے- گرمی ، سردی، بارش اور رتیلی زمینوں پر ننگے بدن رہنا اپنی ریاضتوں کا مقدس عمل سمجھتے جہاں یہ اپنے آپ کو دیوانہ وار تکلیفیں پہنچا کر انگاروں پر لوٹ کر، گرم سورج میں ننگے بدن بیٹھ کر، کانٹوں کے بستر پر لیٹ کر، درخت کی شاخوں پر گھنٹوں لٹک کر اور اپنے ہاتھوں کو بے حرکت بناکر، یا سر سے اونچا لے جاکر اتنے طویل عرصے تک رکھتے تاکہ وہ بے حس ہوجائيں اور سوکھ کر کانٹا بن جائيں-
ان جسمانی آزار کی ریاضتوں کے ساتھ ہندومت میں دماغی اور روحانی مشقتوں کو بھی نجات کا ذریعہ سمجھا جاتا چنانچہ ہندو تنہا شہر سے باہر غور وفکر میں مصروف رہتے اور ان میں سے بہت سے جھونپڑیوں میں اپنے گرو کی رہنمائی میں گروپ بناکر بھی رہتے- ان میں سے کجھ گروپ بھیک پر گزارہ کرتے ہوئے سیاحت کرتے ان میں سے کچھ مادرزاد برہنہ رہتے اور کچھ لنگوٹی باندھ لیتے- بھارت کے طول و عرض میں اس قسم کے چٹادھاری یا ننگ دھڑنگ اور خاکستر میلے سادھوؤں کی ایک بڑی تعداد جنگلوں، دریاؤں اور پہاڑوں میں کثرت سے پائی جاتی ہے، اور عام ہندو معاشرے میں ان کی پوجا تک کی جاتی ہے-
(مقدمہ ارتھ شاستر:99)
روحانی قوت اور ضبط نفس کے حصول کی خاطر ریاضت کا اہم طریقہ "يوگا" ایجاد کیا گیا جس پر ہندو مت، بدھ مت اور جین مت کے پیروکار بھی عمل کرتے ہیں اس طریقہ ریاضت میں یوگی اتنی دیر تک سانس روک لیتے ہیں کہ موت کا شبہ ہونے لگتا ہے دل کی حرکت کا اس پر اثر نہیں ہوتا- سردی گرمی ان پر اثر انداز نہیں ہوتی يوگی طویل ترین فاقے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں- ارتھ شاستر کے نامہ نگارکا اس طرز ریاضت پر تبصرہ کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں کہ یہ ساری باتیں مغربی علم الاجسام کے ماہرین کے لیے تو حیران کن ہوسکتی ہے لیکن مسلمان صوفیاء کے لیے چنداں حیران کن نہیں، کیونکہ اسلامی تصوف کے بہت سے سلسلوں بالخصوص نقشبندی کے سلسلے فنا نی اللہ یا فنا فی الشیخ یا ذکر قلب کے اوراد میں حبس دم کے کئے طریقے ہیں جن پر صوفیاء عالم ہوتے ہیں-
( مقدمہ ارتھ شاستر:129)

يوگا عبادت کا ایک بھیانک نظاوہ سادھوؤں اور يوگیوں کا دہکتے ہوئے شعلہ نشاں انگاروں پر ننگے قدم چلنا اور بغیر جلے سالم نکل آنا، تیز دھار نوکیلے خنجر سے ایک گال سے دوسرے گال تک اور ناک کے دونوں حصوں تک اور دونوں ہونٹوں کے آرپارخنجر اتاردینا اور اس طرح گنٹوں کھڑے رہنا' تازہ کانٹوں اور نوکیلے کیلوں کے بستر پر لکٹے رہنا یا رات دن دونوں پیروں یا ایک پیر کے سہارے کھڑے رہنا یا ایک ٹانگ اور ایک ہاتھ کو اس طویل عرصہ تک بے مصروف بنادیا کہ وہ سوکھ جائے یا مسلسل الٹے لٹکے رہنا، ساری عمر ہر موسم اور بارش میں برہنہ رہنا، تمام عمر سنیاسی یعنی کنوارا رہنا یا اپنے تمام اہل خانہ سے الگ ہوکر بلند پہاڑوں کے غاروں میں گیان کرنا وغیرہ بھی يوگا عبادت کے مختلف طریقے ہیں- اسے ہندو يوگی ہندو دھرم یا دیدانت یعنی تصوف کے مظاہر قرار دیتے ہیں-
(مقدمہ ارتو شاستر:130)

ہندو مت اور بدھ مت میں جنتر منتر اور جادو کے ذریعے عبادت کا طریقہ بھی رائج ہے، عبادت کا یہ طریقہ اختیار کرنے والوں کو " تانترک" فرقہ کہتے ہیں یہ لوگ جادوئی منتر جیے آدم منی :پدمنی او: يوگا کے انداز میں گیان دھیان کو نجات کا ذریعہ سمجتھے ہیں قدیم ویدھ لٹریچر بتاتا ہے کہ سادھو اور ان کے بعض طبقات جادو اور سفلی عملیات پر مہارت حاصل کرنے کے عمل دھرایا کرتے تھے اس فرقہ میں تیز بے ہوش کرنے والی شرابوں کا پینا، گوشت اور مچھلی کھانا، جنسی افعال کا بڑھ چڑھ کر کرنا، غلاظتوں کو غذا بنانا مذھبی رسموں کے نام پر قتل کرنا جیسی قبیح اور مکروہ حرکات بھی عبادت سمجھی جاتی ہیں- (مقدمہ ارتھ شاستر:117)
ہندو بزرگوں کے مافوق الفطرت اختیارات

جس طرح مسلمانوں کے غوث، قطب، نجیب، ابدال، ولی۔ فقیر اور درویش وغیرہ مختلف مراتب اور مناصب کے بزرگ سمجھے جاتے ہیں، جنہیں مافوق الفطر قوت اور اختیارات حاصل ہوتے ہیں اسی طرح ہندوؤں میں رشی، منی، مہاتما، اوتار، سادھو، سنیاسی، یو‏ی، گیانی، شاستری اور چتھرویدی وغیرہ مختلف مراتب اور مناصب کے بزرگ سمجھے جاتے ہیں جنہیں مافوق الفطرت قوت اور اختیارات حاصل ہوتے ہیں- ہندوؤں کی مقدس کتابوں کے مطابق یہ بزرگ ماضی، حال اور مستقبل کو دیکھ سکتے ہیں، جنت میں دوڑتے ہوئے جاسکتے ہیں، دیوتاؤں کے دربار میں ان کا بڑے اعزاز سے استقبال کیا جاتا ہے۔ یہ اتنی زبردست جادوئی طاقت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر چاہیں تو پہاڑوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں، یہ ایک نگاہ سے دشمنوں کو جلا کر خاکستر کر سکتے ہیں، تمام فصلوں کو برباد کرسکتے ہیں، اگر خوش ہوجائيں تو تو پورے شہر کو تباہی سے بچالیتے ہیں، دولت میں زبردست اظافہ کرسکتے ہیں، قحط سالی سے بچاسکتے ہیں، دشمنوں کے حملے روک سکتے ہیں-
(مقدمہ ارتھ شاستر:99-100)-

منی وہ مقدس انسان ہیں جو کوئی کپڑا نہیں پہنتے، ہوا کو بطور لباس استعمال کرتے ہیں، جن کی غذا ان کی خاموشی ہے، وہ ہوا میں اڑ سکتے ہیں اور پرندوں سے اوپر جاسکتے ہیں، یہ منی تمام انسانوں کے اندر پوشیدہ خیالوں کو جانتے ہیں کیونکہ انہوں نے وہ شراب پی ہوئی ہے جو عام انسانوں کے لیے زہر ہے- (بحوالہ سابق)
شیو جی کے بیٹے لارڈ گنیش کے بارے میں ہندوؤں کا عقیدہ ہےکہ وہ کسی بھی مشکل کو آسان کرسکتے ہیں اگر چاہیں تو کسی کے لیے بھی مشکل پیدا کرسکتے ہیں اس لیے بچہ جب پڑھنے کی عمر کو پہنچتا ہے تو سب سے پہلے اسے گنیش کی پوجا کرنا ہی سکھایا جاتا ہے-
(بحوالہ سابق: 98)

ہندو بزرگوں کی بعض کرامات

ہندوؤں کی مقدس کتب میں اپنے بزرگوں سے منسوب بہت سی کرامات کا تذکرہ ملتا ہے ہم یہاں چند مثالوں پر ہی اکتفا کریں گے-

1/ ہندوؤں کی مذھبی کتاب رامائن میں رام اور راون کا طویل قصہ دیا گیا ہے کہ رام اپنی بیوی سیتا کے ساتھ جنگلات میں زندگی بسر کررہا تھا کہ لنکا کا راجہ راون اس کی بیوی اغوا کرکے لے گیا راو نے ہنو مان (بندروں کے شہنشاہ) کی مدد سے خونی جنگ کے بعد اپنی بیوی واپس حاصل کرلی لیکن مقدس قوانین کے تحت اسے بعد میں الگ کردیا گیا- سیتا یہ غم برداشت نہ کرسکی اور اپنے آپ کو ہلاک کرنے کے لیے آگ میں کود گئی، اگنی دیوتا جو مقدس آگ کے مالک ہیں انہوں نے آگ کو حکم دیا کہ بجھ جائے اور سیتا کو نہ جلائے اس طرح سیتا دہکتی آگ سے سالم نکل آئی اور اپنے بے داغ کردار کا ثبوت فراہم کردیا- (مقدمہ ارتھ شاستر: 101-102)

2/ ایک بار بدھ مت کے درویش (بھکشو) نے یہ معجزہ دکھایا کہ ایک پتھر سے ایک ہی رات میں اس نے ھزاروں شاخوں والا آم کا درخت پیدا کردیا-

3/ محبت کے دیوتا (کاما) اور اس کی دیوی (رتی) اور ان دونوں دیوی دیوتاؤں کے دوست خاص طور سے موسم بہار کے خدا جب باہم کھیلتے تو "کاما دیوتا" اپنے پھولوں کے تیروں سے "شیو دیوتا" پر بارش کرتے اور شیو دیوتا اپنی تیسری آںکھ سے ان تیروں پر نگاھ ڈالتے تو تو یہ تیر بھجی ہوئی خاک کی شکل میں تباہ ہوجاتے اور وہ ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہتا کیونکہ وہ جسمانی شکل سے آزاد تھا- (مقدمہ ارتھ شاستر:90)

ہندو مت کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مسلمانوں کے ایک بڑے فرقے 'اہل تصوف" کے عقائد اور تعلیمات ہندو مذھب سے کس قدر متاثر ہیں عقیدہ وحدۃ الوجود اور حلول یکساں- عبادت اور ریاضت کے طریقے یکساں- بزرگوں کے مافق الفطرت اختیارات یکساں اور بزرگوں کی کرامات کا سلسلہ بھی یکساں- اگر کوئی فرق ہے تو وہ ہے صرف ناموں کا- تمام معاملات میں ہم آہنگی اور یکسانیت پالینے کے بعد ہمارے لیے ہندوستان کی تاریخ میں ایسی مثالیں باعث تعجب نہیں رہتیں کہ ہندو لوگ، مسلمانوں پیروں فقیروں کے مرید کیوں بن گئے اور مسلمان ہندو سادھوں اورجوگیوں کے گیان دھیان میں کیوں حصہ لینے لگے- اس اختلاط کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت جس اسلام پر آج عمل پیرا ہے اس پر کتاب و سنت کی بحائے ہندو مذھب کے نقوش کہیں زیادہ گہرے اور نمايا ہے۔
اس سلسلہ میں چند صوفیوں کی مثالیں ملاحظہ کیجیے:

1/ ذھدۃ العارفین قدوۃ السالکین حافظ غلام قادر اپنے زمانے کے قطب الاقطاب اور غوث الاغواث اور محبوب خدا تھے جن کا فیض روحانی ہر عام و خاص کے لیے اب تک جاری ہے یہی وجہ تھی کہ ہندو، سکھ، عیسائی، ہر قوم اور فرقہ کے لوگ آپ سے فیض روحانی حاصل کرتے تھے، آپ کے عرس میں تمام فرقوں کے لوگ حاضر ہوتے تھے آپ کے تمام مریدان با صفا فیض روحانی سے مالا مال اور پابند شرع شریف ہیں- (ریاض السالکین ص:272 بحوالہ شریعت و طریقت ص:477)

2/ اسماعیلیہ فرقہ کے پیر شمس الدین صاحب کشمیر تشریف لائے تو تقیہ کرکے اپنے آپ کو یہاں کے باشندوں کے رنگ میں رنگ لیا ایک دن ہندو دسہرے کی خوشی میں گربا رقص کررہے تھے پیر صاحب بھی اس رقص میں شریک ہوگئے اور 28 گربا کیت تصنیف فرمائے-

3/ پیر صدر الدین صاحب (اسماعیلی) نے ہندوستان میں آکر اپنا ہندووانہ نام "ساہ دیو" (بڑا درویش) رکھ لیا اور لوگوں کو بتایا کہ وہ وشنو کا دسواں اوتار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکل میں ظاہر ہوچکا ہے، اس کے پیرو صوفیوں کی زبان میں محمد اور علی کی تعریف کے بھجن گیا کرتے تھے- (اسلامی تصوف میں غیر اسلامی تصوف کی آمیزش، ص:32-33)
یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے
صنم کندہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ

(اردو مجلس سے اخذ کردہ)
 

خرم

محفلین
خلیل کافی لمبی بات لکھ دی آپ نے۔ ایک سادہ سا سوال۔ جتنے بھی بزرگ صوفیاء کے نام آپ نے گنوائے، کوئی حوالہ کہ ان میں سے کسی نے کبھی نماز قضا کی ہو؟ اپنی مردہ اولاد کو زندہ کیا ہو (زور اپنی پر ہے)؟ ارکان اسلام کے متعلق کوتاہی کی ہو؟ کوئی ایسی مثال؟
آصف بن برخیاہ کے متعلق کیا جانتے ہیں آپ؟
اولیاء کی کرامات کا تذکرہ کیا آپ نے۔ اس میں‌آپ کا اعتراض کیا ہے؟ کیا ان کا خلاف عقل ہونا؟ کیا صرف یہی کافی ہے؟
عبادات کے متعلق جو آپ نے اعتراضات بیان کئے ہیں ان کی ممانعت کہیں ہو کسی حدیث میں تو ہمیں بھی پڑھا دیجئے۔
ابن تیمیہ کے اعتراضات کے متعلق صرف اتنا ہی کہوں گا کہ جو ان کی سمجھ تھی اس کے مطابق انہوں نے غالباَ درست کہا۔
اور ہندو مت کی اصل کے بارے میں کیا جانتے ہیں آپ؟ لفظ ہندو کا کیا مطلب ہے؟ یہ بیان کیجئے گا ذرا۔
 

خلیل بہٹو

محفلین
جتنے بھی بزرگ صوفیاء کے نام آپ نے گنوائے، کوئی حوالہ کہ ان میں سے کسی نے کبھی نماز قضا کی ہو؟ اپنی مردہ اولاد کو زندہ کیا ہو (زور اپنی پر ہے)؟ ارکان اسلام کے متعلق کوتاہی کی ہو؟ کوئی ایسی مثال؟

اس سوال کا جواب گذشتہ صفحات میں دیا جاچکا ہے۔ ذرا غور فرمائیے۔

اولیاء کی کرامات کا تذکرہ کیا آپ نے۔ اس میں‌آپ کا اعتراض کیا ہے؟ کیا ان کا خلاف عقل ہونا؟ کیا صرف یہی کافی ہے؟


تقریبا تین چار لاکھ صحابہ سے ، جو پوری ایک صدی پر پھیلا ہوا دور ہے تو دس بارہ سے زیادہ کرامات وقوع پذیر نہیں ہوئیں (از روئے صحیح احادیث) ۔ لیکن صوفیاء کے ایک ایک بزرگ سے بیسیوں بلکہ سینکڑوں کرامات وقوع پذیر ہونا تذکروں سے ثابت ہوتا ہے۔ اور بسا اوقات یہ کرامات اتنی رفیع الشان ہوتی ہیں کہ ان کے مقابلہ میں انبیاء کے معجزے ہیچ نظر آنے لگتے ہیں۔

عبادات کے متعلق جو آپ نے اعتراضات بیان کئے ہیں ان کی ممانعت کہیں ہو کسی حدیث میں تو ہمیں بھی پڑھا دیجئے۔


تو جناب آپ ہی ثابت کردیجئے کہ کس حدیث میں اس طرح عبادت کی اجازت دی گئی ہے۔ بلکہ عبادت کا جو طریقہ کار نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے، یہی ہمارے لیئے حجت ہے۔ اس کے علاوہ وہ تمام طریقے جو ان حضرات نے بنائے ہیں، بدعت کے زمرہ میں آتے ہیں اور نبی پاک صہ کا فرمان ہے کہ "ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔"


ابن تیمیہ کے اعتراضات کے متعلق صرف اتنا ہی کہوں گا کہ جو ان کی سمجھ تھی اس کے مطابق انہوں نے غالباَ درست کہا۔


کمال ہے، درست ماننے کے بعد آپ کے سوالات کوئی معنیٰ نہیں رکھتے۔

اور ہندو مت کی اصل کے بارے میں کیا جانتے ہیں آپ؟ لفظ ہندو کا کیا مطلب ہے؟ یہ بیان کیجئے گا ذرا۔

ہندو مت کو مختصرا جاننے کیلئے اس کتاب کا صفحہ 83 ملاحظہ فرمائیں۔ نیز ہندومت کے عقائد اور اطوار بھی ذہن نشین فرمائیں۔
http://www.fileden.com/files/2009/2/17/2326687/Aqeeda Toheed -- Soofiat ya Hindomat.pdf
 

خرم

محفلین
خلیل بہت افسوس کہ آپ کا جواب ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو علمی تحقیق کی عادت نہیں۔
میرے پہلے سوال کا جواب آپ نے غلط دیا۔ آپ نے کہیں بھی کسی بھی ولی سے نقص شریعت کا الزام ثابت نہیں کیا۔ مجذوب کے لئے کیونکہ شریعت کی قید ہی نہیں سو وہ اس زمرہ میں آتے ہی نہیں۔
دوسرے سوال کا جواب آپ پی گئے۔
تیسرے سوال کے جواب میں آپ تین سے چار لاکھ صحابہ شمار کروا دئیے۔ یہ گنتی کہاں سے لی؟ صحابہ کی کرامات کے بارے میں آپ کی معلومات کم ہیں۔ اور کیا کرامت اور معجزہ میں فرق جانتے ہیں آپ؟ بہت بڑی جسارت ہے کہہ دینا کہ کرامات کے مقابلے میں انبیاء کے معجزے ہیچ نظر آتے ہیں۔ ایسا بکنے سے پہلے سوچ لیا کرتے ہیں۔ کسی ولی نے تو ایسی گمراہ کن بات نہ کہی۔ جو لوگ ایسی باتیں پھیلاتے ہیں ان کا فہم دین تو ہر دیدہ ور کو سمجھ آ جانا چاہئے۔
تیسرے سوال کا جواب ٹریڈ مارک رجسٹرڈ تھا۔ ویسے اصول شرع یہ ہے کہ اگر کسی چیز کی ممانعت نہیں تو وہ جائز ہے۔ آپ کو علم ہے کیا؟
میں نے ابن تیمیہ کو درست نہیں کہا۔ صرف اتنا کہا ہے کہ اپنی فہم کے مطابق انہوں نے غالباَ درست کہا۔ میں ان کے نیت کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوں لیکن ان کے عقائد سے اختلاف۔
اور جن صاحب کی آپ نے کتاب کا حوالہ دیا انہیں تو ہندو مت کی الف بے بھی نہیں پتا۔ انہیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ ہندو کہتے کسے ہیں۔ اگر اب آپ کو کہوں کہ اصل میں آپ "ہندو" ہیں تو لٹھ لیکر میرے پیچھے پڑ جائیں گے آپ حالانکہ حقیقت یہی ہے۔ غصہ کرنے سے پہلے لفظ "ہندو" کے متعلق تحقیق کیجئے وگرنہ یہ خاکسار ہی عرض کردے گا۔
 

خلیل بہٹو

محفلین
۱- آپ نے کہیں بھی کسی بھی ولی (صوفی) سے نقص شریعت کا الزام ثابت نہیں کیا۔ مجذوب کے لئے کیونکہ شریعت کی قید ہی نہیں سو وہ اس زمرہ میں آتے ہی نہیں۔

* پس ثابت ہوا کہ مجذوب کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ اور مجذوب کی پیروی کرنا عقیدہ کی بربادی ہے۔ صوفیا کی طریقت کو شریعت پر بالادستی حاصل ہے۔ جیساکہ مثالوں کے ذریعے گذشتہ اقتباس میں ثابت کیا جاچکا ہے۔ خرم بھائی کی تسلی کی خاطر یہاں مختصراً بیان کرتا ہوں:

خواجہ فرید الدین گنج شکر فرماتے ہیں:
"ایک مرتبہ میں شیخ معین الدین (اپنے دادا) کی خدمت میں حاضر تھا اور اہلِ صُفہ بھی موجود تھے۔ اولیاء اللہ کا ذکر ہورہا تھا لہ اتنے میں ایک شخص آیا اور بیعت کے لئے پابوسی کی۔ آپ نے اس کو بٹھالیا۔ اُس نے عرض کی میں مُرید ہونے آیا ہوں۔ فرمایا جو کچھ ہم کہیں گے کرے گا۔ اگر یہ شرط منظور ہے تو بیشک میں مرید کرلوں گا۔ اس نے کہا جو کچھ آپ کہیں گے، وہی کروں گا۔ آپ نے فرمایا کہ تو اس طرح کلمہ پڑتا ہے: "لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ" ایک بار اس طرح پڑھ "لا الہ الااللہ چشتی رسول اللہ"۔ چونکہ راسخ العقیدہ تھا، اس نے فورا پڑھ لیا۔ خواجہ نے بیعت لی اور بہت کچھ خلعت و نعمت عطا کی اور فرمایا میں نے فقط تیرا امتحان لیا تھا کہ تجھ کو مجھ سے کس قدر عقیدت ہے۔ ورنہ میرا مقصود نہ تھا کہ تجھ سے اس طرح کلمہ پڑہوائوں۔" (فوائد السالکین ملفوظات قطب الدین بختیار کاکی – مرتب فرید الدین گنج شکر، ترجمہ غلام احمد ص126، 127 – بحوالہ شریعت و طریقت از مولانا عبدالرحمٰن کیلانی)

اسی طرح کا ایک ٹیسٹ شیخ شبلی نے بھی ایک شخص سے لیا تھا۔ (فوائد الفواد، ملفوظات خواجہ نظام الدین اولیاء مرتب خواجہ حسن دہلوی ترجمہ پروفیسر محمد سرور)

ان واقعات کی تصدیق حکیم الامت اشرف علی تھانوی رحہ نے بھی فرمائی ہے۔ وہ اپنی کتاب "التکشف" میں لکھتے ہیں کہ تھانہ بھون کے پیر صادق صاحب کلمہ لا الہ الااللہ صادق رسول اللہ کو آزمائش کے طور پر استعمال کرتے تھے اور پھر چشتی رسول اللہ اور شبلی رسول اللہ کی طرح اس کے بعد معذت بھی نہیں کرتے تھے۔ اُن کے نزدیک یہ کلمہ بالکل صحیح تھا۔

عبدالوہاب شعرانی کہتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے غیب سے ندا دیتے ہوئے قرآن پڑہنے سے روکا ہے۔ (فصائح صوفیاء ص۸)

دیکھئے کس طرح شعرانی صاحب نے اللہ پر جھوٹ گھڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں کہ:
افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالہا
ترجمہ: کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر قفل لگ گئے ہیں۔

فذکر بالقرآن من یخاف وعید
ترجمہ: (اے محمد صہ) جو شخص ہمارے (عذاب) کی وعید سے ڈرتا ہے، ان کو قرآں سے نصیحت کرتے رہو۔"

یایہا المزمل قم اللیل الا قلیلا نصفہ او انقص منہ قلیلا او زد علیہ ورتل القرآن ترتیلا
ترجمہ: (اے محمد صہ) جو کپڑے میں لپیٹ رہے ہو، رات کو قیام کرو مگر تھوڑی سی رات، نصف یا اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ اور اس میں قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔

اب خرم صاحب بتائیں کہ کلمہ کفر پڑہوانا اور قرآن پڑہنے سے روکنے پر کیا نقص شریعت ثابت نہیں ہوتا؟

نیز چند مشہور صوفیاء کے عقائد ملاحظہ فرمائیں:
- ابن عربی جسے صوفیاء شیخ اکبر کا لقب دیتے ہیں، کا عقیدہ تھا کہ خالق و مخلوق میں کوئی فرق نہیں ہے، اللہ ہی خالق ہے اور مخلوق ہی اللہ ہے۔ اپنے اس الحادی عقیدہ کی تعبیر یوں کرتا ہے: (وہ اللہ میری اور میں اس کی حمد بیان کرتا ہوں، وہ میری اور میں اس کی عبادت کرتا ہوں۔)
- جنید بغدادی نو آموز لوگوں کے لئے یہ شروط رکھتا ہے کہ وہ تین چیزوں میں اپنے آپ کو مشغول نہ رکھیں: طلب رزق، طلب حدیث اور شادی۔
- ابو یزید بسطامی نے اپنی الوہیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے: سبحانی سبحانی ما اعظم شانی (میری ذات "پاک ہے پاک ہے کیا ہی میری عظیم شان ہے۔"
- غوث اعظم کے بارے میں صوفی ضیاء اللہ قادری سیرت غوث الثقلین کے صفحہ ۱۹۸ پر فرماتے ہیں ہیں کہ "منتخب جواہر القلائد میں ہے کہ ایک دن ایک عورت غوث پاک کے پاس آئی اور عرض کی کہ دعا فرمائیں اللہ مجھے اولاد عطا فرمائے۔ آپ نے لوح محفوظ کا مشاہدہ فرمایا، وہاں اس عورت کی اولاد نہیں لکھی ہوئی تھی، تاہم آپ نے اللہ سے دو بیٹوں لی التجا کی، ندا آئی کہ لوح محفوظ میں تو ایک بھی بیٹا نہیں لکھا ہوا اور آپ دو بیٹوں کا سوال کرتے ہیں؟ آپ نے تین بیٹوں کے لئے عرض کیا، تو یہی جواب ملا۔ آپ نے چار بیٹوں کا سوال کیا، پھر وہی جواب ملا، پھر پانچ کا سوال کیا تو وہی جواب ملا، پھر چھ کا سوال کیا تو وہی جواب ملے۔ آپ نے سات بیٹوں کا سوال کیا تو ندا آئی، اے غوث اتنا ہی کافی ہے اور یہ بشارت بھی ملی کہ اللہ تعالیٰ اس عورت کو سات لڑکے عطا فرمائے گا۔"
- شیخ اکبر اپنی کتاب "فصوص الحکم" کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: "میں نے اسے لوح محفوظ سے نقل کیا ہے۔ بعد میں سن627 ہجری کے محرم میں رسول اللہ کو دمشق کے شہر محروسہ میں دیکھا۔ آپ کے ہاتھ میں کتاب تھا، آپ صہ نے فرمایا: یہ کتاب فصوص الحکم ہے، اس کو محفوظ کرو اور لوگوں کے سامنے پیش کرو، تاکہ انہیں فائدہ حاصل ہو۔ چنانچہ میں نے آپ کے حکم کے مطابق اسے لوگوں میں پھیلانے کا پختہ ارادہ کرلیا اور اس میں کمی بیشی کرنا میرے لئے ممکن نہ رہا۔" (فصوص الحکم ص47، 48)
- نیز آپ نے اپنی کتاب "فصوص الحکم" میں فرعون کو مسلمان لکھا ہے اور یہ کہ قوم نوح مشرک نہیں تھی۔
- مشہور صوفی عفیف الدین تلمسانی فرماتے ہیں: "قرآن میں توحید ہے کہاں؟ وہ تو پورے کا پورا شرک سے بھرا پڑاہے، جو شخص اس کی اتباع کرے گا وہ کبھی توحید کے بلند مرتبے پر نہیں پہنج سکتا۔" (شریعت و طریقت ص:152، امام ابن تیمیہ از کوکن عمری ص:321)

کیا یہ تمام عقائد رکھنے کے باوجود بھی نقص شریعت ثابت نہیں ہوتا؟؟

انا الحق کا نعرہ
حسین بن منصور حلاج مشہور صوفی گذرے ہیں، جنہوں نے "انا الحق" کا نعرہ لگایا۔ حالانکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ ان کا عقیدہ مسلمانوں کے متفقہ عقیدے کے خلاف ہے۔ حلاج کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
عقد الخلائق فی الالہ عقائد
وانا اعتقدت جمیع ما اعتقدوا
(الٰہ کے بارے میں لوگوں کے بہت سے عقیدے ہیں اور میں ان سب عقیدوں پر عقیدہ رکھتا ہوں۔)
کفرت بدین اللہ والکفر واجب
لدی وعند المسلمین قبیح
(میں اللہ کے دین سے کفر کرتا ہوں اور یہ کفر میرے لئے واجب ہے جب کہ تمام مسلمانوں کے نزدیک یہ بُرا ہے۔)

نیز آپ کے یہ اشعار بہت مشہور ہیں:
سبحان من اطہرنا سوتہ
سر سنا لاہوتہ المثاقب
(پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے ناسوت (یعنی حسین بن منصور حلاج) کو اپنے لاہوتِ ثاقب کی چمک کا راز بناکر ظاہر کیا۔)
ثم بدا فی خلقہ ظاہرا
فی صورت الاکل والشارب
(پھر وہ اپنی مخلوق میں ایک کھانے اور پینے والے کی صورت میں ظاہر ہوا)
حتی لقد عاینہ خلقہ
کلحظة الحاجب بالحاجب
(یہاں تک کہ اس کی مخلوق نے اس کو اس طرح دیکھا، جس طرح ایک دیکھنے والا دوسرے کو دیکھتا ہے۔)
(تاریخ بغداد للخطیب بغداد ص۱۲۹ ج۸)
حلاج نے اپنے متعلق دین سے ارتداد اور کفر کا فتویٰ خود ہی دے دیا۔ آخرکار جب سمجھانے کے باوجود وہ اپنے عقیدہ سے باز نہ آیا تو بالاخر خلیفہ بغداد المقتدر باللہ نے ۲۴ ذی قعیدہ ۳۰۹ہجری (۹۱۴ء) کو اسے بغداد میں قتل کروادیا اور اس "خدا" کی لاش جلاکر دریا میں پھینک دی۔

صوفیاء کی نظر میں حلاج کا مقام
علی ہجویری حلاج کی مدح میں رقمطراز ہیں:
"انہیں میں سے مستغرق معنیٰ ابوالغیث حضرت حسین بن منصور حلاج رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ سرمستان بادہ وحدت اور مشتاقِ جمالِ احدیث گذرے ہیں اور نہایت قوی الحال مشائخ تھے۔" (کشف المحجوب مصنف علی ہجویری ص۳۰۰)
پھر فرماتے ہیں: "دیکھتے نہیں کہ حضرت شبلی رحمہ اللہ حضرت حسین بن منصور کی شان میں کیا فرمارہے ہیں۔ آپ کا اعلان ہے: انا والحلاج فی شیء واحد فخلفی جنونی واہلکہ عقلہ یعنی میں اور حسین بن منصور حلاج ایک ہی طریق پر ہیں، مگر مجھے میرے دیوانہ پن نے آزاد کرادیا اور حسین بن منصور کو اس کی عقلمندی نے ہلاک کردیا۔"
مزید لکھتے ہیں: "اگر (معاذ اللہ) وہ بے دین ہوتے تو شبلی رحمہ اللہ علیہ یہ نہ فرماتے کہ میں اور حلاج ایک ہی چیز ہیں۔ حضرت محمد بن خفیف نے فرمایا: ہو عالم ربانی۔ حسین بن منصور حلاج عالم ربانی تھے اور دوسرے نے بھی ان کی بہت تعریف کی اور انہیں بزرگ بتایا۔" (کشف المحجوب ص۴۰۲ بحوالہ توحید خالص ص۳۸)

حضرت علی ہجویری کے بیان سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں:
(۱) یہ بزرگ صحابی نہ ہونے کے باوجود "رضی اللہ عنہ" ہیں۔
(۲) ان کی بزرگی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انہیں شبلی نے اپنا ہم مسلک قرار دیا ہے۔ یہ ایسی دلیل ہے جو تقلید آباء پر ختم ہوجاتی ہے۔

مولانا رومی اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں:
گفت فرعونے انا الحق گشت پست
گفت منصورے انا الحق گشت مست
لعنتہ اللہ ایں انارا در قضا
رحمتہ اللہ این انارا در قضا
ترجمہ: فرعون نے انا الحق کہا تو ذلیل ہوگیا اور منصور نے انا الحق کہا تو (عشق و محبت میں) مست قرار پایا۔ فرعون کی خودی کے لئے تو بعد میں اللہ کی لعنت ہی رہ گئی اور منصور کی خودی کے لئے بعد میں اللہ کی رحمت رہی ہے۔

خواجہ نظام الدین اولیاء حلاج کی بزرگی کے اس قدر قائل تھے کہ آپ نے فرمایا: "ذکر مشائخ کا ہورہا تھا۔ بندہ نے عرض کیا کہ سیدی احمد کسے کہتے تھے؟ آپ نے فرمایا: وہ بزرگ شخص تھے۔ عرب کا قاعدہ ہے کہ جب کسی کو بزرگی سے یاد کرتے ہیں تو اسے سیدی کہتے ہیں۔ وہ شیخ حسین بن منصور حلاج کے زمانے میں تھے۔ جب کہ ان کو جلایا گیا اور ان کی خاک دجلہ میں ڈالی گئی۔ سیدی احمد صاحب نے ذرا سی خاک اس میں سے تبرکاً اٹھاکر کھالی تھی۔ یہ ساری برکتیں اسی سبب سے انہیں حاصل تھیں۔" (فوائد الفواد، ملفوظات نظام الدین اولیاء، مرتبہ: خواجہ حسن دہلوی ص۴۷۱ ترجمہ پروفیسر محمد سرور صاحب، شائع کردہ محکمہ اوقاف پنجاب)
اندازہ لگائیں کہ جب ان کی خاک تبرکاً کھانے سے اتنی برکتیں حاصل ہوجائیں تو ان بزرگ کی بزرگی کا کیا عالم ہوگا۔


نیز حلاج کے متعلق علماء کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
حلاج کے متعلق امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم نے دونوں نے لکھا ہے کہ "وہ کافر تھا اور اس کے متعلق علماء کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا۔"

ابن تیمیہ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
"کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حلاج فنا میں ڈوب گیا اور باطنی حقیقت سے معذور تھا، مگر ظاہری طور پر اس کا قتل واجب تھا اور کچھ دوسرے اسے شہید، فنا فی اللہ، موحد اور محقق کہتے ہیں۔ یہ لوگ شریعت کی پرواہ نہیں کرتے۔"
مزید لکھتے ہیں: "حلاج اپنے کفر کی وجہ سے قتل کیا گیا، وہ قرآن کا معارضہ کرتا تھا۔ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ اگر کسی کا حج فوت ہوجائے تو اپنے ہاں کعبہ بناکر اس کا طواف کرسکتا ہے اور حج کے سوا تمام رسوم ادا کرسکتا ہے اور حج پر جتنی رقم خرچ ہوسکتی ہجو، اس کو صدقہ دے سکتا ہے۔"
آپ مزید لکھتے ہیں: "جنید، عمرو بن عثمان مکی اور ابو یعقوب جیسے جلیل القدر مشائخ نے حلاج کی مذمت کی ہے۔ اگر کوئی شخص حلاج کے متعلق حسنِ ظن رکھتا ہے تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ اصل حالات سے آگاہ نہیں۔" (مجموعہ الرسائل الکبری جلد ۲ ص97 تا 99)

سید سلیمان ندوی رح نے رسالہ معارف ج۲ شمارہ ۴ میں "حسین بن منصور حلاج کی تاریخی شخصیت" کے عنوان سے ایک مضمون چھاپا تھا، جس میں چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
"تاریخ کی کتب اس امر پر متفق ہیں کہ حلاج نیرنگ، شعبدہ بازی اور ہاتھوں کے کھیل میں بہت چالاک اور مشاق تھا۔ روپے برسادیتا تھا۔ طرح طرح کے میوے منگواتا، ہوا میں اُڑتا اور اس کے علاوہ بھی کئی عجائبات دکھلاتا تھا۔ اس کے ایک ہم سفر کا بیان ہے کہ حسین اس کے ساتھ صرف اس غرض سے ہندوستان آیا تھا کہ یہاں کی مشہور شعبدو بازیوں کی تعلیم حاصل کرے۔ چنانچہ اس نے میرے سامنے ایک عورت سے رسی پر چڑھ کر غائب ہوجانے کا فن سیکھا۔ راہ میں گڑھے کھود کر کہیں پانی، کہیں میوہ، کہیں کھانا پہلے سے چھادیتا، پھر اپنے ہمراہیوں کو لے کر اسی سمت میں سفر کرتا اور بوقت ضرورت کرامتوں کے تماشے دکھاتا۔"
سید سلیمان ندوی نے تاریخ سے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک شعبدہ باز اور گمراہ شخص تھا، چنانچہ ابن ندیم کے حوالہ سے، لکھتے ہیں: "حسین بن منصور حلاج ایک حیلہ گر اور شعبدہ باز آدمی تھا اس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے صوفیوں کے طریقے اختیار کرلئے تھے۔ صوفیوں کی طرح باتیں کرتا اور علم کے جاننے کا دعویدار تھا، حالانکہ وہ اس سے خالی تھا۔ البتہ علم کیمیا میں اسے کچھ مہارت ضرور تھی۔ جب اپنے مریدوں کے پاس ہوتا، تو خدائی کا دعویٰ کرتا اور کہتا لہ خدا مجھ میں حلول کرگیا ہے اور جب سلاطین کے پاس جاتا توکہتا میں شیعہ مذہب کا آدمی ہوں اور عوام سے کہتا کہ میں ایک صوفی ہوں۔ البتہ یہ بات سب سے کہتا کہ خدا نے مجھ میں حلول کیا ہے اور میں بالکل خدا ہی ہوں۔"



* زندگی بخشنا اور موت دینا اللہ کے اختیار میں ہے۔ اللہ کی صفات میں سے "حی" اور "قیوم" بھی ہیں۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:

كَيۡفَ تَكۡفُرُوۡنَ بِاللّٰهِ وَڪُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡيَاکُمۡ‌ۚ ثُمَّ يُمِيۡتُكُمۡ ثُمَّ يُحۡيِيۡكُمۡ ثُمَّ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ (البقرہ آیت ۲۸)
ترجمہ: تم خدا کا کس طرح انکار کرتے ہو حالانکہ تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔

ابراہیم علیہ السلام وقت طاغوت کے سامنے اعلان کرتا ہے:

رَبِّ اَرِنِىۡ كَيۡفَ تُحۡىِ الۡمَوۡتٰى (البقرہ آیت 258)
ترجمہ: "میرا پروردگار تو وہ ہے جو جِلاتا اور مارتا ہے۔"

سورت النمل میں ارشاد ربانی ہے:

اَمَّنۡ يَّبۡدَؤُا الۡخَ۔لۡقَ ثُمَّ يُعِيۡدُه وَمَنۡ يَّرۡزُقُكُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ‌ ءَاِلٰ۔هٌ مَّعَ اللّٰهِ‌ؕ قُلۡ هَاتُوۡا بُرۡهَانَكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ (النمل آیت 64)
ترجمہ: "بھلا کون خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا۔ پھر اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے اور (کون) تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں) کہہ دو کہ (مشرکو) اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔"

سورت الجاثیہ میں ارشاد ہے:
کہہ دو کہ خدا ہی تم کو جان بخشتا ہے پھر (وہی) تم کو موت دیتا ہے پھر تم کو قیامت کے روز جس (کے آنے) میں کچھ شک نہیں تم کو جمع کرے گا لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ (الجاثیہ آیت 26)


قرآن پاک کی بے تہاشا آیات پیش کی جاسکتیں ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حی اور قیوم صرف اللہ کی ہی ذات ہے۔ وہ جسے چاہے زندہ کرسکتا ہے اور مارسکتا ہے۔ جیساکہ قرآن پاک میں عزیر علیہ السلام کی مثال واضح ہے۔

سورت یونس میں اللہ تعالیٰ نبی پاک صہ کو مخاطب کرتے ہیں:

قُل لَّاۤ اَمۡلِكُ لِنَفۡسِىۡ ضَرًّا وَّلَا نَفۡعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ (سورت یونس آیت 49)
ترجمہ: کہہ دو کہ میں اپنے نقصان اور فائدے کا بھی کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ مگر جو خدا چاہے۔

انبیاء اور اولیاء کا یہی عقیدہ ہے کہ حی اور قیوم اللہ کی ہی ذات ہے۔ وہی ذات پاک ہے جو نفع اور نقصان کی مالک ہے۔ برعکس اس کے صوفیاء حضرات میں اللہ کی تمام صفات پائی جاتی ہیں کہ وہ جب چاہیں، جہاں چاہیں اور جسے چاہیں پیدا کرسکتے ہیں، مارسکتے ہیں اور زندہ بھی کرسکتے ہیں۔ جیساکہ مثالوں سے واضح ہے۔

خواجہ قطب الدین چشتی کے پاس ایک عورت روتی ہوئی آئی اور قدموں میں سر رکھ دیا اور کہا کہ مجھے ایک بچہ تھا، اسے بادشاہ نے بے گناہ دار پر کھنچوادیا ہے۔ خواجہ اس کی عرض داشت سن کر کھڑے ہوگئے اور عصا ہاتھ میں لے کر اس کے ساتھ ہولئے۔ آپ کے اصحاب بھی آپ کے ساتھ ہولئے اور اس دار کشیدہ لڑکے کے پاس پہنچے۔ ہندو مسلمانوں کی ایک بھیڑ لگ گئی۔ خواجہ نے کہا الٰہی اگر اسے بے گناہ بادشاہ نے دار پر کھینچا ہے تو اسے زندہ کردے۔ آپ کہہ ہی رہے تھے کہ وہ لڑنا زندہ ہوگیا اور ساتھ ہی چلنے لگا۔" (اسرار الاولیاء ملفوظات خواجہ فرید گنج شکر ص۱۱۰، مرتب خواجہ بدر اسحاق، ترجمہ غلام احمد بریاں)

حدیقتہ الاولیاء میں شاہ ابوالمعالی چشتی صابری کے متعلق لکھا ہے: "عند التذکرہ حضرت شاہ نے فرمایا کہ مرگ و حیات کلمہ نفی اثبات لا الہ الااللہ میں ہے۔ جنہوں نے دل سے یہ کلمہ پڑہا ہے اگر وہ لفظ لا الہ زندہ کے کان میں کہے تو مرجائے اور اگر الا اللہ کہیں تو جی اٹھے۔ حاضرین مجلس نے التماس امتحان کی۔ حضرت مجلس سے اُٹھے اور ایک گائو میشن کے کان میں، جو اسی گھر میں بندھی تھی لا الہ کا لفظ کہا۔ وہ فی الفور گر پڑی اور مرگئی، پھر دوسرے کام میں الا اللہ کا لفظ کہا تو فی الفور زندہ ہوگئی۔" (حدیقتہ الاولیاء ص97)

افسوس کہ نبی پاک صہ کو لا الٰہ الااللہ کی تاثیر کا علم نہ ہوسکا، ورنہ آپ صہ کم از کم اپنے چچا ابو طالب اور زوجہ مطہرہ کو ہی زندہ کرلیتے، جن کی غمی کی وجہ سے اس سال کا نام ہی "عام الحزن" قرار پایا۔

اسی کتاب کے صفحہ ۱۵۱ پر ایک اور واقعہ جو سید جلال الدین شیر شاہ سے تعلق رکھتا ہے: "ناگاہ آپ کا گذر ایک مجمع پر ہوا۔ پوچھا کیسا مجمع ہے۔ لوگوں نے کہا اس مردہ کی نماز جنازہ پڑہتے ہیں۔ کہا کہ: نماز پڑھ کر پھر کیا کرو گے؟ کہا: اس کو زمین میں دفن کردیں گے۔ یہ بات سُن کر حضرت جلال رحہ جلال میں آگئے اور نعرہ اللہ اکبر مار کر مردہ کے منہ سے پردہ اٹھایا اور فرمایا: قم باذن اللہ! مردہ فی الفور جی اٹھا اور چالیس برس تک زندہ رہا۔"

اسی طرح غوث اعظم نے مرغی کا سالن کھانے کے بعد اُسے دوبارہ ہڈیوں سے زندہ کردیا۔ اور ایک عیسائی کے کہنے پر ایک قبر والے کو زندہ کیا۔

خواجہ محمد فضیل قادری نوشاہی کے بارے میں آتا ہے کہ: کسی مردہ پر نظر پڑتی تو وہ زندہ ہوجاتا۔ نگاہِ غضب سے کسی کی طرف دیکھتے تو اس کی جان تن سے نکل جاتی۔ (خزینتہ الاصفیاء ص۲۷۷)

ایک صوفی نے گوشت کا ایک ٹکڑا پکانے کے لئے ملتان میں اسٹیشن کے قریب سورج کو زمین پر اترنے پر مجبور کیا تھا۔ (نور مبین ص۴۸۸ مطبوعہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے ہند، بمبئی)


صوفیاء کی حیات و ممات پر قدر گرفت تھی، اس کے کافی سے بھی زیادہ مثالیں موجود ہیں، جنہیں یہاں بیان کرنا محال ہے۔


-۲ دوسرے سوال کا جواب آپ پی گئے۔

غالبا آپ کا سوال آصف بن برخیاہ کے بارے میں تھا۔
سورت نمل کی آیت "قال الذین عندہ علم من الکتب انا اتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک" میں جس شخص کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان کے بارے میں بعض مفسرین کا قول ہے کہ وہ فرشتا تھا، بعض کہتے ہیں کہ وہ انسان تھا۔ اور پھر اس میں بھی اختلاف ہے، کوئی کہتا ہے کہ وہ خضر علیہ السلام تھے۔ ابن عباس کا قول ہے کہ یہ آصف تھا اور ان کے والد کا نام برخیا تھا، اور آپ سلیمان علیہ السلام کے کاتب تھے۔ بنو اسرائیل سے تھے اور پکے سچے مسلمان تھے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ ان کا نام "اسطوم" تھا۔ اور ان کا لقب "ذوالنور" تھا۔
یہودی ربیوں کی روایات کے مطابق وہ رئیس الرجال تھے۔ امام رازی کہتے ہیں کہ وہ خود سلیمان علیہ السلام تھے۔
بہرحال اس شخص کے بارے میں قطعی طور پر قرآن پاک میں یا کسی صحیح حدیث سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کون تھے، اور جس کتاب کا ذکر اس آیت میں آیا ہے، وہ کونسی کتاب تھی۔



۳- کیا کرامت اور معجزہ میں فرق جانتے ہیں آپ؟ بڑی جسارت ہے یہ کہہ دینا کہ کرامات کے مقابلے میں انبیاء کے معجزے ہیچ نظر آتے ہیں۔


صوفیاء کی کرامات تماشہ ہیں، جوکہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے شعبدے ہوتے ہیں۔ جیساکہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔ جبکہ معجزے انبیاء سے ظاہر ہوتے ہیں، جن کا ذکر قرآن اور حدیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جیساکہ موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن پاک میں ہے اللہ تعالیٰ نے آپ عہ کو نشانیاں (معجزے) دے کر فرعون کے پاس بھیجا تھا۔

سورت طہ میں ہے:
ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ پھر ان کے لئے دریا میں (لاٹھی مار کر) خشک رستہ بنا دو پھر تم کو نہ تو (فرعون کے) آپکڑنے کا خوف ہوگا اور نہ (غرق ہونے کا) ڈر۔ (سورت طہ آیت ۲۰)

قرآن مجید میں موسیٰ علیہ السلام کا ایک معجزہ بیان کیا گیا ہے کہ جب بنی اسرائیل پیاس سے بے حال تھے تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرمایا کہ پتھر پر لاٹھی مارو، تو اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔

اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کا گلزار بن جانا، یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک معجزہ ہی تھا۔

اسی طرح کی کرامتیں صوفیاء سے بھی وقتا فوقتا ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ دیکھئے کس طرح ایک صوفی پتھر سے چشمہ بہاتے ہیں۔ آپ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کہیں جارہے تھے۔ راستے میں پیاس لگی تو پتھر پر لاٹھی ماری، جس سے چشمہ پھوٹ نکلا۔ (تاریخ مشائخ چشت، مولانا زکریا ص157)
ایک صوفی نے ولایت ابراہیمی کی کرامت دکھائی اور دو گھنٹہ تک آگ کے اندر رہنے کے بعد صحیح سلامت واپس آگئے۔ یہ دیکھ کر وہاں موجود تمام لوگ مسلمان ہوگئے۔ (تاریخ مشائخ چشت، مولانا زکریا ص164)
ابراہیم علیہ السلام جب آگ سے صحیح سلامت واپس آئے تو ایک شخص بھی ایمان نہیں لایا۔ اس کے برعکس صوفی صاحب کی کرامت پر تمام لوگ مسلمان ہوگئے۔ صوفی صاحب کی اس کرامت کے سامنے تو ابراہیم علیہ السلام کا معجزہ بھی ہیچ لگتا ہے۔

خزینتہ الاصفاء ص237 میں میاں پیر بالا کی کرامت بیان کی گئی ہے کہ ایک سانپ نے آپ کا تین بار طواف کیا اور آپ سے گفتگو بھی کی۔
ملاحظہ فرمائیں کہ کسی جاندار نے کسی نبی کا طواف نہیں کیا، کیونکہ طواف بھی ایک عبادت ہے۔ یہ پیر صاحب تو سانپ سے طواف بھی کروارہے ہیں، اور ان سے محفو گفتگو بھی ہیں۔ سلیمان علیہ السلام کو اللہ نے منطق الطیر کا علم دیا تھا، لیکن پیر صاحب تو سانپوں کی زبان بھی سمجھتے ہیں۔

آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ صوفیاء کی کرامتیں کس طرح انبیاء کے معجزات سے ٹکراتی ہیں، بلکہ سبقت لے جاتی ہیں۔ صوفیاء کی اس طرح کی کافی سے بھی زیادہ کرامتیں تاریخ کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔ طوالت کی وجہ سے ان چند کرامات پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔




۴- اگر اب کہوں کہ اصل میں آپ "ہندو" ہیں تو لٹھ لیکر میرے پیچھے پڑ جائیں گے، حالانکہ حقیقت یہی ہے۔

آپ کی اس بات کا ایک مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ تمام کے تمام انسان ہندو ہیں، میں بھی، آپ بھی اور صوفیاء حضرات بھی۔
یہی بات ہم نے بھی کہی تھی صوفی ازم کی بنیاد ہندو مت پر ہے، جوکہ آپ کو گراں گذری۔
 

خرم

محفلین
بہت اچھی باتیں لکھیں آپ نے اگرچہ کافی باتیں آپس میں دنگل کر رہی ہیں۔ چند ایک سوال

اگر آپ کے حکیم الامت نے بھی اشرف علی رسول اللہ لکھا ہو اپنی تصنیف میں اور اسے درست بھی ثابت کیا ہو تو پھر کیا اصفیاء پر اس حوالے سے لگائی گئی تہمت سے دستبردار ہوجائیے گا؟
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ کے متعلق آپ کا کیا نظریہ ہے؟
قم باذن اللہ کے الفاظ میں کس کی قدرت کا اعتراف ہے اور زندہ کرنے کی قدرت کو کس سے نسبت ہے؟
کیا اللہ نے کوئی شرط لگائی کہ کونسی دُعا قبول نہ ہوگی اور کیا اس میں مردے کو زندہ کرنے کی دُعا کا ذکر ہے؟
سب سے مقبول دُعا کن کی ہے؟
آصف بن برخیاہ کا ذکر قرآن میں‌کیوں آیا ہے؟
لفظ ہندو کے متعلق آپ سے تحقیق چاہی تھی، آپ نے نجانے کیا انداز بنا ڈالا۔ اگر کہئے تو عرض کروں اصل بات؟
 

ابن جمال

محفلین
قل عشق محمد مذھبی و حبہ ملتی و طاعتہ منزلی
(یہ کہہ) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق میرا مذھب ، محبت میری ملت اور اتباع میری منزل ہے
از حضرت ابوانیس محمد برکت علی لدھیانوی (صوفی)

الف نظامی صاحب گستاخی کیلئے معذرت چاہتاہوں۔لیکن جب کوئی حدیث پیش کریں توپہلے ذرا تحقیق کرلیاکریں یہ نہیں کہ جہاں کوئی حدیث ملی اسے لکھ دیا۔ اورایک دلیل کے طورپر پیش کردیا۔ امید ہے کہ آپ اس حدیث کی مکمل معلومات فراہم کریں گے اوراس کا درجہ استناد بھی بتائیں گے کہ محدثین کا اس حدیث کے بارے میں کیاخیال ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
الف نظامی صاحب گستاخی کیلئے معذرت چاہتاہوں۔لیکن جب کوئی حدیث پیش کریں توپہلے ذرا تحقیق کرلیاکریں یہ نہیں کہ جہاں کوئی حدیث ملی اسے لکھ دیا۔ اورایک دلیل کے طورپر پیش کردیا۔ امید ہے کہ آپ اس حدیث کی مکمل معلومات فراہم کریں گے اوراس کا درجہ استناد بھی بتائیں گے کہ محدثین کا اس حدیث کے بارے میں کیاخیال ہے۔

السلام علیکم
محترم ابن جمال جی
سدا خوش رہیں آمین
محترم الف نظامی جی نے کوئی حدیث تحریر نہیں کی ۔
یہ محترم جناب حضرت ابوانیس محمد برکت علی لدھیانوی (صوفی) کا
اظہار عشق و مودت ہے ۔
"قل عشق محمد مذھبی و حبہ ملتی و طاعتہ منزلی
(یہ کہہ) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق میرا مذھب ، محبت میری ملت اور اتباع میری منزل ہے
از حضرت ابوانیس محمد برکت علی لدھیانوی (صوفی) "​
آپ شائید عربی تحریر کو حدیث سمجھے ہیں ۔
نایاب
 
Top