حواشی و حوالہ جات
(۱)
حضرت سیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش ؒ(۴۰۰۔۴۶۵ھ/۱۰۰۹۔۱۰۷۲ئ)ہجویر اور جلاب غزنین کے دو گائوں ہیں شروع میں آپ کا قیام یہیں رہا اس لیے ہجویری اور جلابی کہلائے۔ سلسلہ نسب حضرت علی مرتضیٰ ؑسے ملتا ہے۔روحانی تعلیم جنیدیہ سلسلہ کے بزرگ حضرت ابوالفضل محمد بن الحسن ختلی ؒ سے پائی ۔پیر کے حکم سے ۱۰۳۹ء میں لاہور پہنچے کشف المحجوب آپ کی مشہور تصنیف ہے۔لاہور میں بھاٹی دروازہ کے باہر آپ کا مزار مرجع خلائق ہے ۔عوام آپ کو گنج بخش (خزانے بخشنے والا) اور داتا صاحب کہتے ہیںاور آپ انہی القابات سے مشہور ہیں (انسائیکلو پیڈیا فیروز سنز)
(۲) حضرت سیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری۔کشف المحجوب۔ ص ۲۷،
۲۸(۳) الولید بن القاسم بن الوید ہمدانی کا تعلق کوفہ سے تھا۔ علماء رجال میں سے امام احمد بن حنبلؒ، ابن حبانؒ اور ابن عدیؒ انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں مگر مشہور ماہر فن یحییٰ ابن معینؒ انہیں ضعیف کہتے ہیں۔ ابن حجر عسقلانیؒ انہیں حفاظ حدیث کے آٹھویں طبقہ میں شمار کرتے ہیں۔ اس طبقہ میں شامل افراد پر ضعف کا اطلاق ہوتا ہے اگرچہ ضعف کی صراحت نہیں کی گئی۔
(۴) محمد بن طاہر المقدسی، صفوۃ التصوف،تعلیق احمدشرباصی،دارالتصنیف مصر، ۱۳۷۰ھ/ ۱۹۷۱ء ، ص: ۷
بحوالہ ڈاکٹرغلام قادر لون، مطالعہ تصوف(قرآن و سنت کی روشنی میں) ناشر محمد شاہد عادل ، لاہور، ۱۹۷۷ء
(۵) ابوالقاسم محمود بن عم الزمحشری۔ اسا س البلاغۃ۔ تحقیق استاذ عبدالرحیم محمود۔ دارالمعرفۃ، بیروت لبنان،۱۴۰۲ھ/۱۹۸۳ء۔ص:۲۶۲۔بحوالہ ڈاکٹرغلام قادر لون، مطالعہ تصوف (قرآن و سنت کی روشنی میں) ناشر محمد شاہد عادل ،لاہور، ۱۹۷۷ء
(۶) ابوالحسین احمد بن محمدبن محمدالمعروف بہ شیخ ابوالحسین نوریؒ بغداد میں پیدا ہوئے شیخ سری سقطیؒ کے مرید تھے۔ سلسلہ نوریہ آپ سے منسوب ہے۔آپ کی تعلیمات سلسلہ جنیدیہ سے ملتی جلتی ہیں۔شیخ جنید بغدادیؒ آپ کا بے حد احترام کیا کرتے تھے۔آپ صاحب کشف و شہود بزرگ تھے۔(حلیۃ الاولیاء، طبقات الکبریٰ، نفحات الانس وغیرہ)
(۷) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:
۶۳(۸) امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیریؒ(۳۷۶۔ ۴۶۵ھ / ۹۸۶۔ ۱۰۷۲ء ) خراسان میں علم و فضل کے امام اور تصوف کے شیخ تھے شیخ ابو علی دقاقؒ سے خرقہ تصوف حاصل کیا۔ نیشا پور میں وفات پائی اور اپنے مرشد کے پہلو میں دفن ہوئے’’الرسالۃ القشیریہ‘‘ آپ کی مشہور تصنیف ہے( خطیب بغدادی۔ تاریخ بغداد۔بحوالہ ڈاکٹرغلام قادر لون، مطالعہ تصوف(قرآن و سنت کی روشنی میں) ناشر محمد ساہد عادل ،لاہور، ۱۹۷۷ء حاشیہ،ص:
۱۸(۹) امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیریؒ۔ الرسالۃ القشیریہ۔۔
(۱۰) امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیریؒ۔ الرسالۃ القشیریہ۔۔
’ لیس یشھد لھذاالاسم من حیث العربیۃ قیاس ولا اشتقاق والاظھرانہ فیہ کاللقب۔‘
(۱۱) ابونصر بشر بن الحارث بن علی بن عبدالرحمن المعروف بہ حافی مرو کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے بعداد میں مشہور آئمہ سے حدیث سنی زہد و تقویٰ اور ریاضت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔آپ کو تمام آئمہ حدیث نے ثقہ قرار دیا ہے۔آپ کا انتقال ہوا تو تمام محدثیں کو انتہائی رنج ہوا۔ امام احمد بن حنبلؒ نے ان کی موت کی خبر سن کر فرمایا ’’ انہوں نے اپنی مثال نہیں چھوڑی‘‘ (الطبقات الکبریٰ، البدایہ والنہایہ، سفینۃ الاولیاء وغیرہ)
(۱۲) ابوالعلا عفیفی، التصوف، اسکندریہ، مصر،۱۹۶۳ء ص:۳۱بحوالہ ڈاکٹرغلام قادر لون، مطالعہ تصوف(قرآن و سنت کی روشنی میں) ناشر محمد شاہد عادل ،لاہور، ۱۹۷۷ء: حاشیہ ص:
۲۰ (۱۳) شیخ زکریا انصاریؒ(۸۲۳۔۹۲۶ھ / ۱۴۲۰۔۱۵۲۰ئ) شیخ الاسلام ،قاضی،مفسر اور عالم حدیث تھے مصر میں پیدا ہوئے۔قاضی کے عہدے سے معزولی کے بعد جامع مسجد میں فقروفاقہ کی زندگی بسر کرتے تھے ۔رات کو نکلتے تو تربوزہ کے چھلکے اٹھا کر کے کھاتے ۔مدتوں ان کے زہدوتقویٰ اور فضل و کمال کا لوگوں کو پتا نہیں چلا۔تفسیر ، حدیث ،فقہ اور منطق میں کثیر التصانیف عالم تھے۔(مطالعہ تصوف(قرآن و سنت کی روشنی میں) ناشر محمد شاہد عادل ،لاہور، ۱۹۷۷ء: حاشیہ ص:۲۱)
(۱۴) غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادرؒ جیلانی(۴۷۱۔۵۶۱ھ/۱۰۷۸۔۱۱۶۶ئ)مشہور صوفی بزرگ ،ایران کے قصبہ گیلان میں پیدا ہوئے۔۱۸سال کی عمر میںوالدہ کی اجازت سے بغرض حصول تعلیم بغداد تشریف لے گئے تعلیم کی تکمیل کے بعد عبادات و مجاہدات شروع کیے ۲۵ برس تک رات دن یاد حق کے سوا کچھ کام نہ تھا۔سالہا سال عشا کے وضو میں صبح کی نماز پڑھی۔بے شمار راتیں آنکھوں میں گزرگئیں اور پلک سے پلک نہ ملنے دی۔نیند کا غلبہ ہوتا تو ایک پائوں پر کھڑے ہو جاتے اور نفلوں میں پورا قرآن شریف ختم کر دیتے۔عبادات و ریاضت اور صحرانوردی میں عرصہ در از گزرنے کے بعد بغداد میں وعظ کرنے لگے ۔آپ کے صاحبزادے ابو عبداللہ راوی ہیں کہ آپ ہفتے میں تین بار تقریر عام کرتے تھے۔چالیس برس تک دین کی علمی و روحانی خدمت نجام دی۔چار سو آدمی آپ کا وعظ قلمبند کرتے جاتے تھے۔فقہ میں آپ امام شافعی اور امام جنبل کے پیرو تھے۔آپ کی تصانیف’’فتوح الغیب اور غنیہ الطالبین‘‘بہت مشہور ہیں۔تمام اکابرصوفیا آپ کی جلالت منصب کے قائل ہیں۔صوفیہ کا کوئی تذکرہ آپ کے ذکر سے خالی نہیں۔تصوف میں سلسلہ قادریہ آپ ہی سے منسوب ہے۔(انسائیکلو پیڈیا فیروز سنز)
(۱۵) حضرت عبد القادر جیلانی ؒ۔غنیہ الطالبین ص ۱۰۹۔
(۱۶) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔،، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:
۵۴(۱۷) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔،، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:
۵۵(۱۸) ماہر طبیعات و فلکیات، محقق و مؤرخ یونانی اور ہندی فلسفہ کے ماہر اور ریاضی داں ابوریحان محمد بن احمد البیرونی شہر خوارزم کے محلہ بیرون میں پیدا ہوئے اسی نسبت سے البیرونی کہلائے کئی برس تک ہندوستان میں قیام کیا اور سنسکرت زبان سیکھی محمود غزنوی کے دربار سے بھی وابستہ رہے۔۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے مذہبی اور سماجی حالات پر معرکۃ الآراء کتاب لکھی جس کا نام ’’کتاب الہند‘‘ ہے خوارزم میں انتقال کیا۔( انسائیکلوپیڈیا فیروز سنز)
(۱۹) ابوریحان البیرونی۔ کتاب الہند۔ص
۱۶(۲۰) علامہ شبلی نعمانی (۱۸۵۷۔۱۹۴۱ئ) مشہور شاعر، محقق، نقاد، مؤرخ اور سیرۃ نگار ، اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔علوم دینیہ کے فروغ کے لیے قائم ہونے والے مشہور ادارے’’ ندوۃ العلماء ‘‘کے بانی، حکومت کی جانب سے شمس العلماء کا خطاب ملا، ترکی کے سلطان کی جانب سے تمغہ مجیدی عطا ہوا۔ان کا خاص موضوع تاریخ تھا۔جدید طرز تنقید و تنقیح کے مطابق کئی سیاسی اور ادبی تاریخیں لکھیں، اردو اور فارسی دو نوں میں شعر کہتے تھے۔ ان کی تصانیف میں: الفاروق، المامون، الغزالی اور سیرۃ النبیؐ وغیرہ شامل ہیں ۔ (انسائیکلو پیڈیا فیروز سنز)
(۲۱) علامہ شبلی نعمانی۔ الغزالی،ص
۱۰۴(۲۲) القرآن الحکیم:سورہ الانعام۶:
۵۲(۲۳) القرآن الکریم: سورہ بقرہ۲:
۲۷۲(۲۴) جامع الترمذی :۲:
۵۹(۲۵) سیرت النبی مطبوعہ اعظم گڑھ، ۱:۲۷۱ وحاشیہ الصاوی مطبوعہ مصر،۱:۱۳۰
بحوالہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری۔سلوک و تصوف کا عملی دستور۔
منہاج القرآن پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۰۲، ص
۴۵(۲۶) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔،، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:
۱۲۷(۲۷) ابوبکرمحمد بن ابراہیم الکلاباذی البخاری، بخارا کے محلہ کلاباذ کے رہنے والے اور اسی سے منسوب ہیںحفاظ حدیث اور کبار صوفیہ میں ان کا شمار ہوتا ہے تصوف میں ان کی کتاب ’’التعرف لمذہب اہل التصوف‘‘ بہت مشہور ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بزرگ کا قول ہے اگر کتابالتعرف نہ ہوتی توتصوف نہ جانا جاتا۔ یہ تصوف کی بنیادی کتابوں میں سے ہے(کشف الظنون و سفینۃ الاولیاء وغیرہ)
(۲۸) تقی الدین ابوالعباس احمد بن عبدالحکیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن محمد الحرافی الحنبلی، ساتویں پشت میں ان کی ایک دادی’’ تیمیہ‘‘ علم و فضل میں صاحب کمال تھین اسی وجہ سے اس خاندان کا ہر شخص ابن تیمیہ کے نام سے مشہور ہوا ابن تیمیہ موصل اور شام کے درمیاںن ایک چھوٹے سے شہر حران میں پیدا ہوئے بیس سال کی عمر میں تحصیلات سے فارغ ہوکر علمائے کبار میں شمار ہونے لگے۔علوم عقلی و نقلی اور علوم اہل کتاب کے فاصل تھے۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں امام ابن تیمیہ متنازعہ حیثیت رکھتے ہیں۔ تین سو کے قریب تصنیفات ہیں۔ (انسائیکلوپیڈیا فیروز سنز)
(۲۹) مشہور مؤرخ ، فقیہ، فلسفی اور سیاستدان، پورا نامابو زید ولی الدین عبدالرحمن ابن خلدون ہے۔ تیونس میں پیدا ہوئے۔انہیں علم تاریخ اور عمرانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے ان کا سب سے بڑا کارنامہ’’المقدمۃ فی التاریخ‘‘ کی تصنیف ہے جو کہ مقدمۂ ابن خلدون کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تاریخ، سیاسیات، عمرانیات ،فلسفہ، ادبیات اور اقتصادیات کا گرانقدر سرمایہ ہے۔(انسائیکلو پیڈیا فیروز سنز)
(۳۰) صحیح بخاری، ۲:
۸۶۳(۳۱) سنن ابن ماجہ:
۲۶۳(۳۲) المواہب اللدنیہ:
۵۷(۳۳) مولانا محمد حنیف ندوی۔ ۔ افکار ابن خلدون، ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۱۹۸۷ء، ص
۲۱۲(۳۴) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔،، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:
۷۳(۳۵) خواجۂ خواجگان حضرت ابو محمد حسن بصری ؒ کی ولادت با سعادت ۲۱ہجری بمطابق۶۴۲ء کو خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں ہوئی آپ کے والد ماجد موسی راعی ؓ زیدبن ثابت انصاری ؓکے آزاد کردہ غلام تھے ۔آپ کی والدہ ماجدہ ،ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ کی لونڈی تھیں۔ تمام اکابر صوفیہ بالاتفاق آپ کو شیخ الشیوخ مانتے ہیں اور آپ کا حضرت علی ؓ سے اکتساب فیض اور خرقہ ٔخلافت پانا تسلیم کرتے ہیں ۔ آپ نے آخر عمر میں بصرہ میں سکونت اختیار کر لی تھی وہیں پانچویں رجب المرجب سن ۱۱۰ہجری بمطابق ۷۲۸ء واصل بحق ہوئے اور وہیں آپ کا مزار پرانوار ہے۔(سید شاکر القادری ۔چشمہ ٔ فیض،ن والقلم ادارہ مطبوعات اٹک ،ص ۵)
(۳۶) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔،، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:
۷۳(۳۷) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔،، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:
۷۴(۳۸) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔،، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص: