نصیر الدین نصیر تضمینات بر کلام حضرت رضا بریلوی - سید نصیر الدین نصیر

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
مرحبا رنگ ہے کیا سب سے نرالا تیرا
جھوم اٹھا جس نے پیا وصل کا پیالا تیرا
اولیا ڈھونڈتے پھرتے ہیں اجالا تیرا
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلٰی تیرا

جیسے چاہے تری سنتا ہے سناتا ہے تجھے
حسبِ تدبیر سلاتا ہے جگاتا ہے تجھے
اپنی مرضی سے اٹھاتا ہے بٹھاتا ہے تجھے
قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے پلاتا ہے تجھے
پیارا اللہ ترا چاہنے والا تیرا

بخدا مملکتِ فقر کا تو ناظم ہے
تاجداروں پہ سدا دھاک تری قائم ہے
کیوں نہ راحم ہو کہ اللہ ترا راحم ہے
کیوں نہ قاسم ہو کہ تو ابن ابی قاسم ہے
کیوں نہ قادر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا

میں کہاں اور کہاں تیرا مقامِ قربت
میری اوقات ہی کیا تھی کہ یہ پاتا رفعت
تیری چوکھٹ نے عطا کی یہ مسلسل عزت
تجھ سے در ، در سے سگ ، سگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا
یہ نامکمل ہے
 
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
مرحبا رنگ ہے کیا سب سے نرالا تیرا
جھوم اٹھا جس نے پیا وصل کا پیالا تیرا
اولیا ڈھونڈتے پھرتے ہیں اجالا تیرا
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلٰی تیرا

جیسے چاہے تری سنتا ہے سناتا ہے تجھے
حسبِ تدبیر سلاتا ہے جگاتا ہے تجھے
اپنی مرضی سے اٹھاتا ہے بٹھاتا ہے تجھے
قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے پلاتا ہے تجھے
پیارا اللہ ترا چاہنے والا تیرا

بخدا مملکتِ فقر کا تو ناظم ہے
تاجداروں پہ سدا دھاک تری قائم ہے
کیوں نہ راحم ہو کہ اللہ ترا راحم ہے
کیوں نہ قاسم ہو کہ تو ابن ابی قاسم ہے
کیوں نہ قادر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا

میں کہاں اور کہاں تیرا مقامِ قربت
میری اوقات ہی کیا تھی کہ یہ پاتا رفعت
تیری چوکھٹ نے عطا کی یہ مسلسل عزت
تجھ سے در ، در سے سگ ، سگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا

ہم درِ غیر کو خاطر میں بھلا کیا لاتے
عمر گزری تری دھلیز پہ ٹکڑے کھاتے
کوئی کیوں مارے ترے ہوتے ترا کہلاتے
اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پٹہ تیرا

علم میں فرد کہ وہ زہد میں یکتا ہوں گے
اہلِ سجادہ و تسبیح و مصلی ہوں گے
میں نے مانا کہ فضائل میں وہ کیا کیا ہوں گے
جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں مرے آقا تیرا

معترض کے لیے چند یہ طرفہ مطاف
ہے مگر اہلِ بصیرت کو یہ منظر شفاف
آنکھ والوں نے یہ دیکھا ہے بچشمِ انصاف
سارے اقطابِ جہاں کرتے ہیں کعبہ کا طواف
کعبہ کرتا ہے طوافِ درِ والا تیرا

حسنی پھول! ترا روئے دل آرا گلزار
ہو کے جلووں میں ترے محوِ نظارا ، گلزار
جھوم کر لہجہِ خوشبو میں پکارا گلزار
تو ہے نوشاہ ، براتی ہے یہ سارا گلزار
لائی ہے فصلِ سمن گوندھ کے سہرا تیرا

اُن پہ خالق نے کیا ہے یہ خصوصی انعام
کب وہ مایوس ہوں ان کا رُکا کون سا ہے کام
کون سے ملک میں حاصل نہ ہوا اُن کو مقام
راج کس شہر پہ کرتے نہیں تیرے خُدام
باج کس نہر سے لیتا نہیں دریا تیرا

تو جو مائل بہ کرم ہو تو لگتی نہیں دیر
پھر ڈراتا نہیں انسان کو تقدیر کا پھیر
غیر محدود ہے شاہا تری برسات کا گھیر
مزرعِ چشت و بخارا و عراق و اجمیر
کون سی کشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا

کم نظر کاش کسی طور تجھے پہچانیں
حسد و بغض کو چھوڑیں تجھے دل سے مانیں
تجھے بخشیں ترے اللہ نے کیا کیا شانیں
سُکر کے جوش میں جو ہیں وہ تجھے کیا جانیں
خضر کے ہوش سے پوچھے کوئی رتبہ تیرا

وسوسہ ذہن میں ڈالے جو کسی کی خنّاس
نیک و بد کو اسے رہتا نہیں ہرگز احساس
کر گزرتا ہے وہ جہالت میں کیا کیا بکواس
آدمی اپنے ہی احوال پہ کرتا ہے قیاس
نشّے والوں نے بھلا سُکر نکالا تیرا

صحو و تمکیں نے عجب رنگ جمایا تجھ پر
سُکر و مستی کا کوئی لمحہ نہ آیا تجھ پر
سائباں فضل کا خالق نے لگایا تجھ پر
"ورفعنا لك ذكرك" کا ہے سایا تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا

تا بہ کے ذہن کو بہکائیں گے اعدا تیرے
اپنے انجام سے گھبرائیں گے اعدا تیرے
مرگِ ذلّت سے نہ بچ پائیں گے اعدا تیرے
مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا

تیرے بدخواہ کی جس نہج پہ بھی عمر کٹے
نہیں ہٹتا وہ اگر اپنی ڈگر سے نہ ہٹے
دشمنی پر تری ہر چند کے مخالف ہوں ڈٹے
تو گھٹائے تو کسی کی نہ گھٹائے ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھ اللہ تعالٰی تیرا

خوانِ توحید پہ نے خلقِ خدا ضیف تری
قدر کی غیر برستوں نے نہ ، صد حیف تری
بات چلتی ہے بہر حال و بہر کیف تری
حکم نافذ ہے ترا خامہ ترا سیف تری
دم میں جو چاہے کرے ، دور ہے شاہا تیرا

آج گھیرے ہوئے اعمال کی شامت ہے مگر
سامنے آگ بھی خطرے کی علامت ہے مگر
خوفِ پرسش بھی بدستور سلامت ہے مگر
دھوپ محشر کی وہ جاں سوز قیامت ہے مگر
مطمئن ہوں کہ مرے سر پہ ہے پلہ تیرا

گرچہ صد شعلہ بکف خلق پئے خرمنِ تُست
دل بدخواہ گر آسودہ زِ آزردنِ تُست
تنگ ہر چند دلے چند نصیرؔ از فنِ تُست
اے رضاؔ چیست غم ار جملہ جہاں دشمنِ تُست
کردہ ام مامنِ خود قبلہِ حاجاتے را
 
آخری تدوین:
کس کے جلوے کی جھلک ہے ، یہ اجالا کیا ہے
دل کہ آنگن میں یہ اک چاند سا اترا کیا ہے
موجِ زن آنکھوں میں یہ نور کا دریا کیا ہے
ماجرا کیا ہےیہ آخر مُعَمَّا کیا ہے
کس کے جلوے کی جھلک ہے، یہ اجالا کیا ہے
ہر طرف دیدہِ حیرت زدہ تکتا کیا ہے

زائرِ گنبدِ خضٰری ! تجھے اب فکر ہے کیا
سامنے وہ بھی ہیں اللہ کا در بھی ہے کھلا
چپ نہ رہ ، کھول زباں ، دامنِ مقصد پھیلا
مانگ منَ مانتی ، منہ مانگی مرادیں لے گا
نہ یہاں ناں ہے ، نہ منگتا سے یہ کہنا ، کیا ہے

عرصہ حشر میں ناسازیِ احوال کے وقت
دل کی دیوار میں اٹھتے ہوئے بھونچال کے وقت
لمن المُلک کی آوازِ پر اجلال کے وقت
بے بسی ہو مجھے جب پُرسشِ اعمال کے وقت
دوستو کیا کہوں اس وقت تمنا کیا ہے

بات امت کی جب اللہ سے منوائیں حضور
جس گھڑی مسندِ محمود پہ آ جائیں حضور
جب گنہ گاروں کو سرکار میں بلوائیں حضور
کاش فریاد مری سن کے یہ فرمائیں حضور
ہاں کوئی دیکھو ، یہ کیا شور ہے غوغا کیا ہے

خود نگر ہے ، نہ وہ گستاخ ، نہ وہ ظالم ہے
بد عقیدہ ہے ، نہ وہ حپرب زباں عالم ہے
نسلِ خدام سے منسوب کوئی خادم ہے
یُوں ملائک کریں معروض کہ اک مجرم ہے
اس سے پُرسش ہے ، پتا تو نے کیا کیا کیا ہے

روبرو داورِ محشر کے ہے اک عصیاں کیش
ہے اُدھر مالکِ کل اور اِدھر یہ درویش
معصیت کار ، خطا وار ، گنہ بیش از بیش
سامنا قہر کا ہے دفترِ اعمال ہے پیش
ڈر رہا ہے کے خدا حکم سناتا کیا ہے

نوحہ زن ہے دلِ برباد کہ یا شاہِ رُسل
اب کہاں جائے یہ ناشاد کہ یا شاہِ رُسل
وقتِ امداد ہے ، امداد ! کہ یا شاہِ رُسل
آپ سے کرتا ہے فریاد کہ یا شاہِ رُسل
بندہ بے کس ہے شہا ! رحم میں وقفہ کیا ہے

ہے عنایت جو میں مصروفِ ثنا ہوتا ہوں
ورنہ اوقات میری کیا ہے میں کیا ہوتا ہوں
غم تو بس یہ ہے کہ محرومِ نوا ہوتا ہوں
اب کوئی دم میں گرفتارِ بلا ہوتا ہوں
آپ آ جائیں تو کیا خوف ہے کھٹکا کیا ہے

عرصہ حشر میں تھا بیم و رجا کا عالم
سخت مشکل میں گھری تھی مری جانِ پُر غم
ہاتھ میں تھامے ہوئے حمدِ الہٰی کا علم
لو ! وہ آیا مرا حامی مرا غم خوارِ امم
آگئی جاں تنِ بے جاں میں ، یہ آنا کیا ہے

یوں مرے سر سے بلا خوف کی ٹالیں سرور
حشر کی بھیڑ میں چُپکے سے بلا لیں سرور
پہلے قدموں میں ذرا دیر بٹھا لیں سرور
پھر مجھے دامنِ اقدس میں چُھپا لیں سرور
اور فرمائیں ہٹو ! اس پہ تقاضا کیا ہے

ہمیں کہتے ہیں ملک ، طبقہِ معصوم ہیں ہم
بلکہ قرآں میں اسی نام سے موسُوم ہیں ہم
مگر اس پر بھی یہ حاکم ہیں ، نہ مخدوم ہیں ہم
چھوڑ کر مجھ کو فرشتے کہیں محکوم ہیں ہم
حکمِ والا کی نہ تعمیل ہو زُہرہ کیا ہے

جب چلے حشر کے میدان میں اُمت کی سپاہ
سرورِ جیش ہو وہ مطلعِ کونین کا ماہ
اہلِ بیت اور صحابہ بھی رواں ہوں ہمراہ
یہ سماں دیکھ کہ محشر میں اُٹھے شور کہ واہ
چشمِ بد دور ہو، کیا شان ہے، رتبہ کیا ہے

باغِ جنت ترے تہطہیرے کے گلشن پہ نثار
آبِ تسینم ترے پاؤں کے دھووَن پہ نثار
حسنِ یوسف کی ادائیں تری چتون پہ نثار
صدقے اس رحم کے ،سایہِ دامن پہ نثار
اپنے بندے کو مصیبت سے بچایا کیا ہے

تیرے اشعار میں ہے عشقِ نبی کی مہکار
نعت کے باغ میں آتی ہے ترے دم سے بہار
تجھے کرتا ہے نصیرؔ اہلِ ولایت میں شمار
اے رضاؔ جانِ عنادل ترے نغموں کے نثار
بلبلِ باغِ مدینہ! ترا کہنا کیا ہے
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
تیرے اشعار میں ہے عشقِ نبی کی مہکار
نعت کے باغ میں آتی ہے ترے دم سے بہار
تجھے کرتا ہے نصیرؔ اہلِ ولایت میں شمار
اے رضاؔ جانِ عنادل ترے نغموں کے نثار
بلبلِ باغِ مدینہ! ترا کہنا کیا ہے​
 
Top