تضمین بر شعرِ اقبال برائے اصلاح

کاشف اختر

لائبریرین
جیسا کہ پہلے کسی دھاگے میں راحیل فاروق بھائی سے دورانِ تبادلۂ خیال عرض کیا تھا ”شاعری میرے بس سے باہر کی چیز ہے “البتہ جہاں تک بات تک بندی کی ہے تو یہ کام گہرے افکار ،عمدہ تخیلات لانے کی بہ نسبت کچھ آسان ہے ! اردو محفل میں شمولیت کے بعد بفضل ِ الہی میری تک بندیوں کو ایک نئی سمت مل گئی ہے ۔ اسی سلسلے کی ایک تک بندی ”جو علامہ اقبال ؒ کی ابوبکر صدیقؓ کی شان میں لکھی گئی منقبت کی قراءت کے دوران طبیعت کی روانی کا نتیجہ ہے “ حاضر ِ خدمت ہے ! تمام اساتذہ سے اصلاح و تبصرے کی درخواست ہے ! خصوصا ً محترم الف عین صاحب !

عاشق تھا تو نبیﷺ کا ، سچا تھا غمگسار
تجھ کو حبیبِ حق نے بنایا تھا رازدار
تو تھا سفر،حضر میں رفیقِ رسولِ پاک
رشکِ ملَک ہے تو کہ بنا ان کایارِ غار
تجھ پر گراں تھا چشمِ زدن آپؐ کا فراق
صد جاں سے تو حبیبِ خدا پر ہو انثار
ہوتا تھا جب رسولِ خدا سے کبھی جدا
بے ماہی آب کی طرح ہوتا تھا بے قرار
جب تک نہ کرتا دیدِ رسولِ خدائےپاک
آتا کہاں تھا دل کو ترے ،چین اور قرار
کاشؔف مجالِ فکر سے برتر ہے ان کا عشق
لکھے گا ان کی شان میں کیا کچھ تو گنہگار
ہم کرگسوں کی چیخ سے حاصل نہ ہوگا کچھ
کافی ہے تیری مدح میں شاہیں کی اک پکار
بالا عقابِ فکر سے تیرا مقامِ عشق
گویا ہیں تیری شان میں اقبالِ دلفگار
”پروانے کو چراغ ہے ، بلبل کو پھول بس “
”صدیق کیلئے ہے ،خدا کا رسول بس “


 

الف عین

لائبریرین
وزن کے حساب سے صرف پہلا مصرع غلط ہے۔
عاشق تھا تو نبی کا ، سچا تھا غمگسار

اسے یوں کر دیں
عاشق تھاوہ رسول کا ، سچا تھا غمگسار
مزید
تجھ پر گراں تھا چشمِ زدن آپؐ کا فراق
چشمِ زدن کا محاورہ یہاں غلط استعمال ہوا ہے۔

بے ماہی آب کی طرح ہوتا تھا بے قرار
ماہی بے آب تو ہوتا ہے، یا اسے بے آب ماہی کہہ سکتے ہیں ۔ پانی بھی کیا مچھلی کے لئے تڑپتا ہے؟

لکھے گا ان کی شان میں کیا کچھ تو گنہگار
گنہگار کا تلفظ۔ محمد یعقوب آسی اس طرح چل سکتا ہے؟
 

کاشف اختر

لائبریرین
بے ماہی آب کی طرح ہوتا تھا بے قرار
ماہی بے آب تو ہوتا ہے، یا اسے بے آب ماہی کہہ سکتے ہیں ۔ پانی بھی کیا مچھلی کے لئے تڑپتا ہے؟

سر جلدی میں غلط ٹائپ کرگیا ۔ ورنہ کاپی میں ۔۔۔۔۔۔ بے آب ماہی ۔۔۔۔۔ لکھا تھا ! کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ اصل مراسلے میں ترمیم کردوں کہ یہ ٹائپنگ کی غلطی ہے ؟
 
لہجہ بہت عمدہ ہے، کاشف بھائی۔ ماشاءاللہ۔
پہلے مصرع پر بزرگوں کی رائے بجا ہے۔ باقی کچھ آراء زبردستی دے رہا ہوں۔
لکھے گا ان کی شان میں کیا کچھ تو گنہگار
معمولی سی ترمیم سے یہ مصرع درست تلفظ کے ساتھ باوزن ہو جائے گا۔
لکھے گا ان کی شان میں کیا تو گناہگار؟
بے ماہی آب کی طرح ہوتا تھا بے قرار
ہوتا تھا (رہتا تھا) مثلِ ماہئِ بے آب بے قرار
تجھ پر گراں تھا چشمِ زدن آپؐ کا فراق
تھا تجھ پہ لمحہ بھر بھی گراں آپ کا فراق
 
آخری تدوین:

کاشف اختر

لائبریرین
لہجہ بہت عمدہ ہے، کاشف بھائی۔ ماشاءاللہ۔
پہلے مصرع پر بزرگوں کی رائے بجا ہے۔ باقی کچھ آراء زبردستی دے رہا ہوں۔

معمولی سی ترمیم سے یہ مصرع درست تلفظ کے ساتھ باوزن ہو جائے گا۔
لکھے گا ان کی شان میں کیا تو گناہگار؟

ہوتا تھا (رہتا تھا) مثلِ ماہئِ بے آب بے قرار

تھا تجھ پہ لمحہ بھر بھی گراں آپ کا فراق

بہت خوب راحیل فاروق بھائی ! واہ واہ کیا کہنے ! واقعی سچ پوچھیں تو مجھے فقط وہی اشعار پسند آئے جو آپ نے تجویز فرمائے ہیں ۔ اللہ آپ کے علم و عمل خوب برکتیں عطا فرمائے ۔ آئندہ بھی آپ کے مفید مشوروں کا انتظار رہے گا !
 

کاشف اختر

لائبریرین
درست محاورے کی نشاندہی فرمادیں ! جو اس موقع کے مناسب ہو؟
محاورے اور ضرب الامثال بلا مبالغہ ہزاروں ہیں۔ مطالعہ بہت ضروری ہے صاحب! نہ صرف شاعری کا بلکہ شاعری کے باہر کا بھی، اور لسانیات کی کتابوں کا بھی۔
دریا میں اترنا ہے تو کشتی بھی اپنی ہونی چاہئے اور چپو بھی!

درد کے دریا میں غوطہ زن ہوا غواصِ شوق
موج خود کشتی بنی، گرداب چپو کر دیے
۔۔۔۔ فقیر
 

جنابِ شاعر! ایک عمومی اصول جان لیجئے! مدح و ثنا اور منقبت یا کوئی بھی نام دے لیجئے۔ آپ کے پیشِ نظر جتنی بڑی شخصیت ہو، آپ کا اسلوب بھی اور علم بھی اس کے جس حد تک قریب آپ لے جا سکتے ہیں، لے جائیے!
 

کاشف اختر

لائبریرین
جنابِ شاعر! ایک عمومی اصول جان لیجئے! مدح و ثنا اور منقبت یا کوئی بھی نام دے لیجئے۔ آپ کے پیشِ نظر جتنی بڑی شخصیت ہو، آپ کا اسلوب بھی اور علم بھی اس کے جس حد تک قریب آپ لے جا سکتے ہیں، لے جائیے!


سمجھا نھیں! کیا کہنا چاہتے ہیں؟ تھوڑی وضاحت کردیں تو بہت بہتر ہوگا؟
 
سمجھا نھیں! کیا کہنا چاہتے ہیں؟ تھوڑی وضاحت کردیں تو بہت بہتر ہوگا؟
اپنے ممدوح کے مقام و مرتبہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے، اپنے اظہار میں بھی، اسلوب میں بھی اور مضامین میں بھی بلندی لائیے۔
اور میں نے یہ بات خاص طور پر آپ کی کوشش کے حوالے سے نہیں کی کہ اس میں یہ ہے وہ نہیں ہے وغیرہ۔ میں نے ایک عمومی اصول بیان کیا ہے۔
 

کاشف اختر

لائبریرین
اپنے ممدوح کے مقام و مرتبہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے، اپنے اظہار میں بھی، اسلوب میں بھی اور مضامین میں بھی بلندی لائیے۔
اور میں نے یہ بات خاص طور پر آپ کی کوشش کے حوالے سے نہیں کی کہ اس میں یہ ہے وہ نہیں ہے وغیرہ۔ میں نے ایک عمومی اصول بیان کیا ہے۔


بہت عمدہ اصول بیان فرمایا ہے آپ نے! جزاکم اللہ خیرا ً
 
لکھے گا ان کی شان میں کیا کچھ تو گنہگار
گنہگار کا تلفظ۔ محمد یعقوب آسی اس طرح چل سکتا ہے؟
نہیں محترم! گستاخی پر محمول نہ فرمائیے تو عرض کروں کہ ۔۔۔۔۔۔

فارسی اسماء و افعال میں الف، واو، یاے؛ کا گرانا تو کیا قطعی حذف تک درست مانا جاتا ہے اور بہت عام ہے۔ تاہم اس میں ایک بات خاص طور پر نوٹ کرنے کی ہے کہ ایسے حذف شدہ حرفِ علت (الف، واو، یاے) کا حرف ماقبل حرفِ علت کو بطور حرکت (زبر، زیر، پیش) اپنا لیتا ہے۔ راہ سے رَہ، کوہستان سے کُہِستان، بیست سے بِست۔ ہم اس حرکت کو جزم میں نہیں بدل سکتے۔
آپ کی تجویز پر عمل کرنے کی صورت میں یا تو اس کو یوں پڑھیں گے:
لکھے گا ان کی شان میں کیا کچھ تو گنہگار (مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات) گُن ہَ گار ؟؟ حرکات و سکنات کے قاعدے کے خلاف ہو گیا۔
یا پھر
لکھے گا ان کی شان میں کیا کچھ تو گنہگار (مفعول فاعلات مفاعیل مفاعیل) گُ نَ ہ گار ؟؟ بحر بھی متاثر ہو گئی۔ یوں نہیں تو اوپر تلے تین ہجائے کوتاہ بھی واقع ہو گئے! اردو میں تو اس کی گنجائش ہے ہی نہیں، فارسی والوں کے بارے میں جناب محمد وارث بہتر بتا سکتے ہیں، عربی میں یہ بہت عام ہے (فاصلہ کبریٰ) وَطَنُنا بلکہ اس سے بھی آگے لِوَطَنِنا۔
زحافات کا شعبہ جناب مزمل شیخ بسمل کا ہے۔

میرے مخاطب آپ نہ ہوتے تو میں اتنی باریکی میں نہ جاتا۔ آپ کا علمی قد اس باریک بیانی کا متقاضی تھا۔ بارِ دگر گستاخی پر شرمندہ ہوں۔
 
آخری تدوین:

کاشف اختر

لائبریرین
محترم سر الف عین صاحب ! آپ کی ایک نظر کا منتظر ہوں


عاشق تھا تو رسول کا ، سچا تھا غمگسار
تجھ کو حبیبِ حق نے بنایا تھا رازدار

توتھا سفر،حضر میں رفیقِ رسول ِپاک
رشکِ ملَک ہے تو کہ بنا ان کایارِ غار

تھا تجھ پہ لمحہ بھر بھی گراں آپؐ کا فراق
صد جاں سے تو حبیبِ خدا پر ہوا نثار

ہوتا تھا جب رسولِ خدا سے کبھی جدا
رہتا تھا مثل ماہی بے آب بے قرار

جب تک نہ کرتا دیدِ رسولِ خدائےپاک
آتا کہاں تھا دل کو ترے ،چین اور قرار

کاشؔف مجالِ فکر سے برتر ہے ان کا عشق
لکھے گا ان کی شان میں کیا تو گناہگار

ہم کرگسوں کی چیخ سے کیا ہوگا فائدہ؟
کافی ہے تیری مدح میں شاہیں کی اک پکار

بالا عقابِ فکر سے تیرا مقامِ عشق
گویا ہیں تیری شان میں اقبالِ دلفگار

”پروانے کو چراغ ہے ، بلبل کو پھول بس “
”صدیق کیلئے ہے ،خدا کا رسول بس “
 
Top