فاخر
محفلین
جناب فلسفی بھائی نے اپنا تعارف پیش کیا تھا ، ان کا پیش کردہ تعارف پڑھ کرمتاثر بھی ہوا ،تعارف پڑھتے ہوئے ایسا لگا کہ:’وہ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں ‘، میری عمر تقریباً 27کے قریب ہے ، جیسا دارالعلوم کی سند میں ’ درج‘ کیا گیا ہے ۔درست تاریخِ پیدائش کا مجھے علم نہیں اور نہ ہی میں نے کبھی اس کی تحقیق کی کہ :’میری تاریخِ پیدائش کیا ہے‘ ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ’ہم بوریہ نشینوں اور خاک نشینوں کو کبھی مروجہ ’مغربی طرز کے برتھ ڈے ‘ منانے کی خواہش نہیں ہوئی کہ : ’کوئی تاریخِ پیدائش ’گڑھ‘ کر احباب سے تحفے ’ہڑپوں‘ ، خیر ! سوچا کہ میں بھی اپنا تعارف پیش کردوں ؛کیوں کہ اس سے قبل میں نے کبھی اپنا مفصل ’تعارف ‘ پیش نہیں کرایا تھا ۔ لیجئے ! مفصل تو نہیں ،البتہ مختصر تعارف پیش ہے ، ویسے آج جمعۃ المبارک بھی ہے ، اس لیے ذرا فراغت ہے ، اس دوران کچھ ’دست درازی ‘ کی بورڈکے ساتھ کرلی جائے ۔
میں اصلاً راجپوت ہوں ،میری دسویں یا گیارہویں پشت میں ایک فردِ مجہول( اللہ ان کے درجات بلندفرمائے ) نے عہدعالمگیری میں اسلام قبول کیا تھا ۔ میری تعلیم ازہر ہنددارالعلوم سے مکمل ہوئی ہے ، الحمد للہ برسرِ روزگار ہوں ، ہندوستان کے ایک معروف نیوز ایجنسی میں بطور مترجم اپنی خدمات انجام دے رہا ہوں ۔ ابتداء سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق رہاہے ، اس لیے چھوٹی سی عمرمیں ہی ہندوستان کے چھوٹے موٹے جریدے میں تمام موضوعات پر لکھتا رہا۔ گزشتہ چار سال قبل عام انتخابات کے موقعہ پر سیاسی موضوع پر بہت ہی کثرت سے لکھا ، ہر صبح جب کسی اخبار میں اپنی تحریر نہیں دیکھ لیتا تھا ،سکون نہیں ملتا تھا ۔ اس ’کثرت‘ کی وجہ یہ بھی تھی کہ بی جے پی کی طرف سے موجودہ وزیر اعظم مودی کو وزارت ِ عظمیٰ کے لیے نامزدکیا گیا تھا ۔لیکن ہماری اور دیگر اردو اخبارات کی پرزور مخالفت کے بعدبھی مودی صاحب وزارتِ عظمیٰ کو ’زینت‘ بخشنے لگے،شاید ہندوستان کی قسمت میں یہی لکھا تھا ،اب وزرات ِ عظمیٰ کی مدت مکمل ہونے جارہی ہے ، اور نئے سرے سے پھر الیکشن کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا ہے ، ساتھ ہی ضابطہ اخلاق کانفاذ بھی ہوگیا ہے ۔ اسی دوران مجھے یہ احساس ہوا کہ ’احوالِ معاصر یا بلفظ دیگر سیاسیات ‘ پر لکھنا وقت کا ’ضیاع‘ ہے ۔ خیر ! یہ واضح ہو کہ میرے لیے لکھنا جتنا آسان ہے ، اتنا ہی مشکل ’کہنا‘ ہے ۔ کیوں کہ شعر بحور و اوزان کا متقاضی ہوا کرتا ہے ، جب کہ نثر بحر کی قید سے آزاد ہوا کرتا ہے ۔ مضامین اور خیالات کے متعلق بطور’ تحدیث نعمت‘ عرض کردوںکہ الحمدللہ! ’مضامین اور خیالات ‘ میرے لیے ایسے ہی ہیں جیسے کہ آسمان میں چمکتے ہوئے ’ستارے ‘۔ البتہ خیالات کی نشست ’بحروں ‘ میں میرے لیے مشکل ہوجاتی ہے ، اور جس طریقۂ کار سے میں میں اپنے خیالات پیش کرتا ہوں ،اس سے قاری پر کوئی ’اثر‘ نہیں ہوتا شاید مبتدی ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس پلیٹ فارم پر میرے آنے کا یہی مقصد بھی ہے کہ یہاں سے کچھ سیکھ لوں ۔
امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزادعلیہ الرحمۃ سے میں بچپنے سے ہی متاثر ہوں ، متاثر ہی نہیں ؛بلکہ ان سے محبت عشق کے درجہ تک ہے ۔ یاد پڑتا ہے کہ مکتب کی اپنی کتابوں میں مولاناعلیہ الرحمہ کی تصویر پرانی کتابوں سے ’تراش‘کراپنی کتاب میں رکھتا تھا ، اس الفت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی شکل کچھ حد تک میرے دادا محترم سے ملتی جلتی تھی ۔حد تو یہ ہوگئی کہ جب میرے ٹیچر صاحب نے بھی مجھے چھوٹا آزادکہہ کر مخاطب کرنے لگے ۔ اسکول میں میں ’چھوٹا آزاد‘ کے نام سے مشہورہوگیا ۔ لیکن اس وقت تک میں مولانا آزادعلیہ الرحمہ سے واقف نہیں ہوا تھا کہ جس شخص سے محض تصویر دیکھ کر اتنی محبت کرتا ہوں وہ’ کیسا‘ ہے ۔ جب میں بڑا ہوا اورمولانا آزادعلیہ الرحمہ کو باضابطہ پڑھنے لگا تو خود پر رشک آنے لگا اورحالت تو یہ ہوگئی کہ’ الہلال ‘ کے پرچے میرے نصاب میں شامل ہوگئے ۔ محبت کی سرگرانی مزید بڑھ گئی حتیٰ کہ لباس و ہیئت اور نشست و برخاست میں بھی میں نے مولانا آزادعلیہ الرحمہ کی ’نقل ‘کرنے لگا ۔ میں نے بڑے ہی شوق سے مولانا آزادعلیہ الرحمہ کی شیروانی کی تصویر لے کر درزی کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے اسی طرح کی شیروانی چاہیے ،اس کے عوض میں آپ کو منھ مانگی اجرت ملے گی ۔ اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ چوری چھپے ’دخت ِ رز‘(سگریٹ ) کے دو چار کش بھی لگا بیٹھا ! شکرہے کہ اس کا عادی نہیں بنا؛لیکن کہاں امام الہندعلیہ الرحمہ اور کہاں کم علم ،کوتاہ ہمت بندہ ٔ مشت خاک !
ان کے علاوہ میں ذاتی طورپر حجۃ الاسلام الامام محمد قاسم النانوتوی، قطب الاقطاب حضرت مولانا شاہ فضل رحماں گنج مرادآبادی ، شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ، امیر شریعت مولانا عطا ء اللہ شاہ بخاری ،محدث کبیر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری، شیخ الاسلام مولانا حسین احمدمدنی ، مفکر اسلام ابوالمحاسن حضرت مولانا سجاد احمد بانی ٔ امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ ، قطب عالم حضرت مولانا محمدعلی مونگیری، امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی،شیخ الحدیث مولانا انظر شاہ کشمیری، علیہم الرحمہ سے بہت ہی متاثر ہوں اور ان کو میں اپنا دینی امام ، متقدا، پیشوا ، رہنما ، نجات دہندہ ، حتیٰ کہ ان کو میں اپنا ’ایمان ‘ تصور کرتا ہوں ۔ اسی طرح اہلِ دل کی بھی ایک طویل فہرست سے ہے ، جن میں شیخ عبدالقادر جیلانی ، خواجہ معین الدین چشتی ، محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء ، اور بوعلی قلندر سرفہرست ہیں ۔ان صوفیاء سے محبت اسی حدتک ہے کہ ان کے مزارات کی زیارت کرلیتا ہوں ، فاتحہ پڑھ لیتا ہوں اور کیا یہ ممکن ہے کہ جو شخص مولاناآزادعلیہ الرحمہ کو اپنا امام تصور کرتا ہوں ، وہ مزارات پر مروجہ ’ خرافات کا قائل ہوسکتا ہے ، ہرگز نہیں ، شریعت جس محبت کا تقاضاان اولیاء کے تئیں کرتی ہے ، میں اسی کا پابندہوں۔ حضرت نظام الدین اولیاء میری قیام گاہ سے تقریباً سات کیلو میٹر دور ہی محو ِ استراحت ہیں ، جب بھی طبیعت بوجھل ہوتی ہے ، جاکر فاتحہ پڑھ لیتا ہوں ۔
ادب و سیاست میں ظاہر کہ میرا ’امام ‘امام الہندمولانا آزادعلیہ الرحمہ ہیں ،چونکہ میرا ’ہیرو‘ ادب و سیاست کا خالق و موجد تھا ؛ اس لیے اس ضمن میں کسی اور کی ’خواہش ‘نہ ہوسکی ۔ البتہ شعرا میں حافظؔ، رومی ؔ، سعدیؔ، حضرت امیرخسروؔ، مولانا خواجہ حالیؔ ، کے علاوہ کسی اور شاعر سے متاثر نہ ہوسکا، مجھے اس کی وجہ بھی نہیں معلوم۔
نصابی کتاب سے فراغت ہوچکی ہے ، دیگر فنون کی کتابیں میرے مطالعہ میں ہیں ۔ کچھ لمحے ان سے فراغت مل جاتی ہے تو اپنے ذوق کی تشنہ کامی اور کا مجوئیوں کے تکمیل کے لیے خیالات کو بحروں میں سمونے کی کوشش کرتا رہتا ہوں ، اور اپنی ’کج کلامیاں ‘آپ تمام قارئین کی خدمت میں پیش کرتا رہتا ہوں ۔پیش کی جانے والی لڑی میں ’بحث و مناشقہ‘ کے متعلق میں کیا کہوں ؟ اس سلسلے میں مبصرین ہی جوا ب دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے تبصرے میں ایسا لہجہ اختیار کیوں کرتے ہیں جو کہ ……… جی ہاں ! جو کہ........... ناقابلِ برداشت ہو! اب یہ سوال بھی ہوسکتا ہےکہ سیکھنے والے کو حلم و بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے یہ سچ ہے ؛لیکن اس شخص کا ہی درشت لہجہ برداشت کیا جاسکتا ہے کہ جس کا سخت سست کہنا بھی محبت کے لیے ہو۔ حوصلہ شکنی اور تخریب کے لیے نہ ہو۔ میں اس فورم سے کب کا ترک تعلق کرلیتا ؛لیکن اس فورم میں مبتدیوں کی اصلاح حضرت الف عین صاحب کرتے ہیں اس لیے رکا ہوا ہوں ،ایرے غیرے اور مجہول الحال شخص کی ’بڑ‘ سن لیتا ہوں ۔ خیر چلیں :’آنچہ گذشت گذشت‘ ۔ اگر یہ پوری تحریر پڑھ چکے ہوں تواس کا شکریہ! دعاء خیر میں یاد رکھیں ۔ والسلام ۔
میں اصلاً راجپوت ہوں ،میری دسویں یا گیارہویں پشت میں ایک فردِ مجہول( اللہ ان کے درجات بلندفرمائے ) نے عہدعالمگیری میں اسلام قبول کیا تھا ۔ میری تعلیم ازہر ہنددارالعلوم سے مکمل ہوئی ہے ، الحمد للہ برسرِ روزگار ہوں ، ہندوستان کے ایک معروف نیوز ایجنسی میں بطور مترجم اپنی خدمات انجام دے رہا ہوں ۔ ابتداء سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق رہاہے ، اس لیے چھوٹی سی عمرمیں ہی ہندوستان کے چھوٹے موٹے جریدے میں تمام موضوعات پر لکھتا رہا۔ گزشتہ چار سال قبل عام انتخابات کے موقعہ پر سیاسی موضوع پر بہت ہی کثرت سے لکھا ، ہر صبح جب کسی اخبار میں اپنی تحریر نہیں دیکھ لیتا تھا ،سکون نہیں ملتا تھا ۔ اس ’کثرت‘ کی وجہ یہ بھی تھی کہ بی جے پی کی طرف سے موجودہ وزیر اعظم مودی کو وزارت ِ عظمیٰ کے لیے نامزدکیا گیا تھا ۔لیکن ہماری اور دیگر اردو اخبارات کی پرزور مخالفت کے بعدبھی مودی صاحب وزارتِ عظمیٰ کو ’زینت‘ بخشنے لگے،شاید ہندوستان کی قسمت میں یہی لکھا تھا ،اب وزرات ِ عظمیٰ کی مدت مکمل ہونے جارہی ہے ، اور نئے سرے سے پھر الیکشن کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا ہے ، ساتھ ہی ضابطہ اخلاق کانفاذ بھی ہوگیا ہے ۔ اسی دوران مجھے یہ احساس ہوا کہ ’احوالِ معاصر یا بلفظ دیگر سیاسیات ‘ پر لکھنا وقت کا ’ضیاع‘ ہے ۔ خیر ! یہ واضح ہو کہ میرے لیے لکھنا جتنا آسان ہے ، اتنا ہی مشکل ’کہنا‘ ہے ۔ کیوں کہ شعر بحور و اوزان کا متقاضی ہوا کرتا ہے ، جب کہ نثر بحر کی قید سے آزاد ہوا کرتا ہے ۔ مضامین اور خیالات کے متعلق بطور’ تحدیث نعمت‘ عرض کردوںکہ الحمدللہ! ’مضامین اور خیالات ‘ میرے لیے ایسے ہی ہیں جیسے کہ آسمان میں چمکتے ہوئے ’ستارے ‘۔ البتہ خیالات کی نشست ’بحروں ‘ میں میرے لیے مشکل ہوجاتی ہے ، اور جس طریقۂ کار سے میں میں اپنے خیالات پیش کرتا ہوں ،اس سے قاری پر کوئی ’اثر‘ نہیں ہوتا شاید مبتدی ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس پلیٹ فارم پر میرے آنے کا یہی مقصد بھی ہے کہ یہاں سے کچھ سیکھ لوں ۔
امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزادعلیہ الرحمۃ سے میں بچپنے سے ہی متاثر ہوں ، متاثر ہی نہیں ؛بلکہ ان سے محبت عشق کے درجہ تک ہے ۔ یاد پڑتا ہے کہ مکتب کی اپنی کتابوں میں مولاناعلیہ الرحمہ کی تصویر پرانی کتابوں سے ’تراش‘کراپنی کتاب میں رکھتا تھا ، اس الفت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی شکل کچھ حد تک میرے دادا محترم سے ملتی جلتی تھی ۔حد تو یہ ہوگئی کہ جب میرے ٹیچر صاحب نے بھی مجھے چھوٹا آزادکہہ کر مخاطب کرنے لگے ۔ اسکول میں میں ’چھوٹا آزاد‘ کے نام سے مشہورہوگیا ۔ لیکن اس وقت تک میں مولانا آزادعلیہ الرحمہ سے واقف نہیں ہوا تھا کہ جس شخص سے محض تصویر دیکھ کر اتنی محبت کرتا ہوں وہ’ کیسا‘ ہے ۔ جب میں بڑا ہوا اورمولانا آزادعلیہ الرحمہ کو باضابطہ پڑھنے لگا تو خود پر رشک آنے لگا اورحالت تو یہ ہوگئی کہ’ الہلال ‘ کے پرچے میرے نصاب میں شامل ہوگئے ۔ محبت کی سرگرانی مزید بڑھ گئی حتیٰ کہ لباس و ہیئت اور نشست و برخاست میں بھی میں نے مولانا آزادعلیہ الرحمہ کی ’نقل ‘کرنے لگا ۔ میں نے بڑے ہی شوق سے مولانا آزادعلیہ الرحمہ کی شیروانی کی تصویر لے کر درزی کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے اسی طرح کی شیروانی چاہیے ،اس کے عوض میں آپ کو منھ مانگی اجرت ملے گی ۔ اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ چوری چھپے ’دخت ِ رز‘(سگریٹ ) کے دو چار کش بھی لگا بیٹھا ! شکرہے کہ اس کا عادی نہیں بنا؛لیکن کہاں امام الہندعلیہ الرحمہ اور کہاں کم علم ،کوتاہ ہمت بندہ ٔ مشت خاک !
ان کے علاوہ میں ذاتی طورپر حجۃ الاسلام الامام محمد قاسم النانوتوی، قطب الاقطاب حضرت مولانا شاہ فضل رحماں گنج مرادآبادی ، شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ، امیر شریعت مولانا عطا ء اللہ شاہ بخاری ،محدث کبیر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری، شیخ الاسلام مولانا حسین احمدمدنی ، مفکر اسلام ابوالمحاسن حضرت مولانا سجاد احمد بانی ٔ امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ ، قطب عالم حضرت مولانا محمدعلی مونگیری، امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی،شیخ الحدیث مولانا انظر شاہ کشمیری، علیہم الرحمہ سے بہت ہی متاثر ہوں اور ان کو میں اپنا دینی امام ، متقدا، پیشوا ، رہنما ، نجات دہندہ ، حتیٰ کہ ان کو میں اپنا ’ایمان ‘ تصور کرتا ہوں ۔ اسی طرح اہلِ دل کی بھی ایک طویل فہرست سے ہے ، جن میں شیخ عبدالقادر جیلانی ، خواجہ معین الدین چشتی ، محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء ، اور بوعلی قلندر سرفہرست ہیں ۔ان صوفیاء سے محبت اسی حدتک ہے کہ ان کے مزارات کی زیارت کرلیتا ہوں ، فاتحہ پڑھ لیتا ہوں اور کیا یہ ممکن ہے کہ جو شخص مولاناآزادعلیہ الرحمہ کو اپنا امام تصور کرتا ہوں ، وہ مزارات پر مروجہ ’ خرافات کا قائل ہوسکتا ہے ، ہرگز نہیں ، شریعت جس محبت کا تقاضاان اولیاء کے تئیں کرتی ہے ، میں اسی کا پابندہوں۔ حضرت نظام الدین اولیاء میری قیام گاہ سے تقریباً سات کیلو میٹر دور ہی محو ِ استراحت ہیں ، جب بھی طبیعت بوجھل ہوتی ہے ، جاکر فاتحہ پڑھ لیتا ہوں ۔
ادب و سیاست میں ظاہر کہ میرا ’امام ‘امام الہندمولانا آزادعلیہ الرحمہ ہیں ،چونکہ میرا ’ہیرو‘ ادب و سیاست کا خالق و موجد تھا ؛ اس لیے اس ضمن میں کسی اور کی ’خواہش ‘نہ ہوسکی ۔ البتہ شعرا میں حافظؔ، رومی ؔ، سعدیؔ، حضرت امیرخسروؔ، مولانا خواجہ حالیؔ ، کے علاوہ کسی اور شاعر سے متاثر نہ ہوسکا، مجھے اس کی وجہ بھی نہیں معلوم۔
نصابی کتاب سے فراغت ہوچکی ہے ، دیگر فنون کی کتابیں میرے مطالعہ میں ہیں ۔ کچھ لمحے ان سے فراغت مل جاتی ہے تو اپنے ذوق کی تشنہ کامی اور کا مجوئیوں کے تکمیل کے لیے خیالات کو بحروں میں سمونے کی کوشش کرتا رہتا ہوں ، اور اپنی ’کج کلامیاں ‘آپ تمام قارئین کی خدمت میں پیش کرتا رہتا ہوں ۔پیش کی جانے والی لڑی میں ’بحث و مناشقہ‘ کے متعلق میں کیا کہوں ؟ اس سلسلے میں مبصرین ہی جوا ب دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے تبصرے میں ایسا لہجہ اختیار کیوں کرتے ہیں جو کہ ……… جی ہاں ! جو کہ........... ناقابلِ برداشت ہو! اب یہ سوال بھی ہوسکتا ہےکہ سیکھنے والے کو حلم و بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے یہ سچ ہے ؛لیکن اس شخص کا ہی درشت لہجہ برداشت کیا جاسکتا ہے کہ جس کا سخت سست کہنا بھی محبت کے لیے ہو۔ حوصلہ شکنی اور تخریب کے لیے نہ ہو۔ میں اس فورم سے کب کا ترک تعلق کرلیتا ؛لیکن اس فورم میں مبتدیوں کی اصلاح حضرت الف عین صاحب کرتے ہیں اس لیے رکا ہوا ہوں ،ایرے غیرے اور مجہول الحال شخص کی ’بڑ‘ سن لیتا ہوں ۔ خیر چلیں :’آنچہ گذشت گذشت‘ ۔ اگر یہ پوری تحریر پڑھ چکے ہوں تواس کا شکریہ! دعاء خیر میں یاد رکھیں ۔ والسلام ۔