خرم شہزاد خرم
لائبریرین
مجھے کچھ کچھ یاد آتا ہے کہ پہلی دفعہ تعاون کا صندوق کا مشورہ سعود بھائی نے ہی دیا تھا۔ ہوا کچھ یوں تھا کے لائیو کورج کا دوسرا پروگرام محفل کی تیسری سالگرہ پر چل رہا تھا جس کی میزبانی شگفتہ آپی کر رہی تھیں اور ساتھ میں بھی پروگرام کور کرنا سیکھ رہا تھا۔ اسی دوران چائے کے سپنسر کی بات چلی تو سعود بھائی نے صندوق کا مشورہ دیا۔ میں نے اس وقت سعود بھائی کو مشورہ دیا کہ صندوق کی چابی میرے اور آپ کے پاس رہے گی اور جو پیسے بچ جائے گے وہ ہم گول مول کر دیں گے۔ اس وقت سعود بھائی نے کہا کہ ایسی باتیں سرگوشی میں کیا کریں۔میں اس پر راضی ہوگیا۔ پھر اس کے بعد مجھے جابی نہیں ملی اور میں غلطی فہمی میں سعود بھائی کو اپنا پاٹنر سمجھ بیٹھا۔
تیسری سالگرہ ختم ہوئی تو میں سعود بھائی کے پاس گیا اور ان کو ان کا وعدہ یاد کروایا۔ سعود بھائی نے بڑے پیار سے مجھے اپنے پاس بیٹھایا اور کہا دیکھو خرم ہمارے درمیان اس بات کا وعدہ ہوا تھا کہ جو پیسے بچ جائیں گے وہ ہم آدھے آدھے کر لیں گے۔ چلیں حساب لگاتے ہیں۔کل پیسے جمع ہوئے تھے 10 ہزار یعنی 5ہزار تمہارے اور 5 ہزار ہمارے۔ میں خوش ہوگیا۔ بات آگے بڑھی، 5 ہزار پنڈال پر لگ گے۔ یعنی پنڈال میں جتنی کرسیاں ، ٹیبل، سٹیچ ، ٹینٹ وغیرہ پر پانچ ہزار خرچ ہوا۔ یعنی 2ہزار 5 سو تمہارے لگے اور 2 ہزار 5 سو میرے لگے۔ باقی اتنے ہی پیسے دونوں کے پاس بچ گے۔ میں دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ اتنے پیسے بچ گے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد سعود بھائی پھر بولے، چائے اور بسکٹ وغیرہ پر ایک ہزار خرچ ہوا، وہ بھی ہم دونوں پر تقسیم ہوا یعنی پانچ ، پانچ سو۔ باقی پھر بھی دو ہزار بچتے تھے میں دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا۔ اور اس زمانے میں دوہزار بہت بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔ پھر سعود بھائ بولے، کچھ خاص مہمانوں کو کھانا کھلایا اور کچھ مہمانوں کو آنے جانے کا کرایہ بھی دینا پڑا، ان سب پر چار ہزار خرچ ہوا۔ سعود بھائی خاموش ہوئے اور میرا منہ لٹک گیا۔ کہ سارے پیسے تو خرچ ہوگے اب ہمارے حصہ میں کچھ نہیں آئے گا۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ سعود بھائی پھر بولے، کچھ اراکین کو انعامات بھی دیے تھے اور کچھ نے اپنے پاس سے چھوٹے چھوٹے خرچے کیے تھے یہ سب ملا کر 2 ہزار بنتا ہے۔ جو میں نے اپنی جیب سے خرچ کیا تھا۔ میرا ارادہ تو نہیں تھا آپ کو بتانے کا لیکن آپ سے وعدہ جو کیا تھا کہ سارے پیسے آدھے آدھے ہونگے اس لیے آپ کو بتانا پڑا اب آپ چاہیں تو آدھے پیسے دے دیں اگر نا چاہیں تو بے شک رہنے دیں۔ میں نے لٹکے ہوئے منہ کے ساتھ جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک ہزار کا نوٹ سعود بھائی کو دے دیا۔ لیکن نا تو مجھے صندوق نظر آیا اور نا ہی جابی۔ چوتھی سالگرہ پر پھر ہمارا یہی معاہدہ ہوا، جب سالگرہ ختم ہوئی تو میں سعود بھائی کے پاس گیا تو سعود بھائی نے پھر وہی سے بات شروع کی۔ میں نے دوسری بات ہی نہیں کی اور سعود بھائی کو کہا جی مجھے بتائیں مجھے آپ کو کتنے پیسے دینے ہیں۔ اور اس سالگرہ میں بھی مجھے لینے کے دینے پڑے اور اسی طرح پانچویں اور چھٹی سالگرہ پر بھی یہ حساب رہا۔ لیکن اب مجھے یاد آیا تیسری سالگرہ پر چائےکا سپنسر شمشاد بھائی کی طرف سے تھا اسی طرح باقی سب اخراجات کا سپنسر بھی ہوگا۔ سعود بھائی ہر سال صندوق کی سکورٹی سخت سے سخت کی سالگرہ کے آخر میں نا صندق نظر آیا نا سعود بھائی لیکن سب کم ختم ہونے کے بعد ہر دفعہ مجھے ہی جیب سے ہی دینے پڑے۔ لیکن سعود بھائی اس دفعہ ایسا کچھ نہیں ہوگا مجھے میرا حصہ چاہے بس اگر میرا حصہ مجھے نا ملا تو یہ کہانی میں سب کو سنا دوں گا۔