تعزیرِ خطا مجھ کو سنا کیوں نہیں دیتا

خیال و اوزان


  • Total voters
    4

ابن رضا

لائبریرین
گزارش برائے اصلاح بحضور جناب
الف عین محمد یعقوب آسی سید عاطف علی مزمل شیخ بسمل مہدی نقوی حجاز محمد اسامہ سَرسَری و دیگر اربابِ سخن


کیا کیا ہیں گلے اُس کو، بتا کیوں نہیں دیتا
تعزیرِ خطا مجھ کو سنا کیوں نہیں دیتا

ہیں ناوکِ دل دوز مرے یار کے تیور
اِک بار وہ سب تیر چلا کیوں نہیں دیتا

یک طرفہ محبت کے تذبذب سے تو نکلوں
اس راز سے پردہ وہ ہٹا کیوں نہیں دیتا

لکھتا بھی ہے مجھ کو سرِقرطاسِ محبت
مذموم جو لگتا ہوں مٹا کیوں نہیں دیتا

اتنا ہی فسردہ ہے اگر حال پہ میرے
جلوہ کبھی اپنا وہ دکھا کیوں نہیں دیتا

سرگرمِ سفر ہوں میں ترے دشت میں کب سے
مجھ کو مری منزل کا پتا کیوں نہیں دیتا

خوابیدہ نصیبی بھی تو تیری ہی عطا ہے
سوئی مری تقدیر جگا کیوں نہیں دیتا

جو تابِ تماشا ہی نہیں اس میں رضا تو
وہ آتشِ فرقت کو بجھا کیوں نہیں دیتا
 
آخری تدوین:
بلا تمہید ۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہی تلخ نوائی جو مرا حصہ ہے


کیا کیا ہیں اُسے شکوے، بتا کیوں نہیں دیتا
یہ بارِ گراں دل سے ہٹا کیوں نہیں دیتا
’’شکوے‘‘ کی ’’ے‘‘ کا گرنا اگرچہ جائز ہے تاہم یہاں صوتی ثقالت پیدا کر رہا ہے۔ اگر یوں ہو: کیا کیا ہیں گلے اس کو بتا کیوں نہیں دیتا ۔۔۔؟
دوسرا مصرع مجھے لگتا ہے جیسے کچھ دور جا پڑا ہے۔ کیا فرماتے ہیں جناب الف عین صاحب۔

یک طرفہ محبت کے تذبذب سے تو نکلوں
گستاخ جو ٹھہرا ہوں سزا کیوں نہیں دیتا
یہاں بھی مجھے دونوں مصرعوں کے درمیان ربط قائم کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ جیسے دو الگ مضامین یک جا ہو گئے مگر ان کو جوڑا نہیں گیا۔

قرطاسِ محبت پہ سجایا بھی ہے مجھ کو
مذموم ہوں اتنا تو مٹا کیوں نہیں دیتا
دوسرا مصرع عجزِ بیان کا شکار ہو رہا ہے۔ لفظ یا حرف کی بات ہے تو کسی طور فعل ایسا لائیے کہ از خود بیان کر دے: مثلاً لکھنا۔

کیوں سوچتا رہتا ہے شب روز وہ اکثر
ماضی ہوں میں اسکا تو بھلاکیوں نہیں دیتا
یہاں ’’اکثر‘‘ بجائے مفید تر رعایت لائی جا سکتی تھی: کیوں سوچتا رہتا ہے شب و روز مجھے تو ۔۔ یا ۔۔وہ ۔۔۔ ؟؟ ۔ الفاظ کو بلا ضرورت جوڑ کر نہ لکھا جائے تو بہتر ہے ’’اسکا‘‘ کی بجائے ’’اس کا‘‘ لکھئے۔ فی زمانہ ہر لفظ کی انفرادی املاء یوں بھی اہم تر ہو گئی ہے (کمپیوٹر پروگرامنگ)۔ کلام اس شعر میں یہ بھی ہے کہ ضروری نہیں کہ ماضی کو بھلا دیا جائے یا بھلایا جا سکے۔ ماضی بہت اہم ہے۔ حال تو ایک لمحے کا ہوتا ہے بس!۔

سرگرمِ تمنا ہوں تری دنیا میں کب سے
مجھ کو مری منزل کا پتا کیوں نہیں دیتا
سرگرمِ تمنا ہونا اور بات ہے گرمِ سفر ہونا اور بات ہے۔ ’’سرگرمِ سفر ہوں میں ترے دشت میں کب سے‘‘ ؟؟ جناب الف عین کی توجہ مطلوب ہے۔

قسمت میں نہیں گرمرا محبوب تو مجھ کو
سنگِ درِ جاناں ہی بنا کیوں نہیں دیتا
مضمون عمدہ بن سکتا تھا مگر عجزِ بیان آن پڑا۔

جو تابِ تماشا ہی نہیں اس میں اگر تو
اس آگ کو آکر وہ بجھا کیوں نہیں دیتا
یہاں ’’جو‘‘ بھی ’’اگر‘‘ کے معانی میں آ رہا ہے۔ ’’آگ‘‘ کا کچھ تو تعارف کرائیے کہ آگ کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں: نفرت کی آگ، حسد کی آگ، محبت کی آگ؟؟؟ وغیرہ۔

ہے ناز اسے میری محبت پہ رضا تو
وہ میری وفاؤں کا صلہ کیوں نہیں دیتا
محب کی شان نہیں کہ وفاؤں کا صلہ طلب کرے اور وہ بھی اس انداز میں: ’’کیوں نہیں دیتا‘‘؟۔ ناز اور فخر کا فرق دیکھ لیجئے کہ ’’ناز‘‘ اپنے کسی وصف یا عمل سے منسلک ہوتا ہے۔ محبت آپ کر رہے ہیں تو اسے آپ کی محبت پر فخر ہونا چاہئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بلا تمہید ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
پھر وہی تلخ نوائی جو مرا حصہ ہے


کیا کیا ہیں اُسے شکوے، بتا کیوں نہیں دیتا
یہ بارِ گراں دل سے ہٹا کیوں نہیں دیتا
’’شکوے‘‘ کی ’’ے‘‘ کا گرنا اگرچہ جائز ہے تاہم یہاں صوتی ثقالت پیدا کر رہا ہے۔ اگر یوں ہو: کیا کیا ہیں گلے اس کو بتا کیوں نہیں دیتا ۔۔۔ ؟
دوسرا مصرع مجھے لگتا ہے جیسے کچھ دور جا پڑا ہے۔ کیا فرماتے ہیں جناب الف عین صاحب۔

یک طرفہ محبت کے تذبذب سے تو نکلوں
گستاخ جو ٹھہرا ہوں سزا کیوں نہیں دیتا
یہاں بھی مجھے دونوں مصرعوں کے درمیان ربط قائم کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ جیسے دو الگ مضامین یک جا ہو گئے مگر ان کو جوڑا نہیں گیا۔

قرطاسِ محبت پہ سجایا بھی ہے مجھ کو
مذموم ہوں اتنا تو مٹا کیوں نہیں دیتا
دوسرا مصرع عجزِ بیان کا شکار ہو رہا ہے۔ لفظ یا حرف کی بات ہے تو کسی طور فعل ایسا لائیے کہ از خود بیان کر دے: مثلاً لکھنا۔

کیوں سوچتا رہتا ہے شب روز وہ اکثر
ماضی ہوں میں اسکا تو بھلاکیوں نہیں دیتا
یہاں ’’اکثر‘‘ بجائے مفید تر رعایت لائی جا سکتی تھی: کیوں سوچتا رہتا ہے شب و روز مجھے تو ۔۔ یا ۔۔وہ ۔۔۔ ؟؟ ۔ الفاظ کو بلا ضرورت جوڑ کر نہ لکھا جائے تو بہتر ہے ’’اسکا‘‘ کی بجائے ’’اس کا‘‘ لکھئے۔ فی زمانہ ہر لفظ کی انفرادی املاء یوں بھی اہم تر ہو گئی ہے (کمپیوٹر پروگرامنگ)۔ کلام اس شعر میں یہ بھی ہے کہ ضروری نہیں کہ ماضی کو بھلا دیا جائے یا بھلایا جا سکے۔ ماضی بہت اہم ہے۔ حال تو ایک لمحے کا ہوتا ہے بس!۔

سرگرمِ تمنا ہوں تری دنیا میں کب سے
مجھ کو مری منزل کا پتا کیوں نہیں دیتا
سرگرمِ تمنا ہونا اور بات ہے گرمِ سفر ہونا اور بات ہے۔ ’’سرگرمِ سفر ہوں میں ترے دشت میں کب سے‘‘ ؟؟ جناب الف عین کی توجہ مطلوب ہے۔

قسمت میں نہیں گرمرا محبوب تو مجھ کو
سنگِ درِ جاناں ہی بنا کیوں نہیں دیتا
مضمون عمدہ بن سکتا تھا مگر عجزِ بیان آن پڑا۔

جو تابِ تماشا ہی نہیں اس میں اگر تو
اس آگ کو آکر وہ بجھا کیوں نہیں دیتا
یہاں ’’جو‘‘ بھی ’’اگر‘‘ کے معانی میں آ رہا ہے۔ ’’آگ‘‘ کا کچھ تو تعارف کرائیے کہ آگ کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں: نفرت کی آگ، حسد کی آگ، محبت کی آگ؟؟؟ وغیرہ۔

ہے ناز اسے میری محبت پہ رضا تو
وہ میری وفاؤں کا صلہ کیوں نہیں دیتا
محب کی شان نہیں کہ وفاؤں کا صلہ طلب کرے اور وہ بھی اس انداز میں: ’’کیوں نہیں دیتا‘‘؟۔ ناز اور فخر کا فرق دیکھ لیجئے کہ ’’ناز‘‘ اپنے کسی وصف یا عمل سے منسلک ہوتا ہے۔ محبت آپ کر رہے ہیں تو اسے آپ کی محبت پر فخر ہونا چاہئے۔

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
شکریہ استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب، آپ نے نہایت باریک بینی سے مشاہدہ فرما کر اصلاح سے نوازہ ہے میں اب اس پہ مزید کوشش کرتا ہوں کہ کچھ اسقام کا خروج ممکن ہو سکے۔
 
بلا تمہید ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
پھر وہی تلخ نوائی جو مرا حصہ ہے


کیا کیا ہیں اُسے شکوے، بتا کیوں نہیں دیتا
یہ بارِ گراں دل سے ہٹا کیوں نہیں دیتا
’’شکوے‘‘ کی ’’ے‘‘ کا گرنا اگرچہ جائز ہے تاہم یہاں صوتی ثقالت پیدا کر رہا ہے۔ اگر یوں ہو: کیا کیا ہیں گلے اس کو بتا کیوں نہیں دیتا ۔۔۔ ؟
دوسرا مصرع مجھے لگتا ہے جیسے کچھ دور جا پڑا ہے۔ کیا فرماتے ہیں جناب الف عین صاحب۔

یک طرفہ محبت کے تذبذب سے تو نکلوں
گستاخ جو ٹھہرا ہوں سزا کیوں نہیں دیتا
یہاں بھی مجھے دونوں مصرعوں کے درمیان ربط قائم کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ جیسے دو الگ مضامین یک جا ہو گئے مگر ان کو جوڑا نہیں گیا۔

قرطاسِ محبت پہ سجایا بھی ہے مجھ کو
مذموم ہوں اتنا تو مٹا کیوں نہیں دیتا
دوسرا مصرع عجزِ بیان کا شکار ہو رہا ہے۔ لفظ یا حرف کی بات ہے تو کسی طور فعل ایسا لائیے کہ از خود بیان کر دے: مثلاً لکھنا۔

کیوں سوچتا رہتا ہے شب روز وہ اکثر
ماضی ہوں میں اسکا تو بھلاکیوں نہیں دیتا
یہاں ’’اکثر‘‘ بجائے مفید تر رعایت لائی جا سکتی تھی: کیوں سوچتا رہتا ہے شب و روز مجھے تو ۔۔ یا ۔۔وہ ۔۔۔ ؟؟ ۔ الفاظ کو بلا ضرورت جوڑ کر نہ لکھا جائے تو بہتر ہے ’’اسکا‘‘ کی بجائے ’’اس کا‘‘ لکھئے۔ فی زمانہ ہر لفظ کی انفرادی املاء یوں بھی اہم تر ہو گئی ہے (کمپیوٹر پروگرامنگ)۔ کلام اس شعر میں یہ بھی ہے کہ ضروری نہیں کہ ماضی کو بھلا دیا جائے یا بھلایا جا سکے۔ ماضی بہت اہم ہے۔ حال تو ایک لمحے کا ہوتا ہے بس!۔

سرگرمِ تمنا ہوں تری دنیا میں کب سے
مجھ کو مری منزل کا پتا کیوں نہیں دیتا
سرگرمِ تمنا ہونا اور بات ہے گرمِ سفر ہونا اور بات ہے۔ ’’سرگرمِ سفر ہوں میں ترے دشت میں کب سے‘‘ ؟؟ جناب الف عین کی توجہ مطلوب ہے۔

قسمت میں نہیں گرمرا محبوب تو مجھ کو
سنگِ درِ جاناں ہی بنا کیوں نہیں دیتا
مضمون عمدہ بن سکتا تھا مگر عجزِ بیان آن پڑا۔

جو تابِ تماشا ہی نہیں اس میں اگر تو
اس آگ کو آکر وہ بجھا کیوں نہیں دیتا
یہاں ’’جو‘‘ بھی ’’اگر‘‘ کے معانی میں آ رہا ہے۔ ’’آگ‘‘ کا کچھ تو تعارف کرائیے کہ آگ کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں: نفرت کی آگ، حسد کی آگ، محبت کی آگ؟؟؟ وغیرہ۔

ہے ناز اسے میری محبت پہ رضا تو
وہ میری وفاؤں کا صلہ کیوں نہیں دیتا
محب کی شان نہیں کہ وفاؤں کا صلہ طلب کرے اور وہ بھی اس انداز میں: ’’کیوں نہیں دیتا‘‘؟۔ ناز اور فخر کا فرق دیکھ لیجئے کہ ’’ناز‘‘ اپنے کسی وصف یا عمل سے منسلک ہوتا ہے۔ محبت آپ کر رہے ہیں تو اسے آپ کی محبت پر فخر ہونا چاہئے۔

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
لاجواب تصحیح و اصلاح۔۔۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا۔۔۔
اصلاح سخن میں آپ حضرات کی تحریرات پڑھنے کو میں نے اپنا معمول بنالیا ہے اور الحمدللہ اس سے مجھے بہت فائدہ ہورہا ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ حضرات کو دونوں جہانوں میں خوب نوازے۔۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بلا تمہید ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
پھر وہی تلخ نوائی جو مرا حصہ ہے


کیا کیا ہیں اُسے شکوے، بتا کیوں نہیں دیتا
یہ بارِ گراں دل سے ہٹا کیوں نہیں دیتا
’’شکوے‘‘ کی ’’ے‘‘ کا گرنا اگرچہ جائز ہے تاہم یہاں صوتی ثقالت پیدا کر رہا ہے۔ اگر یوں ہو: کیا کیا ہیں گلے اس کو بتا کیوں نہیں دیتا ۔۔۔ ؟
دوسرا مصرع مجھے لگتا ہے جیسے کچھ دور جا پڑا ہے۔ کیا فرماتے ہیں جناب الف عین صاحب۔

یک طرفہ محبت کے تذبذب سے تو نکلوں
گستاخ جو ٹھہرا ہوں سزا کیوں نہیں دیتا
یہاں بھی مجھے دونوں مصرعوں کے درمیان ربط قائم کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ جیسے دو الگ مضامین یک جا ہو گئے مگر ان کو جوڑا نہیں گیا۔

قرطاسِ محبت پہ سجایا بھی ہے مجھ کو
مذموم ہوں اتنا تو مٹا کیوں نہیں دیتا
دوسرا مصرع عجزِ بیان کا شکار ہو رہا ہے۔ لفظ یا حرف کی بات ہے تو کسی طور فعل ایسا لائیے کہ از خود بیان کر دے: مثلاً لکھنا۔

کیوں سوچتا رہتا ہے شب روز وہ اکثر
ماضی ہوں میں اسکا تو بھلاکیوں نہیں دیتا
یہاں ’’اکثر‘‘ بجائے مفید تر رعایت لائی جا سکتی تھی: کیوں سوچتا رہتا ہے شب و روز مجھے تو ۔۔ یا ۔۔وہ ۔۔۔ ؟؟ ۔ الفاظ کو بلا ضرورت جوڑ کر نہ لکھا جائے تو بہتر ہے ’’اسکا‘‘ کی بجائے ’’اس کا‘‘ لکھئے۔ فی زمانہ ہر لفظ کی انفرادی املاء یوں بھی اہم تر ہو گئی ہے (کمپیوٹر پروگرامنگ)۔ کلام اس شعر میں یہ بھی ہے کہ ضروری نہیں کہ ماضی کو بھلا دیا جائے یا بھلایا جا سکے۔ ماضی بہت اہم ہے۔ حال تو ایک لمحے کا ہوتا ہے بس!۔

سرگرمِ تمنا ہوں تری دنیا میں کب سے
مجھ کو مری منزل کا پتا کیوں نہیں دیتا
سرگرمِ تمنا ہونا اور بات ہے گرمِ سفر ہونا اور بات ہے۔ ’’سرگرمِ سفر ہوں میں ترے دشت میں کب سے‘‘ ؟؟ جناب الف عین کی توجہ مطلوب ہے۔

قسمت میں نہیں گرمرا محبوب تو مجھ کو
سنگِ درِ جاناں ہی بنا کیوں نہیں دیتا
مضمون عمدہ بن سکتا تھا مگر عجزِ بیان آن پڑا۔

جو تابِ تماشا ہی نہیں اس میں اگر تو
اس آگ کو آکر وہ بجھا کیوں نہیں دیتا
یہاں ’’جو‘‘ بھی ’’اگر‘‘ کے معانی میں آ رہا ہے۔ ’’آگ‘‘ کا کچھ تو تعارف کرائیے کہ آگ کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں: نفرت کی آگ، حسد کی آگ، محبت کی آگ؟؟؟ وغیرہ۔

ہے ناز اسے میری محبت پہ رضا تو
وہ میری وفاؤں کا صلہ کیوں نہیں دیتا
محب کی شان نہیں کہ وفاؤں کا صلہ طلب کرے اور وہ بھی اس انداز میں: ’’کیوں نہیں دیتا‘‘؟۔ ناز اور فخر کا فرق دیکھ لیجئے کہ ’’ناز‘‘ اپنے کسی وصف یا عمل سے منسلک ہوتا ہے۔ محبت آپ کر رہے ہیں تو اسے آپ کی محبت پر فخر ہونا چاہئے۔

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔

جنابِ محمد یعقوب آسی و جنابِ الف عین صاحب تدوین شدہ غزل پہ نظرثانی فرمائیں۔ شکریہ
کیا کیا ہیں گلے اُس کو، بتا کیوں نہیں دیتا
یہ بوجھ مرے دل سے ہٹا کیوں نہیں دیتا

ہیں ناوکِ دل دوز نگہ یار کے تیور
یک بار وہ سب تیر چلا کیوں نہیں دیتا

یک طرفہ محبت کے تذبذب سے تو نکلوں
اس راز سے پردہ وہ ہٹا کیوں نہیں دیتا

لکھتا بھی ہے مجھ کو وہ سرِ ورقِ محبت
مذموم جو لگتا ہوں مٹا کیوں نہیں دیتا

اتنا ہی فسردہ ہے اگر حال پہ میرے
جلوہ کبھی اپنا وہ دکھا کیوں نہیں دیتا

سرگرمِ سفر ہوں میں ترے دشت میں کب سے
مجھ کو مری منزل کا پتا کیوں نہیں دیتا

خوابیدہ نصیبی بھی تو تیری ہی عطا ہے
سوئی مری تقدیر جگا کیوں نہیں دیتا

جو تابِ تماشا ہی نہیں اس میں رضا تو
وہ آتشِ فرقت کو بجھا کیوں نہیں دیتا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
خوب غزل ہے۔
ہیں ناوکِ دل دوز نگہ یار کے تیور
یک بار وہ سب تیر چلا کیوں نہیں دیتا
پہلا مصرع پھر تقطیع کریں، خارج ہو گیا ہے، محض نگہ یار آتا ہے، ن گ ہ ِ یار نہیں آتا۔ دوسرے مصرع میں بھی اک بار کہیں بجائے یک بار کے
باقی بعد میں
 

ابن رضا

لائبریرین
خوب غزل ہے۔
ہیں ناوکِ دل دوز نگہ یار کے تیور
یک بار وہ سب تیر چلا کیوں نہیں دیتا
پہلا مصرع پھر تقطیع کریں، خارج ہو گیا ہے، محض نگہ یار آتا ہے، ن گ ہ ِ یار نہیں آتا۔ دوسرے مصرع میں بھی اک بار کہیں بجائے یک بار کے
باقی بعد میں

نوازش استادِ محترم جنابِ الف عین صاحب، بجا فرمایا میں تدوین کر دیتا ہوں ، شکریہ


کیا کیا ہیں گلے اُس کو، بتا کیوں نہیں دیتا
یہ بار مرے دل سے ہٹا کیوں نہیں دیتا

ہیں ناوکِ دل دوز مرے یار کے تیور
اِک بار وہ سب تیر چلا کیوں نہیں دیتا


یک طرفہ محبت کے تذبذب سے تو نکلوں
اس راز سے پردہ وہ ہٹا کیوں نہیں دیتا

لکھتا بھی ہے مجھ کو وہ سرِ ورقِ محبت
مذموم جو لگتا ہوں مٹا کیوں نہیں دیتا

اتنا ہی فسردہ ہے اگر حال پہ میرے
جلوہ کبھی اپنا وہ دکھا کیوں نہیں دیتا

سرگرمِ سفر ہوں میں ترے دشت میں کب سے
مجھ کو مری منزل کا پتا کیوں نہیں دیتا

خوابیدہ نصیبی بھی تو تیری ہی عطا ہے
سوئی مری تقدیر جگا کیوں نہیں دیتا

جو تابِ تماشا ہی نہیں اس میں رضا تو
وہ آتشِ فرقت کو بجھا کیوں نہیں دیتا
 

الف عین

لائبریرین
ہیں ناوکِ دل دوز مرے یار کے تیور
درست تو ہے، لیکن نگہِ یار والی بات نہیں۔ میرے خیال میں ’ناوک دلدوز‘ والا ٹکرا بدلا جائے۔
مزید یہ کہنا چاہ رہا تھا مگر بیٹری نے دغا دے دیا۔
لکھتا بھی ہے مجھ کو وہ سرِ ورقِ محبت
مذموم جو لگتا ہوں مٹا کیوں نہیں دیتا
ورق کا تلفظ درست نہیں ہے۔ واؤ اور را دونوں مفتوح ہیں۔ یہاں ر پر جزم نظم ہوا ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
ہیں ناوکِ دل دوز مرے یار کے تیور
درست تو ہے، لیکن نگہِ یار والی بات نہیں۔ میرے خیال میں ’ناوک دلدوز‘ والا ٹکرا بدلا جائے۔
مزید یہ کہنا چاہ رہا تھا مگر بیٹری نے دغا دے دیا۔
لکھتا بھی ہے مجھ کو وہ سرِ ورقِ محبت
مذموم جو لگتا ہوں مٹا کیوں نہیں دیتا
ورق کا تلفظ درست نہیں ہے۔ واؤ اور را دونوں مفتوح ہیں۔ یہاں ر پر جزم نظم ہوا ہے
جی بجا فرمایا،
اگر یوں کہوں تو؟؟
لکھتا بھی ہے مجھ کو سرِقرطاسِ محبت
مذموم جو لگتا ہوں مٹا کیوں نہیں دیتا
 

ابن رضا

لائبریرین
خوب غزل ہے۔
ہیں ناوکِ دل دوز نگہ یار کے تیور
یک بار وہ سب تیر چلا کیوں نہیں دیتا
پہلا مصرع پھر تقطیع کریں، خارج ہو گیا ہے، محض نگہ یار آتا ہے، ن گ ہ ِ یار نہیں آتا۔ دوسرے مصرع میں بھی اک بار کہیں بجائے یک بار کے
باقی بعد میں
استاد محترم کیا یہ تقطیع درست نہیں

مفعول (122)= ہے ناوَ
مفاعیل (1221)= کِ دل دوز
مفاعیل (1221)= نگہ یار
فعولن (221)= کِ تیور
 
Top