تعزیرِ خطا مجھ کو سنا کیوں نہیں دیتا

خیال و اوزان


  • Total voters
    4

فاتح

لائبریرین
یہ بارِ گراں دل سے ہٹا کیوں نہیں دیتا
یہ مصرع عنوانات میں اصلاح کے لیے دیکھ کر میں حیران ہی رہ گیا کہ ہائیں یہ تو ہمارا مصرع ہے لیکن یہ اصلاح کے لیے کیوں لگایا ہے اور کس نے۔۔۔ پھر دیکھا کہ معمولی سا تبدیل شدہ ہے۔ :)
تم کون ہو؟ میں کیا ہوں؟ بتا کیوں نہیں دیتے؟
یہ بارِ گراں سر سے ہٹا کیوں نہیں دیتے؟
 
گزارش برائے اصلاح بحضور جناب
الف عین محمد یعقوب آسی سید عاطف علی مزمل شیخ بسمل مہدی نقوی حجاز محمد اسامہ سَرسَری و دیگر اربابِ سخن

کیا کیا ہیں اُسے شکوے، بتا کیوں نہیں دیتا
یہ بارِ گراں دل سے ہٹا کیوں نہیں دیتا

یک طرفہ محبت کے تذبذب سے تو نکلوں
گستاخ جو ٹھہرا ہوں سزا کیوں نہیں دیتا

قرطاسِ محبت پہ سجایا بھی ہے مجھ کو
مذموم ہوں اتنا تو مٹا کیوں نہیں دیتا

کیوں سوچتا رہتا ہے شب روز وہ اکثر
ماضی ہوں میں اسکا تو بھلاکیوں نہیں دیتا

سرگرمِ تمنا ہوں تری دنیا میں کب سے
مجھ کو مری منزل کا پتا کیوں نہیں دیتا

قسمت میں نہیں گرمرا محبوب تو مجھ کو
سنگِ درِ جاناں ہی بنا کیوں نہیں دیتا

جو تابِ تماشا ہی نہیں اس میں اگر تو
اس آگ کو آکر وہ بجھا کیوں نہیں دیتا

ہے ناز اسے میری محبت پہ رضا تو
وہ میری وفاؤں کا صلہ کیوں نہیں دیتا
کہو نا تم کچھ بھی، سچ سے ہم کو خطرہ ہے
کہیں نا گلشن الفت سراب ہو جائے
 

ابن رضا

لائبریرین
یہ بارِ گراں دل سے ہٹا کیوں نہیں دیتا
یہ مصرع عنوانات میں اصلاح کے لیے دیکھ کر میں حیران ہی رہ گیا کہ ہائیں یہ تو ہمارا مصرع ہے لیکن یہ اصلاح کے لیے کیوں لگایا ہے اور کس نے۔۔۔ پھر دیکھا کہ معمولی سا تبدیل شدہ ہے۔ :)
جنابِ محترم فاتح صاحب یہ حسنِ اتفاق ہے، تاہم یہ شعر تبدیل کر دیا گیا تھا اور اس کی موجودہ شکل کچھ یوں ہے کہ

کیا کیا ہیں گلے اُس کو، بتا کیوں نہیں دیتا
یہ بار مرے دل سے ہٹا کیوں نہیں دیتا


چلیں اسی بہانے ہماری حقیر سی کاوش آپ کی نظر سے تو گزری، امید و گزارش ہے کہ اپنے فنِ کی کرامات سے کچھ مال و متاع ہم جیسے شاگردوں کو بھی عطا کرتے رہا کریں گے۔ :unsure:
 
آخری تدوین:
یہ بارِ گراں دل سے ہٹا کیوں نہیں دیتا
یہ مصرع عنوانات میں اصلاح کے لیے دیکھ کر میں حیران ہی رہ گیا کہ ہائیں یہ تو ہمارا مصرع ہے لیکن یہ اصلاح کے لیے کیوں لگایا ہے اور کس نے۔۔۔ پھر دیکھا کہ معمولی سا تبدیل شدہ ہے۔ :)
تم کون ہو؟ میں کیا ہوں؟ بتا کیوں نہیں دیتے؟
یہ بارِ گراں سر سے ہٹا کیوں نہیں دیتے؟
اسے شاید توارد کہتے ہیں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
ا
اسے شاید توارد کہتے ہیں۔
محترم دوست آپ کچھ بھی کہیں مگر جوں کا توں مصرع اٹھا کر اسی فورم پہ اپنے نام سے اُنہی اساتذہ کو اصلاح کے لیے پیش نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اس بات کے انکشاف سے پہلے ہی استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی کی ہدایت کے مطابق مطلع کے مصرع ِ اول کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے تبدیل کر دیاتھا تاہم خیال کی موافقت اپنی جگہ موجود رہی۔
 
ا

محترم دوست آپ کچھ بھی کہیں مگر جوں کا توں مصرع اٹھا کر اسی فورم پہ اپنے نام سے اُنہی اساتذہ کو اصلاح کے لیے پیش نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اس بات کے انکشاف سے پہلے ہی استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی کی ہدایت کے مطابق مطلع کے مصرع ِ اول کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے تبدیل کر دیاتھا تاہم خیال کی موافقت اپنی جگہ موجود رہی۔
آپ کے انداز سے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں نے آپ پر کوئی الزام لگایا ہے، بھائی توارد کا مطلب ہوتا ہے ایک جیسا کلام دو شاعر اپنے اپنے طور پر کہہ دیں۔ اگر ایک نے پہلے کہا دوسرے نے اس کے کلام کو اپنے کلام کے طور پر پیش کیا تو اسے توارد نہیں بلکہ سرقہ کہتے ہیں۔ میں نے سرقہ نہیں توارد کہا ہے یعنی آپ کی خوبی بیان کی ہے۔
خوش رہیے۔ آداب۔
 

ابن رضا

لائبریرین
آپ کے انداز سے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں نے آپ پر کوئی الزام لگایا ہے، بھائی توارد کا مطلب ہوتا ہے ایک جیسا کلام دو شاعر اپنے اپنے طور پر کہہ دیں۔ اگر ایک نے پہلے کہا دوسرے نے اس کے کلام کو اپنے کلام کے طور پر پیش کیا تو اسے توارد نہیں بلکہ سرقہ کہتے ہیں۔ میں نے سرقہ نہیں توارد کہا ہے یعنی آپ کی خوبی بیان کی ہے۔
خوش رہیے۔ آداب۔
محترم برادرم خاکسار اِن اصطلاحات سے نا بلد تھا نوازش آپ نے وضاحت فرمائی۔ اور تعریف فرمائی اور توجہ فرمائی :applause::):applause:
ہمیشہ شاد و آباد رہیں
 
یہ بارِ گراں دل سے ہٹا کیوں نہیں دیتا
یہ مصرع عنوانات میں اصلاح کے لیے دیکھ کر میں حیران ہی رہ گیا کہ ہائیں یہ تو ہمارا مصرع ہے لیکن یہ اصلاح کے لیے کیوں لگایا ہے اور کس نے۔۔۔ پھر دیکھا کہ معمولی سا تبدیل شدہ ہے۔ :)

میرا ایک مشاہد ہے جناب فاتح صاحب! خاص طور پر اُن دوستوں کی شعری کاوشوں کے حوالے سے جو کسی مشترکہ تنظیم یا پلیٹ فارم سے منسلک ہوں۔ ہم لوگ ایک دوسرے کی شاعری ’’سنتے‘‘ ہیں (کلامِ شاعر بزبانِ شاعر یا بقلمِ شاعر) اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شعر یا مصرع ذہن کے نہاں خانوں میں جا بستا ہے۔ کبھی کوئی تحریک ہوئی تو وہ شعر یا مصرع یوں سامنے آیا جیسے یہ ’’میں نےکہا ہے‘‘۔ وہ تو بعد میں کوئی دوست بتاتا ہے کہ میاں یہ تو فلاں کا شعر ہے۔ شرمندگی تو ظاہر ہے ہوتی ہے، تاہم اس میں نیت کا فتور نہیں ہوتا۔ یوں بھی کچھ مصرعوں میں ایسی سادگی یا روانی یا کشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سے لگتے ہیں۔

بارے یوں ہوا کہ میں نے ایک غزل میں اپنے قریبی شاعر دوست جناب احمد فاروق کا ایک مصرع (اپنا سمجھتے ہوئے) اسی زمین میں غزل کہہ دی، حلقے میں سنائی بھی۔
بعد میں مجھے پتہ چلا تو میرے پاس بہت سادہ سا حل تھا، سو میں نےکر دیا ۔۔ اس مصرعے پر واوین لگا دئے!!
 
اور کبھی کچھ ارادی کوشش بھی ہوتی ہے۔ پر اُس میں کوئی نیا پن آنا چاہئے ، یعنی وہ بات جو ’’اصل شاعر‘‘ کے کہے سے ہٹ کر ہو۔
ایک مثال پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں:

ناصر کاظمی نے کہا:
دل تو میرااداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

اس فقیر نے عرض کیا:
رات بھر لوگ جاگتے بھی ہیں
شہر بھی سائیں سائیں کرتا ہے

۔۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
نگہِ یار فعلاتن ہے، مفاعیل نہیں۔
جی بہتر استاد محترم، دراصل میرا نقطہ نگاہ لفظ نگہ دار تھا یعنی محافظ یا پاسبان اور اس لفظ کا تلفظ نِگے دار ادا کیا جاتا ہے تو اسی کے پیش نظر میں نے نگہ (نگے) یار استعمال کیا نا کہ نِگَہِ یار۔ برائے تشفی و از راہِ آگہی وضاحت فرمائیں تاہم مصرع کا پہلا ٹکڑا آپ کی ہدایت کے مطابق تبدیل کیے دیتا ہوں
 
آخری تدوین:
جی بہتر استاد محترم، دراصل میرا نقطہ نگاہ لفظ نگہ دار تھا یعنی محافظ یا پاسبان اور اس لفظ کا تلفظ نِگے دار ادا کیا جاتا ہے تو اسی کے پیش نظر میں نے نگہ (نگے) یار استعمال کیا نا کہ نِگَہِ یار۔ برائے تشفی و از راہِ آگہی وضاحت فرمائیں تاہم مصرع کا پہلا ٹکڑا آپ کی ہدایت کے مطابق تبدیل کیے دیتا ہوں
یہ دونوں فارسی کے الفاظ ہیں۔
”نگہ دار“ اسم فاعل سماعی ہے اس میں ن اور گ متحرک اور ہ ساکن ہیں۔
”نگہِ یار“ مرکب اضافی ہے۔ ”نگہ“ مضاف ہے اور ”یار“ مضاف الیہ ہے اور فارسی کا اصول ہے کہ مضاف کے آخر میں (باستثنائے چند) زیر آتی ہے، لہذا اس صورت میں ”ہ“ مکسور ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
یہ دونوں فارسی کے الفاظ ہیں۔
”نگہ دار“ اسم فاعل سماعی ہے اس میں ن اور گ متحرک اور ہ ساکن ہیں۔
”نگہِ یار“ مرکب اضافی ہے۔ ”نگہ“ مضاف ہے اور ”یار“ مضاف الیہ ہے اور فارسی کا اصول ہے کہ مضاف کے آخر میں (باستثنائے چند) زیر آتی ہے، لہذا اس صورت میں ”ہ“ مکسور ہے۔
اسامہ بھائی کہاں غائب ہیں آج کل؟
 
Top