الف نظامی
لائبریرین
تعصبات,,,,ناتمام…ہارون الرشید
عقیدہ وراثت میں نہیں ملتا، وراثت میں تعصبات ملتے ہیں۔ سچائی کھوجنی پڑتی ہے، موتیوں کی طرح اور تراشی جاتی ہے ، ہیروں کی طرح۔
صدر زرداری ، چوہدری پرویز الٰہی سے کچھ بہتر نکلے ۔ انہوں نے وہ بات کہہ دی ہے جو ان کے دل میں تھی۔ پنجاب میں انہوں نے اس لیے سمجھوتہ کیا کہ کچھ لوگ توازن کے آرزومند تھے۔ کون لوگ؟ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ پاکستانی عوام نہیں، امریکہ ، یورپی یونین اور افواج کی طرف ہے۔ عوام کی انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ وہ کا لانعام ہیں۔ ریوڑ جو ووٹ ڈالتے ہیں اور بسورتے رہتے ہیں۔ لیڈر لوگ کسی زمانے میں جلسے کرکے قوم کا دل بہلانے کی کوشش کرتے تھے ، اب چونکہ خطرات لاحق ہیں؛ لہٰذا اس فرض سے بھی سبکدوش ہوئے۔
چوہدری پرویز الٰہی نے البتہ رحیم یار خان کے قصبے میانوالی قریشیاں میں ایک جلسہء عام سے خطاب کیا ۔ وہ اب بھی پر امید ہیں کہ قاف لیگ باقی رہے گی۔ برف کسی دن لوہا یا لکڑی بن جائے گی۔ فرمان ان کا یہ ہے کہ حکومت کو غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی امداد مسترد کر دینی چاہیے۔ وہ اقتدار میں تھے تو غیرت کی روش پر قائم تھے؟ اگر صدر زرداری اور ان کے معتمدڈاکٹر عبدالقیوم سومرو سے چوہدری شجاعت، چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کی ملاقاتیں نتیجہ خیز ہوجاتیں ؟ اگر وہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتے؟
اللہ کے آخری رسول، امین اور صادق محمدﷺ مکّہ ہی میں کیوں مبعوث ہوئے۔ منتقم مزاج، خود سر، خود پسند ، گنوار اور حروف تک سے بے بہرہ لوگوں میں؟ شاید اس لیے کہ اپنے عہد کے ترقی یافتہ ایرانیوں اور رومیوں کے مقابلے میں وہ جھوٹ کم بولتے تھے ۔ ان میں سے اکثر وعدے کے ایسے پکے تھے کہ سرکارﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ،تب بھی کہہ دیتے کہ فلاں چیز ان کے بس میں نہیں ۔ کبھی وہ ان سے عرض کرتے کہ یا رسول اللہﷺ جو کچھ آپ نے ارشاد کیا ہے، وہ اللہ کا حکم ہے یا آپ کا اپنا فرمان۔ گاہے وہ صاف کہہ دیتے کہ یہ ان کی رائے ہے ۔ امتی کی صوابدید پر چھوڑ دیتے کہ وہ پیروی کرے یا نہ کرے۔ ایسے کسی شخص سے وہ کبھی ناراض نہ ہوئے اور نہ ہی مثالی حمیت رکھنے والے ان کے سچے رفیق۔ ان میں سے ایک نے نواحِ مکہ میں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوتے ہوئے یہ کہا تھا "مجھے یہ پسند نہیں کہ تم مجھے چھوڑ دو اور اس کے عوض محمدﷺ کے پاؤں میں ایک کانٹا چبھ جائے"۔ ایثار کیش تھے، سچے تھے، مگروہ آزاد تھے۔ محمدﷺ ہی نے انہیں سکھایا تھا کہ اللہ نے تمام انسانوں کو آزاد پیدا کیا ہے۔یعنی ان میں سے کوئی چاہے تو جناب علی ابن طالب کرم اللہ وجہہ کی طرح ، اکثر سوکھی روٹی کھا کر فقر اور ایثار کا کبھی نہ بجھنے والا باب لکھ دے ۔ کوئی چاہے تو جناب عثمان غنی کی طرح عمر بھر اچھا کھائے اور اکثر عمدہ لباس پہنے۔ کیا محمدﷺ کے رفیق جو تاریخ کے دوام میں ہمیشہ ایک خیرہ کن مثال رہیں گے، معصوم عن الخطا تھے؟ نہیں، اس کے برعکس وہ کوتاہی کرتے اور روتے تھے۔ پھر قرآن انہیں بشارت دیتا کہ "اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے "۔ مگر جھوٹ ؟ جھوٹ وہ کبھی نہ بولتے تھے۔ مکہ کی عورتوں سے رسول اللہ ﷺ نے بیعت لی "وعدہ کروکہ بدکاری اور چوری کبھی نہ کرو گی "۔ابو سفیان کی اہلیہ ہندہ نے حیرت سے کہا "یا رسول اللہ ایک آزاد عورت بدکاری کا ارتکاب کیسے کر سکتی ہے" وہ کچھ اور جانتی ہویا نہ جانتی ہو ، مگر قبولِ اسلام سے پہلے بھی اسے معلوم تھا کہ جھوٹ اور بدکاری خوئے غلامی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ پھر اس نے کہا: یا رسول اللہ آپ جانتے ہیں کہ ابو سفیان کچھ بخیل آدمی ہیں اور میں ان کی جیب سے سکّے چرا لیا کرتی ہوں۔ محمدﷺ اس پر مسکرائے اور فرمایا: تمہیں اس کی اجازت ہے۔ صرف ایک دن پہلے نواحِ مکہ کے ایک پہاڑ پر دس ہزار قدوسیوں کا لشکر پا کر ابو سفیان نے جناب عباس بن عبدالمطلب سے کہا تھا" تمہارا بھتیجا تو بڑا بادشاہ ہوگیا"۔ اس صاحبِ دانش کا جواب یہ تھا "حکومت نہیں ، یہ پیمبری ہے، پیمبری"۔ محمدﷺحاکم نہیں تھے، پیغمبر تھے۔ حاکم ہوتے تو ابو سفیان کو طلب کرتے اور حکم صادر فرماتے ؛چنانچہ پیمبر کی وراثت اقتدار نہیں، علم ہے اور سارے علم کا نچوڑ ایک لفظ میں ہے ۔۔۔ سچائی۔ تعصبات سے رہائی پا کر پوری سچائی ۔ خود اپنی تردید کرنے کی اخلاقی جرات۔ جناب عباس بہرہ ور تھے۔۔۔ اور ان کے فرزند عبداللہ کے تو کیا کہنے کہ جواں سال تھے مگر اپنے عہد کا سب سے دانا آدمی عمر ابن خطاب ان سے مشورہ کرتا ۔ سچائی کے متلاشی اور سچائی کے خوگر ۔ دوپہر کی دھوپ میں ایک مکان کے باہر لیٹ رہے ۔قیلولہ کر کے مکین نکلا تو کپکپا اٹھا۔" اے رسول اللہﷺ کے عم زاد مجھے طلب کیوں نہ فرمایا" کہا : ہرگز نہیں ۔ پیاسا کنواں کے قریب جاتا ہے کنواں نہیں۔ میں نے سنا ہے کہ تمہارے پاس رسول اللہ کی ایک حدیث ہے ۔ ۔۔ایک اور سچائی کی تلاش۔خود فاروقِ اعظم کے فرزند کا حال یہی تھا۔ سب سے بڑے خطیب نے ان کے بارے میں کہا تھا"تمام علم اور تمام حلم "۔ دو سو برس کی زندگی پانے اور دشت میں زندگی بسر کرنے والا بوڑھا جب یہ جملہ کہہ چکا توامیر معاویہ نے یہ کہا" بے شک تم عربوں کے سب سے بڑے خطیب ہو"۔ "نہیں بلکہ تمام انسانوں اور جنوں کا"اس نے کہا ۔ اعتراض کرنے والے نے کہا "امیر المومنین کے سامنے تم عصا کیوں اٹھائے کھڑے ہو" ۔ اس نے جواب دیا "موسیٰ نے جب اپنے رب سے کلا م کیا تو ان کے ہاتھ میں عصا کیوں تھا "۔ وہ آزاد لوگ تھے اور سچے تھے۔ ہم جھوٹے ہیں، اس لیے خراب و خوارہیں۔
سیّد منور حسن نے سچ کہا"پیپلز پارٹی کے کارناموں کا کچھ ثواب نواز شریف کو بھی ملنا چاہیے"۔ این آر او کل حرام تھا ، آج حلا ل ۔ اپنی جنگ انہوں جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف کی مدد سے لڑی مگر سمجھوتے کا وقت آیا تو عمران خان اور قاضی حسین احمد کاحال تک نہ پوچھا۔ مصالحت کی تو اچھا کیا مگر مشورہ کیوں نہ کیا۔ اعجاز چوہدری کاکہنا یہ تھا کہ سید منور حسن جماعتِ اسلامی کے امیر بنیں گے تو پارٹی کو نواز شریف سے دور لے جائیں گے۔ یہ اندازہ درست ثابت ہوا مگر میرا خیال یہ ہے کہ جب وہ حلیف بنیں گے تو بہتر حلیف ہوں گے۔ سچا آدمی ہی سچا حلیف ہوتاہے۔ منور حسن کڑوے بہت ہیں( اور کڑھتے بہت ہیں)مگر سچ بولتے ہیں۔
تاریخ کے دوام میں دو حکمرانوں کا تذکرہ ہمیشہ احترام اور محبت سے کیا جائے گا۔ صلاح الدین ایوبی اور ابراہام لنکن ۔ ان دونوں کا مشترکہ وصف کیا ہے؟ سادگی اور سچائی ۔ ابدلآباد تک وہ محبوبِ خلائق رہیں گے ۔ میں دانشور سجاد میر کی خدمت میں حاضر تھا، جب لاہور کے معروف وکیل نے فون کیا۔ ایک کتاب اس نے مجھے بھیجی تھی اور خط میں قائدِ اعظم کو "بے حمیت" لکھا تھا۔ عرض کیا: جنابِ والا! اگر(خدانخواستہ) میں آپ کے دیوبندی امام کے لیے یہی کہوں؟ اس نے جواب دیا : آپ کو دلیل دینی ہوگی۔ دلیل میں تراش لیتا اور دلیل بھی مولانا اشرف علی تھانوی اور عبدالماجد دریابادی کی لیکن بھینس کے آگے بین بجانے کا فائدہ؟ علامہ احسان الٰہی ظہیر کے ایک مداح کو امامِ اعظم کا تذکرہ غیر علمی انداز میں کرتے سنا۔ ایک صاحب نے کہا " تمہیں سیلوٹ کہ علامہ صاحب کومانتے ہو، امام ابو حنیفہ کو نہیں"۔ وہ لاہور کے وکیل سے مختلف تھا، بھلا آدمی ، شرمسار ہوا اور معافی مانگی۔ علی بن عثمان ہجویری ( داتا گنج بخش ) کو ایک ہزار برس کا سب سے بڑا عالم کہا جاتا ہے ۔ ان کی کتاب کا پیام یہ ہے : بس اللہ ہے ، اس کی کتاب ہے، اس کے پیمبرہیں اورنجات کے آرزومند ہو تو پوری سچائی ۔ اتنی سچائی کہ آدمی اپنی ذات کی نفی کرسکے۔ ان کی کتاب پڑھی تو منکشف ہواکہ صداقت ہی زندگی کی عمارت کا سیمنٹ، سریا اور اینٹ ہے۔ ہمارے سیاستدان کب سیکھیں گے، ہماری قوم یہ کب سیکھے گی کہ حکمتِ عملی بجا مگر اجتماعی اور انفرادی زندگی کی پائیدار عمارت صرف سچائی پر استور کی جاسکتی ہے۔ صرف اور صرف سچائی پر۔ حکمت بھی سچے آدمی ہی کی ثمر بار ہوتی ہے۔ محمد علی جناح، صلاح الدین اور ابراہام لنکن !
آخری گزارش یہ ہے کہ عقیدہ وراثت میں نہیں ملتا ، وراثت میں تعصبات ملتے ہیں۔ سچائی کھوجنی پڑتی ہے، موتیوں کی طرح اور تراشی جاتی ہے ، ہیروں کی طرح، حتیٰ کہ چراغاں ہوجائے ۔ مولوی مولائے روم ہوجائے ۔ علی بن عثمان داتا گنج بخش اور فرید الدین شکر گنج !
بحوالہ روزنامہ جنگ