ایم اسلم اوڈ
محفلین
امریکہ کے وسط مدتی انتخابات میں صدر براک اوباما کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی اپنی مدمقابل ری پبلکن کے مقابلے میں ایوان نمائندگان میں اکثریت کھو کر اقلیتی پارٹی بن گئی ہے۔ جبکہ سینٹ میں اس کے پاس معمولی اکثریت رہ گئی ہے۔ اسے صدر اوباما کی شکست سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ جنہوں نے منتخب ہونے کے دو برس بعد اپنی مقبولیت سے ہاتھ دھو لئے ہیں۔ عمومی طور پر اس کا سبب صدر کی معاشی پالیسیوں کی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے۔ جو بے روزگاری کو ختم نہ کر سکے اور پہلے سے بیمار معیشت کے تن ضعیف میں زندگی کی نئی روح نہ پھونک سکے۔لیکن زیر سطح آب ایک اور لہر بھی چلی ہوئی ہے۔ جسے پورے امریکہ میں محسوس کیا جا رہا ے۔ وہ ہے صدر کا کالا رنگ اور ان کا عیسائی مذہب سے گہرا تعلق ہونے کے باوجود مسلمان باپ کا بیٹا ہونا۔ یہ امر ان کے نام کا حصہ بھی ہے۔ سابق صدر بش کی پالیسیوں سے جن کی وجہ سے واحد سپر طاقت دنیا بھر میں سخت بدنام بھی ہوئی اور معیشت کو بھی زبردست بحران کا سامنا کرنا پڑا تنگ آئے ہوئے امریکیوں نے 2008 کے صدارتی چنائو میں ذائقے میں تبدیلی کی خاطر کالی رنگت والے جزوی طور پر مسلمانوں جیسے نام کے حامل براک حسین اوباما کو صدر تو چن لیا مگر اسے تادیر برداشت کرنا مشکل ثابت ہو رہا ہے باوجود اس کے کہ صدر نے عہدے پر فائز ہونے کے بعد ایک قدم ایسا نہیں اٹھایا جس سے سفید اکثریت کے مفادات کو زد پڑتی ہو یا امریکی مسلمانوں کو بالواسطہ طور پر کوئی فائدہ پہنچا ہو۔ اس کا ہدف بھی دوسرے امریکی صدور اور وہاں کے حکمران طبقے کی مانند طرزعمل روایتی امریکی پالیسیوں پر کاربند رہنا ہے۔ لیکن سفید اکثریت جس کی تہہ میں رنگ اور مذہب دونوں کا تعصب شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے اسے اپنا صدر کالا نظر آتا ہے اور اس کے نام میں حسین کا لفظ پایا جاتا ہے خواہ ہر ہفتے چرچ میں حاضری دیتا ہو۔ اس تعصب نے بھی اپنا رنگ دکھایا ہے اور براک اوباما کو زبردست سیاسی دھچکا پہنچایا ہے۔ حالانکہ سب اتفاق کرتے ہیں کہ معیشت صدر بش کے آخری عہد میں متزلزل ہوئی اور اب تک اس صدمے سے پوری طرح جانبر نہیں ہو سکی اور بے روزگاری کا تحفہ بھی وہ چھوڑ کر گئے ہیں۔ اگرچہ صدر اوباما اس صورت حال میں امریکی عوام کی توقعات کے مطابق مثبت اور خوشگوار تبدیلیاں نہیں لا سکے۔ وسط مدتی انتخابات میں کانگریس کے دونوں ایوانوں میں صدر کی مخالف جماعت کا غالب آ جانا نئی بات نہیں۔ صرف دوسری جنگ عظیم کے بعد کا عرصہ لے لیجئے۔ آئزن ہاور سے لیکر جارج بش دوم تک کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے۔ لیکن صدر اوباما کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد مخالف ری پبلکن پارٹی کے کامیاب اراکین واشنگٹن کی ایک دعوت میں اکٹھے ہوئے اور وہاں علانیہ طے کیا گیا کہ 2012 کے صدارتی الیکشن میں براک اوباما کو دوسری مرتبہ صدر نہیں بننے دیا جائے گا… انہیں ہر صورت شکست دی جائے گی۔ ظاہر ہے اس جذبے اور عزم کے پیچھے گہرا تعصب کارفرما ہے۔ صدر اوباما پچھلے دو سال میں افغانستان کی ناگفتہ بہ صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکے۔ تیس ہزار مزید فوجی بھیج کر دیکھ لئے اس کے باوجود ناکامی نوشتہ دیوار بنی ہوئی ہے۔ پاکستان کے بارے میں بھی ان کا وہی رویہ ہے جو سابق صدر بش کا تھا۔ سٹرٹیجک مذاکرات کے تیسرے دور میں دو بلین ڈالر کی جس فوجی امداد دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ نئی کانگریس سے منظور کرانا پہلے کے مقابلے میں خاصا مشکل ہو گا۔ اوباما صاحب جلد بھارت کا سرکاری دورہ بھی کرنے والے ہیں وہ بھارتیوں کو پہلے سے یقین دلا چکے ہیں کہ لفظ کشمیر زبان پر نہیں لائیں گے۔ البتہ ممبئی کے تاج محل ہوٹل جائیں گے اور 22 نومبر 2008ء کے بم دھماکوں کی یاد منائیں گے۔ لیکن مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام پر بھارتی فوج اور پولیس کے ہاتھوں ہونے والے بے پناہ ظلم پر کچھ نہیں کہیں گے۔ یہ دوہری اور امتیازی پالیسی پہلے بھی امریکہ کے کسی کام نہیں آئی۔ افغانستان میں درپیش شکست اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ آئندہ بھی مفید ثابت نہ ہو گی۔ براک اوباما کمزور سیاسی پوزیشن کا مالک بن کر بھارت جائے گا۔ کسی جرأت مندانہ اقدام کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ان حالات میں پاکستان کی حکومت اور فوجی قیادت کے لئے پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ امریکی بیساکھیوں سے جن پر ہماری معیشت اور سٹرٹیجک پالیسیوں کا بڑی حد تک انحصار ہے جلد از جلد نجات حاصل کریں۔ معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور خودانحصاری حاصل کرنے کے لئے بہتر منصوبہ بندی کی جائے اور حکمران طبقہ اس مقصد کے لئے قربانیاں بھی دے۔ اس کے ساتھ مغربی اور مشرقی سرحدوں پر سٹرٹیجی ہماری اپنی ہونی چاہئے۔ چند لاکھ ڈالروں کے عوض پرائی جنگ لڑنے کی روش ختم کر دینی چاہئے۔ یہ آزاد اور عزت نفس کی مالک قوموں کا شیوہ نہیں ہوتا۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakista...du-online/Opinions/Mazamine/05-Nov-2010/15953
http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakista...du-online/Opinions/Mazamine/05-Nov-2010/15953