تعصب کا ماحول اردو زبان ہی ختم کر سکتی ہے۔

محمد وارث

لائبریرین
تقریبا 80 فی صد سے زائد پاکستانی عربی پڑھ سکتے ہیں۔
بقولِ زیک ۔ہا ہا ہا
عربی زبان اور عربی رسم الخط دو علیحدہ چیزیں ہیں لیکن آپ چونکہ ڈاکٹر ہیں سو ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ ایک ہی چیز ہے۔ اس ڈاکٹری مفروضے کا مطلب یہ ہوا کہ ہر وہ پاکستانی جو عربی رسم الخط اور حروف پہچان سکتا ہے چاہے وہ کسی بھی پاکستانی زبان کے ہوں اسے ہم کہیں گے کہ وہ "عربی پڑھ سکتا ہے"۔ کیا ایسے پاکستانی 80 فی صد ہیں۔ کیا پاکستان کی شرح خواندگی تقریبا 80 فی صد ہے، افسوس۔
 
بقولِ زیک ۔ہا ہا ہا
عربی زبان اور عربی رسم الخط دو علیحدہ چیزیں ہیں لیکن آپ چونکہ ڈاکٹر ہیں سو ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ ایک ہی چیز ہے۔ اس ڈاکٹری مفروضے کا مطلب یہ ہوا کہ ہر وہ پاکستانی جو عربی رسم الخط اور حروف پہچان سکتا ہے چاہے وہ کسی بھی پاکستانی زبان کے ہوں اسے ہم کہیں گے کہ وہ "عربی پڑھ سکتا ہے"۔ کیا ایسے پاکستانی 80 فی صد ہیں۔ کیا پاکستان کی شرح خواندگی تقریبا 80 فی صد ہے، افسوس۔

جس طرح پاکستان میں لٹریسی ناپی جاتی ہے کہ کوئی اپنا نام لکھ سکے اس حساب سے کہا تھا
بہرحال پاکستان کی عوام کی اکثریت عربی پڑھ سکتی ہے۔ کی یہ قرآن کی زبان ہے۔ بس تھوڑی سی تعلیم اور محنت سے عربی قومی زبان بن سکتی ہے
دوسرا حل یہ ہے کہ ہر علاقائی زبان کو قومی قرار دے کر ہر بچے کو پڑھائی جاوے
اردو انڈیا سے ختم ہوچکی۔ پاکستان سے بھی ہوجاوے گی۔
 

La Alma

لائبریرین
جس طرح پاکستان میں لٹریسی ناپی جاتی ہے کہ کوئی اپنا نام لکھ سکے اس حساب سے کہا تھا
بہرحال پاکستان کی عوام کی اکثریت عربی پڑھ سکتی ہے۔ کی یہ قرآن کی زبان ہے۔ بس تھوڑی سی تعلیم اور محنت سے عربی قومی زبان بن سکتی ہے
دوسرا حل یہ ہے کہ ہر علاقائی زبان کو قومی قرار دے کر ہر بچے کو پڑھائی جاوے
اردو انڈیا سے ختم ہوچکی۔ پاکستان سے بھی ہوجاوے گی۔
پڑھنے اور سمجھنے میں بہت فرق ہوتا ہے . اس طرح تو ہر انگلش جاننے والا ایک سے alphabets کی بدولت جرمن ، فرنچ اور سپنیش بھی جانتا ہو گا .
 

محمد وارث

لائبریرین
نہیں بھائی،اردو مرتی ہوئی زبان نہیں ہے ۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اردو صرف اُن کی زبان ہے جن کی والدہ ماجدہ اتفاق سے یا حُسنِ اتفاق سے اردو اسپیکنگ تھیں۔ ہماری کون سنتا ہے کہ گھر کا جوگی جوگڑا ہوتا ہے، سو اہلِ زبان کون ہیں؟ اس کے متعل یہ رائے کولمبیا یونیورسٹی کی محترمہ فرانسس پرچیٹ کی ہے۔ جو انکی اردو عروض پر شہرہ آفاق کتاب کے انٹرنیٹ ایڈیشن کا دیباچہ ہے، واللہ کیا موتی پروئے ہیں ایک ایک جملے میں :)
We said at the end of Chapter 8 in the original print edition (1987) that real ahl-e zabaan were made and not born. That may have been only partially the case then, but it's all too true by now. Traditionally-educated ustads are a dying breed. Classical Urdu poetry, like so much else, belongs less and less to those who simply inherit it, and more and more to those who seek it out and adopt it for their own.

The very forces that have deprived us of traditionally-educated ustads, however, have brought us the internet. Now Urdu poetry is international, and we can share with each other across time and space. And of course we still have Mir and Ghalib, and so much else besides. So dig in, you ahl-e zabaan of the future, and learn to use the tools. Classical ghazal poetry is an astonishing delight. The rewards are so rich that you won't exhaust them in a lifetime.
Fran Pritchett
New York, July 2003
الفاظ کو بولڈ بھی انہوں نے خود کیا ہوا ہے۔
 
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اردو صرف اُن کی زبان ہے جن کی والدہ ماجدہ اتفاق سے یا حُسنِ اتفاق سے اردو اسپیکنگ تھیں۔ ہماری کون سنتا ہے کہ گھر کا جوگی جوگڑا ہوتا ہے، سو اہلِ زبان کون ہیں؟ اس کے متعل یہ رائے کولمبیا یونیورسٹی کی محترمہ فرانسس پرچیٹ کی ہے۔ جو انکی اردو عروض پر شہرہ آفاق کتاب کے انٹرنیٹ ایڈیشن کا دیباچہ ہے، واللہ کیا موتی پروئے ہیں ایک ایک جملے میں :)

الفاظ کو بولڈ بھی انہوں نے خود کیا ہوا ہے۔

پاکستان میں اردو اہل زبان ان سے زیادہ ہونگے جن کی یہ مادری زبان ہے۔
مگر یہ نہ تعلیم کی زبان رہ گئی ہے نہ حکومتی ۔ یہ زوال پذیر ہے ۔ یہ رابطہ کی زبان تھی ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جس طرح پاکستان میں لٹریسی ناپی جاتی ہے کہ کوئی اپنا نام لکھ سکے اس حساب سے کہا تھا
بہرحال پاکستان کی عوام کی اکثریت عربی پڑھ سکتی ہے۔ کی یہ قرآن کی زبان ہے۔ بس تھوڑی سی تعلیم اور محنت سے عربی قومی زبان بن سکتی ہے
دوسرا حل یہ ہے کہ ہر علاقائی زبان کو قومی قرار دے کر ہر بچے کو پڑھائی جاوے
اردو انڈیا سے ختم ہوچکی۔ پاکستان سے بھی ہوجاوے گی۔
پاکستان میں اردو اہل زبان ان سے زیادہ ہونگے جن کی یہ مادری زبان ہے۔
مگر یہ نہ تعلیم کی زبان رہ گئی ہے نہ حکومتی ۔ یہ زوال پذیر ہے ۔ یہ رابطہ کی زبان تھی ۔
آپ کی باتوں کا جواب تو قہقہہ ہی ہو سکتاہے جس کا اب بالکل بھی موڈ نہیں، سو آپ مارتے رہیے اس زبان کو، فکرِ ہر کس بقدرِ۔۔۔۔۔۔۔
 

زیک

مسافر
زیک اور فالورز کا جواب
ہی ہی ہی
کے سوا کیا ہوسکتا ہے
ایسے لطیفے لکھیں گے تو ہنسی ہی آئے گی۔

اردو کے بہت مسائل ہیں مگر جس نے بھی پاکستان میں اردو کے پچھلے پچاس سال دیکھے ہیں وہ جانتا ہے کہ اردو پاکستان میں پہلے کی نسبت کتنی عام ہوئی ہے۔

رہی بات عربی کی تو قرآن پڑھنا بھی اکثر لوگوں کو نہیں آتا زبان سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے
 
ایسے لطیفے لکھیں گے تو ہنسی ہی آئے گی۔

اردو کے بہت مسائل ہیں مگر جس نے بھی پاکستان میں اردو کے پچھلے پچاس سال دیکھے ہیں وہ جانتا ہے کہ اردو پاکستان میں پہلے کی نسبت کتنی عام ہوئی ہے۔

رہی بات عربی کی تو قرآن پڑھنا بھی اکثر لوگوں کو نہیں آتا زبان سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے

قران پڑھنا اردو پڑھنے والوں سے زیادہ تعداد ہے۔ ناظرہ والوں کی
پچاس سال میں اردو نے ترقی کی ہے
- اردو کو ہند سے دیس نکالا ملا
- اردو کی وجہ سے بنگال الگ ملک بن گیا
- 1972 میں سندھ میں اردو سندھی جھگڑا ہوا اور اردو کو سندھ سے ادھا دیس نکالا ملا
- پاکستان میں اردو سوائے پنجاب کے کہیں قابل قبول نہیں ۔ یہ ایک عمومی بات ہے۔ ویسے اردو بہرحال قومی زبان ہے۔ مگر وجہ تفریق ہے

اس کے مقابلے میں اگر عربی پسند نہ ہو تو پنجابی سندھی بلوچی اور پشتو کو قومی زبان قراردے کر ہر بچہ کو پڑھا کر رابطے بڑھا سکتے ہیں اور قومی یکجہتی بھی
 
آخری تدوین:
یہ ایک مکالمہ ہوا تھا یہاں محترمہ سے . . .
@رومانہ چوہدری
اودرا یا اودرائی کیفیت کا اظہار کسی ایک اردو لفظ میں نہیں سمٹ سکتا ہے۔ اردو پنجابی کے مقابلے میں کافی غریب واقع ہوئی ہے۔​

۔
اکمل زیدی
رومانہ چوہدری "اردو پنجابی کے مقابلے میں کافی غریب واقع ہوئی ہے۔"
اتنا بڑا دعوی ا ۔۔۔ چودھری صاحب نے بھی پسندیدگی کی سند دےدی ویسے کیسے ؟

رومانہ چوہدری
جب کسی زبان میں متبادل لفظ میسر نا ہو تو اہل زبان اسے اصطلاحاً 'زبان کا غریب ہونا' یا 'زبان کی غربت' کہتے ہیں۔ اور کبھی 'دامن تنگ ہے' کہہ کر بات کہی جاتی ہے۔ اس میں نیچا دکھانے یا لسانی تعصب والی کوئی بات نہیں ہے۔​

میں تو اردو کی غربت پر متوجہ ہوا تھا کسی کفیت نامے میں بات چیت چل رہی تھی یہ پنجابی کا ورڈ ہے . . .


لفظ غریب بہت زیادہ معنویت لیے ہوئے ہے اور بہت سی کیفیات کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

فیض صاحب کے اس شعر کو ہی لیجیے۔

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمھارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
 
Top