حسیب احمد حسیب
محفلین
تعلقات نظریاتی اختلافات اور رواداری کی حدود
اردو ادب کے عناصر اربعہ میں سے ایک نام علامہ شبلی نعمانی مرحوم کا بھی ہے یہ کوئی عام شخصیت نہ تھی ایک جانب تو ادب کی دنیا کا کوہ گراں تو دوسری جانب دینی علوم کا شناور اردو زبان و بیان شبلی سے گزرے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی پھر شبلی صرف شبلی نہ تھا بلکہ اپنے پیچھے پورا ایک دبستان چھوڑ کر جانے والوں میں سے تھا ایک جانب تو سلسلہ شبلی سید سلیمان ندوی رح مولانا آزاد رح ابو الحسن علی ندوی رح سے ہوتا ہوا سید رضوان علی ندوی مرحوم تک آتا ہے تو دوسری جانب حمید الدین فراہی مرحوم مولانا امین احسن اصلاحی رح سید مودودی رح سے ہوتا ہوا ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم تک چلا آتا ہے .
جہاں شبلی دینی علوم سے منسلک تھے وہیں شعر ادب سے متعلق بھی تھے شبلی صرف زاہد خشک نہ تھے بلکہ رند میخانہ بھی تھے عطیہ فیضی سے شبلی کا عشق اب کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں بلکہ اس محبت کا تیسرا سرا ڈاکٹر اقبال مرحوم بھی تھے
" عطیہ کے نام شبلی کے خطوط کا دَورانیہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۸ء سے ۲۸؍مئی ۱۹۱۱ء تک ہے اور تقریباً سوا تین سال کے مختصر سے عرصے میں شبلی نے عطیہ کو پچپن خطوط تحریر کیے، جو تمام اردو زبان میں ہیں۔ عطیہ فیضی سے اقبال کی خط کتابت کا دَورانیہ مارچ ۱۹۰۷ء سے ۲۹؍مئی ۱۹۳۳ء تک ہے؛ البتہ ۱۴؍دسمبر ۱۹۱۱ء سے آخری خط تک بائیس برس کاطویل وقفہ بھی ہے۔ یہاں عطیہ کا وہ بیان دہرا دینا ضروری معلوم ہوتا ہے، جس کے مطابق، ’بہت سے خطوط جواب دے دِیے جانے کے بعد محفوظ نہ رہے، اس لیے کہ اُس وقت انھیں ان خطوں کی قدر و قیمت کا کوئی اندازہ نہیں تھا‘۔۳ عطیہ کے نام اقبال کے دستیاب خطوں کی تعداد گیارہ ہے، جو انگریزی زبان میں لکھے گئے۔اس دَوران شبلی کے صرف ایک خط (مرقومہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۹ء)سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اقبال سے عطیہ کی مراسلت سے آگاہ تھے۔ شبلی نے لکھا تھا کہ ’تم نے میرے سوالوں کا تو جواب نہیں لکھا، میری اور مسٹر اقبال کی تعریف میں خط پورا کر دیا‘۔۴
اقتباس : مولانا شبلی،علامہ اقبال اور عطیہ فیضی ۔از۔ ڈاکٹرخالد ندیم
ایک جگہ شبلی کہتے ہیں
آپ جاتے تو ہیں اس بزم میں شبلی لیکن
حال دل دیکھئے اظہار نہ ہونے پائے ..!
شبلی کی زندگی میں سب سے بڑا کردار سر سید احمد خان کا رہا ہے
" شبلی کی 1881ء میں سر سیّد سے پہلی ملاقات ہوئی۔ اس وقت سرسیّد کی مدح میں ایک عربی قصیدہ بھی انھوں نے پیش کیاجو علی گڑھ گزٹ کے 15؍ اکتوبر1881ء کے شمارے میں شایع ہوا۔ 1883ء میں شبلی عربی و فارسی کے استاد کی حیثیت سے چالیس روپے ماہ وار تنخواہ پر پہلی فروری 1883ء سے خدمات انجام دینے لگے۔ بہت جلد اُن کی تنخواہ سو روپے ہو گئی۔ شبلی چند مہینوں کے بعد سرسیّد سے قریب ہی رہنے لگے۔ شبلی کی عربی اد ب اور مذہبی علوم میں قدرت حاصل تھی اور سر سیّد کو بعض معاملات میں علمی طور پر صلاح و مشورے کی ضرورت ہوتی تھی۔ اسی کے ساتھ شبلی کو سر سیّد کے بہترین ذاتی کتب خانے سے فیض یاب ہونے کا شوق بھی تھا۔ انھی اسباب سے سر سیّد نے اپنی رہایش سے بالکل قریب کی کوٹھی میں شبلی کے لیے رہنے کا انتظام کیا تاکہ استفادے کا یہ عمل مستقل شکل اختیار کر سکے۔ عبد الحلیم شرر کے ایک مضمون سے جو ماہنامہ ’دل گداز‘ بابت دسمبر 1914ء میں شایع ہوا، اس پرواضح روشنی پڑتی ہے".
اقتباس : شبلی- سرسیّد سے کتنے مختلف؟
صفدر امام قادری
اس تمام تعلق و مناسبت کے باوجود جہاں نظریاتی اختلاف پیدا ہوا اور جہاں عقیدے کی بات آتی شبلی نے اپنی تمام تر آزاد خیالی اور وسعت قلبی کے باوجود اسکا بھرپور اظہار فرمایا یہاں تک کہ اسکا اختتام سر سید اور علی گڑھ سے دوری پر متنج ہوا .
پوری واقعہ تفصیل کے ساتھ سید سلیمان ندوی مرحوم نے " حیات شبلی " میں بیان کیا ہے اس سے پہلے کہ اس واقعے کی تفصیل بیان ہو شبلی کی علمیت کے حوالے سے ایک واقعے کا بیان ضروری ہے ہوا کچھ یوں کہ .
’’مولانا فرماتے تھے کہ ایک دفعہ سیّدصاحب بو علی سینا کی’ اشارات‘ جو فلسفہ کی اہم کتاب ہے، دیکھ رہے تھے۔ کوئی الجھاو ایسا تھاجس کو وہ حل نہیں کر سکتے تھے۔ اتنے میں وہ (شبلی) جا پڑے۔ سیّدصاحب نے کہا، خوب آئے، یہ مقام سمجھ میں نہیں آتا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ بِلا قصد میری زبان سے نکل گیا کہ آپ سمجھ بھی نہیں سکتے تھے۔ کہنے کو تو کہہ دیا مگر شرمندگی ہوئی۔ سیّد صاحب چُپ رہے، مولانا نے کتاب کا مطلب سمجھایا تو اُن کے چہرے پر بشاشت آئی۔ ‘‘
(حیاتِ شبلی، ص 126)
اب ہم اس وجہ اختلاف کی جانب آتے ہیں کہ جو ہر دو حضرات کے درمیان کدورت کا سبب بنی اس بات سے کوئی ناواقف نہیں کہ سر سید نے برطانوی استعمار کے سامنے خود سپردگی میں کوئی کسر نے چھوڑی تھی دوسری جانب انکا تمام تر مقصد بر صغیر کے مسلمانوں کو علیگڑھ کی فکر سے منسلک کرنا رہ گیا تھا یہاں تک کہ علی گڑھ کی خاطر انہوں نے اپنے تمام تر فکری و نظریاتی مراجع کو بالائے طاق ہی نہیں بلکہ طاق نسیان کی نذر کر دیا .
شبلی نعمانی مرحوم نے " المامون " کی اشاعت کے بعد ہیروز آف اسلام کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے کی سب سے پہلی کڑی حضرت عمر فاروق رض کی سوانح " الفاروق رض " تھی .
یہ وہ دور تھا کہ جب علی گڑھ کو نواب عماد الملک سید حسین بلگرامی سے گرانٹ ملتی تھی نواب صاحب ایک معروف شیعہ تھے اور چونکہ سر سید موصوف کا یہ خیال تھا کہ کہیں اس گرانٹ کا سلسلہ روک نہ دیا جاوے اسلئے انہوں نے پوری شدت کے ساتھ شبلی کو " الفاروق " کی تصنیف سے روکنے کی کوشش کی گو کہ جتنا وہ روکتے اتنا ہی اصرار شبلی مرحوم کا بڑھتا چلا جاتا یہاں تک کہ وہ نواب صاحب کے نام ایک خط لکھتے ہیں .
" حیات شبلی " میں مولانا شروانی مرحوم کے حوالے سے منقول ہے کہ جب سر سید شبلی مرحوم کو " الفاروق " کے حوالے سے روکنے میں ناکام رہے تو انہوں نے نواب صاحب کو ایک خط لکھا کہ آپ ہی شبلی کا راستہ روکئے تاکہ انکی صفائی بھی رہے اور الزام نواب صاحب پر آوے اس خط کے جواب میں جو الفاظ نواب صاحب نے لکھے وہ سر سید کو پانی کر دینے کیلئے کافی تھے .
نواب عماد الملک لکھتے ہیں
" اسلام میں دین و دنیا کی جامع کامل ذات صرف عمر فاروق رض کی ہے ، لہذا انکی سوانح لکھنے سے مولوی شبلی کو نہ روکئے ".
حاشیہ : حیات شبلی.
یہ بیان ایک معتدل شیعہ نواب کا تھا دوسری جانب سر سید احمد خان جو کچھ اپنے خط میں بیان فرماتے ہیں اسے دیکھ کر عقل محو حیرت ہے کہ موصوف کس بلندی سے کس پستی کی جانب آن گرے تھے ملاحظہ کیجئے .
نواب عماد الملک سید حسین بلگرامی کو لکھتے ہیں
" الفاروق کی نسبت جو آپ نے تحریر فرمایا وہ سب درست ہے مگر اسکے ساتھ فیہ ما فیہ بھی ہے اگر کسی کا دل ایسا مضبوط ہو کہ اس فیہ ما فیہ کوبھی صاف صاف مثل ایسے مورخ کے جو کچھ مذھب نہ رکھتا ہو لکھے تو بلا شبہ نہایت عمدہ ہے مگر کیا ؟ مولانا شبلی ایسا کرینگے !
اور اگر ایسا نہ کرینگے تو کتاب ردی ہوگی .
(آگے لکھتے ہیں)
میں تو ان صفات کو کہ جو ذات نبوی (صل الله علیہ وسلم) میں جمع تھیں دو حصوں پر تقسیم کرتا ہوں ...
ایک " سلطنت "
اور ایک " قدوسیت "
اول کی خلافت حضرت عمر رض کو ملی
اور دوسری کی خلافت حضرت علی رض و آئمہ اہل بیت کو ..
مگر یہ کہ دینا تو آسان ہے مگر یہ کس کی جرت کے اسکو لکھے ..
(اسکے بعد شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں آخری حدود بھی پار کر جاتے ہیں)
حضرت عثمان رض نے سب چیزوں کو غارت کر دیا اور حضرت ابو بکر رض صرف برائے نام بزرگ آدمی تھے ، پس میری رائے میں انکی نسبت کچھ لکھنا اور مورخانه تحریرات کا زیر مشق بنانا نہایت نا مناسب ہے ، جو ہوا سو ہوا ، جو گزرا سو گزرا ".
حیات شبلی صفحه : ٢٣٣
یہ خط ٢٠ مارچ ١٨٩٩ کا ہے .
شبلی مرحوم انتہائی وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ
" زمانہ جانتا ہے کہ مجھکو سرسید کے مذہبی مسائل سے سخت اختلاف تھا اور
میں ان کے بہت سے عقائد و خیالات کو بالکل غلط سمجھتا تھا ۔تاہم اس سے مجھکو کبھی انکار نہ ہو سکا
کہ ان مسائل کو سرسید نے جس طرح اردو زبان میں ادا کیا کوئی شخص ادا نہیں کرسکتا‘‘
( آل احمد،ص: ۲۵)
شبلی اپنی وفات سے دو ہفتے پہلے مسعود علی ندوی صاحب کو ایک خط میں صاف صاف لکھتے ہیں :
"افسوس ہے کہ مجھ کو اصولی امر میں اختلاف ہے ۔میں تیس برس سے مسلمانوں کی حالت پر غور کر رہا ہوں۔ خوب دیکھا، اصلی ترقی کا مانع وہی گراں زندگی ہے جو سیّد صاحب سکھا گئے ۔"
یہ وہ رواداری اور تعلق کی حدود ہیں کہ جو نظریات و اعتقادات کے دائرے میں آکر ختم ہو جاتی اور اور یہی وہ مقام ہوا کرتا ہے کہ اپنے ممدوح سے لاکھ تعلق کے با وجود سچائی کو اسکی مکمل برہنگی کے ساتھ بیان کیا جاوے آج ہماری نگاہیں دیکھتی ہیں کہ دوستی تعلقات اور مفادات کے پیش نظر ہم حق کے بیان سے ہی غافل ہوئے جاتے ہیں اور بنیادی اصول صرف دوستیاں نباہنا اور مفادات کا حاصل کرنا ہی رہ جاتا ہے .
بقول شاعر
" صادق ہوں اپنے قول میں، غالبؔ ! خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ، جھوٹ کی عادت نہیں مجھے ".
حسیب احمد حسیب