نوید ناظم
محفلین
مفاعلاتن مفاعلاتن
تعلق اُس سے تھا واجبی سا
وہ پھر بھی لگتا تھا زندگی سا
اب اُس کو میں کس میں جا کے ڈھونڈوں
کوئی بھی ہوتا نہیں کسی سا
مِرا تعارف نہیں ہے مجھ سے
میں خود کو لگتا ہوں اجنبی سا
نہیں ضروری کہ آدمی ہو
نظر جو آتا ہے آدمی سا
نوید کو کر گیا ہے گھائل
وہ دیکھنا اُن کا سرسری سا
تعلق اُس سے تھا واجبی سا
وہ پھر بھی لگتا تھا زندگی سا
اب اُس کو میں کس میں جا کے ڈھونڈوں
کوئی بھی ہوتا نہیں کسی سا
مِرا تعارف نہیں ہے مجھ سے
میں خود کو لگتا ہوں اجنبی سا
نہیں ضروری کہ آدمی ہو
نظر جو آتا ہے آدمی سا
نوید کو کر گیا ہے گھائل
وہ دیکھنا اُن کا سرسری سا