فاروق رانا
محفلین
تعلق بالرسول صلی اللہ علیہ و +لہ و
اللہ تعالی نے تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آخری نبی بنا کر بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تریسٹھ سالہ زندگی عملی جد و جہد سے عبارت ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تبلیغ و اشاعت اسلام کے لیے ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کیں۔ یہ انہی تکالیف کا ثمر ہے کہ آج ہم تک دین اسلام کا پیغام پہنچا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اپنی آخری کتاب قرآن حکیم نازل فرمائی، اور ہم پر اس کتاب کی پیروی فرض قرار دی۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کی اتباع بھی فرض قرار دی۔ ارشاد فرمایا:
یہ آیت صراحتا اس بات پر دالّ ہے کہ ہمارے پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اَقوال و اَفعال کی اتباع لازم قرار دی گئی ہے۔ اگر ہم اس اتباع کے امتحان پر پورا اتریں گے تو کامیاب ہوں گے ورنہ خسران و ذلت ہمارا مقدر ہوگی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
مذکورہ بالا حدیث شریف واضح کر رہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نافرمانی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ پس ہمیں چاہیے کہ اگر ہم دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہونا چاہتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اپنا ٹوٹا ہوا تعلق پھر سے بحال کر لیں تاکہ عظمت رفتہ کو پا سکیں۔
اللہ تعالی نے تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آخری نبی بنا کر بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تریسٹھ سالہ زندگی عملی جد و جہد سے عبارت ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تبلیغ و اشاعت اسلام کے لیے ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کیں۔ یہ انہی تکالیف کا ثمر ہے کہ آج ہم تک دین اسلام کا پیغام پہنچا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اپنی آخری کتاب قرآن حکیم نازل فرمائی، اور ہم پر اس کتاب کی پیروی فرض قرار دی۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کی اتباع بھی فرض قرار دی۔ ارشاد فرمایا:
وَمَآ آتُکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَھٰکُم عَنہُ فَانتَھُوا۔
اور جو کچھ رسول تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رک جایا کرو۔
(القرآن، الحشر، ۵۸: ۷)
یہ آیت صراحتا اس بات پر دالّ ہے کہ ہمارے پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اَقوال و اَفعال کی اتباع لازم قرار دی گئی ہے۔ اگر ہم اس اتباع کے امتحان پر پورا اتریں گے تو کامیاب ہوں گے ورنہ خسران و ذلت ہمارا مقدر ہوگی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
مَن اَطَاعَنی فَقَد اَطَاعَ اللہَ، وَ مَن عَصَانی فَقَد عَصی اللہَ۔
جس نے میری اطاعت کی سو اُس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی سو اُس نے اللہ کی نافرمانی کی۔
(صحیح بخاری، کتاب الاحکام، رقم: 671
(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، رقم: 1835)
مذکورہ بالا حدیث شریف واضح کر رہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نافرمانی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ پس ہمیں چاہیے کہ اگر ہم دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہونا چاہتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اپنا ٹوٹا ہوا تعلق پھر سے بحال کر لیں تاکہ عظمت رفتہ کو پا سکیں۔