فہد اشرف
محفلین
ترانہ جامعہ سلفیہ بنارس
سحرکا پیرہن ہیں ہم بہار کی ردا ہیں ہم
بدن پہ زندگی کے رنگ و نور کی قبا ہیں ہم
چراغ کی طرح سرِ دریچۂ وفا ہیں ہم
مغنی حرم ہیں بربطِ لب حرا ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کے طیورِ خوشنوا ہیں ہم
کشود عقدۂ حیات معتبر ہمیں سے ہے
شعور جستجوئے ذات معتبر ہمیں سے ہے
تمام علم کائنات معتبر ہمیں سے ہے
خلاصہ اصل میں کتاب کائنات کا ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کے طیورِ خوشنوا ہیں ہم
سراغ جادۂ عمل حدیث مصطفی ہمَیں
اسی کا حرف حرف ہے نشاطِ ماجرا ہمَیں
نہیں قبول اب کوئی پیام دوسرا ہمَیں
اداشناس عظمتِ حدیث مصطفی ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کے طیورِخوشنوا ہیں ہم
یہ گاہوارہ ظاہری و باطنی علوم کا
مدینۃ السلف ہمارے مشرقی علوم کا
یہ ایک تربیت کدہ ہے مرکزی علوم کا
اسی فضائے دلکشامیں آج پَرکُشاں ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کےطیورِخوشنوا ہیں ہم
اسی کے خوشہ چیں ہیں ہم ہمارا جامعہ ہے یہ
بلاغت و معانی و بیاں کا گل کدہ ہے یہ
عرب کے طرزِ فکر سے عجم کا رابطہ ہے یہ
اسی کے لمس جاوداں سے روحِ ارتقاء ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کےطیورِ خوشنوا ہیں ہم
کھلیں گے رمز لوح کے کہ اب قلم ہے سامنے
تمام حاصلِ حیات بیش و کم ہے سامنے
ہراک طرف کہ جلوۂ رخِ حرم ہے سامنے
بنارس اب کہاں رخِ حرم کا آئینہ ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کےطیورِ خوشنوا ہیں ہم
نگاہ میں عہد رفتہ اب بھی حال کی طرح
سلف کا شیوہ سامنے ہے اک مثال کی طرح
صنم کدے میں ہم نے دی اذاں بلال کی طرح
نفس ہیں جبرئیل کا بلال کی نداہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کےطیورِ خوشنوا ہیں ہم
یہ حرف برگزیدہ و شگفتہ کس زباں کا ہے
یہ نقش کس کی ندرت و لطافت بیاں کا ہے
یہی کلام حق وظیفہ قلب و جسم و جاں کا ہے
بتائیں کیا ازل سے ان کے ذوق آشنا ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کے طیورِ خوشنوا ہیں ہم
ورق ورق بصیرتوں کی روشنی سجائیں گے
حرارتِ یقیں سے پھردلوں کو جگمگائیں گے
نظر کو درسِ اسوۂ پیمبری سکھائیں گے
نقیبِ فضل و دانش و صداقت و صفا ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کےطیورِ خوشنوا ہیں ہم
خداکرے فضاؔ یوں ہی یہ خواب جاگتے رہیں
یہ خوشبوئیں جواں رہیں گلاب جاگتے رہیں
ہنرورانِ سنت وکتاب جاگتے رہیں
چمن چمن بشارتِ نسیم جاں فزاں ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کےطیورِ خوشنوا ہیں ہم
فضاابن فیضیؔ
سحرکا پیرہن ہیں ہم بہار کی ردا ہیں ہم
بدن پہ زندگی کے رنگ و نور کی قبا ہیں ہم
چراغ کی طرح سرِ دریچۂ وفا ہیں ہم
مغنی حرم ہیں بربطِ لب حرا ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کے طیورِ خوشنوا ہیں ہم
کشود عقدۂ حیات معتبر ہمیں سے ہے
شعور جستجوئے ذات معتبر ہمیں سے ہے
تمام علم کائنات معتبر ہمیں سے ہے
خلاصہ اصل میں کتاب کائنات کا ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کے طیورِ خوشنوا ہیں ہم
سراغ جادۂ عمل حدیث مصطفی ہمَیں
اسی کا حرف حرف ہے نشاطِ ماجرا ہمَیں
نہیں قبول اب کوئی پیام دوسرا ہمَیں
اداشناس عظمتِ حدیث مصطفی ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کے طیورِخوشنوا ہیں ہم
یہ گاہوارہ ظاہری و باطنی علوم کا
مدینۃ السلف ہمارے مشرقی علوم کا
یہ ایک تربیت کدہ ہے مرکزی علوم کا
اسی فضائے دلکشامیں آج پَرکُشاں ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کےطیورِخوشنوا ہیں ہم
اسی کے خوشہ چیں ہیں ہم ہمارا جامعہ ہے یہ
بلاغت و معانی و بیاں کا گل کدہ ہے یہ
عرب کے طرزِ فکر سے عجم کا رابطہ ہے یہ
اسی کے لمس جاوداں سے روحِ ارتقاء ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کےطیورِ خوشنوا ہیں ہم
کھلیں گے رمز لوح کے کہ اب قلم ہے سامنے
تمام حاصلِ حیات بیش و کم ہے سامنے
ہراک طرف کہ جلوۂ رخِ حرم ہے سامنے
بنارس اب کہاں رخِ حرم کا آئینہ ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کےطیورِ خوشنوا ہیں ہم
نگاہ میں عہد رفتہ اب بھی حال کی طرح
سلف کا شیوہ سامنے ہے اک مثال کی طرح
صنم کدے میں ہم نے دی اذاں بلال کی طرح
نفس ہیں جبرئیل کا بلال کی نداہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کےطیورِ خوشنوا ہیں ہم
یہ حرف برگزیدہ و شگفتہ کس زباں کا ہے
یہ نقش کس کی ندرت و لطافت بیاں کا ہے
یہی کلام حق وظیفہ قلب و جسم و جاں کا ہے
بتائیں کیا ازل سے ان کے ذوق آشنا ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کے طیورِ خوشنوا ہیں ہم
ورق ورق بصیرتوں کی روشنی سجائیں گے
حرارتِ یقیں سے پھردلوں کو جگمگائیں گے
نظر کو درسِ اسوۂ پیمبری سکھائیں گے
نقیبِ فضل و دانش و صداقت و صفا ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کےطیورِ خوشنوا ہیں ہم
خداکرے فضاؔ یوں ہی یہ خواب جاگتے رہیں
یہ خوشبوئیں جواں رہیں گلاب جاگتے رہیں
ہنرورانِ سنت وکتاب جاگتے رہیں
چمن چمن بشارتِ نسیم جاں فزاں ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کےطیورِ خوشنوا ہیں ہم
فضاابن فیضیؔ
مدیر کی آخری تدوین: