یقیناً ادب کے سب استاذہ اچھے نقاد نہیں ہوسکتے۔ اگر ادب کا ہر استاد خود کو ادب کا ایک منجھا ہوا نقاد سمجھتا ہے تو شدید خوش فہمی میں مبتلا ہے۔ مگر اس خوش فہمی کا دائرہ تو خاصا وسیع ہے۔ ایسے حضرات بھی تو موجود ہیں جن کا تدریس کے پیشے سے کبھی تعلق نہیں رہا، مگر وہ ایسی تنقیدیں لکھتے ہیں کہ فنِ تنقید شرما جاتا ہے۔ چنانچہ کسی کمزور تنقید پر اعتراض یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ پروفیسر یا ٹیچر ہے یا وہ صحافی یا کلرک ہے۔ پیشے کے حوالے سے اردو ادب کی تنقید میں جو تعصب پھیلایا جارہا ہے، اس کا تدارک ہم سب کا فرض ہے، البتہ ہم جس طرح ایک ادیب سے جو پیشے سے صحافی ہے، یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ جب وہ ادبی تنقید لکھنے بیٹھے تو صحافت کے پینترے نہ دکھایا کرے، اسی طرح ایک استاد سے بھی مطالبہ کرسکتے ہیں کہ وہ اس انداز سے تنقیدی مضامین نہ لکھا کرے جس طرح وہ بچوں کو کلاس روم میں ادب پڑھاتا ہے۔ بے شک ہمارے ہاں بعض اساتذۂ ادب کی ایسی کتابیں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں جن کی حیثیت ایک محنتی طالب علم کے "نوٹس" سے زیادہ نہیں ہوتی اور وہ اس پر بھی بضد نظر آتے ہیں کہ ان کی تحریر کو تنقید کہا جائے مگر اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آخر بعض دوسرے حضرات بھی تو ہم پر اسی نوع کی ادھ کچری تنقیدیں مسلط کرتے رہتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ دنیائے تنقید میں ان تنقیدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آخر تخلیقی ادب کی دنیا میں بھی تو ہزارہا لوگ مصروف ہیں۔ ناولوں، افسانوں، نظموں اور غزلوں کا ایک طومار دھڑا دھڑ جمع ہورہا ہے۔ مگر کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ اعلی ادب ہے۔ یہ حادثہ صرف ہمارے ساتھ تو نہیں ہو رہا ہے، ہر ملک میں اور ہر زبان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ادب کے نام پر کوئی چیز لکھتے رہتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں ان کے قارئین بھی موجود ہیں۔ مختصر یہ کہ اس صورتِ حال سے نہ گھبرانے کی ضرورت ہے اور نہ کسی خاص پیشہ کو مطعون قرار دینے کی۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ کس نے کیا لکھا اور کیسے لکھا۔
اگر یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں میں ادب کے اساتذہ سے ہمیں کچھ مطالبہ کرنا ہے تو یہ مطالبہ کرنا چاہئیے کہ جب وہ ایک استاد اور رہنما کی حیثیت سے طلبا کے سامنے جائیں تو ادب کی تعلیم میں اپنی پسند اور ناپسند، اپنے تعصبات اور اپنے نظریات کو ذرا دبا کر رکھیں۔ مثلاً جب ان کا ذاتی نقطہ نظر بھی یہی ہو اور طلبا پر بھی اپنا یہی خیال ٹھونسنا چاہتے ہوں کہ ادب کا زندگی سے کوئی مثبت رشتہ نہیں ہوتا۔ اور ادب برائے زندگی کا قائل ہونے سے ادیب، فنکار سے زیادہ پروپیگینڈسٹ اور صحافی بن جاتا ہے تو وہ یہ کہنے سے پہلے یہ نہ بھولا کریں کہ انہیں علامہ اقبال کے فن اور نظریۂ فن پر بھی اظہار خیال کرنا ہوگا۔ یا اگر وہ میر کی عظمت کو اجاگر کرنے کیلیے غالب کی مذمت کو ضروری سمجھتے ہوں تو انہیں طلبا کی طرف سے اس سوال کا تسلی بخش جواب دینے کیلیے بھی تیار رہنا چاہئیے کہ اگر غالب ایسا ہی معمولی شاعر تھا تو کیا گزشتہ صدی کے اہلِ قلم، اہلِ فن اور شیدایانِ فن پاگلوں کی کسی نسل سے تعلق رکھتے تھے؟ یا اگر کوئی استاد معیارِ معیشت ہی کو زندگی اور ادب کا محور قرار دیتا ہے تو اپنے نکتے کی وضاحت سے پہلے اسے سوچ لینا چاہئیے کہ ابھی جب مومن کا یہ شعر سامنے آئے گا۔
اس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک شعلہ سا لپک جائے ہے، آواز تو دیکھو
تو وہ جدلیاتی مادیت کے کس اصول کے تحت اس شعر کے حسن کا جائزہ لینے میں کامیاب ہوسکے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم دانش گاہوں سے متعلق ادب کے اساتذہ سے صرف یہی مطالبہ کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے مضامین میں جو چاہیں لکھیں مگر جو کچھ بچوں کو پڑھائیں وہ اس انداز سے پڑھائیں کہ بچوں کے سامنے حقائق رکھ دئیے جائیں اور وہ خود ہی اس میں سے نتائج اخذ کریں اور اگر کوئی طالب علم، استاد کے نقطۂ نظر سے کسی مختلف نتیجے تک پہنچے تو استاد صاحب خفا نہ ہو جایا کریں بلکہ اسے داد دیں کہ وہ ذاتی کاوش سے اس منزل تک پہنچا۔ اگر اساتذہ سے اس سے زیادہ کوئی مطالبہ کیا جائے تو اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ معترضین کو پرفیسروں کے پروفیسر ہونے پر محض اس لئے اعتراض ہے کہ وہ خود پروفیسر کیوں نہ ہوئے۔
ادب میں نقطۂ نظر کے اختلاف سے شاید ہی کسی کو انکار ہو، مگر جب اس اختلاف کی بنیادیں ادب کی بجائے غیر ادبی مصالح پر استوار ہوتی ہیں تو یہی تعمیری اور تخلیقی اختلاف جنگ و جدل میں بدل جاتا ہے۔ بد قسمتی سے ان دنوں اس "ادبی" جنگ و جدل کا رواج بہت عام ہو چلا ہے اور یہ طرزِ عمل ادبی مسائل کی متوازن جانچ پرکھ کیلیے سخت مضر ہے۔ بہرحال یہ ادیبوں کا مسئلہ ہے اور وہ اسے طے کرتے رہیں گے۔ لیکن اگر ادبی مسائل سے متعلق اس منفی اندازِ فکر کے سائے ادب کی تعلیم دینے والوں پر بھی پڑنے لگیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کی ذہنی تخریب کے درپے ہیں اور اپنے بعض نہایت محدود بلکہ ذاتی مقاصد حاصل کرنے کیلیے ملک کے ادبی مستقبل کو داؤں پر لگا رہے ہیں۔
یہ تو یقیناً قطعی ضروری نہیں ہے کہ اگر ادب کا ایک استاد غالب کے فکر و فن کا پرستار ہے اور وہ میر و مومن کو غالب سے بڑا شاعر قرار نہیں دیتا تو اس سے جواب طلبی کی جائے کہ وہ غالب کو کیوں پسند کرتا ہے، اور میر و مومن کو کیوں اس حد تک پسند نہیں کرتا۔ البتہ اس استاد سے ہم یہ توقع ضرور رکھیں گے کہ وہ غالب کی پرستاری کے جوش میں میر و مومن کے فکر و فن کی خوبیوں کو فراموش نہیں کردے گا۔ اور اگر کوئی اس کا طالب علم میر یا مومن کے حق میں مدلل رائے دینے کی کوشش کرے گا تو اسے سکون سے سنے گا۔ بعینہ اگر کسی استاد کی رائے میں میر سے بڑا شاعر اب تک پیدا نہیں ہوا تو وہ میر کی عظمت کا محل غالب کی کلی مذمت پر استوار نہیں کرے گا اور تاریخِ ادب کے مطالعے نے اس بتایا ہوگا کہ جن اہلِ قلم کی ناموری کے قصر دیگر اہلِ قلم سے نفرت کی بنیادوں پر اٹھائے گئے، ان سے چند برس بعد نہ صرف یہ مصنوعی ناموری چھن گئی بلکہ ناموری کو غصب کرنے کی سازش بھی بے نقاب ہوگئی۔ یقیناً ہر شخص کی پسند اور ناپسند کا ایک اپنا معیار ہوتا ہے۔ ادب کا استاد بھی اس کلئے سے مستثنٰی نہیں ہے، لیکن استاد پر بھی یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنی پسند اور ناپسند کو طلبا پر مسلط نہ کرے بلکہ انہیں فن کی تحسین کے بنیادی اصول سمجھانے کے بعد انہیں اپنی اپنی انفرادی افتادِ مزاج کے مطابق کسی فیصلے تک پہنچنے دے۔ طلبا کے یہ فیصلے استاد کی ذاتی پسند اور ناپسند سے مختلف بھی ہو سکتے ہیں اور ہونے بھی چاہئیں کہ فن کا تنوع اور ادب کی رنگا رنگی اسی تخلیقی اختلافِ رائے سے قائم ہے، لیکن اگر کوئی استاد طلبا کے آزادانہ فیصلوں کو اپنی ہتک پر محمول کر لیتا ہے اور خفا ہوجاتا ہے کہ اس کے شاگردوں نے اس کے ادبی معیاروں پر صاد کیوں نہیں کیا تو معاف کیجیے، وہ استاد کے منصب کے لائق نہیں ہے۔
جن دنوں ادب کسی تحریک کے نام سے بھی نا آشنا تھا، ان دنوں بھی ادب میں مختلف تحریکیں چلتی رہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ماضی میں یہ تحریکیں کسی بڑی شخصیت سے کسبِ فیض کرتی تھیں اور بیسویں صدی کی ادبی تحریکوں نے شخصیتوں کی بجائے ادبی نظریوں اور مسائل زندگی کے بارے میں خاص رویوں کو اپنا رہنما بنایا۔ بہرحال ان تحریکوں سے گھبرانا یا مختلف مکاتیبِ فکر کے ہجوم میں بوکھلا جانا کسی بھی ادیب یا ادب کے استاد کو زیب نہیں دیتا۔ خاص طور سے ادب کے استاد کا تو فرض ہوجاتا ہے کہ وہ ادب کی ہر تحریک کا مطالعہ غیر جانبداری سے کرے اور انہتائی "ناوابستگی" (Detachment) کے ساتھ ان کی خوبیوں اور خامیوں، کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لے۔ اس صورت میں اسے اپنی رہنمائی اس عالمانہ وقار کے سپرد کردینی چاہیئے جسے تصویر کے دونوں رخ دیکھے بغیر چین ہی نہیں آتا۔ اندھیرے کے بغیر روشنی اور سیاہی کے بغیر سفیدی کا تصور ممکن ہی نہیں۔ انسانی ادراک کا تو یہی کمال ہے کہ وہ سوچے سمجھے اور دیکھے بھالے اور جانچے پرکھے بغیر کوئی فیصلہ صادر نہیں کرتا۔ چنانچہ طلبا کے شعور و ادراک کے گرد حصار کھڑے کرنے کی بجائے ادب کے استاد کا فرض ہے کہ اگر ابتدائی تربیت نے یہ حصار کھڑے کر رکھے ہیں تو انہیں گرا دے اور نئے حصار قائم کرنے کی بجائے طلبا کو کھلی فضا کی وسعتوں کا سامنا کرائے تاکہ وہ اپنی بصیرت کو کام میں لائیں، اپنے منطقی استدلال سے اشیا کو پرکھیں اور جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے، اپنے فیصلوں تک پہنچیں۔ اب اسطرح استاد ان فیصلوں کو ذاتی معیاروں کی بجائے ادب کے مسلمہ معیاروں سے پرکھے گا۔ اور طلبا پر ان کی رسائیاں اور نارسائیاں واضح کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بہت ممکن ہے کہ اس دلچسپ بحث و تمحیص میں اس پر بعض اپنی نارسائیاں بھی واضح ہو جائیں کہ اچھا استاد تو بہرحال عمر بھر ایک طالب علم ہی رہتا ہے۔
مگر ہمارے ہاں یہ ایک عجیب سلسلہ چل پڑا ہے کہ ادب کے اساتذہ بھی اپنے آپ کو ادب کی کسی نہ کسی تحریک سے وابستہ کرنے لگے ہیں۔ یہ بھی کوئی غلط بات نہیں مگر اس وقت یقیناً غلط ہو جاتی ہے جب استاد اپنی اس وابستگی کو اپنے طلبا پر مسلط کرنے لگے۔ یوں وہ بے خیالی میں ایک ادبی آمر کا کردار ادا کر رہا ہوگا اور بھول جائے گا کہ ادیبوں کی دنیا تو قلندروں کی دنیا ہے، جہاں فن کی تحسین فنکاروں کے سماجی مرتبہ و مقام کے آئینے میں نہیں کی جاتی بلکہ فن اور محض فن کی روشنی میں کی جاتی ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں کا ہر فقیر اپنی اپنی نگری کا بادشاہ ہے۔ اس صورت میں ادب کے استاد کو طلبا کے سامنے جانے سے پہلے کسی ادبی تحریک کے ساتھ اپنے رشتوں کو اسٹاف روم میں چھوڑ آنا چاہیئے۔ اس حد تک ناوابستگی شاید ممکن نہیں ہے کیونکہ استاد کی شخصیت، اسٹاف روم یا کلاس روم میں، بہرحال ایک ہی رہتی ہے اسلیئے استاد کا فرض یہ ہونا چاہیئے کہ وہ طلبا کی انفرادیتوں کو پنپنے کا موقع دے اور اپنی ادبی وابستگی کے اعلان کو اس وقت تک ملتوی رکھے جب تک طلبا مختلف ادبی تحریکوں سے متعارف ہونے کے بعد اپنا نقطۂ نظر اختیار کرنے اور استاد کے ساتھ بحث میں حصہ لینے کے قابل نہ ہوجائیں۔ بصورتِ دیگر استاد اپنی انا کو تو یقیناً تھپک لے گا لیکن وہ نئی نسل کو مسلح کئے بغیر ایک ایسی دنیا میں دھکیل دے گا جہاں قدم قدم پر اس کے یقینوں اور روایتوں اور کلیوں پر حملے ہونگے اور یہ نسل اپنی مدافعت نہیں کرسکے گی کیونکہ اسکا ذہن تعصبات کے سنگین حصاروں میں جکڑا ہوگا، اس طرح وہ ذہنی انتشار جنم لے گا جس کی جھلکیاں آجکل ہمیں نظر آرہی ہیں۔ یعنی ادیب کو معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور لا یعنیت ادبی فیشن میں شامل کی جانے لگی ہے اور جذبہ و خیال قابو میں نہیں آتے تو ادیب الفاظ پر غصہ نکالنے لگا ہے کہ یہ گھس گئے ہیں اور کثرتِ استعمال سے بے معنی ہو گئے ہیں۔ اس صورتِ حال کا تجزیہ کیجیے تو اصل وجہ وہی نکلے کہ نئی نسل پوری طرح مسلح نہیں ہے۔
ادب کے استاد کو ایک نظریاتی وقار بھی برقرار رکھنا چاہیئے اور مرعوب تو اسے کسی صورت نہیں ہونا چاہیئے۔ مجھے یاد ہے، ادب کے ایک پرانے استاد نے ایک بار اردو کے نئے نقادوں پر ایک تنقیدی مقالہ لکھا، مگر ایک ایسے نئے نقاد کے نام تک کا حوالہ دینا مناسب نہ سمجھا جو استاد کے نظریات سے متفق نہیں تھا، مگر جس نے اردو تنقید میں نئی راہیں کھولی تھیں۔ کچھ عرصے کے بعد یہی نقاد ایک ادبی رسالے کا ایڈیٹر ہوگیا تو ادب کے اسی استاد نے نئے نقادوں کے بارے میں ایک اور مقالہ رقم فرمایا جس میں اس نئے نقاد کا ذکر سر فہرست آیا۔ بدقسمتی سے یہ رسالہ زیادہ دنوں نہ چل سکا اور اسکے بعد جب ہم نے ادب کے اس استاد کی ایک تقریر سنی تو نئے نقادوں کے تذکرے میں وہ اس نقاد کو پھر سے گول کرگیا۔ یہ روش عام یقیناً نہیں ہے لیکن بعض عناصر کی بے یقینی اور بے وقری کی غمازی ضرور کرتی ہے۔ کسی ادبی رسالے کی ادارت اتنا بڑا منصب نہیں تھا کہ ادب کا استاد اس سے مرعوب ہوجاتا اور کوئی ادیب کسی رسالے کا مدیر نہیں ہے تو یہ کوئی اتنی بڑی محرومی نہیں ہے کہ وہ اپنے حقوق ہی کھو بیٹھے۔ ادب کے استاد کو ادیب کے صرف ادب کو پرکھنا چاہیئے اور اس چمک دمک سے اپنی آنکھوں کو خیرہ نہیں کر لینا چاہیئے، جسکا ہمارے ہاں کے بعض ادبی عناصر نے اپنی شخصیتوں کے اردگرد اہتمام کر رکھا ہے، ممکن ہے اسطرح وہ اپنی بعض مصلحتوں کو پورا کرلیتا ہو مگر وہ اپنی طلبا کی گمراہی کا بھی ارتکاب کرتا ہے اور انہیں اس غلط فہمی میں مبتلا کردیتا ہے کہ جو کچھ وہ مصلحت کے دباؤ کے تحت کہہ رہا ہے، وہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ادب کا استاد، ادبی مسائل اور ادبی شخصیتوں کے بارے میں مسلسل برسوں تک وہی باتیں دہراتا چلا جائے گا جو اس سے پہلے کسی نقاد نے لکھی تھیں۔ اس طرزِ عمل سے ادب میں تلاش و جستجو کا عنصر غائب ہو جاتا ہے اور پٹی ہوئی لکیر کو پیٹتے رہنے کا رجحان شروع ہوتا ہے جو ادبی تنقید کے جمود اور اس کے بعد موت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ یقیناً ماضی کی ادبی تحریریں ہم سب کی رہنمائی کرتی ہیں، مگر خدا نے ہمیں اپنے دل و دماغ بھی تو عطا کر رکھے ہیں جن سے کام لینا ہمارا فرض بھی ہے اور عبادت بھی۔ ادب کا استاد اپنے اعلٰی منصب کے ساتھ صرف اسطرح انصاف کرسکتا ہے کہ جن اہلِ قلم کے بارے میں اسے طلبا کو بتانا ہے، انکا بالاستیعاب مطالعہ کرے۔ انکی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں اپنی رائے قائم کرے، اسکے بعد بے شک اپنی آراء کا مقابلہ ماضی کے نقادوں کی آراء سے کرے، مگر مرعوب ہو کر نہ کرے بلکہ اس یقین کے ساتھ کرے کہ ماضی کے نقادوں سے کوتاہیاں بھی سرزد ہوسکتی ہیں۔ اور ہر بڑا فنکار ہر دور میں نئے سرے سے دریافت کیا جا سکتا ہے۔ اس حقیقت سے روگردانی کا نتیجہ یہ ہے کہ فیض اور راشد کے ساتھ، ایک ہی سانس میں مجاز اور جذبی کا بھی ذکر کردیا جاتا ہے، یہ ذکر برسوں سے کیا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حالانکہ مجاز اور جذبی بیسیوں دیگر شعرا کے مقابلے میں اس پائے کے شاعر نہیں ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ مصروفیتیں بڑھ گئی ہیں، نئی زندگی میں تندی اور تیزی آگئی ہے، مطالعے کا وقت تو شاید مل جاتا ہو مگر اس مطالعے سے اپنے اندازے مرتب کرنے کا وقت کسی کو نصیب نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا شاید میں نے "وقت" کا لفظ غلط استعمال کیا ہے اور مجھے یہاں "شوق" یا "لگن" کا لفظ استعمال کرنا چاہیئے تھا۔
اس وقت مجھے یومِ اقبال کی وہ پہلی تقریب یاد آرہی ہے جو 1937ء میں لاہور میں منعقد ہوئی تھی۔ اقبال کے اعزاز میں اس یادگار تقریب کا اہتمام کرنے والوں کے نام، اس وقت کے پنجاب کے وزیراعظم اور اقبال کے ایک اہم سیاسی حریف سر سکندر حیات خان نے ایک پیغام دیا تھا۔ سر سکندر حیات نے اپنے پیغام میں اقبال کی شاعرانہ اور فلسفیانہ عظمت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے بعد تجویز کیا تھا کہ اس موقعے پر شاعرِ مشرق کی خدمت میں روپووں کی ایک تھیلی پیش کریں۔ اقبال کے فقرِ غیور نے یہ کہہ کر اس تجویز کو رد کردیا تھا کہ:
"عوام کی ضروریات بحیثیت مجموعی کسی ایک فردِ واحد کی ضروریات سے کہیں زیادہ اہم ہوتی ہیں، خواہ اسکی تصانیف عامۃ الناس کیلیے روحانی فیض کا ذریعہ ہی کیوں نہ ہوں۔ ایک شخص اور اسکی ضروریات ختم ہوجاتی ہیں لیکن عوام اور انکی ضروریات ہمیشہ باقی رہتی ہیں۔ مقامی اسلامیہ کالج میں اسلامیات سے متعلق طرزِ جدید پر تحقیقی شعبہ کا قیام صوبے کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ ہندوستان کے کسی اور صوبے میں اسلامی تاریخ، الٰہیات، فقہ اور تصوف سے لاعلمی کی وجہ سے اتنا فائدہ نہیں اٹھایا گیا جتنا پنجاب میں۔ یہ بہترین وقت ہے کہ اسلامی فلسفہ اور زندگی کا غائر مطالعہ کرکے لوگوں پر واضح کیا جائے کہ اسلام کا اصل مقصد کیا ہے، اور کس طرح اس خول نے جو موجودہ ہندوستانی مسلمانوں کے ضمیر پر چھایا ہوا ہے، اسلامی اصولوں اور خیالات کو دبا دیا ہے۔ اس خول کو فوراً دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی پود کا ضمیر اس آلائش سے پاک ہو کر فطری اور آزادانہ طریق پر پرورش پاسکے۔
اس قسم کے ادارے سے اب بھی مسلمان کافی فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ اسلام ایشیائی قوموں کی زندگی میں بڑا اہم جزو ہے اور بنی نوع انسان کی مذہبی اور عقلی ترقی میں اسکا بہت بڑا حصہ ہے۔
مجھے امید ہے کہ وزیرِاعظم میری تجویز سے اتفاق کریں گے اور اپنے رسوخ کو استعمال میں لا کر اس تجویز کو کامیاب طور پر عملی جامہ پہنائیں گے۔ میں اس فنڈ میں سو روپے کی حقیر رقم پیش کرتا ہوں۔"
اقبال کے اس بیان کے طویل اقتباس کو اتنے برس بعد دہرانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بسترِ مرگ پر اقبال کو ہماری جس ضرورت کا احساس تھا، وہ اب تک پوری نہیں ہوئی۔ برٹش انڈیا کی اہم برسرِ اقتدار شخصیت سر سکند حیات نے اگر اس سلسلے میں اپنے رسوخ سے کام نہ لیا تو انکی کچھ مجبوریاں ہونگی۔ اسی طرح اسی زمانے میں اقبال نے "الازہر" کے انداز کی اسلامی یونیورسٹی کے قیام کیلیے مشرق کے مسلمانوں اور یورپ کے اسلام پسندوں سے جو طویل خط و کتابت کی تھی وہ اگر بے نتیجہ رہی تو اسکا بھی اتنا غم نہیں کہ اس زمانے میں ہم برٹش سامراج کے محکوم تھے مگر آج طلوعِ آزادی کے اتنے برس بعد بھی اقبال کی ان عزیز ترین تمناؤں کا محض خواب و خیال بنے رہنا کیا معنی رکھتا ہے اور اس سلسلے میں کیا ہماری مجبوریاں سر سکندر حیات جیسی ہیں۔
مجھے اس سوال کا جواب اثبات میں دے کر سخت رنج ہو رہا ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ اقبال کے خوابوں کے اس دیس میں، اقبال کے تصورِ تعلیم و تربیت کو ایک ٹھوس اور زندہ شکل دینے میں ہمیں سراسر ناکامی ہوئی ہے اور اب تو یہ حالت ہے کہ رفتہ رفتہ اقبال کو ہمارے نصابی تعلیم میں سے خارج کیا جا رہا ہے۔ اس المناک عمل کی ابتدا 1954ء کے لگ بھگ ہوئی جب ہم نے غیر ممالک سے اقتصادی امداد لینا گوارا کیا۔ اقتصادی امداد کے ساتھ ساتھ تعلیمی مشیر آئے اور ان غیر ملکی تعلیمی مشیروں کی رہنمائی میں ہونے والی ہر اصلاح کے ساتھ خود شکنی و خود نگری، خود اعتمادی و خود انحصاری کا درس دینے والے اقبال کیلیے ہمارا نصابِ تعلیم تنگ سے تنگ تر ہوتا چلا گیا۔
اس المیے کو آپ کیا کہیں گے کہ آزاد پاکستان کے ایم اے اردو کے نصاب میں بھی اقبال کے کلام پر سنسر شپ عائد ہے۔ پورا اقبال ہم یونیورسٹی طلبا تک کو نہیں پڑھاتے۔ "بالِ جبریل" کا وہ حصہ ایم اے نصاب سے خارج ہے جس میں کہیں لینن خدا کے حضور میں دکھائی دیتا ہے۔ کہیں پنجاب کے پیرزادوں کی سرکار پرستی اور دین فروشی پر طنز کرنے اور الارض اللہ کی قرآنی صداقت کی حسین ترین شاعرانہ اور فلسفیانہ توجیہہ کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں اور کہیں ہمیں خدا فرشتوں سے مخاطب ملتا ہے۔
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حامل رہیں پردے پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
یہاں یہ تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اسی لاہور میں ایک صاحبِ سیاست اور ماہرِ دینیات نے اقبال کے ان اشعار پر تبصرہ کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ ایسے اشعار پر توجہ دینے کی ضرورت اس وجہ سے نہیں ہے کہ اول تو یہ اقبال کا پیغام نہیں ہے، خدا کا پیغام ہے جو انسانوں کی بجائے فرشتوں کے نام ہے اور دوسرے یہ کہ اس میں بھی شاعرانہ مبالغے سے کام لیا گیا ہے۔ یعنی خدا، کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا ڈالنے کے حق میں نہیں ہے۔ اقبال کو گلہ تھا کہ:
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
اور ہم اپنی جمود پسندی میں اتنے راسخ ہوچکے ہیں کہ قرآن کے علاوہ اقبال کو بھی بدلنے کے درپے ہیں۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، مگر اس سے بھی یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہمارے ہاں، اقبال کی انقلابی فکر سے خائف قوتیں فکرِ اقبال کو تاویل کے پھندوں میں گرفتار کرکے نئی نسل کو اقبال کے تصورات سے ناآشنا رکھنے میں کس حد تک سرگرمِ کار ہیں۔
چند برس پہلے ڈاکٹر امداد حسین نے بی اے کے انگریزی نصاب میں اقبال کا وہ خطبہ شامل کیا تھا جو نظریۂ پاکستان کی اساسی دستاویز ہونے کے علاوہ انگریزی نثر کا ایک عمدہ نمونہ بھی ہے۔ اب یہ کتاب بی اے کے لازمی انگریزی نصاب سے صرف اس بنا پر خارج کردی گئی کہ یہ مشکل ہے۔ میں یہ ماننے کو اسلیے تیار نہیں کہ اسکی جگہ Raweinson Prose رکھی گئی ہے جو اس سے زیادہ مشکل ہے۔ ہاں موجودہ کتاب میں یہ خوبی ضرور موجود ہے کہ اس میں براہِ راست اور بالواسطہ دونوں ذریعوں سے اسلام کی بجائے ایک اور مذہب کی تبلیغ کی گئی ہے۔ اگر بفرضِ محال یہ مان بھی لیا جائے کہ نثر کی نئی کتاب آسان ہے، تو بھی میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہم اپنی نئی نسل کو نظریۂ پاکستان سے محض اس بنا پر دور رکھنا پسند کریں گے کہ اسکی اساسی دستاویزات کی نثر مشکل ہے۔ ہرگز نہیں، اقبال کا وہ خطبہ اور مولانا حسین احمد مدنی کے جواب میں مشہور بیان ہمارے تعلیمی نصاب کی ہر سطح پر کسی نہ کسی انداز میں ضرور پڑھانا چاہیئے۔ میرے خیال میں ایسا کرنا اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ انگریزی اور اردو میں ایسے حسین نثر پارے کم ہی ہیں۔ مگر ہمارے تعلیمی مشیروں اور ماہروں کا کہنا ہے کہ:
اقبال یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات
آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور محکوم کا اندیشہ گرفتارِ خرافات
ہمارے نصابِ تعلیم کے ناخدا اقبال کے ساتھ جس مسلسل بدسلوکی میں مصروف رہے ہیں اور ہیں، اس سے آپ مجھ سے کچھ زیادہ ہی آشنا ہونگے۔ میں نے یہ چند مثالیں اسلیئے پیش کی ہیں ک میری نظر میں یہ پاکستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اقبال نے 1932ء میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے مندوبین سے شکایت کی تھی:
"ایک مدتِ مدید سے ہندی مسلمانوں نے اپنی اندرونی کیفیات کی گہرائیوں کو چھوڑ رکھا ہے، اسکا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ زندگی کی پوری تابندگی اور آب و تاب کو دیکھ نہیں پاتا اور اسلئے یہ اندیشہ ہے کہ وہ ان قوتوں کے ساتھ کسی بزدلانہ صلح پر تیار ہوجائے گا جو اسکے نزدیک ناقابلِ عبور ہیں۔"
اقبال ہم سے ابھی تک شاکی ہیں۔ اقبال اور بہت کچھ ہونے کے علاوہ ہمارا اجتماعی حافظہ اور اجتماعی تخیل بھی ہیں۔ اس حافظہ و تخیل سے نئی نسل کو محروم رکھ کر کہیں نوجوان پاکستان کو باطل کی قوتوں کے ساتھ کسی بزدلانہ صلح کیلیے تیار تو نہیں کیا جارہا؟ یہ سوال ایک ایسا چیلنج ہے جسکے مقابلے کیلیے پوری قوم کو تیار ہوجانا چاہیئے۔ اور ان لوگوں کیلیے تو یہ چیلنج اور بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے جو درس و تدریس کا مقدس فریضہ انجام دینے میں مصروف ہیں۔
اردو کے ایک مشہور شاعر عارف عبدالمتین نے رسالہ "اوراق" کی تازہ اشاعت کے اداریے میں اربابِ تعلیم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ طلبا کو نظمِ آزاد سے محروم نہ رکھیں کیونکہ نظم آزاد اردو کی چند مقبول اصناف میں ہمیشہ کیلیے شامل ہوچکی ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "آج ہمارے ملی و شخصی ضمیر کی آواز جس شعری سانچے میں سب سے زیادہ ڈھل رہی ہے وہ نظم آزاد ہی ہے۔" ۔۔۔۔۔۔۔ یوں درسی کتابوں میں نظم آزاد کے بعض اعلٰی اور مکمل نمونوں کی شمولیت ضروری ہوجاتی ہے اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر حمید احمد خان کو اس طرف بطورِ خاص توجہ کرنی چاہیئے کہ وہ بنیادی طور پر ادب کے آدمی ہیں۔ "اور انکی سلامتیِ فکر اور بیباکیِ عمل مسلمہ ہے۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عارف صاحب کی یہی سطور میرے اس مضمون کی محرک ہیں۔ مگر درسی کتابوں میں جدید ادب کے نمائندہ نمونے شامل کرنے سے متعلق میرا نقطۂ نظر ذرا سا مختلف ہے۔ میں درسی کتابوں میں راشد، میرا جی اور بعض دوسرے "آزاد" شاعروں کی منتخب نظمیں شامل کرنے کا پرزور حامی ہوں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ صرف نظمِ آزاد ہی "جدید ادب" کی نمائندگی نہیں کرتی اور اربابِ تعلیم سے میرا مطالبہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی نئی نسل کو پاکستان کے جدید ادب سے محروم نہ رکھیں۔ کیونکہ اسطرح وہ ایک ایسی بوالعجبی کا ارتکاب کررہے ہیں جیسے ریل اور ہوائی جہاز کے اس زمانے میں کسی شخص کو بیل گاڑی میں بٹھا کر لاہور سے کراچی روانہ کردیا جائے۔
شروع ہی میں واضح کردوں کہ "نئی نسل" سے مری مراد وہ نونہالانِ وطن ہیں جو اس وقت سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ اور "جدید ادب" سے میری مراد وہ سارا معیاری، شعری اور نثری ادب ہے جو اقبال کے بعد اب تک تخلیق ہوا ہے۔ ہماری درسی کتابوں کے مندرجات کچھ عرصہ پہلے تک تو اقبال پر آکر ختم ہو جاتے تھے۔ پھر حافظ محمود شیرانی مرحوم نے جوش، حفیظ اور اختر شیرانی کو بھی شامل کیا۔ اسکے بعد درسی کتابوں میں صرف اکا دکا نئے شاعروں کا اضافہ ہوا ہے۔ مگر یہ شاعر نہ تو "جدید ادب" کے نمائندے قرار دیے جاسکتے ہیں اور نہ انکا فنی مرتبہ اتنا بلند ہے کہ فیض اور راشد اور میرا جی وغیرہ کو نظر انداز کرکے انکی تخلیقات کو درسی کتابوں میں شامل کیا جائے۔ جسطرح اقوام متحدہ میں چین کی نشست پر فارموسا کو بٹھا کر چین کو نمائندگی دینے کا دعوی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جزیرہ فارموسا پر تو امریکہ کا منظورِ نظر ہونے کی "پاداش" میں چین کے سے نیم براعظم کی نمائندگی ٹھونس دی گئی ہے، اسی طرح اکا دکا منظور نظر شاعروں کو درسی کتابوں میں شامل کرکے جدید ادب کے قاری کو یہ دھوکا نہیں دیا جا سکتا کہ نئی نسل کو جدید ادب بھی پڑھایا جا رہا ہے۔ اور نئی نسل کو نئے ادب سے محروم رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کسی کو تازہ ہوا اور دھوپ سے محروم کردیا جائے اور پھر حیران ہوا جائے کہ یہ نسل زرد رو اور نحیف و نزار اور قنوطی کیوں ہے اور یہ پوری شان اور شدت سے زندہ رہنے کی بجائے اپنی ساری زندگی موت کے فرشتے کی چاپ سننے میں کیوں گزار دیتی ہے۔
یقیناً نئی نسل کیلیے کلاسیکی ادب کی تعلیم نہایت ضروری ہے کیونکہ اس ادب کا مطالعہ نوجوانوں کے ذہن میں اپنی تہذیبی اور ثقافتی قدروں اور روایتوں کی بنیاد قائم کرتا ہے۔ پھر اس ادب کا مطالعہ اسلیے بھی ضروری ہے کہ قدیم و جدید کا تقابلی مطالعہ کیا جا سکے اور اس امر کا تجزیہ کیا جا سکے کہ ہمارا قومی ذہن کہاں سے سفر کرکے کہاں تک پہنچا ہے اور وہ کون سے تقاضے تھے جن کے تحت یہ تبدیلیاں عمل میں آئیں۔ مگر یہ تقابلی اور تجزیاتی مطالعہ جبھی ممکن ہے جب نئی نسل کو جدید ادب بھی پڑھایا جائے اور اس پر اس عصر کی شخصیت کے خد و خال بھی واضح ہوں جس میں وہ سانس لے رہا ہے اور جسکی کٹھن راہوں کو طے کرکے اسے مستقبل کو سنبھالنا اور سنوارنا ہے۔ میرا محدود علم یہ بتانے سے قاصر ہے کہ درسی کتابوں میں صرف قدیم ادب کے نمونے شامل کرنے کا سلسلہ کیسے چلا۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ بھی میکالے کے سے سامراجی ذہنیت والے ماہرینِ تعلیم کی شرارتوں میں سے ایک شرارت تھی۔ تاکہ محکوم ملک کی نئی نسلیں ان سلگتے ہوئے جذبات اور ان بے قرار امنگوں سے متعارف ہی نہ ہو پائیں جن سے ہر دور کی جدید ادبی تخلیقات لبریز ہوتی تھیں اور جن سے غیر ملکی استحصال کو ہمیشہ شدید خطرہ لاحق رہتا تھا۔ بدقسمتی سے بہت سی دوسری باتوں کی طرح دورِ غلامی کی یہ روایت بھی ہمارے ہاں کم و بیش بدستور قائم ہے اور یہ اس حقیقت کا دردناک ثبوت ہے کہ ہمارے اربابِ تعلیم پر بھی آزادی کا مفہوم پوری طرح واضح نہیں ہے۔ درسی کتابوں میں سے "یا رب رہے سلامت فرمانروا ہمارا" اور "انگریزی راج کی برکتیں" قسم کے مضامین کو خارج کردینے سے غلامی کے ٹھپے اتر نہیں جاتے۔ برصغیر میں انگریز کا رائج کردہ نظامِ تعلیم تو براہ راست ہماری نئی نسلوں کے لاشعور تک پر حملہ آور رہتا تھا۔ اسکا تخریبی عمل زیادہ تر نفسیاتی تھا۔ اسکے اثرات بیشتر غیر محسوس تھے، مگر حصولِ آزادی کے بعد تو اس نظامِ تعلیم کے تمام ڈھکے چھپے رازوں کو فاش ہو جانا چاہیئے تھا اسلیے کہ آزادی صرف نظامِ حکومت ہی کو تو نہیں بدلتی، وہ تو نظامِ فکر کو بھی بدلتی ہے اور اگر نظامِ فکر نہ بدلے تو آزادی مکمل ہی نہیں ہو پاتی، وہ ادھوری اور اکثر صورتوں میں نمائشی آزادی ہوتی ہے۔
اقبال نے ان دنوں انتقال کیا جب انکے طرزِ فکر کے اثرات ادیبوں کی نئی نسل کے ذہنوں پر پوری طرح مرتسم ہوچکے تھے اور ساتھ ہی جب "شفق نہیں مغربی افق پر، یہ جوئے خوں ہے، یہ جوئے خوں ہے" کا انتباہ ایک سچی پیش گوئی ثابت ہونے والا تھا، 1938ء سے 1947ء تک کے عرصے میں اس دور کے اہلِ قلم کی نئی نسل نے جو ادب تخلیق کیا وہ ہماری قومی تاریخِ حریت کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ ہے۔ پھر اس زمانے میں جو افسانے لکھے گئے انکا جواب کم سے کم ایشیا کا تو کوئی دوسرا ملک نہیں دے سکتا۔ اسی طرح نئی نظموں میں بھی ہمارا جذبۂ آزادی جس بے خوفی سے منعکس ہوا، اس پر ان سب لوگوں کو فخر کرنا چاہیئے جنکے ہاتھوں میں قلم ہیں۔ اس دور کی نظم و نثر سے آج کی نئی نسل کو محروم رکھنا اگر ظلم نہیں تو ظالمانہ کوتاہی ضرور ہے۔ ہم یہ کہتے ہوئے تو کبھی نہیں تھکتے کہ ہماری نئی نسل کو آزادی کے مفہوم سے آگاہ ہونا چاہیئے۔ مگر ہم ان لوگوں کی تحریروں کو نئی نسل سے باقاعدہ شعوری طور پر چھپاتے ہیں جو غیر ملکی حکمران کی قوت و جبروت سے بے نیاز ہو کر ان پر واضح کرتے رہے کہ آزادی ہمارا پیدائشی حق ہے اور ہم اپنی سرزمین پر سے تمھارے ناپاک قدموں کو اکھیڑ کر ہی دم لیں گے۔ دس برس کا یہ ادب ہماری ادبی اور قومی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ نئی نسل اس زمانے کے شعر و ادب کے چند نمائندہ نمونوں سے آگاہ ہوگی تو اسکی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا۔ وہ اپنے آپ کو ایک مقدس روایت کا وارث قرار دے گی اور اسے محسوس ہوگا کہ غلامی کتنی بڑی لعنت ہے کہ اسکے خلاف فنونِ لطیفہ تک چیخ اٹھتے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ غیر ملکی سامراج کے تسلط سے متعلق پڑھے لکھے طبقے کی نفسیات تک کو بدل ڈالنا 1938ء سے 1947ء تک کے اہلِ قلم کا ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ یقیناً ان نو دس برسوں میں ایسے اہلِ قلم بھی تھے جنہوں نے اپنی ذات کے خول میں محبوس رہنا پسند کیا اور زندگی کے ساتھ ادب کے رشتوں سے انکار کرتے رہے اور قومی خواہشات کو ادب کی صورت بخشنے پر ناک بھوں چڑھاتے رہے کہ اس طرح تو ادب سیاست سے آلودہ ہوجائے گا۔ مگر ایسے اصحابِ ذوق کی تعداد بھی کم تھی اور وہ پڑھے بھی کم ہی جاتے تھے۔ اسلیے ہمارے فہمیدہ طبقے کا بیشتر حصہ انکے مردہ اور جامد اور محکومیت پسند رجحانات سے محفوظ رہا۔ چنانچہ جب میں ان نو دس برس کے ادب پاروں کے انتخابات کو پاکستان کی درسی کتابوں میں شامل کرنے کیلیے کہتا ہوں تو میری مراد ان ادب پاروں سے ہے جن میں یہ روحِ آزادی دھڑک رہی ہے اور درسی کتابوں میں شامل نہ ہونے کے باوجود دھڑکتی رہے گی۔ سو یہ ادب پارے اگر ہماری نئی نسل کے سامنے نہیں لائے جاتے تو اس سے ان ادب پاروں کی اہمیت ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اصل نقصان نئی نسل کو اور ملک کے تہذیبی مستقبل کو پہنچتا ہے۔
جدید ادب کے بارے میں ان حضرات کا طرزِ عمل غیر حقیقت پسندانہ ہے جو قدیم ادب کے استاد مانے جاتے ہیں۔ قدیم شعر و ادب کی تنقید و تحقیق پر انکے علمی مرتبے اور شہرت کا محل استوار ہے، مگر جدید ادب کے بارے میں انکا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آخر اس ادب میں غزلوں، نظموں، کہانیوں اور ڈراموں کے سوا رکھا ہی کیا ہے۔ تخلیقی ادیبوں کے بارے میں یہ انداز بہت عام ہے اور شاید اسی وجہ سے ہماری یونیورسٹیوں اور ہمارے ادیبوں کے درمیان کوئی افادی رابطہ قائم نہیں ہے۔ مگر معروف شاعروں اور ادیبوں کی طرف سے دانش گاہوں میں لیکچروں کا معاملہ تو رہا ایک طرف، خود جدید ادب ہی ہمارے نظامِ تعلیم کیلیے اجنبی کی حیثیت رکھتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ جب ہمارا نوجوان فارغ التحصیل ہو کر نکلتا ہے تو وہ اپنی قوم کی نئی سوچوں اور نئے خوابوں سے بے خبر ہوتا ہے۔ وہ عملی زندگی کے میدان میں اس ذہنی بے سر و سامانی کے عالم میں اترتا ہے جیسے کوئی دور افتادہ گاؤں کا باشندہ زندگی میں پہلی بار لاہور کے گرجتے گونجتے ریلوے سٹیش پر اترے۔ اب تو خوش قسمتی سے اردو ایم اے کے امتحان میں زندہ ادیبوں کے بارے میں بھی تحقیقی مقالے لکھنے کا سلسلہ جاری ہے، مگر چند برس پہلے کی ذہنیت اس واقعے سے پوری طرح نمایاں ہوتی ہے کہ جب ایک طالب علم نے ایک مشہور زندہ ادیب کے بارے میں تحقیقی مقالہ لکھنے کی خواہش ظاہر کی تو اسکے استاد نے کہا۔ "زندہ ادیب تو ابھی زندہ ہیں، اسلیے ان پر لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ تمھارا فرض تو یہ ہے کہ تم مردہ ادیبوں کو زندہ کرو۔"۔۔۔۔۔۔۔اس مردہ پرستی کی وجہ شاید یہ ہو کہ ہمارے اساتذہ بھی نئے خیالوں اور نئے جذبوں سے ڈرتے ہیں یا پھر وہ ادب سے متعلق اپنی پرانی معلومات میں کوئی اضافہ، کوئی ترمیم و تنسیخ نہیں کرنا چاہتے۔ یہ صورتِ حال بھی شاید اس آسائش پسندی اور تساہل کا ایک حصہ ہے جو روپیہ کمانے کے سوا، قومی زندگی کے ہر اہم شعبے پر مسلط ہے۔
درسی کتابوں میں نظمِ آزاد کی شمولیت کی تجویز، تعلیم میں جدید ادب کی نمائندگی کا محض ایک حصہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اب کوئی بھی قوت اردو شاعری میں سے نظمِ آزاد کو خارج نہیں کرسکتی، اور اس صنف کو بھی ہماری درسی کتابوں میں نمائندگی ملنی چاہیئے۔ مگر درسی کتابوں کو "اپ ٹو ڈیٹ" بنانے کیلیے ہمیں اس سطح سے کچھ اونچا ہوکر سوچنا ہوگا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا اردو کے جدید افسانے ہماری درسی کتابوں میں شامل ہیں؟ کیا اردو کی جدید غزل کو ہمارے نصابوں میں نمائندگی حاصل ہے؟ کیا ہماری نئی نسل اس ادب سے متعارف ہے جس نے آزادی سے پہلے کے دس برس میں ذہنیتوں کو بدلا اور ذہنوں کو ڈھالا؟ مروجہ درسی کتابوں میں جو نئے نام نظر آنے لگے ہیں وہ کہیں محض اشک شوئی کا ذریعہ تو نہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ "نئے" موضوع و مواد کے معاملے میں بہت پرانے ہیں اور روحِ عصر انہیں چھو کر بھی نہیں گئی ہے؟ یہ درست ہے کہ گزشتہ ربع صدی سے ہم اپنی درسی کتابوں میں مسلسل ایسے لوگوں کے نام دیکھ رہے تھے جنکا علمی و ادبی مرتبہ ابھی تک طے نہیں ہے۔ ان میں سے بعض کے بارے میں تو ثقہ حلقوں میں یہ تک مشہور ہے کہ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے وہ خود انہوں نے نہیں لکھا اور انکی شہرت کے محل دوسروں کی محنت و ریاضت پر قائم ہیں اور ان رازوں کو فاش کرنے کیلیے وقت کو کسی قلندر قسم کے قلمکار کا انتظار ہے۔ یہ بیشتر لوگ محض اپنے معاشرتی رشتوں اور اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہماری درسی کتابوں میں گھسے رہے اور اب تک گھسے ہوئے ہیں۔ ان میں جن لوگوں کے نام بڑھائے گئے ہیں وہ جدید ادب کے نمائندے نہیں ہیں اور نہ انہیں جدید ادب کی مختلف اصناف کی نمائندگی کا حق حاصل ہے۔ سو اگر ایسی درسی کتابیں مرتب کرنا مقصود ہو جو ایک آزاد قوم کی نئی نسل کی ذہانت کے شایانِ شان ہوں تو ان کتابوں کے مرتبین کو متعدد تعصبات سے پیچھا چھڑانا ہوگا۔ انہیں اپنی ذاتی اور گروہی پسند سے اونچا ابھرنا ہوگا اور اس ناقابلِ تردید حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جدید ادب، وقت کی طرح بہت آگے نکل چکا ہے۔ صرف جدید اردو غزل کو غور سے پڑھیئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ غالب اور اقبال کی غزل سے استفادے کے باوجود انکی غزلوں سے سراسر مختلف ہے کیونکہ یہ بیسویں صدی کے نصف آخر کی غزل ہے۔ نئی نسل اگر اس غزل سے محروم ہوگی تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ وہ روح کے اس کرب سے محروم ہے جو ایک مثبت کرب ہے اور جو تعمیرِ نو کی ناگزیر شرط ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جدید غزل نے روحِ عصر کی جس بھر پور انداز میں نمائندگی کی ہے، وہاں تک نظمِ آزاد فی الحال نہیں پہنچ سکی۔ مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ درسی کتابوں میں صرف غزل کے چند نمونے شامل کرکے اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہو لیا جائے۔ درسی کتابوں میں جدید غزل، جدید پابند نظم، جدید نظمِ آزاد، جدید افسانے، جدید ڈرامے اور جدید تنقید سب کو نمائندگی حاصل ہونی چاہیئے۔ کیونکہ ایسا کئے بغیر ہم نئی نسل کے ساتھ دیانتدارانہ برتاؤ نہیں کرسکیں گے اور اسے ان سوچوں اور خوابوں سے بے خبر رکھیں گے جن سے با خبر رہ کر ہی نئی نسل مستقبل کی امانت کو خود اعتمادی اور وقار کے ساتھ سنبھال سکے گی۔
گذشتہ دنوں لائل پور کی ایک ادبی تقریب میں وہاں کے ایک مشہور دانشور نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارا معاشرہ بھی، صنعتی لحاظ سے بے انتہا ترقی یافتہ مغرب کی طرح، شاعری، مصوری اور موسیقی وغیرہ کے بارے میں یوں سوچنے لگا ہے کہ آخر ان کا "فائدہ" کیا ہے؟ یہ لوگ فائدے کے لفظ کو مادی منافع کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ جب شعر کہنے اور گیت گانے سے کچھ "حاصل حصول" نہیں ہوتا تو معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کا ایک ذہین حصہ اپنا وقت فنونِ لطیفہ پر کیوں ضائع کرتا ہے۔ جب کہ ایک تھان کپڑے کی پیداوار ایک نظم کی تخلیق سے کہیں زیادہ منفعت بخش ہے۔ جب پھول کا ذکر آتا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ گوبھی کے پھول کے بارے میں سوچ سکتے ہیں اور گلاب کا پھول انکے نزدیک صرف یہ اہمیت رکھتا ہے کہ اس سے گلقند بنائی جا سکتی ہے جسکے استعمال سے نظامِ ہضم درست رہتا ہے۔
اگر "افادیت پسندی" (Utilitarianism) کسی معاشرے کی صنعتی ترقی کا ناگزیر نتیجہ ہے تو جب بھی ہم فی الحال اس حد تک ترقی یافتہ نہیں ہو پائے کہ انسان کو مشین کا ایک پرزہ سمجھ لیں جو دوسروں پرزوں سے صرف اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس پرزے کا دماغ بھی ہے اور یہ کبھی کبھی معین مشینی دائرے کو توڑنے پر بھی تل جاتا ہے۔ ہماری معیشت ابھی تک زرعی ہے اور زمین اور اسکی مٹی کی باس کے ساتھ زرعی معیشت کے جو رشتے ہوتے ہیں، وہ ہمارے روزمرہ کے تعلقات میں آج بھی نمایاں ہیں۔ یوں اگر ہم بھی اہلِ مغرب کی طرح افادیت پسند ہو رہے ہیں تو اسکی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ ہم صدی دو صدی کی غلامی کے باعث آزادی کے بیس برس بعد بھی اپنی تہذیب اور اپنے ماحول کے بارے میں احساسِ کمتری کے مریض ہیں۔ اور اس معاملے میں بھی مغرب کی یوں اندھا دھند نقالی کر رہے ہیں جیسے اپنی نئی عمارتوں کو ہم واشنگٹن اور لنڈن کی عمارتیں بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اور مغرب کی نقالی کا جنون ہمیں اتنی سی بات پر بھی غور کرنے کی مہلت نہیں دیتا کہ ہم گرم ملک کے رہنے والے ہیں۔ جہاں سایہ درکار ہوتا ہے اور ہوا کی آزادنہ آمد و رفت درکار ہوتی ہے اور دھوپ کی براہ راست تمازت سے بچنے کیلیے تہ خانے اور دوسرے کونے کھدرے درکار ہوتے ہیں۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی معاشرے کے صنعتی ہو جانے سے اس کا فنونِ لطیفہ سے بے نیاز ہو جانا ضروری ہو جائے۔ صنعت انسان کے نازک احساسات کو کند تو شاید کر دیتی ہو مگر جب تک انسان کی جسمانی ساخت میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آجاتی یعنی جب تک اس کا دل دھڑکتا ہے اور اس کا دماغ سوچتا ہے اور اسکے اعصاب تنتے اور ڈھیلے ہو جاتے ہیں اور اسے خیال سے اور آواز سے اور رنگ سے محبت ہے، انسان کیلیے فنونِ لطیفہ کی "افادیت" ختم نہیں ہوسکتی۔ آج اگر صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ مغرب، فنونِ لطیفہ خاص طور سے شاعری سے برگشتہ نظر آرہا ہے تو یہ اس نو دولتیے کی سی برگشتی ہے جو سمجھتا ہے کہ وہ روپے کی قوت سے جسمانی آسائشوں کے علاوہ روحانی اہتراز بھی بھی خرید سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بالکل عارضی کیفیت ہے کیونکہ فنونِ لطیفہ تو انسانی روح کی طرح غیر فانی ہیں۔
جان اسٹورٹ مل کے "فلسفۂ افادیت پسندی" (یوٹیلیٹیرینیزم) کو آج کے مادیت پسند معاشرے نے "فلسفۂ مفاد پرستی" بلکہ "منافع پرستی" بنا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی "اونچی" محفل میں کسی شاعر یا اسکی شاعری کا ذکر ہوتا ہے تو لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ آخر اس شاعر اور مال روڈ پر بھیک مانگنے والے اپاہج گداگر کے درمیان معاشرتی مفاد کے معنوں میں کونسا فرق باقی رہ جاتا ہے؟ پھر جب وہ کوئی شعر کہتا ہے تو کیا وہ مشین کا کوئی نیا پرزہ بناتا ہے یا "انرجی" کا کوئی نیا نسخہ تجویز کرتا ہے کہ چار طرف شور اٹھتا ہے کہ لیجیے ایک ہمیشہ زندہ رہنے والا شعر ہوگیا ہے؟ ان سوالوں کا مفہوم یہ ہے کہ آخر شاعر اپنی شاعری سے معاشرے کی مادی خوشحالی میں کیا اضافہ کرتا ہے اور اسکا شعر کتنا زرِ مبادلہ کماتا ہے؟ اگرچہ شاعر اور شاعری کے بارے میں یہ طرزِ فکر صنعتی دور اور ہمارے ملکی حالات کے حوالے سے "مغرب کی اندھا دھند نقالی کے دور" کے ساتھ خاص ہے، مگر پرانے زمانے میں بھی یہ انداز عام تھا کہ جب کوئی باپ اپنے بیٹے کے بارے میں سنتا تھا کہ اس نے غزل کہی ہے تو اسکے اوسان خطا ہوجاتے تھے۔ محض اسلیے کہ یہ باپ بھی اپنے بیٹے کے مستقبل کو زر و جواہر کی میزان میں تولتا تھا اور شاعر کا اثاثہ ہر دور میں زر و جواہر کی بجائے چند پھول اور چند آنسو ہی ہوتے ہیں اور پھول مرجھا جاتے ہیں اور آنسو خاک میں جذب ہوجاتے ہیں۔ اور منڈی میں شاعری کی دکان نہیں کھل سکتی اور بڑے بڑے شہروں کے مضافات میں شعروں کی ملیں نہیں لگائی جاسکتیں۔ یہ اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ ایک بار جب میں نے ایک خاصے "انٹلکچویل" قسم کے بزرگ سے کہا تھا کہ آئیے آج آپ کو پاکستان کے چند مشہور شعراء کا کلام سنوائیں تو وہ بولے۔ "میرا قصور؟"
ہمارے ہاں شعر و شاعری کے خلاف یہ اندازِ نظر ایک تو مغرب پرستوں نے پیدا کیا ہے اور دوسرے اس کوتاہ اندیش طبقے نے جو انسان کے ہر نازک جذبے کو گناہ قرار دیتا ہے۔ اس طبقے کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ چاند ستاروں کو بجھا دے، افق پر شفق نمودار نہ ہونے دے، انسانی بستیوں میں نسیمِ سحری کا داخلہ بند کردے، باغوں میں سبزیاں اگائے، صبح کے اس حسن پر کالک پھیر دے جس سے متاثر ہو کر شاعر نے
ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
کہا ہے۔ گزشتہ برس میں نے اہلِ مُلک سے استدعا کی تھی کہ وہ فنونِ لطیفہ کے سلسلے میں ایک واضح نقطۂ نظر اختیار کریں اور ایسا کرتے ہوئے جذباتیت کی بجائے حقیقت پسندی سے کام لیں اور آرٹ گیلریوں سے محض اسلیے نہ بدکیں کہ وہاں تصویریں رکھی جاتی ہیں جبکہ ہم توہم پرستی کے دور سے صدیوں آگے نکل آئے ہیں اور توحید پر ہمارا عقیدہ چھوئی موئی کا سا نہیں ہے کہ مصوری یا سنگ تراشی کا ایک شاہکار اسے چھو گیا تو وہ خدانخواستہ مرجھا جائے گا۔ میں نے اس ضمن میں اقبال کا حوالہ بھی دیا تھا کہ انہوں نے مرقع چغتائی کا دیباچہ لکھا، جب کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ علامہ احیائے اسلام کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ اس پر متذکرہ طبقے کے ایک بزرگ نے مجھے ایک خط لکھا، جسکا ایک اقتباس یہ ہے کہ:
"آرٹ گیلری کیا چیز ہے؟ یہ وضاحت طلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ کسی ولی کا مقبرہ ہے؟ کسی شہید کا مزار ہے؟ کوئی عبادت گاہ ہے؟ کوئی رفاہِ عامہ و صحتِ عامہ کا مرکز ہے؟ کوئی درس گاہ ہے؟ آخر یہ کیا چیز ہے؟"
"جن فنکاروں کے آپ نے نام گنوائے ہیں (شاید چغتائی اور اللہ بخش کے نام تھے) وہ بت گر اور بت تراش ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علامہ اقبال مرحوم نے مرقع چغتائی کا دیباچہ لکھا تھا، بے شک میں ببانگِ دہل کہتا ہوں کہ انہوں نے فواحش کی پیٹھ ٹھونکی تھی۔ کسی قصص الانبیاء کا دیباچہ تو نہیں لکھا تھا۔ انہوں نے ایک ایسی کتاب کا دیباچہ لکھ کر اپنی ساکھ کھو دی جس سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا اور جس کو اسلامی شائستگی، مجلسی ضوابط، آدابِ معاشرت اور تہذیبی اقدار سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اب چغتائی صاحب، علامہ اقبال کا کلام مصور کررہے ہیں۔ کیا وہ وقت ضائع نہیں کررہے؟"
ان بزرگ کی یہ تنگ دلی قابلِ مواخذہ نہیں ہے۔ قابلِ مواخذہ وہ نظامِ تعلیم ہے جس نے موصوف کو اس حد تک تنگ دل بنا دیا کہ انکا ارشاد ہے۔
"اللہ کو چاہنے والے غالب اور اقبال کے شعروں پر سر نہیں دھنا کرتے۔"
یہ اندازِ نظر عام ہو رہا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ذہنیت کو پھیلنے سے روکا جائے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ اللہ کو چاہنے والوں کیلیے غالب اور اقبال وغیرہ کے کلام میں اتنا کچھ موجود ہے کہ ایک عام ذہن اسکا احاطہ ہی نہیں کرسکتا۔ اچھی شاعری، اور اچھی مصوری حقیقت کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔ اس حسن کو حقیتِ اولٰی کہہ لیجیئے یا حسنِ مجرد، بہرحال یہ فنون انسان کے دل میں نرمی، ذہن میں گداز اور عادات میں شائستگی پیدا کرتے ہیں۔ یہ ان جذبوں کو جا کر چھوتے اور متحرک کرتے ہیں جو اگر جامد رہیں تو انسانی شخصیت کو بگاڑ کر اسے بیحد کریہہ المنظر بنا دیتے ہیں۔ یہ فنون تہذیب اور معاشرے کا سنگار ہیں۔ آپ گھر سے نکلتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ آپ نے صاف ستھرے کپڑے پہن رکھے ہوں، بالوں میں کنگھی کر رکھی ہو، آپ پر ایک اجنبی کی بھی نظر پڑے تو وہ آپ کو مہذب اور معزز سمجھے۔۔۔۔۔۔۔پھر آپ کے طرح آپ کے معاشرے کی بھی ایک شخصیت ہے اور اس شخصیت کا نکھار انہی فنون کے دم سے ہے، یہی فنون ایک اجنبی معاشرے کو بتاتے ہیں کہ آپ کیا سوچتے ہیں، کیا کرنا چاہتے ہیں، قدرت کے مظاہر آپ کو کس طرح متاثر کرتے ہیں۔ انسان کے جسم اور اسکی روح کا حسن کتنا بے پناہ ہے۔ جب ہم کوئی شعر پڑھتے ہیں تو ہمارا خیال کتنی کائناتوں میں گھوم آتا ہے۔ جب ہم ایک تصویر دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر سوئی ہوئی کتنی نیکیاں بیدار ہوتی ہیں اور کتنے شکنجے ٹوٹتے ہیں۔ جب ہم ایک موسیقی کی تان سنتے ہیں تو ہمارے ذہن و ضمیر کے کیسے کیسے ان دیکھے اور غیر محسوس تاروں پر چوٹ پڑتی ہے۔ فنونِ لطیفہ کی یہ وہ "افادیت" ہے جسکی کوئی قیمت لگائی ہی نہیں جا سکتی، جو گراں بہا ہے۔ جسے بنک میں تو جمع نہیں کرایا جا سکتا، البتہ روح کی گہرائیوں اور ضمیر کی تہوں میں ضرور محفوظ کیا جا سکتا ہے اور یہ وہ "بنک" ہے جس تک "وقت کے ڈاکو" کا بھی ہاتھ نہیں پہنچ سکتا۔
فنونِ لطیفہ کے سلسلے میں ہماری افادیت پسند یعنی مفاد پرست اور منافع پرست ذہنیت کو جتنی جلدی بدلا جائے، اتنا ہی ہماری قومی ترقی اور ہمارے تہذیبی احیاء اور ہماری ہمہ جہتی بیداری اور آگاہی کیلیے مفید ہے۔ گوبھی کے پھول کی افادیت اپنی جگہ، مگر گلاب کے پھول کی پتی پر لرزتے ہوئے اوس کے موتی کی بھی افادیت ہے اور اس افادیت کا اندازہ وہ اذہان نہیں لگا سکتے جن کے گرد خول منڈھ دیئے گئے ہوں اور جو صرف معین حد تک سوچ سکتے ہیں اور صرف مقررہ دائرے میں محسوس کر سکتے ہوں۔ ہمارے پاس ہمارا سب سے بڑا اور قیمتی سرمایہ ہماری شاعری کا ہے۔ یہ وہ شاعر تھے جنہوں نے اس وقت بھی مسائلِ حیات پر فکر کرنے کی جرأت دکھائی جب ہمارے "دانش ورانِ کامل" نے سب اچھا کا نعرہ بلند کر دیا تھا۔ یہ وہی بے چین اور بے قرار روحیں تھیں جنہوں نے استحصال کی کسی بھی صورت کو کبھی قبول نہ کیا اور اپنی غزلوں اور مثنویوں اور شہر آشوبوں میں اپنے دور کی غیرت مندی کے نقوش ثبت کر گئے۔ ان میں سے جو کم جری تھے وہ معاملہ بندی کے ہو کر رہ گئے مگر اس طرح بھی انہوں نے ایک مفید کام کیا کہ اپنے پڑھنے والوں کو زندگی سے قطعی طور پر مایوس نہ ہونے دیا اور زندگی کو زندہ رہنے کے قابل بنانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ آج انکی شاعری کو گناہ کا پروپیگنڈہ قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس وقت خیر کا پروپیگنڈہ کرنے کرنے والے کہاں تھے کہ ہماری غیرت و حمیت کے کلیجے میں یونین جیک گڑا ہوا تھا۔ اور کہیں سے یہ صدا نہیں آتی تھی کہ اس غیر ملکی استبداد سے خلاصی پانا اس دور کی سب سے گراں قدر نیکی ہے۔ اکا دکا مثالوں سے قطع نظر کیجیئے کہ ایسے سر پھرے تو ہر طبقے میں مل جاتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی گروہوں کے کرادر کا جائزہ لیجیے تو ان میں ہمارے شاعروں کا مقام سب سے بلند ہوگا جو کہتے تھے۔
تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
یہ کون سے ستم تھے؟ پڑھنے والے کا خیال کن کن ستم گاروں کی طرف منعطف ہوتا تھا؟ ضمیروں میں شعراء کی طرف سے اس زلزلہ افگنی کی کیا کوئی دوسری مثال ہمارے پاس ہے؟
ایک کرم فرما نے مجھے مشورہ لکھ بھیجا ہے کہ میں قومی تاریخ کے اس دور میں آئندہ چھ مہینے کیلیے نہ صرف تہذیب و فن کے مسائل پر اظہارِ خیال کو ختم کردوں بلکہ میرے مضامین کا مستقل عنوان بھی "تہذیب و فن" کی بجائے آئندہ ششماہی کیلیے "سیاسیات و معاشیات" رکھ دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ مشورہ خلوصِ نیت سے دیا گیا ہے اور ایک ایسے شخص کی طرف سے دیا گیا ہے جسے ملکی حالات سے بہت گہرا لگاؤ ہے اور جو ملکی سیاست کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھنے کی کوشش میں ملک کے ہر فرد کو شامل کرنا چاہتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ آج ہماری سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے اور آئندہ ایک برس کے اندر جو کچھ ہوگا، اسی سے ہمارا جمہوری مستقبل متعین ہوگا اور ہم عملاً اس امر کا ثبوت مہیا کر سکیں گے کہ ایک بہت بڑی عوامی تحریک نے اور بے شمار اور بے بہا قربانیوں نے ہمیں جو آزاد وطن دلایا ہے اسکی آزادی کی ہم قدر کر سکتے ہیں یا نہیں اور اسکے تحفظ کو ہم باقی سب چیزوں پر ترجیح دے سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ سیاست صرف سیاستدانوں کی میراث نہیں ہے۔ آزاد ملکوں میں ہر شخص سیاسی ہوتا ہے اور اسے سیاسی ہونا چاہیئے۔ ورنہ اگر اسکا ذہن آزادی کا مفہوم کھو بیٹھا تو چند گنے چنے لوگوں کا سیاست پر اجارہ قائم ہو جائے گا اور یہی اجارہ آخر کار ایک من مانی آمریت پر منتج ہوگا۔ میں تو اسی لیئے اس بات کا قائل ہوں کہ اہلِ قلم اور اہلِ علم کو بھی کم سے کم ملکی سیاست پر تو ضرور حاوی ہونا چاہیئے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ اجتماعی حیثیت سے وہ کہاں کھڑے ہیں اور بین الاقوامی سیاسیات کے حوالے سے انکے ملک نے کون کون سی قابلِ فخر انفرادیتوں کا مظاہرہ کیا ہے اور اگر اسکی انفرادیتیں دبی ہوئی ہیں تو اسکا سبب کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، صرف وہی دانشور، دانش فروشی کی سطح پر گر سکتا ہے جسے ان سیاسی مصلحتوں کا ادراک ہی حاصل نہیں ہوتا جو اسے دانش فروشی پر مجبور کردیتی ہے اور دانش فروشی ملکی خود مختاری کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔ چنانچہ میں سیاسی باخبری کی اہمیت کا تو اعتراف کرتا ہوں مگر یہ مسئلہ میری سمجھ میں نہیں آ سکتا کہ سیاست کی ہمہ گیری پر علم و ادب، شعر و فن اور تہذیب و تمدن کے مسائل کو بھی قربان کر دیا جائے، جیسے وہ سیاسی مؤثرات کی تشکیل سے بالکل غیر متعلق ہیں اور جیسے یہ علوم زمین کی بجائے خلا میں بستے ہیں۔
فنونِ لطیفہ کردار سازی کا اتنا مؤثر ذریعہ ہیں کہ اسکا ثبوت مہیا کرنے کیلیے کسی بہت بڑے تحقیقی کارنامے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ قومی تاریخ کا ایک اچٹتا سا مطالعہ ہی کافی ہے۔ پھر یہ تو متفقہ حقیقت ہے کہ سیاسیات کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھنے کیلیے جمہور کی عظمتِ کردار بہت ضروری ہے۔ جمہور کے کردار میں حق گوئی، انصاف، اعتدال اور نرم گفتاری کے عناصر موجود ہونگے تو اربابِ سیاست خود ہی مجبور ہو جائیں گے کہ وہ اپنے معیاروں کو ذرا سا بلند کرکے جمہوری ذہن کو اپیل کرنے کیلیے حق گوئی اور انصاف، اعتدال اور نرم گفتاری کو اپنے کردار کا ایک حصہ بنائیں۔ یہ جو آجکل سیاسی اور علمی سطح پر اسکینڈل بازوں کا ایک گروہ ملک کے طول و عرض میں اچکتا پھاندتا پھر رہا ہے اور یہ جو کل کے بالشتیئے آج کے دیو پیکروں میں بدلے جا رہے ہیں، تو اسکی وجہ بھی صرف یہ ہے کہ ان عناصر کو علم ہے کہ لوگوں کی ایک خاصی بڑی تعداد عقل و فکر اور دلیل و منطق سے زیادہ جذباتیت کی زد میں رہتی ہے۔ اگر ہمارا معاشرہ اس جذباتیت زدگی سے پاک ہوتا اور مسائل کو عقل و فکر کی کسوٹی پر پرکھنے کے قابل ہوتا یا اسے اس پرکھ کی تربیت دی گئی ہوتی تو مغلظات بکنے والوں کی مجال نہیں تھی کہ وہ یوں کھل کھیلتے اور اپنے ضمیرکی غلاظت کو یوں آزادی سے اچھالتے پھرتے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس مرحلے پر کردار سازی کی شاید ہر دور سے زیادہ ضرورت ہے۔ کردار سازی کے اور بھی کئی ذرائع ہیں مگر ان ذرائع میں ایک ذریعہ شعر و فن کا بھی ہے۔ شعر و فن تہذیب کے مؤثر ترین اظہار کا دوسرا نام ہوتا ہے اور جب میں یہ کہتا ہوں تو میرے پیشِ نظر معیاری شعر و فن ہوتا ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ معیاری اور غیر معیاری کے درمیان امتیاز کیسے کیا جائے تو عرض یہ ہے کہ جو شعر و فن، متعلقہ فن کے جمالیاتی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انسان کو حسن و خیر اور عدل و توازن سے رجوع کرنا سکھاتا ہے اور جو زندگی کا اثبات کرتا ہے اور انسان کے بنیادی جذبوں کی گہرائیوں تک پر اثر انداز ہو کر ان جذبوں کی تہذیب پر قادر ہوتا ہے، وہی معیاری شعر و فن ہے۔ تو گزارش یہ ہے کہ یہی معیاری شعر و فن انسان کا بہت بڑا کردار ساز ہے۔ آپ پھر پوچھیں گے کہ ایک غزل کا پیارا سا شعر یا ایک کامیاب افسانہ، یا ایک مکمل نظم پڑھ کر یا اسٹیج پر ایک ڈرامہ دیکھ کر یا ایک نغمہ سن کر یا ایک تصویر دیکھ کر کسی کے اس کردار پر کیا اثر پڑ سکتا ہے جو نسبی صفات کے علاوہ ایک خاص نوعیت کے ماحول، ایک خاص طرح کی تربیت اور پھر ایک خاص قسم کی جبلت کا مجموعہ ہوتا ہے، تو عرض یہ ہے کہ شعر و فن کا اثر قطعی غیر شعوری طور پر ایک طلسماتی انداز میں ہوتا ہے اور ان اثرات کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب متاثر ہونے والا اپنا تجزیہ کرتا ہے اور یہ دیکھ کر دم بخود رہ جاتا ہے کہ وہ تو کندن ہو چکا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایک اچھا شعر پڑھ کر اور ایک اچھا نغمہ سن کر، ایک باذوق یعنی فنی اثرات کو قبول کرنے والے ایک ذہن کو جس اہتزازی کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے اسکا نتیجہ قلب و ذہن کے گداز کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور انسان نے تہذیب کی جو منزلیں طے کی ہیں، وہ یہی قلب و ذہن کی گداز ہی کی منزلیں ہیں۔ انسانی کردار کی سب سے بڑی صفت یہی گداز ہے۔ یہ وہ گداز ہے جو انسان کو اپنی ذات کے علاوہ بھی کسی کے بارے میں سوچنا سکھاتا ہے اور وہ دوسرے کے جذبے کی اپنائیت کے احساس کے ساتھ قدر کر سکتا ہے۔ پھر جب ہم دوسروں کے جذبہ و احساس کے احترام پر قادر ہو جائیں تو اسی کیفیت میں سے عدل و توازن کے سوتے پھوٹتے ہیں اور جب عدل و توازن کسی قوم کا کردار بن جاتا ہے تو اسکا نتیجہ ہوگا سیاسی سطح پر کامل سکون، اقتصادی خوشحالی اور روحانی آسودگی۔۔۔۔۔۔۔آپ کہیں گے کہ میں الفاظ کی ایک مترنم اور دلآویز ترتیب کے کارنامے۔۔۔۔۔۔یعنی شعر۔۔۔۔۔۔۔کے اثرات کو کھینچ کھانچ کر بہت دور لیے جا رہا ہوں، مگر سچی بات یہ ہے کہ میں مبالغہ نہیں کر رہا ہوں، ایک حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ ایک معمولی سی مثال ملاحظہ کیجیئے۔ غالب کا ایک شعر ہے:
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ خستگی کا شکار اپنے آپ کو دنیا کا سب سے زیادہ خستہ انسان سمجھتا ہے، یوں وہ خود ترحمی کا شکار ہو جاتا ہے، قنوطیت زدہ ہو جاتا ہے، عمر بھر شکست خوردہ رہتا ہے اور اپنی ذات سے باہر جھانکنے سے ڈرتا ہے لیکن اگر وہ اس خوف پر غالب آ جائے اور اس خول سے نکل کر دیکھے تو اسے معلوم ہوگا کہ اس دنیا میں اس سے بھی کہیں زیادہ "خستۂ تیغِ ستم" موجود ہیں۔ اس انکشاف سے وہ خوش نہیں ہوگا بلکہ اپنی خستگی کا احساس اسے دوسروں کی خستگی میں شریک کر لے گا۔ اور وہ سب کی خستگی کو ختم کرنے کیلیے ایک مثبت جِدوجہد میں مصروف ہو جائے گا۔ وہ اس کیفیت کے تدارک کی تجویزیں سوچے گا جس نے ہر انسان کو خستگی کے سپرد کر رکھا ہے۔ ہر انسان کے ساتھ اسے محبت محسوس ہوگی۔ ہر شخص کا دکھ اسکا اپنا دکھ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اسطرح غزل کا یہ ایک شعر انسانی جذبات کی تہذیب کا اتنا بڑا کارنامہ انجام نہیں دے ڈالے گا، جو بڑی بڑی تحریکوں کے بھی بس میں نہیں ہوتا۔
مگر شرط یہ ہے کہ شعر پڑھنے، نغمہ سننے اور تصویر دیکھنے والے کا ذہن Receptive ہو۔ فنی اثرات کی قبولیت کیلیے اسکے دروازے وا ہوں۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہو؟ یہ صرف اسطرح ممکن ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کے معیار ایسے ہوں کہ اساتذہ جب ادب و فن کی تعلیم دینے بیٹھیں تو محض فرہنگیں کھول کر نہ بیٹھ جایا کریں اور مشکل الفاظ کے معانی بیان کرکے اور شعر و ادب کو سلیس زبان میں منتقل کرکے اپنے منصب سے عہدہ برآ نہ ہو جایا کریں بلکہ متعلقہ فن پارے کی گہرائیوں تک پہنچیں اور اسکے مفاہیم کے پھیلتے ہوئے افقوں سے آگاہ ہوں۔ صرف اسطرح نوجوانوں میں صحیح قسم کا ادبی ذوق پیدا ہوگا۔ اور وہ اس حیات بخش قوت کو اپنے کردار میں رچا سکیں گے۔ مگر جب تک ہمارا فرسودہ طرزِ تعلیم نہیں بدلتا اور ادب کی تعلیم بعض کور ذوقوں کے قبضے میں سے نکالی نہیں جاتی۔ ادب و فن سے اہلِ ملک کا یہ مثبت استفادہ صرف اس ذریعے سے ممکن ہے کہ ہر طرف ادب و فن کے چرچے ہوں۔ ممکن ہے اسطرح پڑھے لکھے طبقے کے افراد اس طرف متوجہ ہوسکیں اور انکے کردار میں چھپی ہوئی خوبیوں کے تاروں کو چھیڑ سکیں۔ میں جب "تہذیب و فن" کے سلسلے میں مضامین لکھتا ہوں تو مجھے علم ہوتا ہے کہ ان کے مندرجات سے متاثر ہونے والوں کی تعداد محدود ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر مطالعہ کرنے والے ڈیڑھ دو لاکھ افراد میں سے ایک سو افراد بھی میری گزارشات کو غور سے پڑھتے ہیں اور ان سے کوئی معمولی سا اثر بھی قبول کرتے ہیں تو مجھے انکی افادیت کا یقین ہو جاتا ہے۔ سیاست کی گرم بازاری میں کسی بھی شعبۂ زندگی کو نظر انداز کر دینا بہت بڑی غلطی ہے۔ خاص طور سے اس صورت میں جب بعض شعبے سیاسیات کو تہذیبی حدود کے اندر رہنے میں مدد دے سکتے ہیں اور ایک ایسا ماحول قائم رکھ سکتے ہیں جب گالی بکنے والے کو گالی باز سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاتا۔ اور اسے قومی رہنمائی اور علمی سربراہی کے منصب سپرد نہیں کئے جا سکتے۔ جب معاشرے میں جذبات کی آتش زنی انتہا پر پہنچ جائے تو چند فقیروں کو شبنم افشانی کے کام سے روکنا نہیں چاہیئے۔ اگر یہ شبنم افشانی چند چنگاریوں کو بھی بجھا سکے تو یہ بھی کوئی معمولی کام نہیں ہے۔
حال ہی میں ایک امریکی ماہر ڈاکٹر پال ایف زیڈ وائفل نے راولپنڈی کی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے ثقافت کے بارے میں چند ایسی باتیں کہیں جو غلط بھی تھیں اور ناقابلِ برداشت بھی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک (ظاہر ہے کہ افریقی اور ایشیائی ممالک بشمول پاکستان) اس وقت تک سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک وہ ثقافت سے متعلق اپنے موجودہ تصورات کو ترک نہیں کر دیتے اور مغربی اندازِ نظر نہیں اپناتے۔ اس خیال کو انہوں نے اس دلیل سے مستحکم کرنے کی کوشش کی کہ آپ مادی قدروں کو اہمیت دیے بغیر مادے کی ترقی کے بارے میں سوچ ہی کیسے سکتے ہیں۔
خوشی کی بات ہے کہ راولپنڈی کی اس تقریب میں موجود پاکستانی دانشور یہ سب کچھ سنکر خاموش نہیں رہے بلکہ انہوں نے ڈاکٹر وائفل پر سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ انہوں نے امریکی دانشور کو واضح طور پر بتایا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہمارے مذہبی عقائد سے متصادم نہیں ہوتے بلکہ ہمارے لیے تو ان علوم کا حصول مذہبی طور پر بھی ضروری ہے۔ ان پر واضح کیا گیا کہ ماضی میں مسلمان سائنس دان پوری دنیا کیلیے مشعلِ راہ بنے تھے مگر انہیں اپنے مذہبی عقائد اور اپنے ثقافتی تصورات سے دست کش ہونے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ اسکے بعد ڈاکٹر وائفل سے استفسار کیا گیا کہ اگر آپ کا ارشاد درست ہے تو پھر کیا سبب ہے کہ چین نے مغربی تہذیب و ثقافت کو اپنائے بغیر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بے پناہ ترقی کی ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب میں کہا کہ چین کے بارے میں وہ زیادہ نہیں جانتے اور ویسے بھی وہ چین کی سائنسی اور ٹیکنیکل ترقی کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہ طرزِ فکر کسی ایسے شخص کو زیب نہیں دیتا جسے دانشوری کا بھی دعوٰی ہو اور جو اسی براعظم کے لوگوں کو اپنی ثقافت ترک کرنے کا مشورہ دینے آیا ہو جسکا ایک بہت بڑا حصہ چین کے نام سے موسوم ہے۔ اگر امریکہ سیاسی طور پر چین کو تسلیم نہیں کرتا اور اقوامِ متحدہ میں چین کی رکنیت کے مسئلے کو اس نے اپنی انا کا مسئلہ بنا رکھا ہے تو امریکہ کے دانشوروں پر یہ کیسے لازم آتا ہے کہ وہ بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی حیرت انگیز ترقی کے بارے میں نہ صرف لاعلمی کا اظہار کریں بلکہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے بھی محض اسلیے انکار کردیں کہ جب ہم سیاسی لحاظ سے چین کو تسلیم نہیں کرتے تو ثقافتی لحاظ سے اسکی ترقی کو تسلیم کرنے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے۔ یہ اندازِ نظر اس ملک کے اربابِ علم کو کسی صورت زیب نہیں دیتا جسے "آزاد" دنیا کا سربراہ قرار دیا جاتا ہے اور جس کے بارے میں سنا ہے کہ وہاں تقریر، تحریر اور عقیدے کی آزادی اوجِ کمال پر پہنچی ہوئی ہے۔ اگر چین کے بارے میں ڈاکٹر وائفل کے اس ارشاد کو اس اوج کا اظہار قرار دیا جائے تو ہمیں افسوس ہے کہ امریکہ میں ان بنیادی آزادیوں کی کوئی اچھی تصویر ذہن میں نہیں ابھرتی۔ اسلیے کہ ذہنی تعصبات آزادی کی بجائے آزادی کا ناجائز استعمال ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر وائفل نے چین کے بارے میں بے خبری کا اظہار کرنے کے بعد جاپان کی مثال پیش کی کہ دیکھئے اس نے مغربی ثقافت کو اپنا کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کتنی ترقی کی ہے۔ پاکستانی دانشوروں کی طرف سے انہیں فوراً مطلع کیا گیا کہ جاپان میں مغرب کے ثقافتی تصورات کا نفوذ تو اب شروع ہوا ہے ورنہ جاپان نے تو اس سے پہلے ہی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مغرب سے اپنا لوہا منوا لیا تھا۔ اور جاپان کی مادی ترقی تو مغرب کی مادہ پرستی کی درآمد سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔ اگر ڈاکٹر وائفل کو پاکستانی دانشوروں کی طرف سے اس "انکشاف" پر اب بھی شبہ ہو تو ہم انھیں بعض تفاصیل سے مطلع کرنا چاہیں گے۔ عرض یہ ہے کہ جاپان میں مغرب کے ثقافتی تصورات کا نفوذ اگست 1945ء میں شروع ہوا تھا۔ یہ وہ مہینہ ہے جب امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر تاریخِ انسانی کے پہلے ایٹم بم گرائے تھے اور اسی مہینے امریکی اور برطانوی افواج نے جاپان پر قبضہ کرلیا تھا۔ مغربی ثقافت کے تصورات کے نفوذ کی تاریخ یہیں سے شروع ہوتی ہے اور پرل ہاربر کا حادثہ اس سے چار سال پہلے کا ہے۔ پھر ہم سمجھتے ہیں کہ اگر جاپان پر مغربی ثقافت مسلط نہ کردی جاتی تو سائنس اور ٹیکنالوجی میں جاپان کی ترقی کی رفتار اتنی تیز ہوتی کہ امریکہ کے سے ملک بھی اس سے پیچھے رہ جاتے۔ یہ مغربی ثقافت کا نفوذ تو جاپان کی مادی ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔
جب ملک سے اسکی ثقافت چھن جاتی ہے تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کی بے ساختگی چھن گئی ہے۔ اپنی ثقافت انسان کو ایک ایسا ماحول مہیا کرتی ہے جس سے وہ پوری طرح مانوس ہوتا ہے اور جب تک مانوس ماحول میسر نہ ہو، انسان کو اپنے ہاتھ پاؤں بلکہ اپنا دماغ تک استعمال کرنے میں رکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجنبی ماحول میں بڑ بولے گونگے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اور بے چین مزاج کے لوگوں پر جامد ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ قوموں کی انفرادی ثقافتوں کا مطالعہ کیجیئے تو صاف معلوم ہوگا کہ یہ ثقافتیں قوم کے افراد کو فکر و عمل کی چند سہولتیں مہیا کرتی ہیں۔ پھر ہر قوم کی ثقافت اس قوم کے خاص مزاج کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ثقافتوں کی صورت پذیری کا عمل غیر محسوس ہوتا ہے۔ محبت کی طرح یا زبان کی طرح ثقافت بھی کہیں اوپر سے ٹھونسی نہیں جا سکتی بلکہ اس کی جڑیں انسانوں کے محسوسات اور تصورات میں ہوتی ہیں۔ اور یہ "اشجار" اسی "مٹی" میں پھولتے پھلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ثقافتیں مشینوں کی طرح درآمد برآمد نہیں ہوتیں۔ وہ ان ثقافتوں سے متاثر ضرور ہوتی ہیں جن سے ان کی مڈ بھیڑ ہوتی ہے مگر یہ اثر پذیری یک طرفہ نہیں ہوتی۔ یک طرفہ اثر پذیری کا خیال صرف ان ذہنوں میں پیدا ہو سکتا ہے جو اپنی ثقافت کی برتری کے دعویدار ہوتے ہیں اور یوں غیر شعوری طور پر فسطائیت کی زد میں آجاتے ہیں۔ امریکہ کے ڈاکٹر وائفل نے اگر ہمیں سائنسی اور ٹیکنیکل ترقی کیلیے اپنی ثقافت کو ترک کردینے اور مغربی ثقافت کو اپنا لینے کا مشورہ دیا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ غیر محسوس طور پر ہی سہی، یورپ کی اس نو آبادیاتی ذہنیت کے شکار ہیں جو ایشیا اور افریقہ کو ہر لحاظ سے کمتر اور نالائق سمجھتی ہے۔ یہ اندازِ فکر خود ڈاکٹر وائفل کی ثقافت کا کوئی اچھا ثبوت نہیں ہے کیونکہ اسطرح تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اب مغرب سیاسی شکست کے بعد ثقافتی سطح پر "سورت" میں اپنی "کوٹھیاں" بنانے نکلا ہے۔
سوال یہ ہے کہ مغرب کے دانشوروں کو ہمارے ہاں آکر ایسی باتیں کرنے کا حوصلہ ہی کیسے ہوتا ہے؟ تنقید کو برداشت کرنا یقیناً بڑی فراخدلی کا کام ہے مگر تنقید کا بھی ایک معیار ہوتا ہے۔ اس میعار سے ہٹ کر جو تنقید کی جاتی ہے وہ تنقیص کہلاتی ہے اور یاد رہے کہ نقائص نکالنے اور گندگی اچھالنے سے زیادہ آسان کام آج تک کسی کو سوجھا ہی نہیں۔ پھر مغرب سے آنے والے ہمارے یہ نقاد شاید اس حقیقت سے بے خبر ہیں یا بے خبر رہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی بنیاد ہی اہلِ پاکستان کی تہذیبی اور ثقافتی انفرادیت پر ہے۔ ہم نے اپنے عقائد، اپنی تہذیب اور اپنے ثقافتی تصورات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کیلیے یہ خظۂ زمیں حاصل کیا ہے۔ چنانچہ جب ڈاکٹر وائفل کے سے مغربی دانشور ہمیں اپنے ثقافتی تصورات کو ترک کردینے کا مشورہ دیتے ہیں تو اسطرح وہ ہمارے وجود کی بنیاد پر ضرب لگانے کا مرتکب ہوتے ہیں۔ اس قسم کے مشورے اس صورت میں بالکل بے معنی ہو جاتے ہیں جب ہم اس امر پر غور کرتے ہیں کہ مغرب کی مادی ترقی دراصل ایشیا اور افریقہ کے ظالمانہ استحصال سے کشید کی گئی ہے۔ ایک لمحے کیلیے فرض کیجیئے کہ یورپ کو ایشیائی ممالک پر کبھی تسلط حاصل نہیں رہا۔ تب نہایت آسانی سے اس مغرب کا تصور کیا جا سکتا ہے جو غریب ہے اور جس کے شب و روز دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کی تگ و دو میں صرف ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں امریکہ میں یورپی آبادی کا انتقال بھی مشکوک ہو جاتا ہے اور وہ براعظم وہاں کے اصل باشندوں کے قبضے میں چلا جاتا ہے۔ اب جو مغرب ہمارے سامنے آتا ہے وہ اس مغرب سے سراسر مختلف ہے جس نے افریشیائی ممالک کے استحصال کے بعد اپنے رخساروں میں سرخی پیدا کی اور شکم پری کی طرف سے مطمئن ہو کر سائنس اور ٹیکنالوجی کی سمت متوجہ ہونے کا وقت نکال لیا۔ کیا ڈاکٹر وائفل نے اپنی ثقافت کے اس پہلو پر بھی غور کیا ہے؟
یہ درست ہے کہ اوہام سائنٹیفک ترقی کی راہ میں بری طرح مزاحم ہوتے ہیں مگر کیا اوہام صرف مشرق میں پائے جاتے ہیں؟ کیا مغرب کا معاشرہ اوہام سے قطعی طور پر آزاد ہے؟ جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے، مغربی معاشرے میں اب تک ایسے اوہام موجود ہیں جنکا ذکر آج کے مشرق میں سامانِ تضحیک بن جائے، اسکے باوجود اگر مغرب نے ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی ہے تو اسکی وجہ وہاں کے ثقافتی تصورات کی حقیقت پرستی نہیں بلکہ یہ تو تاریخ کا ایک حادثہ ہے۔ رہی یہ بات کہ مادی قدروں کو اہمیت دیئے بغیر مادے کی ترقی کے بارے میں سوچا ہی نہیں جا سکتا تو یہ ایک ایسا مبحث ہے جو بہت تفصیل چاہتا ہے۔ اور شاید مجھ ایسا آدمی جو صرف شاعر اور افسانہ نگار ہے، اس مبحث سے انصاف بھی نہیں کر سکتا۔ مادے کے وجود سے کوئی منکر نہیں ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ پوری کائنات مادے ہی کی کار فرمائی ہے۔ ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ مادے کے اپنے خواص ہیں اور انہی خواص کی برکت سے مادے میں حرکت ہے اور نئی سے نئی صورت پذیری کی قوت ہے۔ شاید کسی بھی قوم کے ثقافتی تصورات مادے کی مکمل نفی سے نہیں ابھرتے۔ جھگڑا صرف اس صورت میں پیدا ہوتا ہے کہ مغرب مادے کو مطلق العنان مانتا ہے۔ مگر مشرق کے اہلِ مذہب مادے کو ایک اور قوت کی۔۔۔۔۔۔۔۔جو کائنات کی سب سے بڑی قوت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تخلیق قرار دیتے ہیں۔ اور بیشتر کا ایمان ہے کہ کائنات میں مادہ جو کچھ کر رہا ہے وہ ایک نظم سے کر رہا ہے اور یہ نظم ایک ایسے منتظم کے ہاتھ میں ہے جسکی اجازت کے بغیر ایک پتا تک نہیں ہل سکتا۔ عقائد کی نوعیت کچھ بھی ہو مگر کوئی بھی اس پر معترض نہیں ہوسکتا کہ ہم پہاڑوں کو کھود کر معدنیات تک پہنچیں یا ایٹم کو توڑ کر اس سے قوت و حدت حاصل کریں یا خلا میں ابھر کر ناپیدا کنار وسعتوں تک پھیلے ہوئے کروں کے اسرار معلوم کریں۔ اگر ڈاکٹر وائفل کو کسی نے یہ بتایا ہے کہ اہلِ پاکستان کا عقیدہ پاکستان کی ٹیکنیکل ترقی میں حائل ہے تو غلط بتایا ہے۔ ہمارا "قصور" صرف یہ ہے کہ ہم ایٹمی ری ایکٹر کا آغاز بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر وائفل کی اس تقریر کی رپورٹ پاکستان کے سب اخباروں میں شائع ہوئی مگر حیرت ہے کہ کسی نے اسکا کماحقہ نوٹس نہیں لیا۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ جب کوئی شخص ارضِ پاکستان کی تاریخ کو موہن جودڑو سے بھی قبل کے زمانے سے شروع کرتا ہے تو ہم سب بے قرار ہوجاتے ہیں کہ یہ کیا کفر بک رہا ہے۔ مگر جب مغرب کا ایک دانشور ہماری ثقافت کو بیسویں صدی کے تقاضوں کی نفی قرار دے ڈالتا ہے تو ہم چپ سادھ لیتے ہیں۔ اسکی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ مغرب کے معاملے میں ہم اب تک احساسِ کمتری کے شکار ہیں (جیسا کہ مغرب ہمارے معاملے میں احساسِ برتری کا شکار ہے اور ڈاکٹر وائفل نے اسکا ثبوت مہیا کر دیا ہے۔) ہم اپنے بارے میں مغرب سے آج بھی بڑے سے بڑا جھوٹ سنکر اس سوچ میں کھو جاتے ہیں کہ کہیں یہ سب سچ تو نہیں ہے۔ اس احساسِ کمتری سے ہمیں جلد سے جلد پیچھا چھڑانا چاہیئے کہ یہ طرزِ فکر ہمیں آئندہ صدیوں تک ذہنی لحاظ سے مغرب کا محکوم بنائے رکھے گا۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہم بڑے مہمان نواز اور فراخ دل لوگ ہیں اور مہمانوں کی عزت کرتے اور اپنی تنقید خندہ پیشانی سے سنتے ہیں۔ ہماری ثقافت کا یہ پہلو قابلِ فخر ہے۔ لیکن مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ جب اپنی ثقافت کے وقار کا مسئلہ درپیش ہو تو ہمیں تھوڑا سا "متعصب" ضرور ہونا چاہیئے۔ اور میں راولپنڈی کے دانشوروں کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے اس مقدس "تعصب" کا برسرِ عام مظاہرہ کیا۔ یہ "تعصب" دراصل اپنی روایتوں اور اپنی قدروں سے پیار کا دوسرا نام ہے۔ ہمیں اہلِ مغرب کو بتا دینا چاہیئے کہ یقیناً ہمارے ثقافتی تصورات اور اخلاقی قدریں فولاد سے نہیں بنی ہیں، ان میں بلا کی لچک ہے اور ہم "خذما صفاوع ماکدر" کے اصول پر ہمیشہ سے کاربند ہیں، البتہ ہم اپنی قومی اور تہذیبی اور ثقافتی انفرادیت پر فخر کرتے ہیں اور اس انفرادیت کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔
آج کل ایک مسلمان سائنسدان، ابن الہیثم کا ہزار سالہ جشن منایا جا رہا ہے۔ اسکے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ "وہ مسلمانوں میں سب سے بڑے طبیعات دان تھے۔ کیمرے اور خوردبین کا راز سب سے پہلے اسی نے معلوم کیا تھا۔ اس نے چار سو سائنسی کتابیں لکھیں جن میں سے صرف چند کے لاطینی ترجمے محفوظ ہیں۔ روشنی اور بصارت کے تمام حقائق اور علوم کی بنیاد ابن الہیثم ہی کی تحقیق پر رکھی گئی ہے۔ اور چٹانوں کی ساخت اور عمر معلوم کرنے کے آج جو طریقے رائج ہیں وہ بھی اسی کے تجربات کا نتیجہ ہیں۔" بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہماری توجہ قدیم مسلمان مفکرین اور انکے نظریات کی طرف مبذول کرائی جا رہی ہے اور یوں اس یقین کو ثبوتوں کے ساتھ پختہ کیا جا رہا ہے کہ ہمارا علمی و تہذیبی ماضی شاندار ہے۔ مگر اس مبارک مقصد کیلیے یہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ ہم علوم کے ایک شعبے کی برتری کو نمایاں کرنے کی خاطر علوم کے ایک اور شعبے کو غیر اہم اور بیکار قرار دے ڈالیں۔ علوم ہمیشہ ایک دوسرے کے سہارے چلتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی علم دوسرے تمام علوم سے کٹ جانے کے بعد زندہ رہ سکا ہو۔ چنانچہ سائنس تک کے بارے میں اب عام خیال یہ ہے کہ یہ انسان کی اسی متخیلہ سے قوت حاصل کرتا ہے جسکا بہترین اور حسین ترین اظہار شاعری اور دوسرے تخلیقی ادب میں ہوتا ہے۔ اس صورت میں ہمیں کراچی کے ایک معاصر میں ابن الہیثم کے کارناموں کے بارے میں لکھے ہوئے ایک عالمانہ مقالے کے یہ جملے کچھ عجیب سے لگے۔
"ذہنی پراگندگی ہماری تہذیب (دور حاضر کی تہذیب) کا خاصہ ہے۔ ہمارے اسلاف ارتکازی قوت سے آراستہ تھے اور قوتِ ارتکاز اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک ہمارے اذہان اس آلودگی سے پاک نہ ہو جائیں جو بیرونی تمدنوں نے ہمارے اندر پیوست کردی ہے۔ حصول علم و ترقی کیلیے لازمی ہے (؟) لیکن اس سے یہ معنی اخذ کرنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ ہم مغربی تمدن کا تمامتر بوجھ اپنے سر منڈھ لیں۔ اسکا کا نقصان ناقابلِ تلافی حد تک پہنچ چکا ہے اور آئندہ مہلک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ سب سے عظیم نقصان جو ہمارے اذہان کو پہنچا ہے وہ منفی رہا ہے۔ ہم نے اپنی تخلیقی قوت سائنس کے بجائے شاعرانہ غرابت میں صرف کی۔ جہاں الفاظ کے سحر کو ہم کارآمد بنا سکتے تھے وہ سحر ہم نے قصیدہ خوانی کی نظر (نذر) کر دیا۔ غرض کہ ہر جگہ تخلیقی قوتوں کا اسراف ہی اسراف نظر آتا ہے۔ اسکے نتیجے میں ہم تقدیری نظریات کے تابع ہوگئے اور ہمارے اوپر آرام طلبی کا غلبہ ہوگیا۔ یہی کیفیت قدرے یونانی تہذیب کی تھی جو چوتھی صدی عیسوی میں ختم ہوگئی۔"
میں نے یہ طویل اقتباس اسلیے درج کیا کہ مجھ پر عبارت کو اسکے سیاق و سباق سے الگ کرکے اسکا جائزہ لینے کا الزام عاید نہ ہوسکے۔ ورنہ دراصل مجھے حیرت اس اقتباس کے آخری چند جملوں پر ہے جو خط کشیدہ ہیں۔ سب سے آخری جملے ("یہی کیفیت قدرے یونانی تہذیب کی تھی جو چوتھی صدی عیسوی میں ختم ہوگئی۔")سے متعلق اربابِ علم و فضل ہی بہتر طور پر بتا سکتے ہیں کہ اسلامی تہذیب اور یونانی تہذیب کے علمی اور تخلیقی زوال کے درمیان کونسی قدر مشترک ہے اور کیا سقراط، ارسطو اور افلاطون کی تہذیب واقعی ختم ہو چکی ہے۔ اور مسلمان علماء کے کارنامے سچ مچ زوال اور گمنامی کی نذر ہوچکے ہیں؟ بہرحال یہ مبحث دوسرا ہے۔ مجھے تو صرف اتنی سی عرض کرنا ہے کہ اگر ہمارے اسلاف نے شاعری کی تو کیا انہوں نے اسلامی تہذیب میں اضافے کئے یا اس شاعری کا صرف یہ نتیجہ نکلا کہ سائنس اور سائنسی تحقیق کے ساتھ مسلمانوں کی دلچسپی ختم ہو گئی؟ کیا ہمیں سائنسی تحقیق سے غیر متوجہ کرنے والے عناصر میں صرف شاعری ہی دکھائی دیتی ہے یا اس میں ملوکیت کا بھی ہاتھ تھا اور ان لوگوں کا بھی جو سائنسی انکشافات اور ایجادات کو کفر قرار دینے سے بھی نہیں ہچکچاتے تھے؟ کہیں اس میں امراء و روساء کی تن آسانیوں اور عیش پرستیوں کو تو دخل حاصل نہیں تھا؟ اور کہیں اسکی وجہ یہ تو نہیں کہ ہمارے اربابِ حکومت نے سائنسی علوم کو عوام کی خود آگاہی کا ایک ذریعہ سمجھ کر انکی حوصلہ شکنی شروع کردی تھی؟ کیا اتنے بہت سے مجرموں کی نشاندہی محض اسلیے مشکل ہے کہ تاریخ نے ان امراء و روساء کو ہمارے ہیرو بنا کر انہیں ہمارے ذہنوں پر مسلط کر رکھا ہے۔ اور کیا صرف شاعری اور الفاظ کی سحر کاری پر سارا الزام تھوپ دینا اسلیے آسان ہے کہ تخلیقِ شعر کرنیوالی مخلوق میں قلندرانہ صفات ہوتی ہیں اور شعراء پورے فنِ شاعری کی یہ تضحیک بھی محض اسلیے برداشت کرلیتے ہیں کہ انہیں اس حقیقت کا یقین ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے، شاعری بھی زندہ ہے اور جس روز شاعری سے دست کش ہوگا اسی روز روحانی اور محسوساتی حیثیت سے اسکا انتقال ہو جائے گا، صرف جسم زندہ رہیں گے، جسطرح ڈھور ڈنگر زندہ رہتے ہیں۔
بلاشبہ بعض شعراء نے اپنی پوری قوتِ تخلیق قصیدہ گوئی پر صرف کردی مگر ایسے حضرات کی تعداد آخر کتنی ہے۔ یقیناً وہی شعراء اکثریت میں ہیں جنہوں نے اول تو قصیدہ گوئی کی نہیں اور اگر کی تو محض رسماً کی، جیسے آجکل بعض شعراء محض رسماً آزاد نظم کہہ لیتے ہیں۔ پھر قصیدہ گوئی آج ہماری نظروں میں مطعون و مقہور سہی اور اب یقیناً اس صنفِ سخن کی گنجائش حتمی طور پر ختم ہوچکی ہے۔ مگر جس زمانے میں بڑے بڑے قصیدہ نگار پیدا ہوئے اس زمانے کے تقاضے ہی کچھ اور تھے کہ شاعر شاہ کے قصیدے لکھتے تھے اور سائنسدان شاہ کے شبستان کو مستور روشنیوں کی مدد سے اجالنے میں لگے رہتے تھے۔ یوں قصور نہ شاعر کا ہے نہ سائنسدان کا بلکہ اس مطلق العنان ادارے کا ہے جس نے افراد کی تخلیقی قوتوں پر اپنی حکمرانی کا جھنڈا لہرا رکھا تھا۔ آج بیشتر اہلِ قلم کا ذریعہ معاش انکی قلمکاری ہے لیکن قصیدہ گوئی کے دور میں وہ تخلیق کار اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کیلیے قصیدے نہ لکھتے تو اور کیا کرتے۔ پھر جو علم دوست اربابِ ثروت شعرا کی تخلیقی قوتوں کو تنو مند رکھنے کیلیے انکے وظائف مقرر کرتے تھے، انکی علم دوستی کی تعریف میں اس زمانے کے شعرا نے اگر شاعری کی تو یہ سمجھ میں نہ آسکنے والی بات نہیں ہے۔ آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ذریعہ معاش کے طور پر نمک مرچ کی دکان کھول لیتے مگر قصیدے نہ لکھتے تو بڑا اچھا کام کرتے اور صرف اسلیے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے آج کے معیار مختلف ہیں لیکن کیا اس طرح ہم سینکڑوں مسلمان شعراء کی ان نگارشات سے محروم نہ رہ جاتے جنہیں ہم اپنی تہذیب کا اثاثہ اور اپنی ثقافت کا سرمایہ قرار دیتے ہیں؟ پھر قصیدہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ناپسندیدہ صنفِ سخن سہی مگر جس دور کو ہم دورِ قصائد قرار دے سکتے ہیں اسکے چند منتخب قصائد کا غیر جانبداری سے مطالعہ کیجیئے تو معلوم ہوگا کہ انسان کی قوتِ متخیلہ یہاں کتنے عروج پر ہے۔ انسانی ذہن ان قصائد کے دوران کتنی ان دیکھی دنیاؤں کی ٹھوس صورت ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا ہے، اور کتنی غیر مرئی چیزوں کو محسوس شکل بخشتا ہے، جیسے ہم چاہیں تو انہیں چھو لیں۔ بظاہر قصائد نگاروں کی یہ سب معجزہ نمایاں بیکار نظر آتی ہیں، لیکن اگر اس حقیقت کا ادراک حاصل ہو کہ متخیلہ میں تحریک و تلاطم پیدا کئے بغیر انسانی ارتقاء ممکن ہی نہیں تو پھر ہم نہایت آسانی سے ان شعراء کی شاعری کو اپنی تہذیبی قوت کا ایک اہم کارنامہ قرار دے سکتے ہیں۔ یہاں میں قصیدہ نگاری کا جواز نہیں پیش کر رہا ہوں بلکہ یہ گزارش کر رہا ہوں کہ جس زمانے میں قصیدہ نگاری شاعری کی ضرورت تھی تو اس زمانے میں بھی شاعروں نے قصیدہ نگاری تک میں پرواز اور کرید کے عناصر بھر دیئے تھے اور انہوں نے الفاظ کو بیچ کر بھی ان سے ان کا مثبت سحر نہیں چھینا تھا اور یہ صورتِ حال تخلیقی قوتوں کا اسراف نہیں، اثبات ہے۔
دراصل اِس زمانے میں یہ ایک فیشن سا بن چکا ہے کہ جب کسی ادبی شخصیت پر لکھو تو ادب کو بے شک قوم کی تہذیب کا مؤثر ترین ذریعہ قرار دے ڈالو۔ لیکن جب کسی سائنسی، ٹکنیکی یا اصطلاحی مسئلے پر بات کرو تو شعر و ادب کو خوب رگیدو اور اعلان کرو کہ قوم کو سائنسدانوں کی ضرورت ہے، شاعروں کی نہیں۔ قوم کو مشینیں تیار کرنے والے درکار ہیں مصرعے گھڑنے والے نہیں۔ ایسا کہتے ہوئے یہ کوئی نہیں سوچتا کہ روح کی تہذیب کرنا اور دماغ کو گداز کرنا اور دل میں وسعت پیدا کرنا اور حسن و محبت کی قدروں کو عام کرنا بھی بجائے خود ایک سائنس ہے اور جب تک کسی قوم کو اسکے شاعروں نے تہذیب و گداز نہ بخشے ہوں اس وقت تک اول تو وہ سائنس کے نت نئے انکشافات کے ناقابل رہے گی اور اگر سائنس کے نام پر اس نے کوئی کارِ نمایاں انجام دے بھی لیا تو اسکا وہی انجام ہوگا جو ہمارے زمانے میں جوہری قوت کا ہو رہا ہے کہ اس سے تعمیر سے زیادہ تخریب کا کام لیا جا رہا ہے۔ صحراؤں کو گلزار بنانے والی قوت بین البراعظمی ہائیڈروجن بم بردار مزائل تیار کرنے پر صرف ہو رہی ہے۔ یہ ذہن کے گداز کے فقدان اور تنگیِ دل و نظر کا کیا دھرا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں شاعر کو اپنا منصب ادا کرنا ہے۔ بعض شعراء ایسا کر بھی رہے ہیں کہ جس نشتر کو جراحی کیلئے ڈھالا گیا تھا اسی سے انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ تعمیری قوت کو سراسر تخریبی قوت میں بدلتا دیکھ کر شعراء چکرا گئے ہیں اور بے بسی اور بے معنویت کے چنگل میں گرفتار ہیں، کیونکہ ہر باشعور انسان کو دیوانہ کر دینے والی صورتِ حال ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ یہ کیفیت عارضی ہے۔ شاعر کا منصب ہی یہ ہے کہ وہ انسان کو انسان سے اور اسکی زندگی سے اور اسکی ننھی منی مسرتوں سے پیار کرنا سکھائے۔ وہ جانتا ہے کہ ہر چیز عارضی سہی مگر خود انسان اپنے تسلسل کہ وجہ سے، روزِ اول سے اب تک زندہ ہے اور ابد تک زندہ رہے گا۔ یقیناً یہ یقین اپنی انفرادیت کو دوسروں کی انفرادیتوں کا رفیق بنا کر ہی حاصل ہوتا ہے۔ مگر شعراء کیلئے یہ کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہے وہ ہر قیامت میں سے زندگی کے ذرا ذرا سے ریزے چن کر زندگی کو پھر زندہ کردیتے ہیں یہ انکا فرض بھی ہے اور انکی مجبوری بھی۔
سائنسی علوم کو یقیناً ترقی دیجئے مگر اہلِ علم کی خدمت میں استدعا ہے کہ شعراء کو اپنا حریف نہ سمجھئے۔ شعراء سب کے رفیق ہیں، اور اگر وہ حریف ہیں تو جہالت کے، تنگ دلی کے، بد ہیئتی کے، بے انصافی اور عدل کشی کے، ظلم اور جبر کے۔ غرض کے وہ ہر اس چیز کے حریف ہیں جو زندگی کے حسن و صباحت کی حریف ہے۔ شاعروں نے سائنس کی راہ میں کبھی بند نہیں باندھا کہ سائنس تو ایک طرح سے مادیت کی شاعری ہے۔ شاعر تو سائنسدان کا رفیق ہے کہ دونوں کا اثاثہ انکی قوتِ متخیلہ ہے۔ ممکن ہے کہا جائے کہ یہ حسن و محبت کی شاعری اور یہ ہجر و وصال کے قصے سائنس کے کس کام کے، تو عرض یہ ہے کہ میں دوسروں کو مجرم کیوں ٹھہراؤں اور اپنا ہی ایک شعر کیوں نہ عرض کردوں۔
کبھی گر جرم ٹھہرا تذکرہ حسن و محبت کا تو کس کافر سے ملک و قوم کی بھی شاعری ہوگی
یہ حسن و محبت اور ہجر و وصال کی شاعری ذہنی عیاشی نہیں ہے۔ یہ انسانی زندگی کی رعنائیوں اور دھوپ چھاؤں کی کیفیتوں کی ترجمانی ہے۔ اس شاعری سے ہم اپنے حوالے سے سب انسانوں کو سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ انسانوں کے مابین پیارے پیارے رشتوں کی آگاہی کا علم ہے۔
ع۔ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
جب شاعری کے سلسلے میں سبھی اسی طرح سوچنے لگیں تو یہ انسانی بھائی چارے کی معراج ہے۔ تو کیا انسانی بھائی چارے کی تبلیغ تخلیقی قوتوں کا اسراف ہے؟ اور کیا ہم اسی وقت ترقی یافتہ کہلائیں گے جب قوم کا ایک ایک فرد کسی نہ کسی سائنسی ایجاد میں مصروف ہوگا اور شعراء کو وطن بدر کر دیا جائے گا؟ تو کیا ہمیں چلتے پھرتے پتھر بننا منظور ہے؟ اور کیا شاعروں کی ایسی باتوں پر جھوم جانا اور کھو جانا اور پھر جذبہ و احساس کی ایک حقیقت کو پا لینا کوئی گھاٹا ہے کہ۔
پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا افسونِ انتظار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمنا کہیں جسے