الشفاء

لائبریرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔

کسی زمانے میں تعلیم و تربیت کے الفاظ کا ایک ہی مفہوم لیا جاتا تھا۔ یعنی تعلیم دینے کا مطلب تربیت کرنا اور تربیت کرنے کا مطلب تعلیم دینا تھا۔ لیکن اب محسوس ہو رہا ہے کہ ان دونوں اصطلاحات کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ آج کل ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم تو دی جا رہی ہے لیکن تربیت کا فقدان ہے۔ جس کے نتائج ہم اپنے معاشرے میں کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مارکس اور پوزیشنز لینے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور منتہائے مقصود بس ڈگری کا حصول ہوتا ہے۔

بطور والدین ہمیں اس فرق کو ملحوظ رکھ کر سوچنا پڑے گا کہ کیا تعلیمی ادارے ہمارے بچوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت کی ذمہ داری بھی پورے طور پر ادا کر رہے ہیں یا اس میں ہمیں اپنا حصہ ڈالنے کی بھی ضرورت ہے۔ اگرچہ بعض اساتذہ انفرادی طور پر اپنے طالب علموں کی اخلاقی تربیت کے لیے بھی کوشش کرتے ہیں لیکن بنیادی طور پر یہ ذمہ داری والدین کی ہی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کرنے کا بھی خاطر خواہ انتظام کریں اور اپنے گھروں میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے شعوری کوششیں کریں۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
آپ نے بالکل درست کہا۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ لیکن کیا کریں! اساتذہ کو مارکس کی اس دوڑ میں مجبوراََ شامل ہونا پڑا ہے۔ ایسے اساتذہ جو صرف علم حاصل کرنے اور تربیت پہ زور دیتے تھے، اب وہ بھی مجبوراََ نمبروں کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسی کتنی ہی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ بچے ذہنی مریض بن رہے ہیں۔ طلبہ، اساتذہ اور والدین سب اسی دوڑ میں شریک ہیں۔
انتہائی تشویشناک صورتحال ہے اور آئیندہ آنے والے دور میں خدانخواستہ حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
 

الشفاء

لائبریرین
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
آپ نے بالکل درست کہا۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ لیکن کیا کریں! اساتذہ کو مارکس کی اس دوڑ میں مجبوراََ شامل ہونا پڑا ہے۔ ایسے اساتذہ جو صرف علم حاصل کرنے اور تربیت پہ زور دیتے تھے، اب وہ بھی مجبوراََ نمبروں کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسی کتنی ہی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ بچے ذہنی مریض بن رہے ہیں۔ طلبہ، اساتذہ اور والدین سب اسی دوڑ میں شریک ہیں۔
انتہائی تشویشناک صورتحال ہے اور آئیندہ آنے والے دور میں خدانخواستہ حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
جی۔یہ چند لائنیں لکھنے کا مقصد والدین کے اندر اسی فکر کو اجاگر کرنا تھا کہ یہ معاملہ ہماری ترجیحات میں شامل ہے یا ہم سب بھی ہجوم کے ساتھ دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ معاشرے میں اخلاقی قدروں کی جو حالت ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ قرآن و حدیث میں یہ ذمہ داری واضح طور پر والدین کے سپرد کی گئی ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ۔ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔(سورۃ التحریم، آیت نمبر 6)۔
اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد مبارک ہے کہ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ- یعنی تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم سے تمہاری رعیّت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔(صحیح بخاری و مسلم)۔
یعنی ہر ایک سے اس کے ماتحت لوگوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ کیا اس نے ان سے متعلقہ ذمہ داریاں پوری کی تھیں۔ اور ظاہر ہے کہ ان میں والدین سے سب سے پہلے ان کی اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
اللہ عزوجل ہم سب کے بچوں کی حفاظت فرمائے اور ان کی تربیت کرنے میں ہمارے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔۔۔آمین۔
 

الشفاء

لائبریرین
انتہائی تشویشناک صورتحال ہے اور آئیندہ آنے والے دور میں خدانخواستہ حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
اس حوالے سے ہمارے ذہن میں چند گزارشات ہیں۔ عام طور پر جب کسی شخص کا کوئی اچھا کام کرنے کا ذہن بنتا ہے (جیسے ہمارا موضوع ہے بچوں کی تربیت کے حوالے سے) تو خیال آتا ہے کہ اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور یہ کام شروع کرنے کی کوئی ترکیب بناتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات اس طرح کا خیال شیطان کی ایک چال بھی ہو سکتی ہے جس کے ذریعے وہ کسی بھی اچھے کام کو پلاننگ یا منصوبہ بندی کے نام پر التوا میں ڈالے رکھتا ہے۔ ہم میں سے اکثر کو اس بات کا تجربہ ہو گا کہ کتنے ہی کام ہماری منصوبہ بندی یا مناسب وقت کے انتظار میں ملتوی ہوتے ہوتے کبھی مکمل نہیں ہو پاتے۔ بچوں کی تربیت کا کام کسی خاص وقت پر یا سپیشل منصوبہ بندی کے ساتھ شروع کرنے کا محتاج نہیں بلکہ یہ کام تو اسی وقت شروع ہو جاتا ہے جب آپ اس کام کا ارادہ کرتے ہیں۔ جب آپ شعوری طور پر اس کا عزم کر لیتے ہیں تو یہ کام ہلکے پھلکے انداز میں گھر بیٹھے روز مرہ کے امور انجام دیتے ہوئے خود بخود ہونے لگتا ہے۔ چونکہ بچے کی پہلی تربیت گاہ اس کا گھر ہوتی ہے۔ اس لیے گھر میں موقع بہ موقع حالات کے مطابق بچوں کو معلوماتی انداز میں مختلف باتیں سکھائی جا سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر آپ گھر میں داخل ہوتے ہیں تو السلام علیکم کہتے ہیں۔ پھر بات چیت کے دوران بچوں کو یہ بتا سکتے ہیں کہ جب سلام دیا جائے تو اس کا جواب ضرور دینا چاہیے۔ اگر ہم وعلیکم السلام کہتے ہیں تو ہمیں دس نیکیاں ملتی ہیں اور اگر ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بھی کہیں گے تو یہ نیکیاں تیس ہو جائیں گی۔
اسی طرح صدقہ و خیرات کرتے وقت کوشش کرنی چاہیے کہ یہ بچوں کے ہاتھ سے دیا جائے بلکہ اگر دو تین بچے ہیں تو بہتر ہے کہ سب کے ہاتھوں سے گزر کر محتاج کو ملے۔ اس حوالے سے ہمارے ذہن میں حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ حدیث ہے جس کا مفہوم ہے کہ صدقہ جتنے ہاتھوں سے گزرتا ہے اس کا ثواب بڑھتا جاتا ہے۔ اس میں خاتون خانہ کو بھی شامل کر لینا چاہیے۔ کہ گھر میں رہنے والی خواتین کو صدقہ و خیرات کرنے کے مواقع کم کم ہی ملتے ہیں اس طرح وہ بھی اس کار خیر میں شامل ہو جائیں گی۔ اس کے ساتھ بچوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ اللہ عزوجل نے ہمیں محتاج لوگوں کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح روز مرہ کے معاملات کے دوران اگر کسی موقع کے حوالے سے قرآن کی کوئی آیت یا حدیث مبارک یا سنت رسول صل اللہ علیہ وآلہ سے کوئی واقعہ آپ کو یاد ہو تو ریفرنس کے طور پر بچوں کو سنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح بچوں کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ قرآن و حدیث اور سنت رسول ہماری اسناد ہیں۔ یعنی ہماری زندگی کے معاملات میں ہمارا ریفرنس قرآن و حدیث اور اسوہ رسول ہونا چاہیے۔ اس طرح بچوں کو یہ سب سیکھنے کی طرف رغبت ملے گی۔ اس کے لیے ہمیں بھی اپنے مطالعہ میں وسعت کی ضرورت ہو گی۔ اگر بچے غیر نصابی کتب کا مطالعہ نہ کرتے ہوں تو بچوں میں مطالعہ کا شوق پیدا کرنے کے لیے آزمودہ طریقہ ہے کہ بچوں کے مختلف قسم کے رسائل و میگزین گھر میں لا کر رکھ دیے جائیں تو کچھ ہی دنوں میں بچے خود ہی اٹھا کر پڑھنا شروع کر دیں گے۔ اسی طرح مختلف اصلاحی موضوعات پر بنے کارٹون یا اینی میٹڈ کلپس مہیا کر کے بھی بچوں کو تفریح ساتھ ساتھ بہت کچھ سکھایا جا سکتا ہے۔
یہ چند چھوٹی چھوٹی مثالیں ہیں جو ہمارے گھر کو تربیت گاہ میں تبدیل کر سکتی ہیں۔ آپ احباب اس حوالے سے مزید تجاویز دے سکتے ہیں جس سے نہ صرف ہمارے ذہن میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے نئے آئیڈیاز آئیں گے بلکہ یہ ہمارے لیے صدقہ جاریہ بھی ہو گا ، ان شاء اللہ عزوجل۔
اللہ عزوجل ہمیں اپنی ، اپنی اولاد کی اور تمام لوگوں کی اصلاح کا درد عطا فرمائے اور اس میں ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرے۔۔۔ آمین۔
 

جاسمن

لائبریرین
آج ہم نے بھی ادارے میں تربیت کے ضمن میں بہت سی باتیں کیں اور عمل بھی شروع کر دیا۔ آج ہم نے صفائی، سکارف و دوپٹہ، شخصیت کی نشوونما:ظاہری و باطنی جیسے موضوعات پہ بچیوں سے بات کی۔
کل وسائل کی بچت کے موضوع پہ بات شروع کی اور وطن اور والدین سے حقیقی محبت کے تقاضوں سے ہوتی ہوئی مکمل ہوئی تو بچیوں نے کہا کہ ہم عمل کریں گے۔ اس پہ ان شاءاللہ اور الحمداللہ کے مقدس کلمات کے چند فائدوں پہ بات ہوئی۔ پھر بچیوں نے جب شکریہ ادا کیا تو جزاک اللہ پہ بات ہوئی۔:)
بچوں کو پڑھانا شروع کرتے ہوئے تعوذ و تسمیہ کے ساتھ رب زدنی علما کی دعا بھی پڑھتے ہیں۔
 

La Alma

لائبریرین
اچھا مضمون ہے۔
اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت نہ نگاہ
(اقبال)
 

La Alma

لائبریرین
آج ہم نے بھی ادارے میں تربیت کے ضمن میں بہت سی باتیں کیں اور عمل بھی شروع کر دیا۔ آج ہم نے صفائی، سکارف و دوپٹہ، شخصیت کی نشوونما:ظاہری و باطنی جیسے موضوعات پہ بچیوں سے بات کی۔
کل وسائل کی بچت کے موضوع پہ بات شروع کی اور وطن اور والدین سے حقیقی محبت کے تقاضوں سے ہوتی ہوئی مکمل ہوئی تو بچیوں نے کہا کہ ہم عمل کریں گے۔ اس پہ ان شاءاللہ اور الحمداللہ کے مقدس کلمات کے چند فائدوں پہ بات ہوئی۔ پھر بچیوں نے جب شکریہ ادا کیا تو جزاک اللہ پہ بات ہوئی۔:)
بچوں کو پڑھانا شروع کرتے ہوئے تعوذ و تسمیہ کے ساتھ رب زدنی علما کی دعا بھی پڑھتے ہیں۔
ساتھ ساتھ نصاب کی تعلیم بھی جاری رکھیں۔ یہ نہ ہو بچے امتحانی پرچوں میں صرف دعائیں ہی لکھ کر آ جائیں۔ :):)
 

جاسمن

لائبریرین
ساتھ ساتھ نصاب کی تعلیم بھی جاری رکھیں۔ یہ نہ ہو بچے امتحانی پرچوں میں صرف دعائیں ہی لکھ کر آ جائیں۔ :):)
ان ہی بچیوں سے باتیں کرتے ہیں کہ جن کی اس وقت کلاس نہیں ہوتی۔
اور کبھی میں ایسا بھی کرتی ہوں کہ انگریزی گرامر پڑھا دیتی ہوں۔:)
 

الشفاء

لائبریرین
آج ہم نے بھی ادارے میں تربیت کے ضمن میں بہت سی باتیں کیں اور عمل بھی شروع کر دیا۔ آج ہم نے صفائی، سکارف و دوپٹہ، شخصیت کی نشوونما:ظاہری و باطنی جیسے موضوعات پہ بچیوں سے بات کی۔
کل وسائل کی بچت کے موضوع پہ بات شروع کی اور وطن اور والدین سے حقیقی محبت کے تقاضوں سے ہوتی ہوئی مکمل ہوئی تو بچیوں نے کہا کہ ہم عمل کریں گے۔ اس پہ ان شاءاللہ اور الحمداللہ کے مقدس کلمات کے چند فائدوں پہ بات ہوئی۔ پھر بچیوں نے جب شکریہ ادا کیا تو جزاک اللہ پہ بات ہوئی۔:)
بچوں کو پڑھانا شروع کرتے ہوئے تعوذ و تسمیہ کے ساتھ رب زدنی علما کی دعا بھی پڑھتے ہیں۔
ماشاءاللہ۔۔۔ بچوں کی تربیت کا یہی طریقہ ہے ۔ روز مرہ کے امور انجام دیتے ہوئے ان کی تربیت کے بہت سے مواقع دستیاب ہو جاتے ہیں۔ اور آپ کا تو ماشاءاللہ شعبہ بھی ایسا ہے کہ اس میں صدقہ جاریہ کے بے شمار مواقع دستیاب ہیں۔ اگر بندے کے اندر انسانیت کا درد ہو تو ٹیچنگ ایک آئیڈیل شعبہ ہے۔ اور آپ ماشاءاللہ بہت اچھا کام کر رہی ہیں۔ اللہ عزوجل آپ پر اپنا کرم بنائے رکھے۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
ساتھ ساتھ نصاب کی تعلیم بھی جاری رکھیں۔ یہ نہ ہو بچے امتحانی پرچوں میں صرف دعائیں ہی لکھ کر آ جائیں۔ :):)
بلاشبہ نصابی تعلیم بھی ضروری ہے ، تربیت تو ضمناً ہو رہی ہے۔ حالانکہ ہونا تو شاید الٹ چاہیے ۔ :)
رات کو ہم اسی نصابی تعلیم کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ پس منظر میں کالج لیکچرار کی خودکشی کا حالیہ واقعہ تھا اور ہم سوچ رہے تھے کہ اس شخص کی نصابی تعلیم تو اچھی ہوگی کہ ایک کالج میں انگلش کے لیکچرار تھے تو ایک پڑھا لکھا شخص جو دوسرے لوگوں کو بھی تعلیم دینے کی ذمہ داری ادا کر رہا ہو، اتنا غیر دانشمندانہ قدم کیسے اٹھا سکتا ہے۔ مسائل کے حل کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ لیکن پھر ذہن میں کتنے ہی انجینئرز، ڈاکٹرز وغیرہ کے ایسے ہی واقعات گردش کرنے لگے کہ اتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے بھی خود کشی کے واقعات ہیں۔ لیکن کوشش کے باوجود علماء میں سے کسی عالم دین یا مفتی وغیرہ کی خود کشی کا کوئی واقعہ ذہن میں نہ آیا۔ اب معلوم نہیں کہ یہ نصاب تعلیم کا فرق ہے یا تربیت کا۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
کل بچیوں کو صبح سلانٹیاں کھاتے دیکھ کے جائزہ لیا گیا اور کنٹین میں بوتلیں اور سلانٹیاں اور کمتر معیار کی کمپنیوں کی چیزیں بند کی گئیں۔ آپس میں بات چیت سے یہ طے کیا کہ طالبات کو گھر سے ناشتہ دان لانے کی حوصلہ افزائی اور اس عادت کو بڑھانے کی کوشش کی جائے۔
سو کام شروع کیا گیا۔
تین طالبات کو لائبریری سے کتابیں ایشو کرانے کے سلسلہ میں راہنمائی کی۔
 

الشفاء

لائبریرین
لیکن کوشش کے باوجود علماء میں سے کسی عالم دین یا مفتی وغیرہ کی خود کشی کا کوئی واقعہ ذہن میں نہ آیا۔ اب معلوم نہیں کہ یہ نصاب تعلیم کا فرق ہے یا تربیت کا۔۔۔
یہ گھمنڈ کا فرق ہے جو صرف علما میں پایا جاتا ہے
کیا آپ کا مطلب ہے کہ جو گھمنڈی نہیں ہوتے وہ خودکشی کر لیتے ہیں؟
 

الشفاء

لائبریرین
معاشرے میں بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ کل اسی طرح کے ایک واقعے کی خبر نے نیند اڑا دی۔ بچوں کے ساتھ ہونے والے دل سوز واقعات کے تناظر میں نہایت ضروری ہو چکا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی ان معاملات میں تربیت کریں۔ وہ تمام والدین جن کے بچے اور خاص طور پر بچیاں گھر سے باہر ٹیوشن یا سیپارہ وغیرہ پڑھنے جاتے ہیں ، ضرور اپنے بچوں کو ان معاملات کے بارے میں بتائیں کہ جن سے ان کی عزت یا زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہو۔ اور ان کو سمجھائیں کہ کوئی بھی شخص چاہے استاد یا کوئی سگا رشتہ دار بھی ان کے ساتھ کوئی ناشائستہ حرکت کرنے کی کوشش کرے تو وہ اس جگہ بالکل نہ ٹھہریں اور وہاں سے فوراً گھر آ جائیں۔ بچیوں کو مرد اساتذہ کے پاس پڑھنے بھیجنا بہت رسکی ہو چکا ہے۔ گاؤں ہوں یا شہر، ہر جگہ بچے غیر محفوظ ہیں۔ محفل میں موجود خواتین اساتذہ سے خاص طور پر گزارش ہے کہ وہ اپنی سٹوڈنٹس کو ان معاملات کے بارے میں آگاہی دیں۔ اور اس طرح کے معاملات کو ہینڈل کرنے کے لیے ان کی مناسب تربیت کریں۔
اللہ عزوجل ہمیں ، ہمارے بچوں اور گھر والوں کو بری نظر اور بری نیت رکھنے والوں کے شر سے محفوظ فرمائے۔۔۔ آمین۔
 

الشفاء

لائبریرین
بچوں کی تعمیر شخصیت اور تعلیم و تربیت:-
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ یُهَوِّدَانِهٖ، أَوْ یُنَصِّرَانِهٖ، أَوْ یُمَجِّسَانِهٖ.
’’ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پس اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں‘‘۔ (صحیح بخاری)​

امام غزالی اسی نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: بچہ والدین کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اس کا دل ایک عمدہ، صاف اور سادہ آئینہ کی مانند ہے جو بالفعل اگرچہ ہر قسم کے نقش و صورت سے خالی ہے اس کے باوجود ہر طرح کے نقش و اثر کو فوری قبول کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ اُسے جس چیز کی طرف چاہیں مائل کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس میں اچھی عادات پیدا کی جائیں اور اسے علم نافع پڑھایا جائے تو وہ عمدہ نشو و نما پا کر دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کر لیتا ہے۔ یہ ایک ایسا کارِ خیر ہے جس میں اس کے والدین، اساتذہ اور مربی وغیرہ سب حصہ دار ہو جاتے ہیں لیکن اگر اُس کی بری عادات سے صرفِ نظر کیا جائے اور اسے جانوروں کی طرح کھلا چھوڑا جائے تو وہ بداخلاق ہو کر تباہ ہو جاتا ہے جس کا وبال اس کے ولی اور سرپرست کی گردن پر پڑتا ہے۔ (غزالی، إحیاء علوم الدین)
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یٰٓا اَیَّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِیْکُمْ نَارًا. ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اَہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔‘‘ (التحریم، 66: 6)
اسلامی منہج کی رُو سے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت اوران کی کردار سازی میں والدین کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ والدین بطور خاص آغوشِ مادر دنیا کی پہلی درس گاہ ہے جو نومولود کے سطحِ ذہن پر ابتدائی نقش و نگار مُرتسم کرتی ہے۔ ایک صالحہ ماں بچے کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرتی ہے تاکہ وہ بڑا ہو کر اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار بہتر طور پر ادا کر سکے ۔ایسی ہی عظیم ماؤں کے بارے میں نپولین نے کہا تھا: ’’تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘
علامہ اقبال نے فرمایا تھا: ’’قوموں کی تاریخ اور ان کا ماضی و حال ان کی ماؤں کا فیض ہے۔‘‘
ماں کی طرح باپ بھی اولاد کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارنے میں ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام نے بچوں کی قبل از پیدائش سے بلوغت تک کی بنیادی ضروریاتِ زندگی مثلا خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور علاج کی فراہمی پر خرچ کرنا والدکی اولین ذمہ داری قرار دیا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ایک شخص عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میرے پاس ایک دینار ہے (اس کا کیا کروں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا: اُسے اپنے اوپر خرچ کرو۔ وہ شخص عرض گزار ہوا: میرے پاس اور بھی ہے، فرمایا: اسے اپنی اولاد پر خرچ کرو۔ وہ پھر عرض گزار ہوا: میرے پاس اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنی بیوی پر خرچ کرو۔ عرض کیا: میرے پاس اور بھی ہے۔ فرمایا: اپنے خادم پر خرچ کرو، وہ پھر عرض گزار ہوا: میرے پاس اور بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم جہاں مناسب سمجھو (خرچ کرلو)۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 2: 251، رقم: 7413)
اولاد کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے خرچ کرنا محض دنیا داری نہیں بلکہ عین تقاضائے دین اورشریعت کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ حدیث مبارک کی رو سے جو شخص حلال ذرائع سے روزی کما کر اپنے بچوں کی کفالت کرتا ہے تو روزِ قیامت اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہو گا۔ (ابن ابی شیبه، المصنف، 4: 27، رقم: 22186)
والدین کی تربیتی ذمہ داریاں :-
اولاد کی اچھی یا بُری تعلیم و تربیت کا دار و مدار والدین کی پرورش اور نگہداشت کے ساتھ ساتھ ان کی صحیح خطوط پر ذہن سازی اور اخلاق و کردار پر منحصر ہوتا ہے۔ والدین کو تربیتی ذمہ داریوں کی ترغیب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درج ذیل حدیث مبارک سے ملتی ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَکْرِمُوْا أَوْلَادَکُمْ وَأَحْسِنُوْا أَدَبَهُمْ. ’’اپنی اولاد کی عزت افزائی کیا کرو اور اُنہیں اچھے آداب سکھایا کرو‘‘۔ ( ابن ماجه، السنن، کتاب الأدب)​
والدین کو چاہیے کہ عزت افزائی، حوصلہ افزائی اور تعریف میں سب سے زیادہ اولیت بچوں کی کامیابیوں کو دیں خواہ وہ کامیابی ان کی نظر میں کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ وہ کامیابی بچے کی ذاتی صلاحیتوں کے اعتبار سے بہت بڑی ہوتی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں کی چھوٹی سے چھوٹی کامیابی کو بھی سراہیں۔ جب انہیں والدین کی ایسی محبت اور تعریف و توصیف ملے گی تو انہیں محسوس ہوگا کہ ان کے والدین اُن پر اعتماد کرتے ہیں۔ پھر خود اعتمادی کا یہ احساس انہیں مزید سیکھنے، نشو و نما پانے اور کامیاب ہونے کی طرف راغب کرے گا اور دوسروں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں بھی ممد ومعاون ثابت ہو گا۔
والدین کے پیش نظر ہمیشہ یہ امر رہنا چاہیے کہ اپنے بچوں کا کسی بھی دوسرے بچے سے موازنہ نہ کریں ۔ اگر کسی بچے میں جسمانی نقص ہو یا وہ ذہنی طور پر کمزور ہو تو بجائے اس کو یہ احساس دلانے کے کہ وہ معذور یا کمزور ہے، بلکہ اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اسے ایسے لوگوں کے واقعات سنانے چاہییں جنہوں نے معذوری اور کمزوری کے باوجود دنیا میں اتنا نام کمایا۔ مثال کے طور پر ’’مقامات‘‘ عربی ادب کی ایک بے مثل کتاب ہے اس کے مصنف ’’ابو تمام‘‘ بظاہر خوبصورت نہیں تھے لیکن اپنے علمی کارنامے کی وجہ سے ان کی شخصیت کا یہ پہلو کسی کو نظر نہیں آیا اور آج تک ان کا نام عربی ادب میں احترام سے لیا جاتا ہے۔ اسی طرح مصر کے مشہور عالم، مصنف اور وزیر طحہٰ حسین نابینا تھے۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبداللہ بن عبدالعزیز بن باز نابینا ہیں۔ بلب کا مؤجد مشہورسائنس دان اڈیسن بہرا تھا۔
پہلا حصہ۔(ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن)
 

الشفاء

لائبریرین
(دوسرا حصہ)
دورانِ تربیت اخلاقی اقدار کی پاسداری:-

دورانِ تربیت والدین کو چاہیے کہ اگر کسی بچے سے کوئی غلط کام صادر ہو جائے تو اسے ملامت نہ کی جائے اور نہ اسے کسی بُرے لقب سے نوازا جائے۔اس کے غلط رویے پر تنقید ضرور کی جائے مگر اس کی عزتِ نفس ہرگز مجروح نہ کی جائے۔ اس کے لیے کسی مناسب موقع کا انتظار کر کے مجموعی طور پر اس بچے کا نام اور مخاطب کیے بغیر اس کوتاہی یا غلطی کی طرف اشارہ کرنا چاہیے۔ اس سے ایک تو غلطی کرنے والے کو خود احساس ہو جاتا ہے اور وہ اسے ترک کر دیتا ہے اور اسے یہ بھی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ بات خاص طور پر اسے کہی جا رہی ہے۔ دوسرا باقی سب بچوں کو بھی تنبیہ ہو جاتی ہے۔ ہاں اگر انفرادی تنبیہ زیادہ بہتر ہو تو مثبت انداز میں تنہائی میں کر دینی چاہیے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل مبارک سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کو انفرادی طور پر متنبہ کرنے کی بجائے کسی مجمع کو خطاب کرتے ہوئے اس کوتاہی کی طرف اشارہ فرما دیتے لیکن اگر کبھی اس بات کی ضرورت محسوس فرماتے کہ غلطی پر براہ راست متنبہ کر دیا جائے تو نہایت محبت سے سمجھاتے تاکہ مخاطب کسی قسم کی احساس کمتری کا شکار بھی نہ ہو اور وہ اپنی اصلاح بھی کر لے۔
حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک تھا کہ جماعت میں کسی شخص کو چھینک آئی، میں نے کہا: ’یرحمک اﷲ۔ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا: ’کاش یہ مر چکا ہوتا تم مجھے کیوں گھور رہے ہو!‘ یہ سن کر انہوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنا شروع کر دیا، جب میں نے سمجھا کہ وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہو گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں، میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر کوئی سمجھانے والا نہیں دیکھا۔ خدا کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے جھڑکا نہ برُا بھلا کہا، نہ مارا، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نماز میں باتیں نہیں کرنی چاہیں، نماز میں صرف تسبیح، تکبیر اور تلاوت کرنی چاہیے۔ (مسلم، الصحیح، کتاب الصلاة، )
اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت رافع بن عمرو الغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
جب میں بچہ تھا تو انصار کے کھجور کے درختوں پر پتھر پھینکا کرتا تھا۔ (ایک دن) انصار مجھے پکڑ کرحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: بیٹا! تم کھجوروں کے درخت پر پتھر کیوں پھینکتے ہو؟ میں نے عرض کیا: کھجوریں (اُتار کر) کھاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: درختوں کو پتھر نہ مارا کرو۔ جو کھجوریں درخت کے نیچے گری پڑی ہوں، اُنہیں اُٹھا کر کھا لیا کرو۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور فرمایا: اے اللہ! تو اس کا پیٹ بھر۔ (أبو داؤد، السنن، کتاب الجهاد)
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں:
کُنْتُ غُلَامًا فِي حَجْرِ رَسُوْلِ ﷲِ وَکَانَتْ یَدِي تَطِیْشُ فِي الصَّحْفَةِ، فَقَالَ لِي رَسُوْلُ ﷲِ: یَا غُلَامُ، سَمِّ ﷲَ وَکُلْ بِیَمِیْنِکَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیْکَ فَمَا زَالَتْ تِلْکَ طِعْمَتِي بَعْدُ.( مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.)
’’میں لڑکپن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیرِکفالت تھا (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھانا کھاتے وقت) میرا ہاتھ پیالے میں ہر طرف چلتا رہتا تھا۔ (ایک مرتبہ جب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھا تھا) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیٹا! بسم اﷲ پڑھو، دائیں ہاتھ سے کھائو اور اپنے سامنے سے کھایا کرو۔ اس کے بعد میں اسی طریقہ سے کھاتا ہوں‘‘۔ (بخاري، الصحیح، کتاب الأطعمة،)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیر ڈانٹے اور برا بھلا کہے نہایت پیار سے بچے کو کھانے کے آداب سکھا دئیے کہ اُس کی طبیعت پر ناگوار نہ گزرا بلکہ اُس پر عمل کو اس نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا لیا۔
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچے کو نہ ڈانٹا اور نہ بُرا بھلا کہا بلکہ کمال محبت و شفقت سے بچے کو سمجھایا اور سمجھانے کے بعد دعا بھی دی۔ والدین کو بھی چاہیے کہ چھوٹے بچوں کو اُسوۂ حسنہ کی روشنی میں موقع محل کے مطابق پیار اور محبت کے ساتھ غلطی پر یوں سمجھائیں کہ ان کا اس طرح سے سمجھانا بچوں کی اصلاح کا ذریعہ بنے۔

تربیت اور حکمت:-
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ لاڈ پیار میں والدین بچے کی ناجائز ضد اس کے چیخنے چلانے کی وجہ سے پوری کر دیتے ہیں، اس سے بچے کی عادت بگڑ جاتی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ رونا اور ضد کرنا اپنا مطالبہ منوانے کا مؤثر طریقہ ہے۔
بچوں کی تعلیم و تربیت اور تعمیرِ شخصیت کو بہتر بنانے کے لیے والدین کو بطورِ خاص یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ باہمی گھریلو اختلافات اور ازدواجی جھگڑوں سے جس قدر ممکن ہو گریز کریں۔ کسی بات پر اختلاف ہونے کی صورت میں بچوں کے سامنے بحث و مباحثہ سے اجتناب کریں کیونکہ ان کی باہمی رنجش اور چپقلش کے اثرات بچے کے ذہن و دماغ پر شعوری اور لاشعوری طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بچے کم عمر ہوتے ہیں مگر ان کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے۔ جب والدین آپس میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں تو بچے اپنے کسی رد عمل سے انہیں محسوس نہیں ہونے دیتے مگر وہ دیکھ اور سن رہے ہوتے ہیں اوریہی بھیانک منظر ان کی یاد داشت پر ثبت ہو رہا ہوتا ہے۔
وہ اکثر سوچتے ہیں کہ ہمارے والدین کے آپس کے جھگڑے تو ختم نہیں ہوتے۔ خوامخواہ ہم پر رعب ڈالتے ہیں۔ جب ماں بچوں پر کسی وجہ سے ناراض ہو رہی ہوتی ہے تو وہ دل میں کہتے ہیں کہ والد کی ناراضگی کا غصہ ہم پر نکال رہی ہیں۔ اسی طرح جب باپ غصے میں بچوں سے بات کرتا ہے تو وہ سوچتے ہیں کہ امی، ابو کی بات نہیں مانتیں تو ابو غصہ ہم پر نکال رہے ہیں۔اس لیے والدین کو چاہیے کہ گھر کا داخلی ماحول خوشگوار بنائیں اور اپنے باہمی لڑائی جھگڑے یا اختلافات کا بچوں کے سامنے اظہار کرنے سے گریز کریں۔

بچوں کی تعلیم و تربیت اور تعمیرِ شخصیت کے حوالے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل سے بنی نوع انسان کو پندرہ سو سال قبل تعلیمات عطا فرما دی تھیں۔ بحمدہ تعالیٰ انہی تعلیمات کی روشنی میں پندرہویں صدی کی تجدیدی تحریک منہاج القرآن بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی تعمیرِ شخصیت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔ شیخ الاسلام بچوں کی علمی و فکری اور روحانی و اخلاقی آبیاری کے لیے نہ صرف اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لائے بلکہ ان کے لیے شب بیداریاں، ایام بیض کے روزے، ماہانہ ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجالس، نظامت دعوت و تربیت کے ذریعے مختلف کورسز اور الھدایہ کورسز کے ذریعے احوال بدلنے کا سامان بھی فراہم کر رہے ہیں تاکہ حتی الامکان متوازن معاشرتی زندگی کے فروغ کے لیے بچوں کی شخصیت کی تکمیل احسن انداز میں ہو اور وہ اس کارگاہِ حیات میں پوری توانائی سے اپنا کردار ادا کرسکیں کیونکہ بچوں کی صلاحیتوں کا ارتقاء اور قومی ترقی کا راز بچوں کی اچھی تربیت اور اعلیٰ تعلیم میں مضمر ہے۔

تعلیماتِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں بچوں کی تعمیرِ شخصیت کے موضوع کا احاطہ کرنے کے لیے بیسیوں کتب درکار ہیں۔ بحمدہ تعالیٰ فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ خواتین کے پلیٹ فارم سے درج ذیل تین کُتب: منظر عام پر آ چکی ہیں۔
  1. بچوں کی پرورش اور والدین کا کردار (رحم مادر سے ایک سال کی عمر تک)
  2. بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کا کردار (2 سے10سال کی عمر تک)
  3. بچوں کی تعمیر شخصیت (11سے16سال کی عمر تک)
اس موضوع پر ان کُتب سے استفادہ بچوں کی تعمیرِ شخصیت اور ان کی اخلاقی و روحانی تربیت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، نومبر 2018ء

 

الشفاء

لائبریرین
پروفیشن کیا ہے اور زندگی میں آگے بڑھنے کاکیا طریقہ ہے ہماری یونیورسٹیاں شاید طالب علموں کو یہ نہیں سکھا پا رہیں چناں چہ طالب علموں کو اگر کسی جگہ میرے جیسے تنکے بھی مل جاتے ہیں تو یہ شہتیر سمجھ کر ان کے ساتھ بھی لپٹ جاتے ہیں اور یہ ان سے پوچھنا شروع کر دیتے ہیں ’’ ہم کیا کریں اور ہمیں کیا کرنا چاہیے‘‘ مجھے بہاولپور کے طالب علموں میں بھی یہ تھرسٹ محسوس ہوئی‘یہ تربیت چاہتے تھے‘ میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں ’’تربیت کیا ہوتی ہے؟‘‘ ۔ہم انسان اللہ تعالیٰ کی دل چسپ مخلوق ہیں‘ ہم باقی تمام جان داروں سے مختلف ہیں لہٰذاکتے‘ بلیاں اور گیدڑ اپنے بچوں کو پالتے ہیں‘ شیر‘ چیتے اور ریچھ اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں جب کہ انسان اپنے بچے کی تربیت کرتا ہے۔

یہ انھیں زندگی گزارنے‘ پروفیشن اڈاپٹ کرنے اور اپنی ذات میں سکون‘ اطمینان اور سکھ پیدا کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے لیکن شاید ہم نے اپنے بچوں کی تربیت بند کر دی ہے اور ہم اب ان کی پرورش کر رہے ہیں یا پھر انھیں پال رہے ہیں چناں چہ ہمارے بچے اپنی ذات میں خلا محسوس کر رہے ہیں‘ ہم میں سے زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو چالاک بنا دیتے ہیں‘ یہ انھیں زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے‘ زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کا طریقہ بتاتے رہتے ہیں لہٰذا ان کے بچے بڑے ہو کر چالاک بن جاتے ہیں‘ یہ اچھے انسان نہیں رہتے جب کہ زندگی گزارنے کا شان دار طریقہ یہ ہے آپ اچھے ہو جائیں۔
آپ زندگی میں جتنے اچھے ہوتے جاتے ہیں زندگی آپ کے لیے اتنی ہی مہربان‘ پرسکون‘ مطمئن اور شاد ہو جاتی ہے‘ مجھے اپنے تعلیمی نظام میں ہر دور میں دو چیزیں مسنگ محسوس ہوئیں‘ تربیت اور تکنیکس‘ ہمارے تعلیمی ادارے نوجوانوں کو نمبروں کی ریٹ ریس پر لگا دیتے ہیں اور یہ بے چارے چوہوں کی طرح نمبروں کا ڈھیر لگاتے چلے جاتے ہیں‘یہ ان کی تربیت نہیں کرتے‘ دوسرا ہمارے نوجوان جب یونیورسٹیوں سے نکلتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں کوئی فن‘ کوئی آرٹ نہیں ہوتا‘ یہ کاغذ کا ایک ٹکڑا لے کر مارکیٹ میں آ جاتے ہیں اور پھر مدت تک دھکے کھاتے رہتے ہیں‘ میں نے 1992 میں صحافت میں ایم اے کیا تھا‘ میں گولڈ میڈلسٹ بھی تھا لیکن آپ یقین کیجیے مجھے اس وقت تک صحافت کی الف ب بھی معلوم نہیں تھی‘ میں نے جو کچھ سیکھا وہ میں نے یونیورسٹی کے بعد عملی میدان میں آ کر سیکھا چناں چہ میری شدید خواہش ہے ہم تعلیم وتربیت کی ترتیب بدل کر اسے تربیت و تعلیم کر دیں۔

ہم اسکول لیول پر اپنے بچوں کو تربیت زیادہ دیں اور تعلیم کم اور ہم یونیورسٹیوں میں انھیں ڈگریوں کے بجائے سکل دیں تاکہ یونیورسٹی سے نکلنے والا ہر طالب علم اپنے شعبے کا ماہر ہو‘ یونیورسٹی اسے پالش کر کے مارکیٹ میں اتارے بجائے اس کے کہ طالب علم مارکیٹ میں اپنی پالش تلاش کرتا رہے‘ دوسرا یونیورسٹیوں کے اندر کیریئر کونسلنگ کا باقاعدہ شعبہ ہونا چاہیے‘ یہ نوجوانوں کو بتائے ان کے اندر کون کون سا ٹیلنٹ چھپا ہوا ہے اور نوجوان کس شعبے میں کس طرح کام کر کے کہاں تک پہنچ سکتے ہیں‘ یہ گریٹ سروس ہو گی‘ ہمیں یونیورسٹیوں میں عملی شعبے بھی بڑھا دینے چاہئیں۔
ہمارے ہر طالب علم کے پاس کوئی نہ کوئی عملی فن بھی ضرور ہونا چاہیے تاکہ یہ جب مارکیٹ میں آئے تو یہ اپنی روزی روٹی کا بندوبست کر لے‘ ہمارے 85 فیصد طالب علم صرف نوکری کے لیے ڈگری لیتے ہیں اور آج کے زمانے میں نوکری سے بڑی بے وقوفی کوئی نہیں‘ ہم اگر آج سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے بھی نوکری تلاش کر رہے ہیں تو پھر ہمیں احمق کہنا چاہیے لہٰذا ہماری یونیورسٹیوں کو چاہیے یہ طالب علموں کو بتائے آپ نے ڈگری کے بعد نوکری تلاش نہیں کرنی اپنا کوئی بزنس کرنا ہے‘ یہ سوچ ملک کو بدل دے گی۔
جاوید چوہدری کالم۔ ربط۔۔۔
 
Top