بچوں کی تعمیر شخصیت اور تعلیم و تربیت:-
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ یُهَوِّدَانِهٖ، أَوْ یُنَصِّرَانِهٖ، أَوْ یُمَجِّسَانِهٖ.
’’ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پس اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں‘‘۔ (صحیح بخاری)
امام غزالی اسی نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: بچہ والدین کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اس کا دل ایک عمدہ، صاف اور سادہ آئینہ کی مانند ہے جو بالفعل اگرچہ ہر قسم کے نقش و صورت سے خالی ہے اس کے باوجود ہر طرح کے نقش و اثر کو فوری قبول کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ اُسے جس چیز کی طرف چاہیں مائل کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس میں اچھی عادات پیدا کی جائیں اور اسے علم نافع پڑھایا جائے تو وہ عمدہ نشو و نما پا کر دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کر لیتا ہے۔ یہ ایک ایسا کارِ خیر ہے جس میں اس کے والدین، اساتذہ اور مربی وغیرہ سب حصہ دار ہو جاتے ہیں لیکن اگر اُس کی بری عادات سے صرفِ نظر کیا جائے اور اسے جانوروں کی طرح کھلا چھوڑا جائے تو وہ بداخلاق ہو کر تباہ ہو جاتا ہے جس کا وبال اس کے ولی اور سرپرست کی گردن پر پڑتا ہے۔ (غزالی، إحیاء علوم الدین)
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یٰٓا اَیَّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِیْکُمْ نَارًا. ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اَہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔‘‘ (التحریم، 66: 6)
اسلامی منہج کی رُو سے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت اوران کی کردار سازی میں والدین کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ والدین بطور خاص آغوشِ مادر دنیا کی پہلی درس گاہ ہے جو نومولود کے سطحِ ذہن پر ابتدائی نقش و نگار مُرتسم کرتی ہے۔ ایک صالحہ ماں بچے کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرتی ہے تاکہ وہ بڑا ہو کر اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار بہتر طور پر ادا کر سکے ۔ایسی ہی عظیم ماؤں کے بارے میں نپولین نے کہا تھا: ’’تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘
علامہ اقبال نے فرمایا تھا: ’’قوموں کی تاریخ اور ان کا ماضی و حال ان کی ماؤں کا فیض ہے۔‘‘
ماں کی طرح باپ بھی اولاد کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارنے میں ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام نے بچوں کی قبل از پیدائش سے بلوغت تک کی بنیادی ضروریاتِ زندگی مثلا خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور علاج کی فراہمی پر خرچ کرنا والدکی اولین ذمہ داری قرار دیا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ایک شخص عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میرے پاس ایک دینار ہے (اس کا کیا کروں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا: اُسے اپنے اوپر خرچ کرو۔ وہ شخص عرض گزار ہوا: میرے پاس اور بھی ہے، فرمایا: اسے اپنی اولاد پر خرچ کرو۔ وہ پھر عرض گزار ہوا: میرے پاس اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنی بیوی پر خرچ کرو۔ عرض کیا: میرے پاس اور بھی ہے۔ فرمایا: اپنے خادم پر خرچ کرو، وہ پھر عرض گزار ہوا: میرے پاس اور بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم جہاں مناسب سمجھو (خرچ کرلو)۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 2: 251، رقم: 7413)
اولاد کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے خرچ کرنا محض دنیا داری نہیں بلکہ عین تقاضائے دین اورشریعت کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ حدیث مبارک کی رو سے جو شخص حلال ذرائع سے روزی کما کر اپنے بچوں کی کفالت کرتا ہے تو روزِ قیامت اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہو گا۔ (ابن ابی شیبه، المصنف، 4: 27، رقم: 22186)
والدین کی تربیتی ذمہ داریاں :-
اولاد کی اچھی یا بُری تعلیم و تربیت کا دار و مدار والدین کی پرورش اور نگہداشت کے ساتھ ساتھ ان کی صحیح خطوط پر ذہن سازی اور اخلاق و کردار پر منحصر ہوتا ہے۔ والدین کو تربیتی ذمہ داریوں کی ترغیب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درج ذیل حدیث مبارک سے ملتی ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَکْرِمُوْا أَوْلَادَکُمْ وَأَحْسِنُوْا أَدَبَهُمْ. ’’اپنی اولاد کی عزت افزائی کیا کرو اور اُنہیں اچھے آداب سکھایا کرو‘‘۔ ( ابن ماجه، السنن، کتاب الأدب)
والدین کو چاہیے کہ عزت افزائی، حوصلہ افزائی اور تعریف میں سب سے زیادہ اولیت بچوں کی کامیابیوں کو دیں خواہ وہ کامیابی ان کی نظر میں کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ وہ کامیابی بچے کی ذاتی صلاحیتوں کے اعتبار سے بہت بڑی ہوتی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں کی چھوٹی سے چھوٹی کامیابی کو بھی سراہیں۔ جب انہیں والدین کی ایسی محبت اور تعریف و توصیف ملے گی تو انہیں محسوس ہوگا کہ ان کے والدین اُن پر اعتماد کرتے ہیں۔ پھر خود اعتمادی کا یہ احساس انہیں مزید سیکھنے، نشو و نما پانے اور کامیاب ہونے کی طرف راغب کرے گا اور دوسروں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں بھی ممد ومعاون ثابت ہو گا۔
والدین کے پیش نظر ہمیشہ یہ امر رہنا چاہیے کہ اپنے بچوں کا کسی بھی دوسرے بچے سے موازنہ نہ کریں ۔ اگر کسی بچے میں جسمانی نقص ہو یا وہ ذہنی طور پر کمزور ہو تو بجائے اس کو یہ احساس دلانے کے کہ وہ معذور یا کمزور ہے، بلکہ اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اسے ایسے لوگوں کے واقعات سنانے چاہییں جنہوں نے معذوری اور کمزوری کے باوجود دنیا میں اتنا نام کمایا۔ مثال کے طور پر ’’مقامات‘‘ عربی ادب کی ایک بے مثل کتاب ہے اس کے مصنف ’’ابو تمام‘‘ بظاہر خوبصورت نہیں تھے لیکن اپنے علمی کارنامے کی وجہ سے ان کی شخصیت کا یہ پہلو کسی کو نظر نہیں آیا اور آج تک ان کا نام عربی ادب میں احترام سے لیا جاتا ہے۔ اسی طرح مصر کے مشہور عالم، مصنف اور وزیر طحہٰ حسین نابینا تھے۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبداللہ بن عبدالعزیز بن باز نابینا ہیں۔ بلب کا مؤجد مشہورسائنس دان اڈیسن بہرا تھا۔
پہلا حصہ۔(ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن)