ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کا رویہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جس شعبے کی طرف بھی دیکھیں کرپشن میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے اور سمجھ نہیں آتی کہ اس قدر معاشرتی بگاڑ ختم کیسے ہو۔ ہمارے خیال میں اس کے دو طریقے ہیں، ایک انفرادی سطح پر افراد کی تربیت اور کردار سازی اور دوسرا لاء اینڈ آرڈر۔ یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ ہوں گی تو معاشرے میں تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے۔ جہاں تک قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کروانے کا معاملہ ہے تو ظاہر ہے کہ یہ حکومتوں کا کام ہے۔ ہم اس کے لیے دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ عزوجل ہمیں ہر شعبے میں ایمان دار اور مخلص قیادت عطا فرمائے اور یہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں خود ایمان دار اور مخلص بننا پڑے گا۔ اور یہ کام انفرادی یا اجتماعی سطح پر افراد کی تربیت اور کردار سازی کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص یہ ارادہ کر لے کہ میں نے خود اپنی تربیت کر کے نہ صرف اپنے آپ کو درست کرنا ہے بلکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے جذبے کے ساتھ جہاں تک ممکن ہوا نرمی اور اخلاق کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی بھی کوشش کرنی ہے تو ان شاءاللہ معاشرے میں بہتری آتی جائے گی۔
انفرادی سطح پر اس مقصد کے لیے سب سے پہلے تزکیہ نفس کی ضرورت ہے۔ اپنی اصلاح کا مطلب ہے اپنے نفس کی تربیت اور اصلاح اور اس کے لیے آخرت کا تصور مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ جب ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہمیں باور کرایا جاتا ہے کہ یہاں ہر دوسرا شخص چور اور بدعنوان ہے اور یہ نا مناسب تصور پھیلانے اور ہائی لائٹ کرنے میں ہمارے میڈیا کا بہت بڑا دخل ہے۔ اس احساس کے زیر اثر ہم اس خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اگر ہم معاشرے کے ساتھ اسی کی طرح نہیں چلیں گے تو پیچھے رہ جائیں گے اور نقصان اٹھاتے رہیں گے اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی ہم اس لوٹ کھسوٹ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ حالانکہ ہمارا ایمان ہے کہ یہ زندگی عارضی ہے ، موت کے بعد ہمیں الٰہ العالمین کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اور ہر شخص سے انفرادی طور پر اس کے عمل کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ تو اگر کوئی شخص کچھ غلط کر رہا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہوگا۔ ہمیں کم از کم اپنے عمل کو درست رکھنا چاہیے۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داری اللہ عزوجل نے اس امت کے سپرد کی ہے اور اس کام کے لیے عالم فاضل ہونا ضروری نہیں۔ بھلائی اور برائی کا بنیادی علم اللہ عزوجل نے ہمارے نفوس میں ودیعت فرما دیا ہے ۔ لہٰذا اپنے علم کے بقدر کوئی بھی اچھا کام جو آپ دوسروں کو بتا سکتے ہوں ، ضرور بتائیں۔ اور کسی بھی برے کام سے دوسروں کو احسن طریقے سے روک سکتے ہوں تو تدبیر و حکمت کے ساتھ حسب استطاعت ضرور کوشش کریں۔
نیکی یا اچھائی پھیلانے کے لیے اپنے پرفیکٹ ہونے کا انتظار مت کریں۔ ہم میں سے کوئی بھی شخص کامل یا اکمل نہیں۔ ہر شخص میں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور خامیاں بھی۔ لہٰذا کوئی بھی نیکی یا بھلائی آپ کسی کے ساتھ کر سکتے ہوں ، ضرور کریں چاہے وہ کوئی اچھی نصیحت ہو، کچرے کو ڈسٹ بن میں پھینکنا ہو یا راستے سے پتھر ہٹا دینا ہو کہ یہ بھی صدقہ ہے۔
ریاکاری کے خوف سے کسی اچھے کام کو چھوڑ دینا بے وقوفی ہے۔ اعمال صالحہ میں ریاکاری کا وسوسہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے تاکہ بندہ اس اچھے کام سے محروم ہو جائے۔ اگر آپ کی نیت اللہ کی رضا اور اس کی بارگاہ سے اجروثواب کے حصول کی ہے تو پھر لوگوں کی فکر مت کریں اور اپنے کام میں لگے رہیں، ہاں اگر عمل کرنے کا مقصد ہی لوگوں کو دکھانا ہو تو یہ ریاکاری ہے۔
آج کل سارا میڈیا چاہے وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرونک اورسوشل میڈیا ہومنفی اور نامناسب خبروں سے بھرا ہوتا ہے اور بچوں سمیت ہر شخص اسے پڑھ اور دیکھ رہا ہوتا ہے۔ معاشرے میں گھٹن ، فحاشی اور ناامیدی پھیلانے میں ہمارے میڈیا کا بہت بڑا دخل ہے۔ سورۃ النساء میں اللہ عزوجل کا واضح ارشاد ہے کہ
"لاَّ يُحِبُّ اللّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ ۔بری بات کا اعلان کرنا اللہ پسند نہیں کرتا، سوائے مظلوم کے"۔ لیکن ریٹنگ کے چکر میں ہمارا میڈیا ایک معمولی سی خبر کو بھی سنسنی خیز بنا کر پیش کرتا ہے۔ ہمیں اس طرح کی منفی اور نامناسب خبروں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور اس طرح کی خبروں کی ترویج و اشاعت یعنی ان کو پھیلانے یا شیئر کرنے سے بچنا چاہیے۔ بلکہ سوشل میڈیا کو اچھائی اور بھلائی پھیلانے اور ایک دوسرے کی تربیت کے لیے استعمال کریں۔ اس کام کے لیے یہ ایک نہایت اچھا میڈیم ہے۔ ایک عام شخص جو انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے ، بہت آسانی سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے کام میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ محفل پر بھی ہمیں اچھے اور مثبت مراسلوں کی حوصلہ افزائی کر کے اور نامناسب مراسلوں کی حوصلہ شکنی کر کے وتعاونو علی البر والتقویٰ ولا تعاونو علی الاثم والعدوان پر عمل کرنے کی سعادت حاصل ہو سکتی ہے۔
والدین گھروں میں اور اساتذہ اپنی کلاسوں میں بچوں کی تربیت کا کام نہایت احسن انداز میں کر سکتے ہیں۔ یہ ایک نہایت بلند مرتبہ صدقہ جاریہ ہو گا۔ اسی طرح ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے کلینک، آفس اور دیگر کام کرنے والی جگہوں پر اپنی سہولت کے مطابق حسب استطاعت معاشرے کی تربیت کے کام میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں، خواہ وہ ایک آیت ،ایک حدیث یا ایک خوبصورت بات لکھ کر دیوار پر لگانے کی صورت میں ہو۔
معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے،جب معاشرے کا ہر شخص اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق اس کام میں لگ جائے گا تو ان شاءاللہ ہمارا معاشرہ بتدریج سدھرتا جائے گا۔۔۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ