فرخ منظور
لائبریرین
تعویذ
تحریر: شفیق الرحمان (حماقتیں)
ٹائپنگ: بشکریہ غزل جی: ایڈمن فیس بک فورم "اردو ہے جس کا نام"
چار بجے شیطان چائے پینے آئے ۔ جب ھم پی کر باھر نکلے تو دفعۃ" انھیں محسوس ھوا کہ چائے ٹھنڈی تھی ،۔ چناچہ ھم ان کے ھوسٹل گئے وھاں کھولتی ھوئی چائے پی گئی ، لیکن وہ مطمئن نہ ھوئے ۔ منہ بنا کر بولے کہ یہ چائے بھی نامکمل رھی ، کیونکہ اس کے ساتھ لوازمات نہیں تھے ۔ طے ھوا کہ کسی کیفے میں جا کر باقاعدہ چائے پی جائے ،۔۔
مصیبت یہ ھے کہ شیطان کو ھر وقت چہاس لگی رھتی ھے اور وہ ان لوگوں میں سے ھیں ، جنھیں دن میں دو مرتبہ قیامت کا سامنا کرنا پڑتا ھے ۔ ایک تو جب علی الصبح نو دس بجے اٹھتے ھیں ، تو ان کے سامنے دنیا اندھیر ھوتی ھے اور وہ سوچتے ھیں کہ ،۔۔ع ۔ منحصر مرنے پہ ھو جس کی امید ۔۔۔لیکن چائے کی چند پیالیوں کے بعد انھیں یکایک پتا چلتا ھے کہ ع ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ھیں ۔۔۔۔ یہی تماشا چار بجے چائے کے وقت ھوتا ھے ۔ ساڑھے تین بجے سے بیزار ھوتے ھیں اور ساڑھے چار بجے ان جیسا مسخرہ ملنا محال ھے ۔ اگر وہ چائے کی دریافت سے پہلے اس دنیا میں ھوتے تو خدا جانے ان کا کیا حال ھوتا ۔۔
ھم سائکلوں پر ٹھلتے ٹھلتے کیفے میں پہنچے جہاں ھمیں اکثر بڈی (BUDDY) ملا کرتا تھا ۔ اندر جا کر دیکھا تو سب کچھ سنسان پڑا تھا ، فقط ایک کونے میں ایک نحیف ونزار نوجوان بیٹھا چائے پی رھا تھا ۔ ھم اس کے قریب جا بیٹھے ۔ ھماری پشت اس کی پشت کی طرف تھی ۔
سسکیوں کی آواز نے ھمیں چونکا دیا وہ سُبڑ سُبڑ رو رھا تھا ۔ چہرے سے پھسلتے ھوئے آنسو سینڈوچز ، کیک کے ٹکڑوں اور چائے کی پیالی میں ٹپ ٹپ گر رھے تھے ۔ غور سے دیکھتے ھیں تو یہ امجد تھا ۔ امجد ھمارا پرانا دوست تھا ، جو مدت سے لاپتہ تھا ۔ ھم اس کی میز پر جا بیٹھے ۔ بسُور بسُور کر اس نے علیک سلیک کی اور پھر رونے میں مصروف ھو گیا ۔ شیطان بولے ۔ دیکھئے مولانا ، اگر آپ سینڈوچز یا چائے کے سلسلے میں رو رھے ھیں تو بہتر یہی ھو گا کہ کم از کم یہاں سب کے سامنے نہ روئیں ۔ کیونکہ جس شخص نے یہ چیزیں تیار کی ھیں وہ سامنے کھڑا دیکھ رھا ھے اور بیحد حساس اور جذباتی ھے ۔ اسے شدید اذیت پہنچے گی ۔ لیکن امجد بدستور مصروف رھا ۔۔
شیطان نے پوچھا ۔ "خان بہادر صاحب کا کیا حال ھے ؟"
"کون سے خان بہادرصاحب کا؟" امجد نے برا منہ بنایا ۔
"کوئی سے خان بہادر صاحب کا"
"اوہ!"
ھم نے بہتیری کوشش کی کہ اس نالائق سے باتیں کریں ، لیکن کچھ نہ بنا ۔ اتنے میں بڈی آگیا ۔ ھم نے لگاتار روتے ھوئےامجد کا تعارف لگاتار ھنستے ھوئے بڈی سے کرایا ۔اب بڑی سنجیدگی سے وجہ پوچھی گئی اور امجد نے بتایا کہ اس کی صحت روز بروز گرتی جا رھی ھے بلکہ بالکل ھی گر گئی ھے ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے کبھی تارے ناچتے ھیں اور اندھیرا چھا جایا رھتا ھے ۔ وہ اپنے آخری امتحان میں مدت سے فیل ھورھا ھے ۔ لگاتار فیل ھورھا ھے ۔ اگر محنت کرے اور پرچے اچھے ھو جائیں ، تب بھی وہ فیل ھو جاتا ھے ۔ اور اگر پرچے خراب ھو جائیں ، تب بھی ۔ اس کی قسمت ھمیشہ اسے دھوکہ دیتی ھے ۔ وہ کسی پر عاشق بھی ھے ۔ محبوب نے پہلے تو سب کچھ کہہ سن لیا اور بعد میں بڑے مزے سے اسے ڈبل کراس کر دیا ۔ آج کل محبوب بالکل خاموش ھے ۔ ان کے ھاں آنا جانا بھی مدت سے بند ھے ۔ کیونکہ ان کے ھاں ایک بےحد بھاری بھرکم اور خونخوار کتا کہیں سے منگایا گیا ھے ۔ جو امجد کو بالکل پسند نہیں کرتا ۔ بلکہ اس سے خفا رھتا ھے ۔ محبوب کے ھاں ایک اور صاحب کی آمد ورفت بھی شروع ھو گئی ھے جو شاید رقیب رو سیاہ بننے والے ھیں ۔ محبوب کے ابا امجد کو یونہی سا بیکار لڑکا سمجھتے ھیں اور انھوں نے شادی سے انکار کر دیا ھے ۔ کیونکہ امجد کچھ نہیںکماتا ۔۔۔ شیطان اور مقصود گھوڑے کی شہزادہ ھے ۔ لیکن سب سے بڑی مصیبت یہ ھے کہ اس کا کسی چیز کو دل ھی نہیں کرتا ۔ بالکل جی نہیں چاھتا ۔ یہاں تک کہ چائے سامنے رکھی ھے اور پینے کو جی نہیں چاھتا ۔
گفتگو کے موضوع بدلتے رھے اور ھم نے امجد سے لیکر امجد تک گفتگو کی ۔ شیطان بولے ،۔ " بھئی تمھاری مصیبتیں تو اتنی ھیں کہ ایک
GUADIAN ANGEL
تمھارا کام نہیں کر سکتا ۔ تمھارے لئے تو فرشتوں کا سنڈیکیٹ بیٹھے گا ۔"
بڈی نے کہا ،۔"تم آج سے ورزش شروع کر دو ۔ ھلکی پھلکی اور مقوی غذا کھاؤ۔ علی الصبح اٹھ کر لمبے لمبے سانس لیا کرو ۔ قوت اردای پیدا کرو ۔ خوب محنت کر کے امتحان پاس کر لو ۔ ملازمت ضرور مل جائے گی اور سب کچھ ٹھیک ھو جائے گا ۔" ادھر امجد نے اور زیادہ رونا شروع کر دیا ۔ اب تو وہ باقاعدہ بھوں بھوں رورھا تھا ۔ آخر طے ھوا کہ امجد کی مدد کی جائے اور کل پھر یہیں ملاقات ھو ۔
اگلے روز ھم سب وھیں ملے ۔ اتفاق سے کالج کی چند لڑکیاں بھی وھاں بیٹھی تھیں ۔ ایسے موقعوں پر میں ھمیشہ ظاھر کیا کرتا ھوں جیسے شیطان کے ساتھ نہیں ھوں کیونکہ ھمارے کالج کی لڑکیاں شیطان کو پسند نہیں کرتیں ۔ جتنی دیر وہ ھماری دیکھتی رھیں ، میں کسی اور طرف دیکھتا رھا۔ ان کے جانے پر گفتگو شروع ھوئی ۔
"امجد! تم موسیقی پر فدا ھو جاؤ ۔" شیطان بولے ۔" یہ پیازی ساڑھی والی لڑکی بڑا اچھا ستار بجاتی ھے ۔ تمھیں کوئی ساز بجانا آتا ھے ؟ "
"ھاں!"
"کون سا؟ "
"گراموفون۔"
"تب تم موسیقی کو پسند نہیں کرو گے ۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تم آخری مرتبہ اس لڑکی سے ملے تو کیا باتیں ھوئی تھیں ؟"
"میں نے اسے شادی کے لیے کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ میں کچھ بھی نہیں ھوں ۔ نہ کچھ کما سکتا ھوں ۔ نہ کسی قابل ھوں ۔ نہ کچھ کر سکتا ھوں ۔ اور نہ کچھ کر سکوں گا ۔ "
"پھر؟"
"پھر اس نے کچھ نہیں کہا اور آج تک خاموش ھے ۔"
"تمھارے ھونے والے خسر اچھے خاصے قبر رسیدہ بزرگ ھیں ۔ میں انھیں بالکل پسند نہیں کرتا ۔ لیکن لڑکی بہت اچھی ھے ۔ جتنے تم شکل و صورت میں بخشے ھوئے ھو ، اتنی ھی وہ حسین ھے ۔ تمھیں احساس کمتری ھو جائے گا بھلا کبھی تمھاری خط و کتابت بھی ھوئی تھی ؟"
"ھوئی تھی !" کہہ کر امجد نے خطوط کا پلندہ میز پر رکھ دیا ۔ شیظان نے جلدی سے خطوط کو سونگھا اور بولے " جلدی ھے اس لیے ساری باتیں تو کبھی فرصت میں پڑھیں گے، البتہ خطوط کو ترتیب وار رکھ کر صرف القاب پڑھ کر سناتا ھوں ۔ "
ترتیب وار القاب یہ تھے ،۔ " ۔۔۔۔۔جناب امجد صاحب" ۔۔۔۔۔"امجد صاحب" ۔۔۔۔۔۔"امجد"۔۔۔۔۔۔"پیارے امجد"۔۔۔۔۔۔۔"امجد"۔۔۔۔۔۔"امجد صاحب"۔۔۔۔۔"جناب امجد صاحب"
ادھر امجد نے پھر رونا شروع کر دیا ۔ شیطان بولے " میں رات بھر سوچتا رھا ھوں کہ تمھارے لیے کیا کیا جائے ۔ یہاں سے بہت دور جنگلوں میں ایک پہنچے ھوئے بزرگ رھتے ھیں ۔ ان تک میری رسائی ھو سکتی ھے ۔ اچھا تعویذ گنڈوں پر کس کس کا اعتقاد ھے ؟"
سوائے بڈی کے ھم سب معتقد تھے ۔ بڈی نے پوچھا،۔ "تعویذ گنڈے کیا ھوتےھیں ؟"
"کیا امریکہ میں تعویذ وغیرہ نہیں ھوتے ؟"
"نہیں تو۔"
جب بڈی کو سب بتایا گیا تو وہ بولا ،۔ " ھمارے ھاں
Good luck
کے لیے شگون ھوتے ھیں ۔ مثلا" سیاہ بلی کا دیکھنا یا سڑک پر گھوڑے کی نعل مل جانا ۔۔۔۔۔ یہ تعویذ وغیرہ نہیں ھوتے ۔۔۔۔۔ لیکن مجھے شگونوں پر اعتقاد نہیں ھے ۔ کیونکہ ایک مرتبہ میں ایک لڑکی سے شادی کرنا چاھتا تھا ۔ نجومی نے مجھے بتایا کہ اگر مجھے اگلے اتوار کو غروب آفتاب سے پہلے سڑک پر گھوڑے کی نعل مل گئی ، تو بہت اچھا شگون ھو گا اور غالبا" اس لڑکی سے میری شادی ھو جائے گی ۔ اگلے اتوار کو میں نے منہ اندھیرے اٹھ کر سڑکیں ناپنا شروع کر دیں۔ دوپہر ھوئی ، سہہ پہر آٰا ۔ گھوڑے کی نعل تو کیا گدھے کی نعل بھی نہ ملی ۔ آخر میںنے دو اصطبلوں کا رک کیا ۔ وھاں بھی ناکامی ھوئی ۔ شام ھونے پر میں بہت گھبرایا ۔ ھمارے پڑوس میں ایک گھوڑا رھتا تھا ۔ میں نے چند اوزار اٹھائے ، اور اپنے بھائی کو ساتھ لیا ۔ اور چپکے سے اس گھوڑے کو باندھ بوندھ کر رکھ دیا گھوڑا ھرگز رضامند نہیں تھا ، لیکن ھم نے زبردستی اس کی نعل اتارلی ۔ باھر نکل کر جو دیکھا تو سورج غروب ھورھا تھا اگلے روز میں نے اس لڑکی سے شادی کیلئے کہہ دیا اور اس نے کسی اور سے شادی کر لی ۔ تب سے گھوڑے کی نعل سے میرا اعتقاد اٹھ گیا ھے ۔ کیا الغویت ھے ۔ اگر گھوڑے کی نعل اتنی ھی مبارک چیز ھے ، تو گھوڑوں کو بےحد خوش نصیب ھونا چاھئیے ۔"
"لیکن تمھارا واسطہ مشرق کت عاملوں سے نہیں پڑا ۔ یہاں تو ایسے ایسے عمل کیے جاتے ھیں کہ سن کر یقین نہیں آتا ۔ شکلیں بدل جاتی ھیں ۔ تقدیریں بدل جاتی ھیں ۔ یہاں تک کہ دنیا بدل جاتی ھے ۔"
"ھاں ! تم نے پیروں ، فقیروں اور سنیاسیوں کے متعلق نہیں پڑھا؟"
"میں نے فلموں میں دیکھا ھے کہ ھندوستاں میں بڑی بڑی پراسرار باتیں ھوتی ھیں ۔ یہاں کے فقیر کچھ پڑھ کر ایک رسے پر پھونک دیتے ھیں ، رسہ سیدھا کھڑا ھو جاتا ھے اور وہ رسے پر چڑھ جاتے ھیں ۔ رات کو وہ میخوں کے بستر پر سوتے ھیں ۔"
"یقینا! تم خود دیکھ لو گے ۔ میں کوشش کر رھا ھوں کہ امجد کیلئے ان بزرگ سے تعویذ حاصل کروں اگرچہ یہ بہت مشکل کام ھے ۔ اول تو وہ بزرگ کسی کو تعویذ دیتے ھی نہیں ۔ اگر کبھی خوش ھو کر دیتے ھیں تو صرف سال میں ایک آدھ مرتبہ ۔ لیکن میں اپنی ساری کوشش صرف کر دوں گا ۔ ان کا تعویذ جادو سے کم اثر نہیں رکھتا ناممکن سے ناممکن باتیں ممکن ھو جاتی ھیں ۔ اگر مل گیا تو امجد کی تقدیر بدل جائے گی ۔ اور امجد تمھیں میری ھدایات پر عمل کرنا ھو گا ۔ اب تمھارے لئے صرف دو باتیں رہ گئی ھیں یا تو میری ھدازات پر عمل کرو اور یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ان پر عمل کرو ۔"
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
تحریر: شفیق الرحمان (حماقتیں)
ٹائپنگ: بشکریہ غزل جی: ایڈمن فیس بک فورم "اردو ہے جس کا نام"
چار بجے شیطان چائے پینے آئے ۔ جب ھم پی کر باھر نکلے تو دفعۃ" انھیں محسوس ھوا کہ چائے ٹھنڈی تھی ،۔ چناچہ ھم ان کے ھوسٹل گئے وھاں کھولتی ھوئی چائے پی گئی ، لیکن وہ مطمئن نہ ھوئے ۔ منہ بنا کر بولے کہ یہ چائے بھی نامکمل رھی ، کیونکہ اس کے ساتھ لوازمات نہیں تھے ۔ طے ھوا کہ کسی کیفے میں جا کر باقاعدہ چائے پی جائے ،۔۔
مصیبت یہ ھے کہ شیطان کو ھر وقت چہاس لگی رھتی ھے اور وہ ان لوگوں میں سے ھیں ، جنھیں دن میں دو مرتبہ قیامت کا سامنا کرنا پڑتا ھے ۔ ایک تو جب علی الصبح نو دس بجے اٹھتے ھیں ، تو ان کے سامنے دنیا اندھیر ھوتی ھے اور وہ سوچتے ھیں کہ ،۔۔ع ۔ منحصر مرنے پہ ھو جس کی امید ۔۔۔لیکن چائے کی چند پیالیوں کے بعد انھیں یکایک پتا چلتا ھے کہ ع ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ھیں ۔۔۔۔ یہی تماشا چار بجے چائے کے وقت ھوتا ھے ۔ ساڑھے تین بجے سے بیزار ھوتے ھیں اور ساڑھے چار بجے ان جیسا مسخرہ ملنا محال ھے ۔ اگر وہ چائے کی دریافت سے پہلے اس دنیا میں ھوتے تو خدا جانے ان کا کیا حال ھوتا ۔۔
ھم سائکلوں پر ٹھلتے ٹھلتے کیفے میں پہنچے جہاں ھمیں اکثر بڈی (BUDDY) ملا کرتا تھا ۔ اندر جا کر دیکھا تو سب کچھ سنسان پڑا تھا ، فقط ایک کونے میں ایک نحیف ونزار نوجوان بیٹھا چائے پی رھا تھا ۔ ھم اس کے قریب جا بیٹھے ۔ ھماری پشت اس کی پشت کی طرف تھی ۔
سسکیوں کی آواز نے ھمیں چونکا دیا وہ سُبڑ سُبڑ رو رھا تھا ۔ چہرے سے پھسلتے ھوئے آنسو سینڈوچز ، کیک کے ٹکڑوں اور چائے کی پیالی میں ٹپ ٹپ گر رھے تھے ۔ غور سے دیکھتے ھیں تو یہ امجد تھا ۔ امجد ھمارا پرانا دوست تھا ، جو مدت سے لاپتہ تھا ۔ ھم اس کی میز پر جا بیٹھے ۔ بسُور بسُور کر اس نے علیک سلیک کی اور پھر رونے میں مصروف ھو گیا ۔ شیطان بولے ۔ دیکھئے مولانا ، اگر آپ سینڈوچز یا چائے کے سلسلے میں رو رھے ھیں تو بہتر یہی ھو گا کہ کم از کم یہاں سب کے سامنے نہ روئیں ۔ کیونکہ جس شخص نے یہ چیزیں تیار کی ھیں وہ سامنے کھڑا دیکھ رھا ھے اور بیحد حساس اور جذباتی ھے ۔ اسے شدید اذیت پہنچے گی ۔ لیکن امجد بدستور مصروف رھا ۔۔
شیطان نے پوچھا ۔ "خان بہادر صاحب کا کیا حال ھے ؟"
"کون سے خان بہادرصاحب کا؟" امجد نے برا منہ بنایا ۔
"کوئی سے خان بہادر صاحب کا"
"اوہ!"
ھم نے بہتیری کوشش کی کہ اس نالائق سے باتیں کریں ، لیکن کچھ نہ بنا ۔ اتنے میں بڈی آگیا ۔ ھم نے لگاتار روتے ھوئےامجد کا تعارف لگاتار ھنستے ھوئے بڈی سے کرایا ۔اب بڑی سنجیدگی سے وجہ پوچھی گئی اور امجد نے بتایا کہ اس کی صحت روز بروز گرتی جا رھی ھے بلکہ بالکل ھی گر گئی ھے ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے کبھی تارے ناچتے ھیں اور اندھیرا چھا جایا رھتا ھے ۔ وہ اپنے آخری امتحان میں مدت سے فیل ھورھا ھے ۔ لگاتار فیل ھورھا ھے ۔ اگر محنت کرے اور پرچے اچھے ھو جائیں ، تب بھی وہ فیل ھو جاتا ھے ۔ اور اگر پرچے خراب ھو جائیں ، تب بھی ۔ اس کی قسمت ھمیشہ اسے دھوکہ دیتی ھے ۔ وہ کسی پر عاشق بھی ھے ۔ محبوب نے پہلے تو سب کچھ کہہ سن لیا اور بعد میں بڑے مزے سے اسے ڈبل کراس کر دیا ۔ آج کل محبوب بالکل خاموش ھے ۔ ان کے ھاں آنا جانا بھی مدت سے بند ھے ۔ کیونکہ ان کے ھاں ایک بےحد بھاری بھرکم اور خونخوار کتا کہیں سے منگایا گیا ھے ۔ جو امجد کو بالکل پسند نہیں کرتا ۔ بلکہ اس سے خفا رھتا ھے ۔ محبوب کے ھاں ایک اور صاحب کی آمد ورفت بھی شروع ھو گئی ھے جو شاید رقیب رو سیاہ بننے والے ھیں ۔ محبوب کے ابا امجد کو یونہی سا بیکار لڑکا سمجھتے ھیں اور انھوں نے شادی سے انکار کر دیا ھے ۔ کیونکہ امجد کچھ نہیںکماتا ۔۔۔ شیطان اور مقصود گھوڑے کی شہزادہ ھے ۔ لیکن سب سے بڑی مصیبت یہ ھے کہ اس کا کسی چیز کو دل ھی نہیں کرتا ۔ بالکل جی نہیں چاھتا ۔ یہاں تک کہ چائے سامنے رکھی ھے اور پینے کو جی نہیں چاھتا ۔
گفتگو کے موضوع بدلتے رھے اور ھم نے امجد سے لیکر امجد تک گفتگو کی ۔ شیطان بولے ،۔ " بھئی تمھاری مصیبتیں تو اتنی ھیں کہ ایک
GUADIAN ANGEL
تمھارا کام نہیں کر سکتا ۔ تمھارے لئے تو فرشتوں کا سنڈیکیٹ بیٹھے گا ۔"
بڈی نے کہا ،۔"تم آج سے ورزش شروع کر دو ۔ ھلکی پھلکی اور مقوی غذا کھاؤ۔ علی الصبح اٹھ کر لمبے لمبے سانس لیا کرو ۔ قوت اردای پیدا کرو ۔ خوب محنت کر کے امتحان پاس کر لو ۔ ملازمت ضرور مل جائے گی اور سب کچھ ٹھیک ھو جائے گا ۔" ادھر امجد نے اور زیادہ رونا شروع کر دیا ۔ اب تو وہ باقاعدہ بھوں بھوں رورھا تھا ۔ آخر طے ھوا کہ امجد کی مدد کی جائے اور کل پھر یہیں ملاقات ھو ۔
اگلے روز ھم سب وھیں ملے ۔ اتفاق سے کالج کی چند لڑکیاں بھی وھاں بیٹھی تھیں ۔ ایسے موقعوں پر میں ھمیشہ ظاھر کیا کرتا ھوں جیسے شیطان کے ساتھ نہیں ھوں کیونکہ ھمارے کالج کی لڑکیاں شیطان کو پسند نہیں کرتیں ۔ جتنی دیر وہ ھماری دیکھتی رھیں ، میں کسی اور طرف دیکھتا رھا۔ ان کے جانے پر گفتگو شروع ھوئی ۔
"امجد! تم موسیقی پر فدا ھو جاؤ ۔" شیطان بولے ۔" یہ پیازی ساڑھی والی لڑکی بڑا اچھا ستار بجاتی ھے ۔ تمھیں کوئی ساز بجانا آتا ھے ؟ "
"ھاں!"
"کون سا؟ "
"گراموفون۔"
"تب تم موسیقی کو پسند نہیں کرو گے ۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تم آخری مرتبہ اس لڑکی سے ملے تو کیا باتیں ھوئی تھیں ؟"
"میں نے اسے شادی کے لیے کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ میں کچھ بھی نہیں ھوں ۔ نہ کچھ کما سکتا ھوں ۔ نہ کسی قابل ھوں ۔ نہ کچھ کر سکتا ھوں ۔ اور نہ کچھ کر سکوں گا ۔ "
"پھر؟"
"پھر اس نے کچھ نہیں کہا اور آج تک خاموش ھے ۔"
"تمھارے ھونے والے خسر اچھے خاصے قبر رسیدہ بزرگ ھیں ۔ میں انھیں بالکل پسند نہیں کرتا ۔ لیکن لڑکی بہت اچھی ھے ۔ جتنے تم شکل و صورت میں بخشے ھوئے ھو ، اتنی ھی وہ حسین ھے ۔ تمھیں احساس کمتری ھو جائے گا بھلا کبھی تمھاری خط و کتابت بھی ھوئی تھی ؟"
"ھوئی تھی !" کہہ کر امجد نے خطوط کا پلندہ میز پر رکھ دیا ۔ شیظان نے جلدی سے خطوط کو سونگھا اور بولے " جلدی ھے اس لیے ساری باتیں تو کبھی فرصت میں پڑھیں گے، البتہ خطوط کو ترتیب وار رکھ کر صرف القاب پڑھ کر سناتا ھوں ۔ "
ترتیب وار القاب یہ تھے ،۔ " ۔۔۔۔۔جناب امجد صاحب" ۔۔۔۔۔"امجد صاحب" ۔۔۔۔۔۔"امجد"۔۔۔۔۔۔"پیارے امجد"۔۔۔۔۔۔۔"امجد"۔۔۔۔۔۔"امجد صاحب"۔۔۔۔۔"جناب امجد صاحب"
ادھر امجد نے پھر رونا شروع کر دیا ۔ شیطان بولے " میں رات بھر سوچتا رھا ھوں کہ تمھارے لیے کیا کیا جائے ۔ یہاں سے بہت دور جنگلوں میں ایک پہنچے ھوئے بزرگ رھتے ھیں ۔ ان تک میری رسائی ھو سکتی ھے ۔ اچھا تعویذ گنڈوں پر کس کس کا اعتقاد ھے ؟"
سوائے بڈی کے ھم سب معتقد تھے ۔ بڈی نے پوچھا،۔ "تعویذ گنڈے کیا ھوتےھیں ؟"
"کیا امریکہ میں تعویذ وغیرہ نہیں ھوتے ؟"
"نہیں تو۔"
جب بڈی کو سب بتایا گیا تو وہ بولا ،۔ " ھمارے ھاں
Good luck
کے لیے شگون ھوتے ھیں ۔ مثلا" سیاہ بلی کا دیکھنا یا سڑک پر گھوڑے کی نعل مل جانا ۔۔۔۔۔ یہ تعویذ وغیرہ نہیں ھوتے ۔۔۔۔۔ لیکن مجھے شگونوں پر اعتقاد نہیں ھے ۔ کیونکہ ایک مرتبہ میں ایک لڑکی سے شادی کرنا چاھتا تھا ۔ نجومی نے مجھے بتایا کہ اگر مجھے اگلے اتوار کو غروب آفتاب سے پہلے سڑک پر گھوڑے کی نعل مل گئی ، تو بہت اچھا شگون ھو گا اور غالبا" اس لڑکی سے میری شادی ھو جائے گی ۔ اگلے اتوار کو میں نے منہ اندھیرے اٹھ کر سڑکیں ناپنا شروع کر دیں۔ دوپہر ھوئی ، سہہ پہر آٰا ۔ گھوڑے کی نعل تو کیا گدھے کی نعل بھی نہ ملی ۔ آخر میںنے دو اصطبلوں کا رک کیا ۔ وھاں بھی ناکامی ھوئی ۔ شام ھونے پر میں بہت گھبرایا ۔ ھمارے پڑوس میں ایک گھوڑا رھتا تھا ۔ میں نے چند اوزار اٹھائے ، اور اپنے بھائی کو ساتھ لیا ۔ اور چپکے سے اس گھوڑے کو باندھ بوندھ کر رکھ دیا گھوڑا ھرگز رضامند نہیں تھا ، لیکن ھم نے زبردستی اس کی نعل اتارلی ۔ باھر نکل کر جو دیکھا تو سورج غروب ھورھا تھا اگلے روز میں نے اس لڑکی سے شادی کیلئے کہہ دیا اور اس نے کسی اور سے شادی کر لی ۔ تب سے گھوڑے کی نعل سے میرا اعتقاد اٹھ گیا ھے ۔ کیا الغویت ھے ۔ اگر گھوڑے کی نعل اتنی ھی مبارک چیز ھے ، تو گھوڑوں کو بےحد خوش نصیب ھونا چاھئیے ۔"
"لیکن تمھارا واسطہ مشرق کت عاملوں سے نہیں پڑا ۔ یہاں تو ایسے ایسے عمل کیے جاتے ھیں کہ سن کر یقین نہیں آتا ۔ شکلیں بدل جاتی ھیں ۔ تقدیریں بدل جاتی ھیں ۔ یہاں تک کہ دنیا بدل جاتی ھے ۔"
"ھاں ! تم نے پیروں ، فقیروں اور سنیاسیوں کے متعلق نہیں پڑھا؟"
"میں نے فلموں میں دیکھا ھے کہ ھندوستاں میں بڑی بڑی پراسرار باتیں ھوتی ھیں ۔ یہاں کے فقیر کچھ پڑھ کر ایک رسے پر پھونک دیتے ھیں ، رسہ سیدھا کھڑا ھو جاتا ھے اور وہ رسے پر چڑھ جاتے ھیں ۔ رات کو وہ میخوں کے بستر پر سوتے ھیں ۔"
"یقینا! تم خود دیکھ لو گے ۔ میں کوشش کر رھا ھوں کہ امجد کیلئے ان بزرگ سے تعویذ حاصل کروں اگرچہ یہ بہت مشکل کام ھے ۔ اول تو وہ بزرگ کسی کو تعویذ دیتے ھی نہیں ۔ اگر کبھی خوش ھو کر دیتے ھیں تو صرف سال میں ایک آدھ مرتبہ ۔ لیکن میں اپنی ساری کوشش صرف کر دوں گا ۔ ان کا تعویذ جادو سے کم اثر نہیں رکھتا ناممکن سے ناممکن باتیں ممکن ھو جاتی ھیں ۔ اگر مل گیا تو امجد کی تقدیر بدل جائے گی ۔ اور امجد تمھیں میری ھدایات پر عمل کرنا ھو گا ۔ اب تمھارے لئے صرف دو باتیں رہ گئی ھیں یا تو میری ھدازات پر عمل کرو اور یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ان پر عمل کرو ۔"
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔