تفریق

عاطف بٹ

محفلین
تفریق
عاطف خالد بٹ
'یار، تم تو جانتے ہوئے کہ ہمارے معاشرے میں جینڈر ڈسکریمینیشن کتنی زیادہ ہے۔ ہر سطح پر عورتوں پر ظلم ہوتا ہے اور ان کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے۔ بےحسی تو جیسے مردوں کی انسٹنکٹ میں شامل ہے۔۔۔' سیمی ایک بڑے ریستوراں کے ائیرکنڈیشنڈ ڈائننگ ہال میں اعظم کے ساتھ بیٹھی اپنی این جی او اور اس کے کام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صنفی تفریق کے مسئلے پر ایک لمبی تقریر جھاڑ چکی تھی۔ اعظم ایک حد تک اس کا ہم خیال تھا مگر آج تو وہ پوری طرح اس کی ہاں میں ہاں ملاتا چلا جارہا تھا۔ دونوں یونیورسٹی کے دنوں میں ایک دوسرے کے بہت قریب رہ چکے تھے اور اب ایک عرصے کے بعد ملاقات ہوئی تو پرانی یادوں کے ساتھ ساتھ کچھ نئے معاملات بھی ان کی بات چیت کا موضوع بن رہے تھے۔
اسی دوران ڈائننگ ہال میں ایک خاتون اور ایک مرد داخل ہوئے۔ مرد کی چال اور صحت سے نقاہت جھلک رہی تھی۔ اس کے ساتھ آنے والی خاتون نے آگے بڑھ کر کرسی کھینچی اور اسے بیٹھنے کو کہا۔ 'عاصمہ، تم نے خوامخواہ تکلیف کی۔ کرسی میں خود بھی کھینچ سکتا تھا۔' تنویر کی آنکھوں میں ممنونیت کے جذبات در آئے تھے۔ 'تنویر، آپ میرے شوہر ہی نہیں، میرے دوست اور ہمدرد بھی ہیں۔ پچھلے دس سال میں آپ نے مجھے کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونے دی اور ہمیشہ ہر طرح سے میرا خیال رکھا۔ اگر آج آپ کی بیماری کی حالت میں میں آپ کے لئے کچھ تھوڑا بہت کررہی ہوں تو یہ کوئی احسان نہیں بلکہ میرا فرض ہے۔ میں تو خوش قسمت ہوں کہ مجھے آپ جیسا ہم سفر ملا۔' عاصمہ کے لہجے سے اپنے شوہر سے محبت کا احساس پوری طرح واضح ہورہا تھا۔
سیمی نے ذرا فاصلے پر بیٹھے ہونے کی وجہ سے عاصمہ اور تنویر کی بات چیت تو نہیں سنی تھی مگر اس نے عاصمہ کو کرسی کھینچتے ہوئے ضرور دیکھا تھا اور اسی بات کو مثال بنا کر وہ اعظم سے کہنے لگی، 'دیکھو، یہ آدمی کتنا بے شرم ہے کہ اس کے ساتھ آئی ہوئی عورت نے اس کے لئے کرسی کھینچی اور وہ کتنے مزے سے اس پر بیٹھ گیا۔ ایسے ہی مرد معاشرے میں عورتوں کو دوسرے درجے کی مخلوق بنا کر رکھ دیتے ہیں۔' 'ہاں، تم ٹھیک کہتی ہو اور ان لوگوں کے یہ رویے کبھی بھی نہیں بدل سکتے۔' اعظم نے سیمی کی بات کو مزید آگے بڑھا دیا۔
کچھ دیر میں ڈائننگ ہال کے اندر ایک اور جوڑا داخل ہوا۔ اس بار مرد نے کرسی کھینچی اور اس کے ساتھ آنے والی خاتون کرسی پر بیٹھ گئی اور وہ اس کے سامنے والی نشست پر براجمان ہوگیا۔ سیمی نے یہ دیکھتے ہی اس نئی مثال کو بھی اپنی گفتگو کا موضوع بنالیا، 'یہ ہے عورت کی حقیقی عزت اور اس کا مقام۔ ایسے ہی ہونا چاہئے۔' اس بار بھی اعظم نے اس کا ہم خیال ہونے کا پورا ثبوت دیا۔ اعظم کے سیمی کی ہاں میں ہاں ملانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ایک عرصے کے بعد اس سے ملا تھا اور اس ملاقات کو وہ کھانے کے بعد مزید یادگار بنانا چاہتا تھا اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ سیمی کو کسی بھی طرح یہ احساس نہ ہو کہ وہ اس کے خیالات سے کوئی اختلاف رکھتا ہے۔
 
بالکل جناب صنفی تفریق ہے بہت زیادہ ہے، لیکن ہر ایک کا تجربہ مختلف ہے شاید اپنے اپنے ماحول کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں ایک بات مثال کے طور پر عرضِ خدمت ہے، ہمارے ہاں پاکستان کے مختلف علاقوں میں خواتین کا بسوں میں کرنا۔ پنجاب میں اس بات کی کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا، بلوچستان میں بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے، سندھ میں بھی کسی حد تک خیال رکھا جاتا ہے ہم مرد حضرات نہ صرف خواتین کے لئے اپنی سیٹ (جو خواتین کے لئے مخصوص نہیں ہوتی) بخوشی پیش کر دیتے ہیں لیکن میں نےا ٓج تک نہیں دیکھا کہ کسی خاتون نے اپنی ہم صنف کو اپنی سیٹ پیش کی ہو، ایک چھوٹی بچی بھی ایک عمر رسیدہ خاتون کے لئے اپنی جگہ سے کھڑی نہیں ہوتی۔ حتّی کہ بارہا دیکھا گیا ہے کہ خواتین بچوں کو کر بڑی مشکل سے کھڑی ہوتی ہیں بعض اوقات لوگوں کے پیروں میں بسوں کے فرش پر بیٹھ جاتی ہیں مگر کوئی خاتون ان کو جگہ نہیں دیتیں۔ اور اگر کوئی کہتا ہے کہ اس بچی کو اٹھا دو اور ان کو بیٹھنے دو تو کہا جاتا ہے کہ ہم نے کرایہ دیا ہے۔ عورت عورت کی عزّت نہیں کرتی لیکن مرد سے بھرپور توقع رکھتی ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اپنی کھڑکی پر گرد جمی ہو تو باہر کے تمام مناظر دھندلے اور گدلے نظر آتے ہیں۔ بہت اچھا لکھا آپ نے بٹ صاحب۔۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

اب راز کی بات ہوجائے۔ اعظم کا ڈنر یادگار رہا یا نہیں۔۔۔ :)
 

سید زبیر

محفلین
عزیزم عاطف بٹ !بہت خوبصورت تحریر ۔ جنسی استحصال ازل ہی سے ہے ۔ بیشتر لوگ آج بھی جنت سے نکلنے کی وجہ اماں حوا کو ہی گردانتے ہے جو کہ سراسر غلط ہے ۔ دور جاہلیت میں بھی عورت پر ہی ظلم ہوتے تھے ۔بات احساس و احترام کی ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام میں عورت انتہائی سستی لیبر تصور ہوتی ہے یہی وجہ کہ مِردوں کے اداروں میں خواتین کو ترجیح دی جاتی ہے جبکہ خواتین کے اداروں میں مِردوں کا داخلہ بند ہوتا ہے اس لئے اسے گھر سے نکالنے کے لئے سرمایہ داروں کی پروردہ تنظیمیں انہیں باہر نکلنے کی تر غیب دیتی ہیں بہر حال شا ئد اس آزادی سے ہی خواتین کے لئے کوئی خیر برامد ہو ۔ سر دست تو آثار نظر نہیں آتے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
قاری کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بہت اچھی کاوش ہے۔

اور میں چوہدری صاحب کی رائے سے سو فیصد سے زیادہ متفق ہوں۔
 

شیزان

لائبریرین
بہت عمدہ لکھا عاطف بھائی
یہ تو نہیں کہوں گا کہ صنفی تفریق کا وجود نہیں ہے۔۔ بالکل ہے ۔۔ ہمارا معاشرہ تو کہلاتا ہے مرد کا معاشرہ ہے۔۔
جہالت کی وجہ سے عورت کو وہ درجہ اور اہمیت حاصل نہیں ہے جو اسے ہونا چاہیے۔۔ یہاں مرد کی انا بہت بڑی ہے۔۔ اور اس کے آگے سب کچھ ہیچ ہے۔۔
دیگر معاشروں میں دیکھیں تو وہاں بھی غیر محسوس طور پرعورت ہی پس رہی ہے۔۔ چاہے وہ من چاہی آزادی حاصل کر بھی چکی ہو۔۔ تو بھی۔۔
بہرحال پانچویں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔۔ تصویر کے دو رخوں پر ہمیشہ نظر رکھنی چاہیے۔۔
لیکن ہاں دوسری طرف اگر این جی اوز کی بات کی جائے تو انہیں واقعی اپنا کاروبار چلانے کے لیے چھوٹی سے بات کا بتنگڑ بنانا بھی خوب اچھی طرح آتا ہے۔
 

شیزان

لائبریرین
اپنی کھڑکی پر گرد جمی ہو تو باہر کے تمام مناظر دھندلے اور گدلے نظر آتے ہیں۔ بہت اچھا لکھا آپ نے بٹ صاحب۔۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

اب راز کی بات ہوجائے۔ اعظم کا ڈنر یادگار رہا یا نہیں۔۔۔ :)
یہ تو اوپن سیکرٹ ہے بھائی جی۔۔
ہاں میں ہاں ملانے کے بعد بھی کیا ڈنر ناکام ہو سکتا تھا۔۔ قطعآ نہیں۔۔;)
 
Top