عمران القادری
محفلین
تحریر : ڈاکٹر طاہر حمید تنولی
ملت اسلامیہ کا یہ اعزاز و امتیاز ہے کہ اللہ تعالی نے اسے انسانیت کے لیے آخری اور حتمی منشور حیات یعنی قرآن حکیم کا وارث و امین بنایا۔ اپنے پیغام کے ابلاغ کے لیے قرآن حکیم کا انداز تخاطب عمومی انداز کا حامل ہے۔ طلب عمل، تعمیر کردار اور مژدہ اکرام و انعام کا کوئی بھی ایسا گوشہ نہیں جس میں قرآن حکیم نے کائنات انسانیت کو طبقاتی یا اصطفافی (Segregational) انداز سے مخاطب کیا ہو۔ قرآن حکیم کی ابدی ہدایت و اثر آفرینی اور امت مسلمہ کی عمومی معروضی حالت میں موجود واضح فرق ہمیں اس تاریخی حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ :
1۔ عالم اسلام اپنے عروج کے دور سے تا حال اپنے مرکز زوال سے دوبارہ نہیں ابھرا۔ بغداد، قرطبہ، خلافت عثمانیہ اور دہلی کے زوال کی داستانیں ہمارے سامنے ہیں۔ گو اہل ایمان صورت خورشید طلوع ہو کر نئی تاریخ رقم کرتے رہے ہیں۔
2۔ آج مغرب بتدریج عروج کی طرف گامزن ہے اور مغرب کا عروج دنیاوی لحاظ سے ہمہ گیر ہے۔ مذہب و الوہی اقدار سے ماسوا زندگی کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جس کا مغربی عروج نے احاطہ نہ کیا ہوجبکہ عالم اسلام اور مغرب میں عروج و زوال کی خلیج مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
عروج و زوال کے اس واضح و نمایاں خلیج کے سبب سے غالب اور مائل بہ زوال کلچرز کے فطری رویوں کے سبب عالم اسلام میں کئی طبقات کی طرف سے انتہا پسندانہ رحجانات کے سبب سے مسلم فکر کے بین الاقوامی اور بین الثقافتی اثر و نفوذ کی راہیں محدود ہو رہی ہیں۔
قرآنی فکر کی نتیجہ خیزی اور عمومی عملی رویّے
قرآن حکیم کے عمومی طرز تخاطب کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ :
1۔ معاشرے میں موجود اور متداول ذہنی ثنویت (Intellectual Duality)کا خاتمہ ہوت، کیونکہ دریں حال مسلم معاشرے میں دو اذہان کارفرما ہیں :
قرآنی ذہن
عمومی ذہن
اس دوہرے ذہنی معاشرے کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن حکیم کا بیان کردہ تصور اجر و اخذ ہمارے عمومی عملی رویے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہم روزمرہ زندگی میں کچھ اعمال اللہ کی رضا کے لیے اور کچھ زندگی کے کاروبار کو رواں دواں رکھنے کے لیے انجام دے رہے ہیں اور ہماری پوری زندگی ایک طرح کے compromise پر مشتمل ہے۔ جب نیت و عمل کی اتنی بنیادی سطح پر ہی قرآن حکیم کے احکام اور فکرسے ہم آہنگی نہ ہو گی، تو اعلی سطح کے قرآنی وعدوں کو حقیقت کا روپ کس طرح ملے گا۔
2۔ زندگی کو عمومی ڈگر پر رواں دواں رکھتے ہوئے قرآنی نتائج کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ ہر شعبہ زندگی سے متعلق افراد معاشرہ کو قرآنی مقصود کا یقین میسر ہوت، گو علم نہ ہوتا۔ مگر ’اندیشہ عجم‘ نے اسے نہ صرف پنہاں کر دیا بلکہ اسلام چند رسوم و قیود تک محدود ہو کر رہ گیا۔
تعریفِ تفسیر اور علم التفسیر کے اجزاء
قرآن حکیم سے اخذ ہدایت کے لیے ہر دور میں تفسیری کاوشیں کی گئیں۔ علامہ آلوسی نے تفسیر کی تعریف یوں کی :
علم يبحث فيه عن کيفية النطق بالفاظ القرآن و مدلولا تها واحکا مها الافرادية والترکيبية ومعانيهاالتي تحمل عليها حالة الترکيب وتتماست لذلک،
’’علم تفسیر وہ علم ہے جس میں الفاظ قرآن کی ادائیگی کے طریقے، ان کے مفہوم، ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور ان کے معانی سے بحث کی جاتی ہے جو ان الفاظ سے ترکیبی حالت میں مراد لئے جاتے ہیں، نیز ان معانی کا تکملہ، ناسخ ومنسوخ، شان نزول اور مبہم قصوں کی تو ضیح کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے‘‘۔
اس تعریف کی روشنی میں علم تفسیر مندرجہ ذیل اجزاء پر مشتمل ہے۔
الفاظ قرآن کی ادائیگی کے طریقے
الفاظ قرآن کے مفہوم
الفاظ کے انفرادی احکام
الفاظ کے ترکیبی احکام
ترکیبی حالت میں الفاظ کے مجموعی معنی
معانی کے تکملے، یعنی آیات قرآنی کا پس منظر اور مجمل کی تفصیل
تفسیر و تاویل میں فرق
اہل علم کے ہاں تفسیر کے لئے ایک اور لفظ تاویل بھی بکثرت استعمال ہوتا تھا اور خود قرآن کریم نے بھی اپنی تفسیر کے لئے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے، وما یعلم تاویلہ الا اﷲ، تاہم علماء میں یہ اختلاف رہا کہ آیا یہ دونوں الفاظ بالکل ہم معنی ہیں، یا ان میں کچھ فرق ہے؟ امام ابو عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے فرمایا کہ یہ دونوں الفاظ بالکل مترادف ہیں۔ کچھ حضرات نے ان دونوں میں فرق بیان کرنے کی کوشش کی جن سے چند اقوال یہ ہیں :
تفسیر ایک ایک لفظ کی انفرادی تشریح کا نام ہے، اور تاویل جملے کی مجموعی تشریح کو کہا جاتا ہے۔
تفسیر الفاظ کے ظاہری معنی بیان کرنے کو کہتے ہیں اور تاویل اصل مراد کی توضیح کو کہتے ہیں۔
تفسیر اس آیت کی ہوتی ہے جس میں ایک سے زیادہ معنی کا احتمال نہ ہو، اور تاویل کا مطلب یہ ہے کہ آیت کی جو مختلف تشریحات ممکن ہیں ان میں سے کسی ایک کو دلیل کے ساتھ اختیار کرلیا جائے۔
تفسیر یقین کے ساتھ تشریح کرنے کو کہا جاتا ہے اور تاویل تردد کے ساتھ تشریح کرنے کو کہا جاتا ہے۔
تفسیر الفاظ کا مفہوم بیان کردینے کا نام ہے اور تاویل اس مفہوم سے نکلنے والے حاصل اور نتائج کی توضیح ہے۔
قرآنی فکراور ہمارے عملی رویّوں کی مطابقت بارے جملہ تفاسیر کا سکوت
تاہم یہ امر قابل غور ہے کہ ہماری تمام تفسیری کاوشیں ان سوالات کاجواب نہیں دے پاتیں جو اس تحریر کے آغاز میں اٹھائے گئے ہیں۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں :
’’علم تفسیر ہو یا علم حدیث‘ علم فقہ ہو یا علم کلام‘ یہ تمام علوم و فنون کتاب و سنت کی تعبیرات سے عبارت ہیں۔ ہمارے دینی مدارس میں نصوص قرآنی کی ہی تعبیرات ہمیشہ شامل نصاب رہی ہیں۔ نص بذات خود حصہ نصاب نہیں رہی۔ گویا تفسیر قرآن کا بدل تصور ہونے لگی ہے۔ تفسیر یا تعبیر کی احتیاج چونکہ عصری ضرورتوں کے تحت پیدا ہوتی ہے اس لیے زیادہ وقت گزر جانے کے بعد سابقہ تعبیرات و تفسیرات نئے ادوار کی علمی و عملی تمام ضرورتوں کو پورا نہیں کر پاتیں۔ چنانچہ مفسر کو ازسر نو عصری تقاضوں کے مطابق تعبیر کی حاجت محسوس ہوتی ہے۔ ہر دور میں ہمارے علماء مخصوص علمی ضرورتوں کے تحت فن تعبیر کے اصولوں کو فروغ دیتے رہتے ہیں۔ لیکن سوء اتفاق سے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے جو سرے سے تفسیر و تعبیر کا موضوع ہی نہ تھے، آج تک براہ راست نص سے حتمی و قطعی ہدایت اخذ کرنے کا منہاج وضع نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ عصر حاضر میں متداول تعبیراتی علوم اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود ملت اسلامیہ کی اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی پر محیط زوال و انحطاط کو ختم کرنے اور اسے با عظمت انقلاب سے ہمکنار کرنے میں بے اثر اور عقیم ثابت ہوئے ہیں۔ ان علوم کی عملی زندگی پر اثر انگیزی اور نتیجہ خیزی کا فقدان دراصل ان کی کمزوری یا نقص نہیں کیونکہ یہ مسئلہ شروع سے ہی ان کے ہیظ اثر میں نہ تھا۔ غلطی اور کمزوری فی الحقیقت اس ذہن کی تھی جس نے ان کو نص قرآنی کا بدل بنا دیا تھا اور اس نے ان تعبیراتی علوم کے ذریعے اس عملی نتیجہ کے پیدا ہونے کی آرزو کی تھی جو صرف نص کی ہدایت سے حاصل ہوسکتا تھا۔ ‘‘
علمِ تفسیر و دیگر علوم کا احیاء۔ ۔ ۔ شیخ الاسلام کی نظر میں
دیگر علوم کی طرح آپ نے علم تفسیر کے باب میں بھی اس منھج کا آغاز فرمایا جو عصری چیلنجوں کا جواب ہے۔ علم تفسیر اور اس سے متعلق دیگر علوم کا کس طرح احیا کیا جائے، حضرت شیخ الاسلام تحریر فرماتے ہیں :
1۔ علم التفسیر : اس سلسلے کا پہلا علم ہے۔ اس کا موضوع قرآن ہے جو یقیناً تفسیر سے متمیز ہے۔ کیونکہ قرآن وہ حقیقت ہے جس کے علم کا نام تفسیر ہے۔ یعنی قرآن نص ہے اور تفسیر اس کی تعبیر، جس کا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کیا ہے؟
2۔ علم حدیث : اس کا موضوع سنتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جس کا مسئلہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول وعمل کیا تھا؟
3۔ علم فقہ : اس کا موضوع انسانی زندگی سے متعلق اوامر ونواہی ہیں۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے؟ کتبِ حدیث اور بالخصوص کتبِ سنن کے اسلوبِ تبویب کو دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر علم حدیث کی تدوین کا اصل محرک بھی فقہ ہی تھا۔ گویا انسانی زندگی کو منظم کرنے والا ضابطہ اور اس کی اصل سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرنے کے لئے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جمع اور مرتب کیاگیا۔
4۔ علم کلام : اس کا موضوع عقائد ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ عقائد کی عقلی اساس کیا ہے؟ اس کا وظیفہ (Function) عقائدِ صحیحہ کی تائید اور عقائدِ باطلہ کی تردید میں استدلال فراہم کرنا ہے۔
5۔ علم تصوف : اس کا موضوع طریقت ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ احکام فقہ کی بجا آوری میں اخلاص کیسے پیدا ہوگا؟
6۔ علم تاریخ : اس طرح تاریخِ اسلام کا موضوع دو ادوار کے بیان پر مشتمل ہے۔ دورِ رسالت اور دورِ مابعد رسالت، بحیثیتِ علم کے، تاریخ کا مسئلہ امت کے عروج وزوال کے اسباب کی جستجو ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ انسانی استعداد کے یہ زائیدہ مذہبی علوم زندگی میں نتائج پیدا کرنے میں موثر نہیں رہے۔ یہاں تک کہ اسلام کے عقیدہ وعمل کا کوئی اثر ہماری حیاتِ اجتماعی پر باقی نہیں رہا۔ عقائد اوہام میں اور عبادت رسوم وظواہر میں بدل کر رہ گئی ہیں۔ ان کا علاقہ عملی زندگی سے یکسر منقطع ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی مذہبی اور غیرمذہبی (Religious and Secular)دوشعبوں میں تقسیم ہو گئی ہے اور اس کی ثنویت وغیریت کو کسی سطح پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سب کے سب علوم اس سوال کا جواب ہیں کہ یہ کیا ہے؟
ملت اسلامیہ کا یہ اعزاز و امتیاز ہے کہ اللہ تعالی نے اسے انسانیت کے لیے آخری اور حتمی منشور حیات یعنی قرآن حکیم کا وارث و امین بنایا۔ اپنے پیغام کے ابلاغ کے لیے قرآن حکیم کا انداز تخاطب عمومی انداز کا حامل ہے۔ طلب عمل، تعمیر کردار اور مژدہ اکرام و انعام کا کوئی بھی ایسا گوشہ نہیں جس میں قرآن حکیم نے کائنات انسانیت کو طبقاتی یا اصطفافی (Segregational) انداز سے مخاطب کیا ہو۔ قرآن حکیم کی ابدی ہدایت و اثر آفرینی اور امت مسلمہ کی عمومی معروضی حالت میں موجود واضح فرق ہمیں اس تاریخی حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ :
1۔ عالم اسلام اپنے عروج کے دور سے تا حال اپنے مرکز زوال سے دوبارہ نہیں ابھرا۔ بغداد، قرطبہ، خلافت عثمانیہ اور دہلی کے زوال کی داستانیں ہمارے سامنے ہیں۔ گو اہل ایمان صورت خورشید طلوع ہو کر نئی تاریخ رقم کرتے رہے ہیں۔
2۔ آج مغرب بتدریج عروج کی طرف گامزن ہے اور مغرب کا عروج دنیاوی لحاظ سے ہمہ گیر ہے۔ مذہب و الوہی اقدار سے ماسوا زندگی کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جس کا مغربی عروج نے احاطہ نہ کیا ہوجبکہ عالم اسلام اور مغرب میں عروج و زوال کی خلیج مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
عروج و زوال کے اس واضح و نمایاں خلیج کے سبب سے غالب اور مائل بہ زوال کلچرز کے فطری رویوں کے سبب عالم اسلام میں کئی طبقات کی طرف سے انتہا پسندانہ رحجانات کے سبب سے مسلم فکر کے بین الاقوامی اور بین الثقافتی اثر و نفوذ کی راہیں محدود ہو رہی ہیں۔
قرآنی فکر کی نتیجہ خیزی اور عمومی عملی رویّے
قرآن حکیم کے عمومی طرز تخاطب کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ :
1۔ معاشرے میں موجود اور متداول ذہنی ثنویت (Intellectual Duality)کا خاتمہ ہوت، کیونکہ دریں حال مسلم معاشرے میں دو اذہان کارفرما ہیں :
قرآنی ذہن
عمومی ذہن
اس دوہرے ذہنی معاشرے کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن حکیم کا بیان کردہ تصور اجر و اخذ ہمارے عمومی عملی رویے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہم روزمرہ زندگی میں کچھ اعمال اللہ کی رضا کے لیے اور کچھ زندگی کے کاروبار کو رواں دواں رکھنے کے لیے انجام دے رہے ہیں اور ہماری پوری زندگی ایک طرح کے compromise پر مشتمل ہے۔ جب نیت و عمل کی اتنی بنیادی سطح پر ہی قرآن حکیم کے احکام اور فکرسے ہم آہنگی نہ ہو گی، تو اعلی سطح کے قرآنی وعدوں کو حقیقت کا روپ کس طرح ملے گا۔
2۔ زندگی کو عمومی ڈگر پر رواں دواں رکھتے ہوئے قرآنی نتائج کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ ہر شعبہ زندگی سے متعلق افراد معاشرہ کو قرآنی مقصود کا یقین میسر ہوت، گو علم نہ ہوتا۔ مگر ’اندیشہ عجم‘ نے اسے نہ صرف پنہاں کر دیا بلکہ اسلام چند رسوم و قیود تک محدود ہو کر رہ گیا۔
تعریفِ تفسیر اور علم التفسیر کے اجزاء
قرآن حکیم سے اخذ ہدایت کے لیے ہر دور میں تفسیری کاوشیں کی گئیں۔ علامہ آلوسی نے تفسیر کی تعریف یوں کی :
علم يبحث فيه عن کيفية النطق بالفاظ القرآن و مدلولا تها واحکا مها الافرادية والترکيبية ومعانيهاالتي تحمل عليها حالة الترکيب وتتماست لذلک،
’’علم تفسیر وہ علم ہے جس میں الفاظ قرآن کی ادائیگی کے طریقے، ان کے مفہوم، ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور ان کے معانی سے بحث کی جاتی ہے جو ان الفاظ سے ترکیبی حالت میں مراد لئے جاتے ہیں، نیز ان معانی کا تکملہ، ناسخ ومنسوخ، شان نزول اور مبہم قصوں کی تو ضیح کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے‘‘۔
اس تعریف کی روشنی میں علم تفسیر مندرجہ ذیل اجزاء پر مشتمل ہے۔
الفاظ قرآن کی ادائیگی کے طریقے
الفاظ قرآن کے مفہوم
الفاظ کے انفرادی احکام
الفاظ کے ترکیبی احکام
ترکیبی حالت میں الفاظ کے مجموعی معنی
معانی کے تکملے، یعنی آیات قرآنی کا پس منظر اور مجمل کی تفصیل
تفسیر و تاویل میں فرق
اہل علم کے ہاں تفسیر کے لئے ایک اور لفظ تاویل بھی بکثرت استعمال ہوتا تھا اور خود قرآن کریم نے بھی اپنی تفسیر کے لئے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے، وما یعلم تاویلہ الا اﷲ، تاہم علماء میں یہ اختلاف رہا کہ آیا یہ دونوں الفاظ بالکل ہم معنی ہیں، یا ان میں کچھ فرق ہے؟ امام ابو عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے فرمایا کہ یہ دونوں الفاظ بالکل مترادف ہیں۔ کچھ حضرات نے ان دونوں میں فرق بیان کرنے کی کوشش کی جن سے چند اقوال یہ ہیں :
تفسیر ایک ایک لفظ کی انفرادی تشریح کا نام ہے، اور تاویل جملے کی مجموعی تشریح کو کہا جاتا ہے۔
تفسیر الفاظ کے ظاہری معنی بیان کرنے کو کہتے ہیں اور تاویل اصل مراد کی توضیح کو کہتے ہیں۔
تفسیر اس آیت کی ہوتی ہے جس میں ایک سے زیادہ معنی کا احتمال نہ ہو، اور تاویل کا مطلب یہ ہے کہ آیت کی جو مختلف تشریحات ممکن ہیں ان میں سے کسی ایک کو دلیل کے ساتھ اختیار کرلیا جائے۔
تفسیر یقین کے ساتھ تشریح کرنے کو کہا جاتا ہے اور تاویل تردد کے ساتھ تشریح کرنے کو کہا جاتا ہے۔
تفسیر الفاظ کا مفہوم بیان کردینے کا نام ہے اور تاویل اس مفہوم سے نکلنے والے حاصل اور نتائج کی توضیح ہے۔
قرآنی فکراور ہمارے عملی رویّوں کی مطابقت بارے جملہ تفاسیر کا سکوت
تاہم یہ امر قابل غور ہے کہ ہماری تمام تفسیری کاوشیں ان سوالات کاجواب نہیں دے پاتیں جو اس تحریر کے آغاز میں اٹھائے گئے ہیں۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں :
’’علم تفسیر ہو یا علم حدیث‘ علم فقہ ہو یا علم کلام‘ یہ تمام علوم و فنون کتاب و سنت کی تعبیرات سے عبارت ہیں۔ ہمارے دینی مدارس میں نصوص قرآنی کی ہی تعبیرات ہمیشہ شامل نصاب رہی ہیں۔ نص بذات خود حصہ نصاب نہیں رہی۔ گویا تفسیر قرآن کا بدل تصور ہونے لگی ہے۔ تفسیر یا تعبیر کی احتیاج چونکہ عصری ضرورتوں کے تحت پیدا ہوتی ہے اس لیے زیادہ وقت گزر جانے کے بعد سابقہ تعبیرات و تفسیرات نئے ادوار کی علمی و عملی تمام ضرورتوں کو پورا نہیں کر پاتیں۔ چنانچہ مفسر کو ازسر نو عصری تقاضوں کے مطابق تعبیر کی حاجت محسوس ہوتی ہے۔ ہر دور میں ہمارے علماء مخصوص علمی ضرورتوں کے تحت فن تعبیر کے اصولوں کو فروغ دیتے رہتے ہیں۔ لیکن سوء اتفاق سے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے جو سرے سے تفسیر و تعبیر کا موضوع ہی نہ تھے، آج تک براہ راست نص سے حتمی و قطعی ہدایت اخذ کرنے کا منہاج وضع نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ عصر حاضر میں متداول تعبیراتی علوم اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود ملت اسلامیہ کی اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی پر محیط زوال و انحطاط کو ختم کرنے اور اسے با عظمت انقلاب سے ہمکنار کرنے میں بے اثر اور عقیم ثابت ہوئے ہیں۔ ان علوم کی عملی زندگی پر اثر انگیزی اور نتیجہ خیزی کا فقدان دراصل ان کی کمزوری یا نقص نہیں کیونکہ یہ مسئلہ شروع سے ہی ان کے ہیظ اثر میں نہ تھا۔ غلطی اور کمزوری فی الحقیقت اس ذہن کی تھی جس نے ان کو نص قرآنی کا بدل بنا دیا تھا اور اس نے ان تعبیراتی علوم کے ذریعے اس عملی نتیجہ کے پیدا ہونے کی آرزو کی تھی جو صرف نص کی ہدایت سے حاصل ہوسکتا تھا۔ ‘‘
علمِ تفسیر و دیگر علوم کا احیاء۔ ۔ ۔ شیخ الاسلام کی نظر میں
دیگر علوم کی طرح آپ نے علم تفسیر کے باب میں بھی اس منھج کا آغاز فرمایا جو عصری چیلنجوں کا جواب ہے۔ علم تفسیر اور اس سے متعلق دیگر علوم کا کس طرح احیا کیا جائے، حضرت شیخ الاسلام تحریر فرماتے ہیں :
1۔ علم التفسیر : اس سلسلے کا پہلا علم ہے۔ اس کا موضوع قرآن ہے جو یقیناً تفسیر سے متمیز ہے۔ کیونکہ قرآن وہ حقیقت ہے جس کے علم کا نام تفسیر ہے۔ یعنی قرآن نص ہے اور تفسیر اس کی تعبیر، جس کا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کیا ہے؟
2۔ علم حدیث : اس کا موضوع سنتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جس کا مسئلہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول وعمل کیا تھا؟
3۔ علم فقہ : اس کا موضوع انسانی زندگی سے متعلق اوامر ونواہی ہیں۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے؟ کتبِ حدیث اور بالخصوص کتبِ سنن کے اسلوبِ تبویب کو دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر علم حدیث کی تدوین کا اصل محرک بھی فقہ ہی تھا۔ گویا انسانی زندگی کو منظم کرنے والا ضابطہ اور اس کی اصل سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرنے کے لئے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جمع اور مرتب کیاگیا۔
4۔ علم کلام : اس کا موضوع عقائد ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ عقائد کی عقلی اساس کیا ہے؟ اس کا وظیفہ (Function) عقائدِ صحیحہ کی تائید اور عقائدِ باطلہ کی تردید میں استدلال فراہم کرنا ہے۔
5۔ علم تصوف : اس کا موضوع طریقت ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ احکام فقہ کی بجا آوری میں اخلاص کیسے پیدا ہوگا؟
6۔ علم تاریخ : اس طرح تاریخِ اسلام کا موضوع دو ادوار کے بیان پر مشتمل ہے۔ دورِ رسالت اور دورِ مابعد رسالت، بحیثیتِ علم کے، تاریخ کا مسئلہ امت کے عروج وزوال کے اسباب کی جستجو ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ انسانی استعداد کے یہ زائیدہ مذہبی علوم زندگی میں نتائج پیدا کرنے میں موثر نہیں رہے۔ یہاں تک کہ اسلام کے عقیدہ وعمل کا کوئی اثر ہماری حیاتِ اجتماعی پر باقی نہیں رہا۔ عقائد اوہام میں اور عبادت رسوم وظواہر میں بدل کر رہ گئی ہیں۔ ان کا علاقہ عملی زندگی سے یکسر منقطع ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی مذہبی اور غیرمذہبی (Religious and Secular)دوشعبوں میں تقسیم ہو گئی ہے اور اس کی ثنویت وغیریت کو کسی سطح پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سب کے سب علوم اس سوال کا جواب ہیں کہ یہ کیا ہے؟