سورۃ ہود کے معانی کی ترجمانی (پہلا حصہ)
ا ل ر۔ فرمان (1) ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں (2)، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف، کہ تم نہ بندگی کرو مگر صرف اللہ کی۔ میں اُس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں اور بشارت دینے والا بھی۔ اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدتِ خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا (3) اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا (4)۔ لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑ ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔
دیکھو! یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اس سے چھُپ جائیں (5)۔ خبردار! جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں، اللہ ان کے چھُپے کو بھی جانتا ہے اور کھُلے کو بھی، وہ تو اُن بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں۔ زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں سونپا جاتا ہے (6)، سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے۔
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھے دنوں میں پیدا کیا، جبکہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا (7) ، تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے (
۔ اب اگر اے محمدؐ، تم کہتے ہو کہ لوگو، مرنے کے بعد تم دوبارہ اُٹھائے جاؤ گے، تو منکرین فورا بول اُٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگری ہے (9) ۔ اور اگر ہم ایک خاص مدت تک ان کی سزا کو ٹالتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے اُسے روک رکھا ہے؟ سنو! جو روز اُس سزا کا وقت آ گیا تو وہ کسی کے پھیرے نہ پھر سکے گا اور وہی چیز ان کو آ گھیرے گی جس کا وہ مذاق اُڑا رہے ہیں۔
اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے۔ اور اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس پر آئی تھی ہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دِلَدّر پار ہو گئے، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے (10) ۔ اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکوکار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی (12) ۔
تو اے پیغمبرؐ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اُن چیزوں میں سے کسی کو (بیان کرنے سے) چھوڑ دو جو تمہاری طرف وحی کی جا رہی ہیں اور اس بات پر دل تنگ ہو کہ وہ کہیں گے “اس شخص پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا”، یا یہ کہ “اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا”۔ تم تو محض خبردار کرنے والے ہو، آگے ہر چیز کا حوالہ دار اللہ ہے (13) ۔
کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟ کہو، “اچھّا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سُورتیں تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو (تمہارے معبُود) ہیں اُن کو مدد کے لیے بُلا سکتے ہو تو بُلا لو اگر تم (انہیں معبُود سمجھنے میں) سچّے ہو۔ اب اگر وہ (تمہارے معبُود) تمہاری مدد کو نہیں پہنچتے تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبُود نہیں ہے۔ پھر کیا تم (اِس امرِ حق کے آگے) سرِتسلیم خم کرتے ہو (14) ”؟
جو لوگ بس اِسی دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں (15) ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے (16) ۔ (وہاں معلوم ہو جائے گا) کہ جو کچھ انہوں نے دُنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔
پھر بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا (17)، اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اس شہادت کی تائید میں) آ گیا (1
، اور پہلے موسٰی کی کتاب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی (کیا وہ بھی دنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کر سکتا ہے؟) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے (19)۔ اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو ا س کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔ پس اے پیغمبرؐ، تم اِس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے۔
اور اُس شخص سے بڑھ کا ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھُوٹ گھڑے (20)؟ ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور گواہ شہادت دیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھُوٹ گھڑا تھا۔ سُنو! خدا کی لعنت ہے ظالموں پر (21)، اُن ظالموں پر (22) جو خدا کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں، اس کے راستے کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں (23) اور آخرت کا انکار کرتے ہیں، وہ (24) زمین میں اللہ کو بےبس کرنے والے نہ تھے اور نہ اللہ کے مقابلہ میں کوئی ان کا حامی تھا۔ انہیں اب دوہرا عذاب دیا جائے (25) گا۔ وہ نہ کسی کی سُن ہی سکتے تھے اور نہ خود ہی انہیں کچھ سُوجھتا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خود گھاٹے میں ڈالا اور سہ سب کچھ ان سے کھویا گیا جو انہوں نے گھڑ رکھا تھا۔ ناگزیر ہے کہ وہی آخرت میں سب سے بڑھ کر گھاٹے میں رہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اپنے رب ہی کے ہو کر رہے، تو یقینًا وہ جنتی لوگ ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں (27) گے۔ اِن دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھا بہرا اور دوسرا ہو دیکھنے والا اور سُننے والا، کیا یہ دونوں یکساں ہو سکتے ہیں (2
؟ کیا تم (اِس مثال سے) کوئی سبق نہیں لیتے؟
(اور ایسے ہی حالات تھے جب) ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا تھا (29)۔ (اُس نے کہا) “میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر ایک روز دردناک عذاب آئے گا (30) ”۔ جواب میں اُس کی قوم کے سردار، جنہوں نے اس کی بات ماننے سے انکار کیا تھا، بولے “ہماری نظر میں تو تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ بس ایک انسان ہو ہم جیسے (31)۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بس اُن لوگوں نے جو ہمارے ہاں اراذل تھے بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیار کر لی ہے (32)۔ اور ہم کوئٰ چیز بھی ایسی نہیں پاتے جس میں تم لوگ ہم سے کچھ بڑھے ہوئے ہو (33)، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں”۔ اس نے کہا “اے برادرانِ قوم، ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھُلی شہادت پر قائم تھا اور پھر اس نے مجھ کو اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا(34) مگر وہ تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم نہ ماننا چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سر چپیک دیں؟ اور اے برادرانِ قوم، میں اِس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا (35)، میرا اجر تو اللہ کے ذمّہ ہے۔ اور میں اُن لوگوں کو دھکّے دینے سے بھی رہا جنہوں نے میری بات مانی ہے، وہ آپ ہی اپنے رب کے حضور جانے والے ہیں (36)۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو۔ اور اے قوم، اگر میں اِن لوگوں کو دھتکار دوں تو خدا کی پکڑ سے کون مجھے بچانے آئے گا؟ تم لوگوں کی سمجھ میں کیا اتنی بات بھی نہیں آتی؟ اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، نہ یہ میرا دعوٰی ہے کہ میں فرشتہ ہوں (37) اور یہ بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر میں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا”۔
آخرکار ان لوگوں نے کہا کہ “اے نوحؑ، تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کر لیا۔ اب تو بس وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو اگر سچّے ہو”۔ نوحؑ نے جواب دیا “وہ تو اللہ ہی لائے گا، گر چاہے گا، اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے روک دو۔ اب اگر میں تمہاری کچھ خیرخواہی کرنا بھی چاہوں تو میری خیرخواہی تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جبکہ اللہ ہی نے تمہیں بھٹکا دینے کا ارادہ کر لیا ہو، وہی تمہارا رب ہے اور اُسی کی طرف تمہیں پلٹنا ہے”۔
اے محمدؐ، کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیا ہے؟ ان سے کہو “اگر میں نے یہ خود گھڑا ہے تو مجھ پر اپنے جُرم کی ذمّہ داری ہے، اور جو جُرم تم کر رہے ہو اس کی ذمّہ داری سے میں بَری ہوں”۔ ع
نوحؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے بس وہ لا چکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے۔ ان کے کرتُوتوں پر غم کھانا چھوڑو اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو۔ اور دیکھو، جن لوگوں نے ظلم کیا ہے اُن کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں (40)۔
نُوح کشتی بنا رہا تھا اور اس کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی اس کے پاس سے گزرتا تھا وہ اس کا مذاق اُڑاتا تھا۔ اس نے کہا “اگر تم ہم ہر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں، عنقریب تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اُسے رسوا کر دے گا اور کس پر وہ بلا ٹوٹ پڑتی ہے جو ٹالے نہ ٹلے (41) گی”۔
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ گیا اور تنور اُبل پڑا (42) تو ہم نے کہا “ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی، سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جا چکی ہے (43)، اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں”۔ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوحؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ نوحؑ نے کہا “سوار ہو جاؤ اِس میں، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھیرنا بھی، میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے (45)”۔
کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اُٹھ رہی تھی۔ نوحؑ کا بیٹا دُور فاصلے پر تھا۔ نوحؑ نے پُکار کر کہا “بیٹا، ہمارے ساتھ سوار ہو جا، کافروں کے ساتھ نہ رہ”۔ اُس نے پلٹ کر جواب دیا “میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا”۔ نوحؑ نے کہا “آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اِس کے کے اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے”۔ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا۔
حکم ہُوا “اے زمین، اپنا سارا پانی نِگل جا اور اے آسمان، رُک جا”۔ چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا، فیصلہ چکا دیا گیا، کشتی جودی پر ٹِک گئی (46)، اور کہہ دیا گیا کہ دُور ہوئی ظالموں کی قوم!
نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا۔ کہا “اے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچّا ہے (47) اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے (4
”۔ جواب میں ارشاد ہُوا “اے نوحؑ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے (49)، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے (50)”۔ نوحؑ نے فورًا عرض کیا”اے میرے رب، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں (51) گا”۔
حکم ہُوا “اے نوحؑ، اُتر جا (52) ، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تُجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں، اور کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جن کو ہم کچھ مدت سامانِ زندگی بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا”۔
اے محمدؐ، یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم۔ پس صبر کرو، انجام کار متقیوں ہی کے حق میں ہے۔ (53)۔ ع
اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا (54)۔ اُس نے کہا “اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، تمہارا کوئی خدا اُس کے سوا نہیں ہے۔ تم نے محض جھُوٹ گھڑ رکھے ہیں (55)۔ اے برادران قوم، اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا اجر تو اس کے ذمّہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے (56)؟ اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا (57)۔ مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو۔”
انہوں نے جواب دیا “اے ہُود، تو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر نہیں آیا ہے (5
اور تیرے کہنے سے ہم اپنے معبُودوں کو نہیں چھوڑ سکتے، اور تجھ پر ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تیرے اوپر ہمارے معبُودوں میں سے کسی کی مار پڑ گئی ہے (59)”۔
ہُود نے کہا “میں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوں (60)۔ اور تم گواہ رہو کہ یہ جو اللہ کے سوا دُوسروں کو تم نے خدائی میں شریک ٹھیرا رکھا ہے اِس سے میں بیزار ہوں (61)۔ تم سب کے سب مل کر میرے خلاف اپنی کرنی میں کسر نہ اُٹھا رکھو اور مجھے ذرا مُہلت نہ دو (62)، میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کےہاتھ میں نہ ہو۔ بے شک میرا رب سیدھی راہ پر ہے (63)۔ اگر تم منہ پھیرتے ہو تو پھیر لو۔ جو پیغام دے کر میں تمہارے پاس بھیجا گیا تھا وہ میں تم کو پہنچا چکا ہوں۔ اب میرا رب تمہاری جگہ دوسری قوم کو اُٹھائے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے (64)۔ یقینًا میرا رب ہر چیز پر نگراں ہے۔”
پھر جب ہمارا حکم آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہُود کو اور اُن لوگوں کو جو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے نجات دے دی اور ایک سخت عذاب سے انہیں بچا لیا۔
یہ ہیں عاد، اپنے رب کی آیات سے انہوں نے انکار کیا، اس کے رسُولوں کی بات نہ مانی (65)، اور ہر جبّار دشمنِ حق کی پیروی کرتے رہے۔ آخرکار اس دُنیا میں بھی ان پر پھِٹکار پڑی اور قیامت کے روز بھی۔ سُنو! عاد نے اپنے رب سے کفر کیا۔ سُنو! دُور پھینک دیے گئے عاد، ہُودؑ کی قوم کے لوگ۔ ع
سورۃ ہود کا بقیہ حصہ زیر تکمیل ہے