قسیم حیدر

محفلین
سورۃ یوسف کے معانی کی ترجمانی
ال ر ، یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف بیان کرتی ہے۔
1
ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تا کہ تم (اہل عرب) اس کو اچھی طرح سمجھ سکو 2
اے محمد، ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہتین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں ورنہ اس سے پہلے تو (ان چیزوں سے) تم بالکل ہی بے خبر تھے۔ 3
یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب یوسفؑ نے اپنے باپ سے کہا “ابا جان، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سوُرج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں”۔ 4
جواب میں اس کے باپ نے کہا، “بیٹا، اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سُنانا ورنہ وہ تیرے درپے آزار ہو جائیں گے، حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھُلا دشمن ہے 5
اور ایسا ہی ہو گا (جیسا تو نے خواب میں دیکھا ہے کہ) تیرا رب تجھے (اپنے کام کے لیے) منتخب کرے گا اور تجھے باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھائے گا اور تیرے اوپر اور آل یعقوبؑ پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے وہ تیرے بزرگوں، ابراہیمؑ اور اسحاقؑ پر کر چکا ہے، یقینًا تیرا رب علیم اور حکیم ہے۔ 6
حقیقت یہ ہے کہ یوسفؑ اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں اِن پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ 7
یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا “یہ یوسُفؑ اور اس کا بھائی، دونوں ہمارے والد کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں۔ سچی بات ہے کہ ہمارے ابا جان بالکل ہی بہک گئے ہیں۔ 8
چلو یوسُف کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو تا کہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے۔ یہ کام کر لینے کے بعد پھر نیک بن رہنا”۔ 9
اس پر ان میں سے ایک بولا “یوسُف کو قتل نہ کرو، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو۔کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا” 10
اس قرارداد پر انہوں نے جا کر اپنے باپ سے کہا “ابا جان، کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملہ میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیرخواہ ہیں؟ 11
کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجیے، کچھ چَرچُگ لے گا اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں۔ 12
باپ نے کہا “تمہارا اسے لیجانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے جبکہ تم اس سے غافل ہو۔ 13
انہوں نے جواب دیا “اگر ہمارے ہوتے ہوئے اسے بھیڑیے نے کھا لیا، جبکہ ہم ایک جتھا ہیں، تب تو ہم بڑے ہی نکمّے ہوں گے” 14
اِس طرح اصرار کر کے جب وہ اُسے لے گئے اور انہوں نے طے کر لیا کہ اسے ایک اندھے کنویں میں چھوڑ دیں، تو ہم نے یوسف کو وحی کی کہ “ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتائے گا، یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں” 15
شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے 16
اور کہا “ابّا جان، ہم دَوڑ کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے اور یوست کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آ کر اسے کھا گیا۔ آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچّے ہی ہوں”۔ 17
اور وہ یوسُف کے قمیص پر جھُوٹ مُوٹ کا خون لگا کر لیے آئے تھے۔ یہ سن کر ان کے باپ نے کہا “بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا ہے۔ اچھّا، صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا، جو بات تم بنا رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے”۔ 18
اُدھر ایک قافلہ آیا اور اُس نے اپنے سقّے کو پانی لانے کے لیے بھیجا۔ سقّے نے جو کنویں میں ڈول ڈالا تو (یوسفؑ کو دیکھ کر) پکار اُٹھا “مبارک ہو یہاں تو ایک لڑکا ہے”۔ ان لوگوں نے اسے کو مال تجارت سمجھ کر چھُپا لیا، حالانکہ جو کچھ وہ کر رہے تھے خدا اس سے باخبر تھا۔ 19
آخرکار انہوں نے اس کو تھوڑی سی قیمت پر چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا اور اس کی قیمیت کے معاملہ میں کچھ زیادہ کے اُمیدوار نہ تھے۔ 20
مصر کے جس شخص نے اسے خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا “اِس کو اچھی طرح رکھنا، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اِسے بیٹا بنا لیں”۔ اس طرح ہم نے یوسُفؑ کے لیے اُس سرزمین میں قدم جمانے کی صُورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔ اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں 21
اور جب وہ اپنی پُوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم عطا کی، اِس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں۔ 22
جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اُس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی “آجا”۔ یوسُفؑ نے کہا “خدا کی پناہ، میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی ( اور میں یہ کام کروں!) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے”۔ 23
وہ اُس کی طرف بڑھی اور یوسف بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا۔ ایسا ہوا، تاکہ ہم اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کر دیں، درحقیقت وہ ہمارے چُنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔ 24
آخر کار یوسُف اور وہ آگے پیچھے دورازے کی طرف بھاگے اور اس نے پیچھے سے یُوسُفؑ کا قمیص (کھینچ کر) پھاڑ دیا۔ دروازے پر دونوں نے اس کے شوہر کو موجود پایا۔ اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی، “کیا سزا ہے اس شخص کی جو تیری گھر والی پر نیت خراب کرے؟ اِس کے سوا اور کیا سزا ہو سکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے”۔ 25
یُوسُفؑ نے کہا “یہی مجھے پھانسنے کی کوشش کر رہی تھی” اس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے (قرینے کی) شہادت پیش کی کہ “اگر یُوسُفؑ کا قمیص آگے سے پھٹا ہو تو عورت سچّی ہے اور یہ جھُوٹا، 26
اور اگر اس کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہو تو عورت جھُوٹی ہے اور یہ سچّا۔ 27
جب شوہر نے دیکھا کہ یُوسُف کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہے تو اس نے کہا “یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں، واقعی بڑے غضب کی ہوتی ہیں تمہاری چالیں۔ 28
یُوسُفؑ! اس معاملے سے درگزر کر اور اے عورت، تو اپنے قصُور کی معافی مانگ، تو ہی اصل میں خطاکار تھی۔ 29
شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ “عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبّت نے اس کو بےقابو کر رکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے”۔ 30
اس نے جو اُن کی یہ مکّارانہ باتیں سُنیں تو اُن کو بُلاوا بھیج دیا اور ان کے لیے تکیہ دار مجلس آراستہ کی اور ضیافت میں ہر ایک کے آگے ایک ایک چھُری رکھ دی۔ (پھر عین اس وقت جبکہ وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھیں) اس نے یوسُفؑ کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ جب ان عورتوں کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بے ساختہ پکار اٹھیں “حاشالِلہ، یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے” 31
عزیز کی بیوی نے کہا “دیکھ لیا! یہ ہے وہ شخص جس کے معاملہ میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں۔ بے شک میں نے اس رِجہانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا۔ اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہو گا۔ 32
یوسُفؑ نے کہا “اے میرے رب، قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھے سے چاہتے ہیں۔ اور اگر تو نے ان کی چالاکیوں کو مجھے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں گا 33
اس کے رب نے اس کی دُعا قبول کی اور اُن عورتوں کی چالیں اس سے دفع کر دیں، بے شک وہی ہے جو سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے 34
پھر ان لوگوں کو یہ سُوجھی کہ ایک مدّت کے لیے اسے قید کر دیں حالانکہ وہ (اس کی پاکدامنی اور خود اپنی عورتوں کے بُرے اطوار کی) صریح نشانیاں دیکھ چکے تھے۔ 35
قید خانہ میں دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے۔ ایک روز اُن میں سے ایک نے اُس سے کہا “میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں” دُوسرے نے کہا “میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں” دونوں نے کہا “ہمیں اس کی تعبیر بتائیے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں” 36
یوسُفؑ نے کہا: “ یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں اِن خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ یہ علم اُن عُلوم میں سے ہے جو میرے رب سے مجھے عطا کیے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ میں نے اُن لوگوں کا طریقہ چھوڑ کر جو اللہ پر اہمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں، 37
اپنے بزرگوں، ابراہیمؑ اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائیں۔ درحقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے 38
اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ 39
اُس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ 40
اے زنداں کے ساتھیو، تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم میں سے یہ ہے کہ تم میں سے ایک تو اپنے رب (شاہِ مصر) کو شراب پلائے گا، رہا دُوسرا تو اسے سُولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ فیصلہ ہو گیا اُس بات کو جو تم پُوچھ رہے تھے۔ 41
پھر اُن میں سے جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے یُوسُفؑ نے کہا کہ “اپنے رب (شاہ مصر) سے میرا ذکر کرنا”۔ مگر شیطان نے اسے ایسا غفلت میں ڈالا کہ وہ اپنے رب (شاہِ مصر) سے اس کا ذکر کرنا بھُول گیا اور یُوسُفؑ کئی سال قیدخانے میں پڑا رہا۔ 42
ایک روز بادشاہ نے کہا “میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں، اور اناج کی سات بالیں ہری ہیں اور دُوسری سات سُوکھی۔ اے اہل دربار، مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو”۔ 43
لوگوں نے کہا “یہ تو پریشان خوابوں کی باتیں ہیں اور ہم اس طرح کے خوابوں کا مطلب نہیں جانتے”۔ 44
اُن دو قیدیوں میں سے جو شخص بچ گیا تھا اور اُسے ایک مدّتِ دراز کے بعد اب بات یاد آئی، اُس نے کہا “میں آپ حضرات کو اس کی تاویل بتاتا ہوں، مجھے ذرا (قید خانے میں یوسفؑ کے پاس) بھیج دیجیے”۔ 45
اس نے جا کر کہا “یوسُف، اے سراپا راستی، مجھے اس خواب کا مطلب نتا کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات سوکھی۔ شاید کہ میں اُن لوگوں کے پاس واپس جاؤں اور شاید کہ وہ جان لیں”۔ 46
یُوسُفؑ نے کہا “سات برس تک لگاتار تم لوگ کھیتی باڑی کرتے رہو گے۔ اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو اُن میں سے بس تھوڑا سا حصہ، جو تمہاری خوراک کے کام آئے، نکال لو اور باقی کو اس کیا بالوں ہی میں رہنے دو۔] 47
پھر سات برس بہت سخت آئیں گے۔ اُس زمانے میں وہ سب غلہ کھا لیا جائے گا جو تم اُس وقت کے لیے جمع کرو گے اگر کچھ بچے گا تو بس وہی جو تم نے محفوظ کر رکھا ہو۔ 48
اس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے گا جس میں بارانِ رحمت سے لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی اور وہ رَس نچوڑیں گے”۔ 49
بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ۔ مگر جب شاہی فرستادہ یوسف کے پاس پہنچا تو اس نے کہا “اپنے رب کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ اُن عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ میرا رب تو ان کی مکّاری سے واقف ہی ہے”۔ 50
اس پر بادشاہ نے ان عورتوں سے دریافت کیا “تمہارا کیا تجربہ ہے اُس وقت جب تم نے یوسف کو رِجہانے کی کوشش کی تھی”؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا “حاشا لِلہ، ہم نے تو اُس میں بدی کا شائبہ تک نہ پایا”۔ عزیز کی بیوی بول اُٹھی “اب حق کھل چکا ہے، وہ میں ہی تھی جس نے اُس کو پھُسلانے کی کوشش کی تی، بے شک وہ بالکل سچّا ہے”۔ 51
یوسُفؑ نے کہا) اس سے میری غرض یہ تھی کہ (عزیز) یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اس کی خیانت نہیں کی تھی، اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ان کی چالوں کو اللہ کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا۔ 52
میں کچھ اپنے نفس کی براءت نہیں کر رہا، نفس تو بدی پر اُکسَاتا ہی ہے اِلّا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو، بے شک میرا رب بڑا غفور رحیم ہے۔ 53
بادشاہ نے کہا “اُنہیں میرے پاس لاؤ تا کہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کر لوں”۔جب یوسُفؑ نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا “اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے”۔ 54
یوسُفؑ نے کہا “ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں”۔ 55
اس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یوسُفؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی ، وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا۔ 56
اور آخرت کا اجر اُن لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور خداترسی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 57
یوسُفؑ کے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے ۔ اس نے انہیں پہنچان لیا مگر وہ اس سے ناآشنا تھے۔ 58
پھر جب اس نے ان کا سامان تیار کروا دیا تو چلتے وقت ان سے کہا “اپنے سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا۔ دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں۔ 59
اگر تم اسے نہ لاؤ گے تو میرے پاس تمہارے لیے کوئی غلّہ نہیں ہے بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا” 60
انہوں نے کہا “ہم کوشش کریں گے کہ والد صاحب اسے بھیجنے پر راضی ہو جائیں، اور ہم ایسا ضرور کریں گے” 61
یوسُفؑ نے اپنے غلاموں کو اشارہ کیا کہ “ان لوگوں نے غلّے کے عوض جو مال دیا ہے وہ چُپکے سے ان کے سامان ہی میں رکھ دو”۔ یہ یوسُفؑ نے اس اُمید پر کیا کہ گھر واپس پہنچ کر وہ اپنا واپس پایا ہُوا مال پہچان جائیں گے (یا اِس فیاضی پر احسان مند ہوں گے) اور عجب نہیں کہ پھر پلٹیں 62
جب وہ اپنے باپ کے پاس گئے تو کہا “ابّا جان، آئندہ ہم کو غلّہ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے تا کہ ہم غلّہ لے کر آئیں اور اس کی حفاظت کے ہم ذمّہ دار ہیں”۔ 63
باپ نے جواب دیا “کیا میں اُس کے معاملہ میں تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا اِس سے پہلے اُس کے بھائی کے معاملہ میں کر چکا ہوں؟ اللہ ہی بہتر محافظ ہے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے” 64
پھر جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کا مال بھی انہیں واپس کر دیا گیا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ پُکار اٹھے “ابّا جان اور ہمیں کیا چاہیے، دیکھیے یہ ہمارا مال بھی ہمیں واپس کر دیا گیا ہے بس اب ہم جائیں گے اور اپنے اہل و عیال کےلیے رسد لے آئیں گے، اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور اور ایک بارِ شتر اور زیادہ بھی لے آئیں گے، اتنے غلّہ کا اضافہ آسانی سے ہو جائے گا”۔ 65
ان کے باپ نے کہا “میں اس کو ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے نام سے مجھ کو پیمان نہ دے دو کہ اِسے میرے پاس ضرور واپس لاؤ گے اِلّا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ”۔ پھر انہوں نے اس کو اپنے اپنے پیمان دے دیے تو اس نے کہا “دیکھو، ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے”۔ 66
پھر اس نے کہا “میرے بچّو، مصر کے دار السلطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا۔ مگر میں اللہ کی مشیّت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اُس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پر کرے۔ 67
اور واقعہ بھی یہی ہُوا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق شہر میں (متفرق دروازوں سے) داخل ہوئے تو اس کی یہ احتیاطی تدبیر اللہ کی مشیّت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آ سکی۔ ہاں بس یعقوبؑ کے دل میں جو ایک کھٹک تھی اسے دُور کرنے کے لیے اس نے اپنی سی کوشش کر لی۔ بے شک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحب علم تھا مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں۔ 68
یہ لوگ یوسُفؑ کے حضُور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلا لیا اور اسے بتا دیا کہ “میں تیرا وہی بھائی ہوں (جو کھو گیا تھا)۔ اب تو اُن باتوں کا غم نہ کر جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں” 69
جب یوسُفؑ ان بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا۔ پھر ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا “اے قافلے والو، تم لوگ چور ہو” 70
انہوں نے پلٹ کر پوچھا “تمہاری کیا چیز کھو گئی ہے”؟ 71
سرکاری ملازموں نے کہا “بادشاہ کا پیمانہ ہم کو نہیں ملتا” (اور ان کے جمعدار نے کہا) “جو شخص لا کر دے گا اُس کے لیے ایک بارِ شتر انعام ہے، اس کا میں ذمّہ لیتا ہوں”۔ 72
ان بھائیوں نے کہا “خدا کی قسم، تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے ہیں اور ہم چوریاں کرنے والے لگ نہیں ہیں”۔ 73
اُنہوں نے کہا “اچھّا، اگر تمہاری بات جھُوٹی نکلی تو چور کی کیا سزا ہے”؟ 74
اُنہوں نے کہا “اُس کی سزا؟ جس کے سامان میں سے چیز نکلے وہ آپ ہی اپنی سزا میں رکھ لیا جائے، ہمارے ہاں تو ایسے ظالموں کو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے۔ 75
تب یوسُفؑ نے اپنے بھائی سے پہلے اُن کی خُرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خُرجی سے گم شدہ چیز برآمد کر لی، اس طرح ہم نے یوسُفؑ کی تائید اپنی تدبیر سے کی، اُس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون) میں اپنے بھائی کو پکڑتا الّا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔ ہم جس کےدرجے چاہتے ہیں بلند کر دیتے ہیں، اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحبِ علم سے بالا تر ہے۔ 76
ان بھائیوں نے کہا “یہ چوری کرے تو کچھ تعجّب کی بات بھی نہیں، اس سے پہلے اس کا بھائی (یُوسُفؑ) بھی چوری کر چکا ہے” یوسُفؑ ان کی یہ بات سُن کر پی گیا، حقیقت ان پر نہ کھولی، بس (زیرِ لب) اتنا کہکر رہ گیا کہ “بڑے ہی بُرے ہو تم لوگ، (میرے منہ در منہ مجھ پر) جو الزام تم لگا رہے ہو اس کی حقیقت خدا خوب جانتا ہے”۔ 77
انہوں نے کہا “اے سردار ذی اقتدار (عزیز)، اس کا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے، اس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے، ہم آپ کو بڑا ہی نیک نفس انسان پاتے ہیں”۔ 78
یوسُفؑ نے کہا “پناہ بخدا، دوسرے شخص کو ہم کیسے رکھ سکتے ہیں۔ جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے اس کو چھوڑ کر دُوسرے کو رکھیں گے تو ہم ظالم ہوں گے۔ 79
جب وہ یوسُفؑ سے مایوس ہو گئے تو ایک گوشے میں جا کر آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا “تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے والد تم سے خدا کے نام پر کیا عہد وپیمان لے چکے ہیں اور اس سے پہلے یوسُفؑ کے معاملہ میں جو زیادتی تم کر چکے ہو وہ بھی معلوم ہے۔ اب میں تو یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا جب تک میرے والد مجھے اجازت نہ دیں، یا پھر اللہ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ فرما دے کہ وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ 80
تم جا کر اپنے والد سے کہو کہ “ابّا جان، آپ کے صاحبزادے نے چوری کی ہے ، ہم نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا، جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے بس وہی ہم بیان کر رہے ہیں، اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کر سکتے تھے۔ 81
آپ اُس بستی کے لوگوں سے پوچھ لیجیے جہاں ہم تھے، اُس قافلے سے دریافت کر لیجیے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں۔ ہم اپنے بیان میں بالکل سچّے ہیں”۔ 82
باپ نے یہ داستان سن کر کہا “دراصل تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک اور بڑی بات کو سہل بنا دیا۔ اچھّا میں اس پر بھی صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا۔ کیا بعید ہے کہ اللہ ان سب کو مجھ سے لا ملائے، وہ سب کچھ جانتا ہے اور اس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں”۔ 83
پھر وہ ان کی طرف سے منہ پھیر کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ “ہائے یوسُف!”۔ وہ دل ہی دل یں غم سے گھٹا جا رہا تھا اور اس کی آنکھیں سفید پڑ گئی تھیں 84
بیٹوں نے کہا “خدارا! آپ تو بس یوسُف ہی کو یاد کیے جاتے ہیں۔ نوبت یہ آ گئی ہے کہ اس کے غم میں اپنے آپ کو گھُلا دیں گے یا اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے”۔ 85
اُس نے کہا “ میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا، اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم نہیں ہو۔ 86
میرے بچّو! جا کر یوسُفؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہُوا کرتے ہیں۔ 87
جب یہ لوگ مصر جا کر یوسُفؑ کی پیشی میں داخل ہوئے تو انہوں نے عرض کیا کہ “اے سردار با اقتدار، ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت مصیبت میں مُبتلا ہیں، اور ہم کچھ حقیر سے پُونجی لے کر آئے ہیں، آپ ہمیں بھرپور غلّہ عنایت فرمائیں اور ہم کو خیرات دیں، اللہ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہے”۔ 88
یہ سن کر یوسُفؑ سے نہ رہا گیا) اُس نے کہا “تمہیں کچھ یہ بھی معلوم ہے کہ تم نے یوسفؑ اور اُس کے بھائیوں کے ساتھ کیا کیا تھا جبکہ تم نادان تھے”؟ 89
وہ چَونک کر بولے “ ہائیں! کیا تم یوسُفؑ ہو”؟ اُس نے کہا ہاں، میں یوسُف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقوٰی اور صبر سے کام لے تو اللہ کے ہاں ایسے نیک لوگوں کا اجر مارا نہیں جاتا”۔ 90
انہوں نے کہا “بخدا کہ تم کو اللہ نے ہم پر فضیلت بخشی اور واقعی ہم خطاکار تھے”۔ 91
اس نے جواب دیا “آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ 92
جاؤ، میرا یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو، اُن کی بینائی پلٹ آئے گی، اور اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ”۔ 93
جب یہ قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں ) کہا “میں یوسف کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں، تم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا ہوں” 94
گھر کے لوگ بولے “خدا کی قسم، آپ ابھی تک اپنے اسی پُرانے خبط میں پڑے ہوئے ہیں”۔ 95
پھر جب خوشخبری لانے والا آیا تو اس نے یوسُفؑ کا قمیص یعقوبؑ کے مُنہ پر ڈال دیا اور یکایک اس کی بینائی عود کر آئی۔ تب اس نے کہا “میں تم سے کہتا نہ تھا؟ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے”۔ 96
سب بول اُٹھے “ابّا جان، آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لیے دُعا کریں، واقعی ہم خطاکار تھے” 97
اُس نے کہا “میں اپنے رب سے تمہارے لیے معافی کی درخواست کروں گا، وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے” 98
پھر جب یہ لوگ یوسُفؑ کے پاس پہنچے تو اُس نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور (اپنے کنبے والوں سے) سے کہا “چلو، اب شہر میں چلو، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے”۔ 99
شہر میں داخل ہونے کے بعد ) اس نے اپنے والدین کو اُٹھا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اور سب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں جھُک گئے۔ یوسُفؑ نے کہا “ابّا جان، یہ تعبیر ہے میرے اس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا، میرے رب نے اسے حقیقت بنا دیا۔ اس کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے قید خانے سے نکالا، اور آپ لوگوں کو صِحرا سے لا کر مجھ سے ملایا حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرا رب غیرمحسوس تدبیروں سے اپنی مشیّت پوری کرتا ہے بے شک وہ علیم اور حکیم ہے 100
اے میرے رب! تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا۔ زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دُنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجام کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا”۔ 101
اے محمد! یہ قصّہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں ورنہ تم اس وقت موجود نہ تھے جب یوسُفؑ کے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کر کے سازش کی تھی۔ 102
مگر تم خواہ کتنا ہی چاہو ان میں سے اکثر لوگ مان کر دینے والے نہیں ہیں۔ 103
حالانکہ تم اس خدمت پر ان سے کوئی اُجرت بھی نہیں مانگتے ہو، یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے۔ 104
زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے ہیں اور ذرا توجّہ نہیں کرتے۔ 105
ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ 106
کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی یا بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ان پر نہ آ جائے گی؟ 107
تم ان سے صاف کہدو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بُلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھ بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں” 108
اے محمد! تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب انسان ہی تھے، اور اِنہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے، اور اُنہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے۔ پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اُن قوموں کا انجام اِنہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں؟ یقینًا آخرت کا گھر اُن لوگوں کے لیے اَور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے (پیغمبروں کی بات مان کر) تقوٰی کی روش اختیار کی۔ کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے؟ 109
پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ وہ مدّتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سُن کر نہ دیا) یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہو گئے اور لوگوں سے بھی سمجھ لیا کہ اُن سے جھُوٹ بولا گیا تھا، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔ پھر جب ایسا موقع آ جاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا۔ 110
اگلے لوگوں کے ان قصّوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے۔ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت۔ 111
 

قسیم حیدر

محفلین
نسورۃ یوسف کے معانی کی ترجمانی

سورۃ یوسف کے معانی کی ترجمانی
ال ر ، یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف بیان کرتی ہے۔
1
ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تا کہ تم (اہل عرب) اس کو اچھی طرح سمجھ سکو 2
اے محمد، ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہتین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں ورنہ اس سے پہلے تو (ان چیزوں سے) تم بالکل ہی بے خبر تھے۔ 3
یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب یوسفؑ نے اپنے باپ سے کہا “ابا جان، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سوُرج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں”۔ 4
جواب میں اس کے باپ نے کہا، “بیٹا، اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سُنانا ورنہ وہ تیرے درپے آزار ہو جائیں گے، حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھُلا دشمن ہے 5
اور ایسا ہی ہو گا (جیسا تو نے خواب میں دیکھا ہے کہ) تیرا رب تجھے (اپنے کام کے لیے) منتخب کرے گا اور تجھے باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھائے گا اور تیرے اوپر اور آل یعقوبؑ پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے وہ تیرے بزرگوں، ابراہیمؑ اور اسحاقؑ پر کر چکا ہے، یقینًا تیرا رب علیم اور حکیم ہے۔ 6
حقیقت یہ ہے کہ یوسفؑ اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں اِن پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ 7
یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا “یہ یوسُفؑ اور اس کا بھائی، دونوں ہمارے والد کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں۔ سچی بات ہے کہ ہمارے ابا جان بالکل ہی بہک گئے ہیں۔ 8
چلو یوسُف کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو تا کہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے۔ یہ کام کر لینے کے بعد پھر نیک بن رہنا”۔ 9
اس پر ان میں سے ایک بولا “یوسُف کو قتل نہ کرو، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو۔کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا” 10
اس قرارداد پر انہوں نے جا کر اپنے باپ سے کہا “ابا جان، کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملہ میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیرخواہ ہیں؟ 11
کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجیے، کچھ چَرچُگ لے گا اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں۔ 12
باپ نے کہا “تمہارا اسے لیجانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے جبکہ تم اس سے غافل ہو۔ 13
انہوں نے جواب دیا “اگر ہمارے ہوتے ہوئے اسے بھیڑیے نے کھا لیا، جبکہ ہم ایک جتھا ہیں، تب تو ہم بڑے ہی نکمّے ہوں گے” 14
اِس طرح اصرار کر کے جب وہ اُسے لے گئے اور انہوں نے طے کر لیا کہ اسے ایک اندھے کنویں میں چھوڑ دیں، تو ہم نے یوسف کو وحی کی کہ “ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتائے گا، یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں” 15
شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے 16
اور کہا “ابّا جان، ہم دَوڑ کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے اور یوست کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آ کر اسے کھا گیا۔ آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچّے ہی ہوں”۔ 17
اور وہ یوسُف کے قمیص پر جھُوٹ مُوٹ کا خون لگا کر لیے آئے تھے۔ یہ سن کر ان کے باپ نے کہا “بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا ہے۔ اچھّا، صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا، جو بات تم بنا رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے”۔ 18
اُدھر ایک قافلہ آیا اور اُس نے اپنے سقّے کو پانی لانے کے لیے بھیجا۔ سقّے نے جو کنویں میں ڈول ڈالا تو (یوسفؑ کو دیکھ کر) پکار اُٹھا “مبارک ہو یہاں تو ایک لڑکا ہے”۔ ان لوگوں نے اسے کو مال تجارت سمجھ کر چھُپا لیا، حالانکہ جو کچھ وہ کر رہے تھے خدا اس سے باخبر تھا۔ 19
آخرکار انہوں نے اس کو تھوڑی سی قیمت پر چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا اور اس کی قیمیت کے معاملہ میں کچھ زیادہ کے اُمیدوار نہ تھے۔ 20
مصر کے جس شخص نے اسے خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا “اِس کو اچھی طرح رکھنا، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اِسے بیٹا بنا لیں”۔ اس طرح ہم نے یوسُفؑ کے لیے اُس سرزمین میں قدم جمانے کی صُورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔ اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں 21
اور جب وہ اپنی پُوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم عطا کی، اِس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں۔ 22
جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اُس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی “آجا”۔ یوسُفؑ نے کہا “خدا کی پناہ، میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی ( اور میں یہ کام کروں!) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے”۔ 23
وہ اُس کی طرف بڑھی اور یوسف بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا۔ ایسا ہوا، تاکہ ہم اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کر دیں، درحقیقت وہ ہمارے چُنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔ 24
آخر کار یوسُف اور وہ آگے پیچھے دورازے کی طرف بھاگے اور اس نے پیچھے سے یُوسُفؑ کا قمیص (کھینچ کر) پھاڑ دیا۔ دروازے پر دونوں نے اس کے شوہر کو موجود پایا۔ اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی، “کیا سزا ہے اس شخص کی جو تیری گھر والی پر نیت خراب کرے؟ اِس کے سوا اور کیا سزا ہو سکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے”۔ 25
یُوسُفؑ نے کہا “یہی مجھے پھانسنے کی کوشش کر رہی تھی” اس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے (قرینے کی) شہادت پیش کی کہ “اگر یُوسُفؑ کا قمیص آگے سے پھٹا ہو تو عورت سچّی ہے اور یہ جھُوٹا، 26
اور اگر اس کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہو تو عورت جھُوٹی ہے اور یہ سچّا۔ 27
جب شوہر نے دیکھا کہ یُوسُف کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہے تو اس نے کہا “یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں، واقعی بڑے غضب کی ہوتی ہیں تمہاری چالیں۔ 28
یُوسُفؑ! اس معاملے سے درگزر کر اور اے عورت، تو اپنے قصُور کی معافی مانگ، تو ہی اصل میں خطاکار تھی۔ 29
شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ “عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبّت نے اس کو بےقابو کر رکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے”۔ 30
اس نے جو اُن کی یہ مکّارانہ باتیں سُنیں تو اُن کو بُلاوا بھیج دیا اور ان کے لیے تکیہ دار مجلس آراستہ کی اور ضیافت میں ہر ایک کے آگے ایک ایک چھُری رکھ دی۔ (پھر عین اس وقت جبکہ وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھیں) اس نے یوسُفؑ کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ جب ان عورتوں کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بے ساختہ پکار اٹھیں “حاشالِلہ، یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے” 31
عزیز کی بیوی نے کہا “دیکھ لیا! یہ ہے وہ شخص جس کے معاملہ میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں۔ بے شک میں نے اس رِجہانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا۔ اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہو گا۔ 32
یوسُفؑ نے کہا “اے میرے رب، قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھے سے چاہتے ہیں۔ اور اگر تو نے ان کی چالاکیوں کو مجھے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں گا 33
اس کے رب نے اس کی دُعا قبول کی اور اُن عورتوں کی چالیں اس سے دفع کر دیں، بے شک وہی ہے جو سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے 34
پھر ان لوگوں کو یہ سُوجھی کہ ایک مدّت کے لیے اسے قید کر دیں حالانکہ وہ (اس کی پاکدامنی اور خود اپنی عورتوں کے بُرے اطوار کی) صریح نشانیاں دیکھ چکے تھے۔ 35
قید خانہ میں دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے۔ ایک روز اُن میں سے ایک نے اُس سے کہا “میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں” دُوسرے نے کہا “میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں” دونوں نے کہا “ہمیں اس کی تعبیر بتائیے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں” 36
یوسُفؑ نے کہا: “ یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں اِن خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ یہ علم اُن عُلوم میں سے ہے جو میرے رب سے مجھے عطا کیے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ میں نے اُن لوگوں کا طریقہ چھوڑ کر جو اللہ پر اہمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں، 37
اپنے بزرگوں، ابراہیمؑ اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائیں۔ درحقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے 38
اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ 39
اُس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ 40
اے زنداں کے ساتھیو، تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم میں سے یہ ہے کہ تم میں سے ایک تو اپنے رب (شاہِ مصر) کو شراب پلائے گا، رہا دُوسرا تو اسے سُولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ فیصلہ ہو گیا اُس بات کو جو تم پُوچھ رہے تھے۔ 41
پھر اُن میں سے جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے یُوسُفؑ نے کہا کہ “اپنے رب (شاہ مصر) سے میرا ذکر کرنا”۔ مگر شیطان نے اسے ایسا غفلت میں ڈالا کہ وہ اپنے رب (شاہِ مصر) سے اس کا ذکر کرنا بھُول گیا اور یُوسُفؑ کئی سال قیدخانے میں پڑا رہا۔ 42
ایک روز بادشاہ نے کہا “میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں، اور اناج کی سات بالیں ہری ہیں اور دُوسری سات سُوکھی۔ اے اہل دربار، مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو”۔ 43
لوگوں نے کہا “یہ تو پریشان خوابوں کی باتیں ہیں اور ہم اس طرح کے خوابوں کا مطلب نہیں جانتے”۔ 44
اُن دو قیدیوں میں سے جو شخص بچ گیا تھا اور اُسے ایک مدّتِ دراز کے بعد اب بات یاد آئی، اُس نے کہا “میں آپ حضرات کو اس کی تاویل بتاتا ہوں، مجھے ذرا (قید خانے میں یوسفؑ کے پاس) بھیج دیجیے”۔ 45
اس نے جا کر کہا “یوسُف، اے سراپا راستی، مجھے اس خواب کا مطلب نتا کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات سوکھی۔ شاید کہ میں اُن لوگوں کے پاس واپس جاؤں اور شاید کہ وہ جان لیں”۔ 46
یُوسُفؑ نے کہا “سات برس تک لگاتار تم لوگ کھیتی باڑی کرتے رہو گے۔ اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو اُن میں سے بس تھوڑا سا حصہ، جو تمہاری خوراک کے کام آئے، نکال لو اور باقی کو اس کیا بالوں ہی میں رہنے دو۔] 47
پھر سات برس بہت سخت آئیں گے۔ اُس زمانے میں وہ سب غلہ کھا لیا جائے گا جو تم اُس وقت کے لیے جمع کرو گے اگر کچھ بچے گا تو بس وہی جو تم نے محفوظ کر رکھا ہو۔ 48
اس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے گا جس میں بارانِ رحمت سے لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی اور وہ رَس نچوڑیں گے”۔ 49
بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ۔ مگر جب شاہی فرستادہ یوسف کے پاس پہنچا تو اس نے کہا “اپنے رب کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ اُن عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ میرا رب تو ان کی مکّاری سے واقف ہی ہے”۔ 50
اس پر بادشاہ نے ان عورتوں سے دریافت کیا “تمہارا کیا تجربہ ہے اُس وقت جب تم نے یوسف کو رِجہانے کی کوشش کی تھی”؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا “حاشا لِلہ، ہم نے تو اُس میں بدی کا شائبہ تک نہ پایا”۔ عزیز کی بیوی بول اُٹھی “اب حق کھل چکا ہے، وہ میں ہی تھی جس نے اُس کو پھُسلانے کی کوشش کی تی، بے شک وہ بالکل سچّا ہے”۔ 51
یوسُفؑ نے کہا) اس سے میری غرض یہ تھی کہ (عزیز) یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اس کی خیانت نہیں کی تھی، اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ان کی چالوں کو اللہ کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا۔ 52
میں کچھ اپنے نفس کی براءت نہیں کر رہا، نفس تو بدی پر اُکسَاتا ہی ہے اِلّا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو، بے شک میرا رب بڑا غفور رحیم ہے۔ 53
بادشاہ نے کہا “اُنہیں میرے پاس لاؤ تا کہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کر لوں”۔جب یوسُفؑ نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا “اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے”۔ 54
یوسُفؑ نے کہا “ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں”۔ 55
اس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یوسُفؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی ، وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا۔ 56
اور آخرت کا اجر اُن لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور خداترسی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 57
یوسُفؑ کے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے ۔ اس نے انہیں پہنچان لیا مگر وہ اس سے ناآشنا تھے۔ 58
پھر جب اس نے ان کا سامان تیار کروا دیا تو چلتے وقت ان سے کہا “اپنے سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا۔ دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں۔ 59
اگر تم اسے نہ لاؤ گے تو میرے پاس تمہارے لیے کوئی غلّہ نہیں ہے بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا” 60
انہوں نے کہا “ہم کوشش کریں گے کہ والد صاحب اسے بھیجنے پر راضی ہو جائیں، اور ہم ایسا ضرور کریں گے” 61
یوسُفؑ نے اپنے غلاموں کو اشارہ کیا کہ “ان لوگوں نے غلّے کے عوض جو مال دیا ہے وہ چُپکے سے ان کے سامان ہی میں رکھ دو”۔ یہ یوسُفؑ نے اس اُمید پر کیا کہ گھر واپس پہنچ کر وہ اپنا واپس پایا ہُوا مال پہچان جائیں گے (یا اِس فیاضی پر احسان مند ہوں گے) اور عجب نہیں کہ پھر پلٹیں 62
جب وہ اپنے باپ کے پاس گئے تو کہا “ابّا جان، آئندہ ہم کو غلّہ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے تا کہ ہم غلّہ لے کر آئیں اور اس کی حفاظت کے ہم ذمّہ دار ہیں”۔ 63
باپ نے جواب دیا “کیا میں اُس کے معاملہ میں تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا اِس سے پہلے اُس کے بھائی کے معاملہ میں کر چکا ہوں؟ اللہ ہی بہتر محافظ ہے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے” 64
پھر جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کا مال بھی انہیں واپس کر دیا گیا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ پُکار اٹھے “ابّا جان اور ہمیں کیا چاہیے، دیکھیے یہ ہمارا مال بھی ہمیں واپس کر دیا گیا ہے بس اب ہم جائیں گے اور اپنے اہل و عیال کےلیے رسد لے آئیں گے، اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور اور ایک بارِ شتر اور زیادہ بھی لے آئیں گے، اتنے غلّہ کا اضافہ آسانی سے ہو جائے گا”۔ 65
ان کے باپ نے کہا “میں اس کو ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے نام سے مجھ کو پیمان نہ دے دو کہ اِسے میرے پاس ضرور واپس لاؤ گے اِلّا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ”۔ پھر انہوں نے اس کو اپنے اپنے پیمان دے دیے تو اس نے کہا “دیکھو، ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے”۔ 66
پھر اس نے کہا “میرے بچّو، مصر کے دار السلطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا۔ مگر میں اللہ کی مشیّت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اُس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پر کرے۔ 67
اور واقعہ بھی یہی ہُوا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق شہر میں (متفرق دروازوں سے) داخل ہوئے تو اس کی یہ احتیاطی تدبیر اللہ کی مشیّت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آ سکی۔ ہاں بس یعقوبؑ کے دل میں جو ایک کھٹک تھی اسے دُور کرنے کے لیے اس نے اپنی سی کوشش کر لی۔ بے شک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحب علم تھا مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں۔ 68
یہ لوگ یوسُفؑ کے حضُور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلا لیا اور اسے بتا دیا کہ “میں تیرا وہی بھائی ہوں (جو کھو گیا تھا)۔ اب تو اُن باتوں کا غم نہ کر جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں” 69
جب یوسُفؑ ان بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا۔ پھر ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا “اے قافلے والو، تم لوگ چور ہو” 70
انہوں نے پلٹ کر پوچھا “تمہاری کیا چیز کھو گئی ہے”؟ 71
سرکاری ملازموں نے کہا “بادشاہ کا پیمانہ ہم کو نہیں ملتا” (اور ان کے جمعدار نے کہا) “جو شخص لا کر دے گا اُس کے لیے ایک بارِ شتر انعام ہے، اس کا میں ذمّہ لیتا ہوں”۔ 72
ان بھائیوں نے کہا “خدا کی قسم، تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے ہیں اور ہم چوریاں کرنے والے لگ نہیں ہیں”۔ 73
اُنہوں نے کہا “اچھّا، اگر تمہاری بات جھُوٹی نکلی تو چور کی کیا سزا ہے”؟ 74
اُنہوں نے کہا “اُس کی سزا؟ جس کے سامان میں سے چیز نکلے وہ آپ ہی اپنی سزا میں رکھ لیا جائے، ہمارے ہاں تو ایسے ظالموں کو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے۔ 75
تب یوسُفؑ نے اپنے بھائی سے پہلے اُن کی خُرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خُرجی سے گم شدہ چیز برآمد کر لی، اس طرح ہم نے یوسُفؑ کی تائید اپنی تدبیر سے کی، اُس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون) میں اپنے بھائی کو پکڑتا الّا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔ ہم جس کےدرجے چاہتے ہیں بلند کر دیتے ہیں، اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحبِ علم سے بالا تر ہے۔ 76
ان بھائیوں نے کہا “یہ چوری کرے تو کچھ تعجّب کی بات بھی نہیں، اس سے پہلے اس کا بھائی (یُوسُفؑ) بھی چوری کر چکا ہے” یوسُفؑ ان کی یہ بات سُن کر پی گیا، حقیقت ان پر نہ کھولی، بس (زیرِ لب) اتنا کہکر رہ گیا کہ “بڑے ہی بُرے ہو تم لوگ، (میرے منہ در منہ مجھ پر) جو الزام تم لگا رہے ہو اس کی حقیقت خدا خوب جانتا ہے”۔ 77
انہوں نے کہا “اے سردار ذی اقتدار (عزیز)، اس کا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے، اس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے، ہم آپ کو بڑا ہی نیک نفس انسان پاتے ہیں”۔ 78
یوسُفؑ نے کہا “پناہ بخدا، دوسرے شخص کو ہم کیسے رکھ سکتے ہیں۔ جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے اس کو چھوڑ کر دُوسرے کو رکھیں گے تو ہم ظالم ہوں گے۔ 79
جب وہ یوسُفؑ سے مایوس ہو گئے تو ایک گوشے میں جا کر آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا “تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے والد تم سے خدا کے نام پر کیا عہد وپیمان لے چکے ہیں اور اس سے پہلے یوسُفؑ کے معاملہ میں جو زیادتی تم کر چکے ہو وہ بھی معلوم ہے۔ اب میں تو یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا جب تک میرے والد مجھے اجازت نہ دیں، یا پھر اللہ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ فرما دے کہ وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ 80
تم جا کر اپنے والد سے کہو کہ “ابّا جان، آپ کے صاحبزادے نے چوری کی ہے ، ہم نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا، جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے بس وہی ہم بیان کر رہے ہیں، اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کر سکتے تھے۔ 81
آپ اُس بستی کے لوگوں سے پوچھ لیجیے جہاں ہم تھے، اُس قافلے سے دریافت کر لیجیے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں۔ ہم اپنے بیان میں بالکل سچّے ہیں”۔ 82
باپ نے یہ داستان سن کر کہا “دراصل تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک اور بڑی بات کو سہل بنا دیا۔ اچھّا میں اس پر بھی صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا۔ کیا بعید ہے کہ اللہ ان سب کو مجھ سے لا ملائے، وہ سب کچھ جانتا ہے اور اس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں”۔ 83
پھر وہ ان کی طرف سے منہ پھیر کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ “ہائے یوسُف!”۔ وہ دل ہی دل یں غم سے گھٹا جا رہا تھا اور اس کی آنکھیں سفید پڑ گئی تھیں 84
بیٹوں نے کہا “خدارا! آپ تو بس یوسُف ہی کو یاد کیے جاتے ہیں۔ نوبت یہ آ گئی ہے کہ اس کے غم میں اپنے آپ کو گھُلا دیں گے یا اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے”۔ 85
اُس نے کہا “ میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا، اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم نہیں ہو۔ 86
میرے بچّو! جا کر یوسُفؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہُوا کرتے ہیں۔ 87
جب یہ لوگ مصر جا کر یوسُفؑ کی پیشی میں داخل ہوئے تو انہوں نے عرض کیا کہ “اے سردار با اقتدار، ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت مصیبت میں مُبتلا ہیں، اور ہم کچھ حقیر سے پُونجی لے کر آئے ہیں، آپ ہمیں بھرپور غلّہ عنایت فرمائیں اور ہم کو خیرات دیں، اللہ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہے”۔ 88
یہ سن کر یوسُفؑ سے نہ رہا گیا) اُس نے کہا “تمہیں کچھ یہ بھی معلوم ہے کہ تم نے یوسفؑ اور اُس کے بھائیوں کے ساتھ کیا کیا تھا جبکہ تم نادان تھے”؟ 89
وہ چَونک کر بولے “ ہائیں! کیا تم یوسُفؑ ہو”؟ اُس نے کہا ہاں، میں یوسُف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقوٰی اور صبر سے کام لے تو اللہ کے ہاں ایسے نیک لوگوں کا اجر مارا نہیں جاتا”۔ 90
انہوں نے کہا “بخدا کہ تم کو اللہ نے ہم پر فضیلت بخشی اور واقعی ہم خطاکار تھے”۔ 91
اس نے جواب دیا “آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ 92
جاؤ، میرا یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو، اُن کی بینائی پلٹ آئے گی، اور اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ”۔ 93
جب یہ قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں ) کہا “میں یوسف کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں، تم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا ہوں” 94
گھر کے لوگ بولے “خدا کی قسم، آپ ابھی تک اپنے اسی پُرانے خبط میں پڑے ہوئے ہیں”۔ 95
پھر جب خوشخبری لانے والا آیا تو اس نے یوسُفؑ کا قمیص یعقوبؑ کے مُنہ پر ڈال دیا اور یکایک اس کی بینائی عود کر آئی۔ تب اس نے کہا “میں تم سے کہتا نہ تھا؟ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے”۔ 96
سب بول اُٹھے “ابّا جان، آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لیے دُعا کریں، واقعی ہم خطاکار تھے” 97
اُس نے کہا “میں اپنے رب سے تمہارے لیے معافی کی درخواست کروں گا، وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے” 98
پھر جب یہ لوگ یوسُفؑ کے پاس پہنچے تو اُس نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور (اپنے کنبے والوں سے) سے کہا “چلو، اب شہر میں چلو، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے”۔ 99
شہر میں داخل ہونے کے بعد ) اس نے اپنے والدین کو اُٹھا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اور سب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں جھُک گئے۔ یوسُفؑ نے کہا “ابّا جان، یہ تعبیر ہے میرے اس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا، میرے رب نے اسے حقیقت بنا دیا۔ اس کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے قید خانے سے نکالا، اور آپ لوگوں کو صِحرا سے لا کر مجھ سے ملایا حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرا رب غیرمحسوس تدبیروں سے اپنی مشیّت پوری کرتا ہے بے شک وہ علیم اور حکیم ہے 100
اے میرے رب! تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا۔ زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دُنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجام کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا”۔ 101
اے محمد! یہ قصّہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں ورنہ تم اس وقت موجود نہ تھے جب یوسُفؑ کے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کر کے سازش کی تھی۔ 102
مگر تم خواہ کتنا ہی چاہو ان میں سے اکثر لوگ مان کر دینے والے نہیں ہیں۔ 103
حالانکہ تم اس خدمت پر ان سے کوئی اُجرت بھی نہیں مانگتے ہو، یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے۔ 104
زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے ہیں اور ذرا توجّہ نہیں کرتے۔ 105
ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ 106
کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی یا بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ان پر نہ آ جائے گی؟ 107
تم ان سے صاف کہدو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بُلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھ بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں” 108
اے محمد! تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب انسان ہی تھے، اور اِنہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے، اور اُنہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے۔ پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اُن قوموں کا انجام اِنہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں؟ یقینًا آخرت کا گھر اُن لوگوں کے لیے اَور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے (پیغمبروں کی بات مان کر) تقوٰی کی روش اختیار کی۔ کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے؟ 109
پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ وہ مدّتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سُن کر نہ دیا) یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہو گئے اور لوگوں سے بھی سمجھ لیا کہ اُن سے جھُوٹ بولا گیا تھا، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔ پھر جب ایسا موقع آ جاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا۔ 110
اگلے لوگوں کے ان قصّوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے۔ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت۔ 111
 

قسیم حیدر

محفلین
سورۃ الرعد کے معانی کی ترجمانی
ا۔ل۔م۔ر ۔ یہ کتابِ الٰہی کی آیات ہیں، اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے، مگر (تمہاری قوم کے) اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں۔
وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں، پھر وہ اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا، اور اُس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا ہے۔ اِس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقتِ مقرر تک کے لیے چل رہی ہے اور اللہ ہی اِس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے۔ وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔
اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے، اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دیے ہیں۔ اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے۔ ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں۔
اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خطّے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں۔ انگور کے باغ ہیں، کھیتیاں ہیں، کھُجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دہرے۔ سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کمتر۔ ان سب چیزوں میں بہت سے نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیںَ
اب اگر تمہیں تعجّب کرنا ہے تو تعجب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ “جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے”؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں۔ یہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔
یہ لوگ بھلائی سے پہلے برائی کے لیے جلدی مچا رہے ہیں، حالانکہ ان سے پہلے (جو لوگ اس روش پر چلے ہیں ان پر خدا کے عذاب کی) عبرت ناک مثالیں گزر چکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود ان کے ساتھ چشم پوشی سے کام لیتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا رب سخت سزا دینے والا ہے۔
یہ لوگ جنہوں نے تمہاری بات ماننے سے انکار کر دیا ہے، کہتے ہیں کہ “اِس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اُتری؟ تم تو محض خبردار کر دینے والے ہو، اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے۔
اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے۔ جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔ ہر چیز کے لیے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔
وہ پوشیدہ اور ظاہر، ہر چیز کا عالم ہے۔ وہ بزرگ ہے اور ہر حال میں بالاتر رہنے والا ہے۔
تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چھپا ہُوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو، اس کے لیے سب یکساں ہیں۔
ہر شخص کے آگے اور پیچھے اس کے مقرر کیے ہوئے نگران لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مدددگار ہو سکتا ہے۔
وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنہیں دیکھ کر تمہیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور امیدیں بھی بندھتی ہیں۔ وہی ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھاتا ہے۔
بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے۔ اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور (بسا اوقات) انہیں جس پر چاہتا ہے عین اُس حالت میں گرا دیتا ہے جبکہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ فی الواقع اس کی چال بڑٰ زبردست ہے۔
اسی کو پکارنا برحق ہے۔ رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ انہیں پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں۔ بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیرِ بے ہدف!
وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعًا و کرھًا سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اس کے آگے جھکتے ہیں۔
اِن سے پوچھو، آسمان و زمین کا رب کون ہے؟ کہو، اللہ۔ پھر ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھیرا لیا ہے جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے؟ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں؟ اور اگر ایسا نہیں تو کیا اِن کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اس کی وجہ سے اِن پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہو گیا؟ کہو، ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے، سب پر غالب۔
اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آ گئے۔ اور ایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اِسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔
جن لوگوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کر لی اُن کے لیے بھلائی ہے، اور جنہوں نے اسے قبول نہ کیا وہ اگر زمین کی ساری دولت کے مالک بھی ہوں اور اتنی ہی اور فراہم کر لیں تو وہ خدا کی پکڑ سے بچنے کے لیے اس سب کو فدیہ میں دے ڈالنے پر تیار ہو جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے بُری طرح حساب لیا جائے گا اور اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے، بہت بُرا ٹھکانہ
بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے رب کی اِس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں؟ نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں۔
اور ان کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اُسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔
اُن کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں برقرار رکھتے ہیں۔ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بُری طرح حساب نہ لیا جائے۔
اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے
یعنی ایسے باغ جو اُن کی ابدی قیامگاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباء و اجداد اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئیں گے
اور اُن سے کہیں گے کہ “تم پر سلامتی ہے۔ تم نے دُنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئے ہو”۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر۔
رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں، جو ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔
اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا رزق دیتا ہے۔ یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں، حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاعِ قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔
یہ لوگ جنہوں نے (رسالت محمدیﷺ) کو ماننے سے انکار کر دیا ہے کہتے ہیں “اِس شخص پر اِس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری”۔ کہو، اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے۔
ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے (اِس نبی کی دعوت کو) مان لیا ہے اور اُن کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہُوا کرتا ہے۔
پھر جن لوگوں نے دعوت حق کو مانا اور نیک عمل کیے وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لیے اچھا انجام ہے۔
اے محمدﷺ، اِسی شان سے ہم نے تم کو رسول بنا کر بھیجا ہے، ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں، تاکہ تم اِن لوگوں کو وہ پیغام سناؤ جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے، اِس حال میں کہ یہ اپنے نہایت مہربان خدا کے کافر بنے ہوئے ہیں۔ اِن سے کہو کہ وہی میرا رب ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی میرا ملجا و ماویٰ ہے۔
اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اُتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی، یا مُردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟ (اِس طرح کی نشانیاں دِکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پھر کی اہلِ ایمان (ابھی تک کفار کی طلب کے جواب میں کِسی نشانی کے ظہور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور یہ وہ جان کر) مایوس نہیں ہو گئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا۔ جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے اُن پر ان کے کرتُوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے، یا ان کے گھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو۔ یقینًا اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا
تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑیا جا چکا ہے، مگر میں نے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخرکار ان کو پکڑ لیا، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی
پھرکیا وہ جو ایک ایک متنفس کی کمائی پر نظر رکھتا ہے (اُس کے مقابلے میں یہ جسارتیں کی جا رہی ہیں کہ) لوگوں نے اُس کے کچھ شریک ٹھیرا رکھے ہیں؟ اے نبیﷺ، اِن سے کہو، (اگر واقعی وہ خدا کے اپنے بنائے ہوئے شریک ہیں تو) ذرا اُن کے نام لو کہ وہ کون ہیں؟ کیا تم اللہ کو ایک نئی بات کی خبر دے رہے ہو جسے وہ اپنی زمین میں نہیں جانتا؟ یا تم لوگ بس یونہی جو منہ میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کیا ہے ان کے لیے ان کی مکاریاں خوشنما بنا دی گئی ہیں اور وہ راہِ راست سے روک دیے گئے ہیں، پھر جس کو اللہ گمراہی میں پھینک دے اُسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے۔
ایسے لوگوں کے لیے دنیا کی زندگی ہی میں عذاب ہے، اور آخرت کا عذاب اُس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کوئی ایسا نہیں جو انہیں خدا سے بچانے والا ہو
خداترس انسانوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لازوال، یہ انجام ہے متقی لوگوں کا، اور منکرینِ حق کا انجام یہ ہے کہ ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے۔
اے نبیﷺ، جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اِس کتاب سے جو ہم نے تم پر نازل کی ہے، خوش ہیں اور مختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے۔ تم صاف کہہ دو کہ مجھے تو صرف اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھیراؤں۔ لہٰذا میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رجو ع ہے۔
اِسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ فرمانِ عربی تم پر نازل کیا ہے۔ اب اگر تم نے اِس علم کے باوجود جو تمہارے پاس آ چکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے
تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور اُن کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا۔ اور کسی رسول کی بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی خود لا دکھاتا۔ ہر دَور کے لیے ایک کتاب ہے۔ اللہ جو کچھ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے، امُّ الکتاب اُسی کے پاس ہے۔
اور اے نبیﷺ، جس بُرے انجام کی دھمکی ہم اِن لوگوں کو دے رہے ہیں اُس کا کوئی حصّہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھا لیں، بہرحال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دیا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اِس سرزمین پر چلے آ رہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آتے ہیں؟ اللہ حکومت کر رہا ہے، کوئی اس کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے والا نہیں ہے اور اُسے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔
اِن سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں وہ بھی بڑی بڑی چالیں چل چکے ہیں، مگر اصل فیصلہ کُن چال تو پوری کی پوری اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون کیا کچھ کمائی کر رہا ہے، اور عنقریب یہ منکرینِ حق دیکھ لیں گے کہ انجام کس کا بخیر ہوتا ہے۔
یہ منکرین کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہو، کہو “میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور پھر ہر اُس شخص کی گواہی جو کتابِ آسمانی کا علم رکھتا ہے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سورۃ الرعد کے معانی کی ترجمانی

سورۃ الرعد کے معانی کی ترجمانی
ا۔ل۔م۔ر ۔ یہ کتابِ الٰہی کی آیات ہیں، اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے، مگر (تمہاری قوم کے) اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں۔
وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں، پھر وہ اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا، اور اُس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا ہے۔ اِس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقتِ مقرر تک کے لیے چل رہی ہے اور اللہ ہی اِس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے۔ وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔
اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے، اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دیے ہیں۔ اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے۔ ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں۔
اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خطّے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں۔ انگور کے باغ ہیں، کھیتیاں ہیں، کھُجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دہرے۔ سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کمتر۔ ان سب چیزوں میں بہت سے نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیںَ
اب اگر تمہیں تعجّب کرنا ہے تو تعجب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ “جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے”؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں۔ یہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔
یہ لوگ بھلائی سے پہلے برائی کے لیے جلدی مچا رہے ہیں، حالانکہ ان سے پہلے (جو لوگ اس روش پر چلے ہیں ان پر خدا کے عذاب کی) عبرت ناک مثالیں گزر چکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود ان کے ساتھ چشم پوشی سے کام لیتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا رب سخت سزا دینے والا ہے۔
یہ لوگ جنہوں نے تمہاری بات ماننے سے انکار کر دیا ہے، کہتے ہیں کہ “اِس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اُتری؟ تم تو محض خبردار کر دینے والے ہو، اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے۔
اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے۔ جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔ ہر چیز کے لیے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔
وہ پوشیدہ اور ظاہر، ہر چیز کا عالم ہے۔ وہ بزرگ ہے اور ہر حال میں بالاتر رہنے والا ہے۔
تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چھپا ہُوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو، اس کے لیے سب یکساں ہیں۔
ہر شخص کے آگے اور پیچھے اس کے مقرر کیے ہوئے نگران لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مدددگار ہو سکتا ہے۔
وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنہیں دیکھ کر تمہیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور امیدیں بھی بندھتی ہیں۔ وہی ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھاتا ہے۔
بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے۔ اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور (بسا اوقات) انہیں جس پر چاہتا ہے عین اُس حالت میں گرا دیتا ہے جبکہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ فی الواقع اس کی چال بڑٰ زبردست ہے۔
اسی کو پکارنا برحق ہے۔ رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ انہیں پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں۔ بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیرِ بے ہدف!
وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعًا و کرھًا سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اس کے آگے جھکتے ہیں۔
اِن سے پوچھو، آسمان و زمین کا رب کون ہے؟ کہو، اللہ۔ پھر ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھیرا لیا ہے جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے؟ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں؟ اور اگر ایسا نہیں تو کیا اِن کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اس کی وجہ سے اِن پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہو گیا؟ کہو، ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے، سب پر غالب۔
اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آ گئے۔ اور ایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اِسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔
جن لوگوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کر لی اُن کے لیے بھلائی ہے، اور جنہوں نے اسے قبول نہ کیا وہ اگر زمین کی ساری دولت کے مالک بھی ہوں اور اتنی ہی اور فراہم کر لیں تو وہ خدا کی پکڑ سے بچنے کے لیے اس سب کو فدیہ میں دے ڈالنے پر تیار ہو جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے بُری طرح حساب لیا جائے گا اور اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے، بہت بُرا ٹھکانہ
بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے رب کی اِس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں؟ نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں۔
اور ان کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اُسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔
اُن کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں برقرار رکھتے ہیں۔ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بُری طرح حساب نہ لیا جائے۔
اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے
یعنی ایسے باغ جو اُن کی ابدی قیامگاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباء و اجداد اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئیں گے
اور اُن سے کہیں گے کہ “تم پر سلامتی ہے۔ تم نے دُنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئے ہو”۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر۔
رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں، جو ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔
اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا رزق دیتا ہے۔ یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں، حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاعِ قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔
یہ لوگ جنہوں نے (رسالت محمدیﷺ) کو ماننے سے انکار کر دیا ہے کہتے ہیں “اِس شخص پر اِس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری”۔ کہو، اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے۔
ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے (اِس نبی کی دعوت کو) مان لیا ہے اور اُن کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہُوا کرتا ہے۔
پھر جن لوگوں نے دعوت حق کو مانا اور نیک عمل کیے وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لیے اچھا انجام ہے۔
اے محمدﷺ، اِسی شان سے ہم نے تم کو رسول بنا کر بھیجا ہے، ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں، تاکہ تم اِن لوگوں کو وہ پیغام سناؤ جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے، اِس حال میں کہ یہ اپنے نہایت مہربان خدا کے کافر بنے ہوئے ہیں۔ اِن سے کہو کہ وہی میرا رب ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی میرا ملجا و ماویٰ ہے۔
اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اُتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی، یا مُردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟ (اِس طرح کی نشانیاں دِکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پھر کی اہلِ ایمان (ابھی تک کفار کی طلب کے جواب میں کِسی نشانی کے ظہور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور یہ وہ جان کر) مایوس نہیں ہو گئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا۔ جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے اُن پر ان کے کرتُوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے، یا ان کے گھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو۔ یقینًا اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا
تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑیا جا چکا ہے، مگر میں نے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخرکار ان کو پکڑ لیا، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی
پھرکیا وہ جو ایک ایک متنفس کی کمائی پر نظر رکھتا ہے (اُس کے مقابلے میں یہ جسارتیں کی جا رہی ہیں کہ) لوگوں نے اُس کے کچھ شریک ٹھیرا رکھے ہیں؟ اے نبیﷺ، اِن سے کہو، (اگر واقعی وہ خدا کے اپنے بنائے ہوئے شریک ہیں تو) ذرا اُن کے نام لو کہ وہ کون ہیں؟ کیا تم اللہ کو ایک نئی بات کی خبر دے رہے ہو جسے وہ اپنی زمین میں نہیں جانتا؟ یا تم لوگ بس یونہی جو منہ میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کیا ہے ان کے لیے ان کی مکاریاں خوشنما بنا دی گئی ہیں اور وہ راہِ راست سے روک دیے گئے ہیں، پھر جس کو اللہ گمراہی میں پھینک دے اُسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے۔
ایسے لوگوں کے لیے دنیا کی زندگی ہی میں عذاب ہے، اور آخرت کا عذاب اُس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کوئی ایسا نہیں جو انہیں خدا سے بچانے والا ہو
خداترس انسانوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لازوال، یہ انجام ہے متقی لوگوں کا، اور منکرینِ حق کا انجام یہ ہے کہ ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے۔
اے نبیﷺ، جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اِس کتاب سے جو ہم نے تم پر نازل کی ہے، خوش ہیں اور مختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے۔ تم صاف کہہ دو کہ مجھے تو صرف اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھیراؤں۔ لہٰذا میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رجو ع ہے۔
اِسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ فرمانِ عربی تم پر نازل کیا ہے۔ اب اگر تم نے اِس علم کے باوجود جو تمہارے پاس آ چکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے
تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور اُن کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا۔ اور کسی رسول کی بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی خود لا دکھاتا۔ ہر دَور کے لیے ایک کتاب ہے۔ اللہ جو کچھ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے، امُّ الکتاب اُسی کے پاس ہے۔
اور اے نبیﷺ، جس بُرے انجام کی دھمکی ہم اِن لوگوں کو دے رہے ہیں اُس کا کوئی حصّہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھا لیں، بہرحال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دیا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اِس سرزمین پر چلے آ رہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آتے ہیں؟ اللہ حکومت کر رہا ہے، کوئی اس کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے والا نہیں ہے اور اُسے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔
اِن سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں وہ بھی بڑی بڑی چالیں چل چکے ہیں، مگر اصل فیصلہ کُن چال تو پوری کی پوری اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون کیا کچھ کمائی کر رہا ہے، اور عنقریب یہ منکرینِ حق دیکھ لیں گے کہ انجام کس کا بخیر ہوتا ہے۔
یہ منکرین کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہو، کہو “میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور پھر ہر اُس شخص کی گواہی جو کتابِ آسمانی کا علم رکھتا ہے۔
 
Top