لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
ان اشعار کی تقطیع میں نے دو طرح سے کی ہے
1--- مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
یعنی سارے مصرعے ایک ہی بحر میں
مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل ف عو لن
لا زم تَ کِ دی کو م رَ رس تہ کُ ئ دِن ار
تن ہا گ ء کو اب ر ہُ تن ہا کُ ئ دن ار
مٹ جا ء گَ سَر گر ت رَ پت تر نَ گ سے گا
ہو در پَ ت رے نا ص یِ فر سا کُ ئ دن ار
2--- مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل/فعولن
مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل م فا عی ل
لا زم تَ کِ دی کو م رَ رس تہ کُ ئ دِن او ر
تن ہا گ ء کو اب ر ہُ تن ہا کُ ئ دن او ر
مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل ف عو لن
مٹ جا ء گَ سَر گر ت رَ پت تر نَ گ سے گا
مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل م فا عی ل
ہو در پَ ت رے نا ص یِ فر سا کُ ئ دن او ر
بحر کا نام کیا ہے اور کیا آخری رکن ‘ مفاعیل ‘ کو ‘ فعولن ‘ کیا جا سکتا ہے
افاعیل: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن / فعولان
بحر: ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف / مقصور
آخری رکن کو محذوف (فعولن) اور مقصور (فعولان یا مفاعیل) ہر دو طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔
وجہ تسمیہ
ہزج: بحر کا نام
مثمن: دونوں مصرعوں میں کل ملا کر آٹھ ارکان ہیں
اخرب: بنیادی رکن "مفاعیلن" پر خرم اور کف کا مرکب زحاف "خرب" استعمال کر کے اخرب فرع "مفعول" حاصل ہوئی۔
مکفوف: بنیادی رکن "مفاعیلن" پر زحاف "کف" استعمال کر کے مفاعیلن کا ساتواں حرف ساقط ہوا اور یوں مکفوف فرع "مفاعیل" حاصل ہوئی۔
محذوف: بنیادی رکن "مفاعیلن" پر زحاف "حذف" استعمال کر کے مفاعیلن کا آخری سببِ خفیف (یعنی آخری دو حروف) ساقط ہوئے اور یوں محذوف فرع "فعولن" حاصل ہوئی۔
مقصور: بنیادی رکن "مفاعیلن" پر زحاف "قصر" استعمال کر کے مفاعیلن کے آخری سببِ خفیف کا حرفِ ساکن ساقط اور ما قبل ساکن ہوا اور یوں مقصور فرع "مفاعیل" یا "فعولان" حاصل ہوئی۔