تقطیع میں رہ نمائی فرمائیے

فاتح

لائبریرین
کیا ستم ہے --فاعلاتن-- کہ تم چلو--مفاعلن-- چالیں--فعلن
جا نتا ہو --فاعلاتن-- کہ بات ہے --مفاعلن-- چھپانی--فعلن

چھپانی بر وزن فعلن نہیں بلکہ بر وزن فعولن ہوتا ہے۔ یعنی
متحرک ۔ متحرک ۔ ساکن ۔ متحرک ۔ ساکن
چُ ۔۔۔۔ پَ ۔۔۔۔ ا ۔۔۔۔ نِ ۔۔۔۔ ی
فَ ۔۔۔۔ عُ ۔۔۔۔ و ۔۔۔۔ لُ ۔۔۔۔ ن
 
ہم کہاں اور تم کہاں جاناں
ہم عیاں اور تم نہاں جاناں

کیا ستم ہے کہ تم چلو چالیں
چھوڑتے ہی نہیں نشاں جاناں

مانتا ہوں حسابِ جاں ہو گا
کچھ یہاں اور کچھ وہاں جاناں

جانتا ہوں کہ بات ہے اَن کہی
کیسے کر دوں میں اب بیاں جاناں

ڈر رہا تھا بہار سے اظہر
دیکھ پت جھڑ کی اب خزاں جاناں


اَن--فع-- کہہ--لن--
ایسے ٹھیک ہے کیا جنابِ عالی
والسلام
اظہر
 
چال چلتے ہو ایسی خوبی سے دوست

سفر کرتے کرتے اس حالت کو پہونچ گیا۔

کیا ستم ہے کہ تم چلو چالیں

جب کہ اگر پہلی شکل میں سے "دوست" خارج کر دیا جاتا تو معنویت بھی خوب ہوتی اور وزن بھی قائم رہتا۔ بہر کیف سیکھنے کا یہ تدریجی عمل بہت ہی خوب ہے۔ اب تک محفل میں ایک ہی شعر اتنے مرحلوں سے گزرا ہو ایسا مجھے نہیں یاد پڑتا۔ ہاں شاید ان دنوں جب برادرم خرم شہزاد خرم اور برادرم ایم اے راجہ صاھبان زانوئے تلمیذ تہہ کیئے ہوئے بیٹھے ہوتے تھے تب ایسا سماں دیکھنے کو ملتا تھا۔
 
مکرمی جناب ابن سعید صاحب،
چا--فا
ل--ع
چل--لا
تے--تن
ہ--م
اے--فا
س--ع
خ ب-لن
سے؟؟
یہاں فعلن کیسے آیے گا؟ از راہِ کرم تفصیل سے بتایے گا
والسلام
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
میں بتا دیتا ہوں
چا--فا
ل--ع
چل--لا
تے--تن
ہ--م
اے--فا
س--ع
خو۔۔لن
بی ۔۔فع
سے ۔۔ لن

مسئلہ یہ ہوا کہ خوبی میں مکمل طویل آوازیں ہیں، خو ۔۔۔ بی۔۔ ان میں واؤ تو گرایا ہی نہیں جا سکتا، اور اگر چہ ’ی‘ گرائی جا سکتی ہے، لیکن یہاں گرانے کی کیا ضرورت؟
یہی صورت تبدیل شدہ مصرعے کی ہے۔ جس میں ’ان کہی‘ کر دیا گیا ہے، اور تقطیع میں خود اظہر نے ’ان کہہ‘ بر وزن فعلن بنایا ہے۔ یہاں بھی اس صورت میں ’ی‘ کا گرانا جائز نہیں۔ یہاں میں ایک مدد کر دیتا ہوں، کہ مصرع ’ان کہی بات ہے‘ سے شروع کریں۔ یعنی ’فاعلاتن، مفا‘ سے۔ مصرع مکمل کر لو۔
 
مکرمی جناب ابن سعید صاحب،
چا--فا
ل--ع
چل--لا
تے--تن
ہ--م
اے--فا
س--ع
خ ب-لن
سے؟؟
یہاں فعلن کیسے آیے گا؟ از راہِ کرم تفصیل سے بتایے گا
والسلام
اظہر

محترم بھائی مجھے یہ افعال تفعیل کی جانکاری تو نہیں ہے بس گنگنا کے دیکھتا ہوں اگر ادھر ادھر نہیں ہوتا تو ٹھیک ورنہ کچھ گڑبڑ سمجھتا ہوں۔
 
ہم کہاں اور تم کہاں جاناں
ہم عیاں اور تم نہاں جاناں

چال چلتے ہو ایسی خوبی سے
چھوڑتے ہی نہیں نشاں جاناں

مانتا ہوں حسابِ جاں ہو گا
کچھ یہاں اور کچھ وہاں جاناں

اَن کہی بات ہے ذرا بولو
کیسے کر دوں میں اب بیاں جاناں

ڈر رہا تھا بہار سے اظہر
دیکھ پت جھڑ کی اب خزاں جاناں


الفاظ ایسے نہیں کہ اس علم کا احاطہ کر سکیں جو یہاں سیکھنے کو مل رہا ہے، اور تحمل اور برداشت اساتزہ کرام کی لاءقِ صد تحسین ہے
امید واثق ہے کے میری کمزوریوں کے باوجود اصلاح جاری رہے گی
والسلام
اظہر
 
آستادِ گرامی،
اگر کچھ وضاحت اس امر کی ہو جائے کہ کہان کسی لفظ کو گرانا ہے اور کہاں نہیں تو بارِ احسان میں کچھ اضافہ تو ہو جاتا لیکن اس کے ساتھ ہمارے علم میں کچھ اضافہ ہو جاتا
والسلام
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
محمود۔۔۔ یہ در اصل شارق مستقیم کا جملہ ہے یہاں محفل میں کہیں استعمال کیا تھا۔ کاپی رائٹ نہیں تھا اس لئے میں نے کاپی کر لیا۔ اوسان کی طرح اوزان خطا ہونے کی بات اچھی لگی تھی!!
اظہر۔۔ عروض کے معاملے میں وارث سے سبق سیکھو، مجھے تو عروض آتی نہیں۔ من آنم کہ من دانم۔ بس عملی طور پر کہیں کہیں لگتا ہے کہ یہاں یہ حرف غلط گر رہا ہے۔ تھیورٹکلی اس کے کیا رہنما اصول ہیں، اس کے لئے وارث پر میں بھی منحصر رہتا ہوں۔
 
Top