تقلید
تقلید کا دین میں تصور
تقلید کا دین میں تصور
اردو محفل پر اور عام زندگی میں بھی ، ہم ایک دوسرے سے مختلف امور اور معاملات پر بحث و مباحثے میں الجھے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ بحث برائے مقصد و تعمیر کیساتھ تبادلہِ علم اور عقل و دانش کیساتھ ہو تو انسانی فہم و فراست ، جمود کے تمام راستے ختم کردیتی ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم جس نظریے اور عقائد پر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اس پر نظرِ ثانی کرنے کو تیار نہیں ہوتے ۔ زیادہ تر یہ عقائد و نظریات قرآن و سنت سے ہٹ کر ہوتے ہیں ۔ جنہیں کسی مکتبہِ فکر کے کسی بڑے عالم کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے ۔ مکتبہِ فکر کے جلیل القدر عالموں نے دین پر گرانقدر کام کیا ہے ۔ مگر بعد میں آنے والے ان کے معتقدین نے اس میں بڑی الجھنیں پیدا کیں ہیں ۔ جس سے مسلمان معاشرے پر جمود طاری ہوگیا ہے ۔ گو کہ یہ مضمون میں نے تقلید کے حوالے سے ہی لکھا ہے مگر میری کوشش یہ بھی ہوگی کہ میں یہاں کچھ ایسے مسئلوں کو بھی زیرِ بحث لاؤں جو ہمارے لیئے بڑی سخت الجھنوں کا باعث بنے ہیں ۔ اس مضمون میں میری حتی الامکان یہی کوشش ہوگی کہ انتہائی سادہ زبان استعمال کروں ۔ کیونکہ میرا تاثر یہ ہے کہ ثقیل زبان کو فرد و عام کے لیئے استعمال کرنا ، مضمون کی دلچسپی کھو دیتا ہے ۔
مجھے امید ہے کہ محفل پر میرے دوست و احباب میری اس کاوش کو پہلے کی طرح سراہیں گے اور نیز یہ کہ بھی اس بار بھی میری حوصلہ افزائی بھی کریں گے ۔