تنزیلہ افضل
محفلین
تلاشِ ذات
یونہی بیٹھی سوچ رہی تھی
ذات سمندر کھوج رہی تھی
سوچ کی ندیا بہتے بہتے
ان کہے دُکھ کہتے کہتے
فطرت درپن کھول رہی تھی
کانوں میں رس گھول رہی تھی
اور میں بیٹھی سوچ رہی تھی
خاکی رنگ میں، میں پوشیدہ
فطرت سبز لُبادے میں ہے
لیکن یہ سر سبز دوشیزہ
میرے رنگ کی کیوں خوگر ہے؟
کیوں کر خاک ہی اس کا گھر ہے؟
آخر کیا اسرار ہے اس میں
کہ مٹی سے جُڑتے ہی فطرت
رنگوں کی بارش کرتی ہے
دِل کو کیسا خوش کرتی ہے
ایسا کیا اِسرار ہے اِس میں؟
دریافت
بادل چپ تھے، جھرنے چپ تھے
شجر و حجر خاموش کھڑے تھے
پتوں کی آغوش میں بیٹھی
ننھی سی اِ ک کونپل بولی
فطرت کی آواز ہو تُم بھی
کھیل کا آغاز ہو تم ہی
عہدِ ازل کے وارث تم ہو
مالکِ کل کے نائب تم ہو
خاک سے تم نے خمیر اُٹھایا
روح کا عرفاں تم نے پایا
فطرت کا مرکز ہے اِ نساں
فطرت ہے خدمت پہ نازاں
لیکن تم نے عہد بھُلایا
دُنیا رکھی، دین گنوایا
خاک کے پُتلے، خاک کے خوگر
بننے چلے ہیں مردِ سکندر
پہننے کو ہے ریشم و مخمل
بچھونا فرش کا، سنگِ مرمر
سب کچھ اعلیٰ، سب کچھ کامِل
لیکن پھر بھی چین ندارد
خاک کے پُتلے، خاک کے خوگر
کھوجو اِس کو، سوچو اِس کو
خاک سے کیوں تم دور ہوئے ہو؟
کیوں اِتنے مغرور ہوئے ہو؟
تیری دُنیا کا یہی حاصِل
خاک کے اندر، خاک سے باہر
تعمیرِ ذات
میں نے سوچا ٹھیک ہی بولی
فطرت کی ہمدم، ہم جولی
قُدرت کے مُہرے ہیں سارے
شجر و حجر ، یہ چاند سِتارے
میرے دِن ہیں تاباں اِن سے
میری راتیں روشن اِن سے
میرے منہ کا ہر نِوالہ
فطرت نے آغوش میں پالا
خالِق کا ہر وعدہ پورا
لیکن میراعہد ادھورا
میں دُنیا کی دوڑ میں گُم ہوں
لیکن پھر بھی سب سے پیچھے
دُنیا آدھی، دین بھی آدھا
خود پہ میرا یقین بھی آدھا
تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بِنتِ آدم خود سے عہد کر
سب کچھ پانا ہے خود سے لڑ کر
اپنے نفس کی جنگ ہے بھاری
اِس میں پیچھے خاکی و ناری
لیکن یہ ہے آخری چارہ
اِس کے دم سے کام ہے سارا
اپنی ذات کو کھوج کے دیکھو
سب کے لیے کچھ سوچ کے دیکھو
سوچ کو حُکم کے تابع کر لو
رحمت سے پھر دامن بھر لو
پھِر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دُنیا ہوگی تیرے پیچھے
موت بھی تیری پہرے دار
تیرا دِیا بھی سورج ہو گا
تیری باتیں بھی شاہکار
یونہی بیٹھی سوچ رہی تھی
ذات سمندر کھوج رہی تھی
سوچ کی ندیا بہتے بہتے
ان کہے دُکھ کہتے کہتے
فطرت درپن کھول رہی تھی
کانوں میں رس گھول رہی تھی
اور میں بیٹھی سوچ رہی تھی
خاکی رنگ میں، میں پوشیدہ
فطرت سبز لُبادے میں ہے
لیکن یہ سر سبز دوشیزہ
میرے رنگ کی کیوں خوگر ہے؟
کیوں کر خاک ہی اس کا گھر ہے؟
آخر کیا اسرار ہے اس میں
کہ مٹی سے جُڑتے ہی فطرت
رنگوں کی بارش کرتی ہے
دِل کو کیسا خوش کرتی ہے
ایسا کیا اِسرار ہے اِس میں؟
دریافت
بادل چپ تھے، جھرنے چپ تھے
شجر و حجر خاموش کھڑے تھے
پتوں کی آغوش میں بیٹھی
ننھی سی اِ ک کونپل بولی
فطرت کی آواز ہو تُم بھی
کھیل کا آغاز ہو تم ہی
عہدِ ازل کے وارث تم ہو
مالکِ کل کے نائب تم ہو
خاک سے تم نے خمیر اُٹھایا
روح کا عرفاں تم نے پایا
فطرت کا مرکز ہے اِ نساں
فطرت ہے خدمت پہ نازاں
لیکن تم نے عہد بھُلایا
دُنیا رکھی، دین گنوایا
خاک کے پُتلے، خاک کے خوگر
بننے چلے ہیں مردِ سکندر
پہننے کو ہے ریشم و مخمل
بچھونا فرش کا، سنگِ مرمر
سب کچھ اعلیٰ، سب کچھ کامِل
لیکن پھر بھی چین ندارد
خاک کے پُتلے، خاک کے خوگر
کھوجو اِس کو، سوچو اِس کو
خاک سے کیوں تم دور ہوئے ہو؟
کیوں اِتنے مغرور ہوئے ہو؟
تیری دُنیا کا یہی حاصِل
خاک کے اندر، خاک سے باہر
تعمیرِ ذات
میں نے سوچا ٹھیک ہی بولی
فطرت کی ہمدم، ہم جولی
قُدرت کے مُہرے ہیں سارے
شجر و حجر ، یہ چاند سِتارے
میرے دِن ہیں تاباں اِن سے
میری راتیں روشن اِن سے
میرے منہ کا ہر نِوالہ
فطرت نے آغوش میں پالا
خالِق کا ہر وعدہ پورا
لیکن میراعہد ادھورا
میں دُنیا کی دوڑ میں گُم ہوں
لیکن پھر بھی سب سے پیچھے
دُنیا آدھی، دین بھی آدھا
خود پہ میرا یقین بھی آدھا
تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بِنتِ آدم خود سے عہد کر
سب کچھ پانا ہے خود سے لڑ کر
اپنے نفس کی جنگ ہے بھاری
اِس میں پیچھے خاکی و ناری
لیکن یہ ہے آخری چارہ
اِس کے دم سے کام ہے سارا
اپنی ذات کو کھوج کے دیکھو
سب کے لیے کچھ سوچ کے دیکھو
سوچ کو حُکم کے تابع کر لو
رحمت سے پھر دامن بھر لو
پھِر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دُنیا ہوگی تیرے پیچھے
موت بھی تیری پہرے دار
تیرا دِیا بھی سورج ہو گا
تیری باتیں بھی شاہکار
(میں کیونکہ محفل میں نئی مہمان ہوں سو محترم شعراء کرام اور شاعری کی متعلقہ فیلڈ کے محترمین کو نہیں جانتی، آپ لوگ ٹیگ کر سکتے ہیں تو مہربانی ہو گی)
تنزیلہ افضل
تنزیلہ افضل
آخری تدوین: