مہدی نقوی حجاز
محفلین
تلاشی
جس سے ارمانوں میں بجلی آگ طوفانوں میں ہے
اے حکومت! کیا وہ شے ان میز کے خانوں میں ہے؟
بند پانی میں صفینہ کھے رہی ہے کس لئے
تو مرے گھر کی تلاشی لے رہی ہے کس لئے
گھر میں درویشوں کے کیا رکھا ہے بدنہاد
آ، میرے دل کی تلاشی لے کہ بر آئے مراد
جس کے اندر دہشتیں پر ہول طوفانوں کی ہیں
لرز افگن آندھیاں تیرہ بیابانی کی ہیں
جس کے اندر ناگ ہیں اے دشمن ہندوستاں
شیر جس میں ہونکتے ہیں کوندتی ہیں بجلیاں
چھوٹتی ہیں جس سے نبضیں افسرو سرہنگ کی
جس میں ہے گونجی ہوئی آواز طبلہ جنگ کی
جس کے اندر آگ ہے دنیا پہ چھا جائے وہ آگ
موت جس میں دیکھتی ہے منہ اس آئینہ کو دیکھ
میرے گھر کو دیکھتی کیا ہے مرے سینے کو دیکھ
حضرت جوشؔ ملیح آبادی