تلخ نوائی - میری وفات

زیادہ تر ہمارے محسوسات پر ہی انحصار ہوتا ہے۔ آپ کسی کو بھلانا نہ چاہو تو پھر خلا ہی خلا ہے۔ ورنہ زندگی چلتی رہتی ہے۔ اس دنیا کی سرشت ہی ایسی ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر آگے بڑھ جانے کے علاوہ اسے کچھ نہیں آتا۔
احمد بھائی جب ہمیں حقیقت حال کا علم ہے تو ہم اپنے احساسات کو ان محسوسات کے سانچے میں کیوں ڈھالتے ہیں جو ہمارے لیے باعث تکلیف اور اذیت ناک ہوتا ہے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی جب ہمیں حقیقت حال کا علم ہے تو ہم اپنے احساسات کو ان محسوسات کے سانچے میں کیوں ڈھالتے ہیں جو ہمارے لیے باعث تکلیف اور اذیت ناک ہوتا ہے ۔

اپنے اپنے حوصلے کی بات ہے ایک ہی بار حقیقت کا جام اُٹھا کر پی جا ؤ اور اندر تک تلخی سے بھر جاؤ۔

یا روز جرعہ جرعہ پیتے رہو اور اپنی بسائی ہوئی دنیا میں رہتے رہو۔
 
اپنے اپنے حوصلے کی بات ہے ایک ہی بار حقیقت کا جام اُٹھا کر پی جا ؤ اور اندر تک تلخی سے بھر جاؤ۔

یا روز جرعہ جرعہ پیتے رہو اور اپنی بسائی ہوئی دنیا میں رہتے رہو۔
یعنی ان محرکات میں قوت برداشت کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے ۔
 

سین خے

محفلین
اس کا مشاہدہ زیادہ تر اس صورت میں ہوا ہے کہ جب اولاد وفات پا جائے، تو والدین کے لیے ساری زندگی یہ غم تازہ رہتا ہے۔

جن افراد کے بچپن میں ان کے ماں یا باپ یا دونوں کا انتقال ہو جاتا ہے وہ ساری زندگی اس محرومی کا شکار رہتے ہیں۔ ماں باپ کی جگہ کوئی رشتے دار نہیں بھر سکتا۔

ویسے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت پر منحصر ہے۔ بہت بے حس لوگ بھی دیکھے ہیں جو چند گھنٹوں بعد بھلا دیتے ہیں بلکہ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بوڑھے ماں باپ سے اتنے بیزار ہوتے ہیں کہ ان کے مرنے کی دعائیں کرتے ہیں۔ ان کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں یا اولڈ ہاوَسز میں ڈلوا دیتے ہیں۔

اور کچھ ایسے بھی دیکھے ہیں جو پل پل جانے والوں کو یاد کرتے ہیں۔ ضروری نہیں ہے منہ سے بولیں پر دل ہی دل میں کرتے ہیں۔ ان کی طرف سے صدقہ خیرات کرتے ہیں، روانہ ان کو ایصال ثواب کرتے ہیں پر ظاہر نہیں کرتے :)
 
جن افراد کے بچپن میں ان کے ماں یا باپ یا دونوں کا انتقال ہو جاتا ہے وہ ساری زندگی اس محرومی کا شکار رہتے ہیں۔ ماں باپ کی جگہ کوئی رشتے دار نہیں بھر سکتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں باپ کی کمی پوری نہیں کی جا سکتی۔ اور ان کی یاد ہمیشہ اولاد کے ساتھ رہتی ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ دنیاوی محرومیوں کا شکار بھی رہیں۔ مثال ایک طرح سے گھر کی ہی ہے۔
میری پھوپھی اور پھوپھا کا حادثہ میں انتقال ہوا تو بیٹا میٹرک میں تھا، بہنیں چھوٹی اور سب سے چھوٹی بہن سات سال کی تھی۔ پھوپھا کے چھوٹے بھائی نے ان کو اپنے بچوں کی طرح پالا، پڑھایا اور شادیاں کروائیں۔ پھوپھا کے پلاٹ پر اپنی نگرانی میں گھر بنوایا۔ اور کسی قسم کی محرومی کا احساس نہ ہونے دیا۔ اور تمام معاملات میں ابو سے رہنمائی لیتے رہے۔ ابو اور پھوپھی اکلوتے بہن بھائی تھے۔
پھوپھی کی خواہش تھی کہ بیٹا حفظ کرے، تو اس نے ایف ایس سی کے بعد یہاں اسلام آباد آ کر حفظ کیا، پھر آگے تعلیم حاصل کی۔

غم ہونا، اور یاد رکھے جانا دونوں فطری عمل ہیں۔ حالات کے ستم کا شکار نہ ہوں تو غم وقت کے ساتھ کم ہو جاتا ہے، مگر اس کا مطلب یاد بھلا دینا نہیں ہے۔
البتہ خدانخواستہ اگر زندگی آزمائش بن جائے تو غم بھی ہمہ وقت تازہ رہتا ہے۔
ہمارے جاننے والوں میں دو سال قبل ایک نوجوان حادثہ کا شکار ہو کر چل بسا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ آنٹی کا حال یہ ہے کہ ابھی تک اس کا کمرہ روزانہ صاف کرتی ہیں، اور اس کی چیزیں کسی کو ہٹانے نہیں دیتیں۔
 

سین خے

محفلین
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں باپ کی کمی پوری نہیں کی جا سکتی۔ اور ان کی یاد ہمیشہ اولاد کے ساتھ رہتی ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ دنیاوی محرومیوں کا شکار بھی رہیں۔ مثال ایک طرح سے گھر کی ہی ہے۔
میری پھوپھی اور پھوپھا کا حادثہ میں انتقال ہوا تو بیٹا میٹرک میں تھا، بہنیں چھوٹی اور سب سے چھوٹی بہن سات سال کی تھی۔ پھوپھا کے چھوٹے بھائی نے ان کو اپنے بچوں کی طرح پالا، پڑھایا اور شادیاں کروائیں۔ پھوپھا کے پلاٹ پر اپنی نگرانی میں گھر بنوایا۔ اور کسی قسم کی محرومی کا احساس نہ ہونے دیا۔ اور تمام معاملات میں ابو سے رہنمائی لیتے رہے۔ ابو اور پھوپھی اکلوتے بہن بھائی تھے۔
پھوپھی کی خواہش تھی کہ بیٹا حفظ کرے، تو اس نے ایف ایس سی کے بعد یہاں اسلام آباد آ کر حفظ کیا، پھر آگے تعلیم حاصل کی۔


غم ہونا، اور یاد رکھے جانا دونوں فطری عمل ہیں۔ حالات کے ستم کا شکار نہ ہوں تو غم وقت کے ساتھ کم ہو جاتا ہے، مگر اس کا مطلب یاد بھلا دینا نہیں ہے۔
البتہ خدانخواستہ اگر زندگی آزمائش بن جائے تو غم بھی ہمہ وقت تازہ رہتا ہے۔
ہمارے جاننے والوں میں دو سال قبل ایک نوجوان حادثہ کا شکار ہو کر چل بسا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ آنٹی کا حال یہ ہے کہ ابھی تک اس کا کمرہ روزانہ صاف کرتی ہیں، اور اس کی چیزیں کسی کو ہٹانے نہیں دیتیں۔

ما شاء اللہ۔ اللہ پاک بے انتہا جزا دے آمین۔ بہت بڑی بات ہے یتیم بچوں کی سرپرستی کرنا۔

پر تابش بھائی میں یہ کہنے پر مجبور ہوں ایسا ہر جگہ نہیں ہوتا ہے اور ہمارے معاشرے میں ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ اگر میں اپنے خاندان کی بات کروں تو سات آٹھ مثالیں ہیں جن کے بچپن میں ماں یا باپ اس دنیا سے چلے گئے تھے اور انھوں نے بے انتہا تکلیف اٹھائی۔ بڑھاپے میں بھی اپنے والدین کا ہی زیادہ تر ذکر کرتے پائے جاتے ہیں۔

جہاں تک اولاد کی موت کا تعلق ہے اس سے میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں کہ یہ والدین کے لئے بے انتہا بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ ہمارے خاندان میں بھی جوان اولاد کی اموات کے واقعات ہیں اور ایسا ہی دیکھنے میں آیا ہے۔
 
Top