جن افراد کے بچپن میں ان کے ماں یا باپ یا دونوں کا انتقال ہو جاتا ہے وہ ساری زندگی اس محرومی کا شکار رہتے ہیں۔ ماں باپ کی جگہ کوئی رشتے دار نہیں بھر سکتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں باپ کی کمی پوری نہیں کی جا سکتی۔ اور ان کی یاد ہمیشہ اولاد کے ساتھ رہتی ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ دنیاوی محرومیوں کا شکار بھی رہیں۔ مثال ایک طرح سے گھر کی ہی ہے۔
میری پھوپھی اور پھوپھا کا حادثہ میں انتقال ہوا تو بیٹا میٹرک میں تھا، بہنیں چھوٹی اور سب سے چھوٹی بہن سات سال کی تھی۔ پھوپھا کے چھوٹے بھائی نے ان کو اپنے بچوں کی طرح پالا، پڑھایا اور شادیاں کروائیں۔ پھوپھا کے پلاٹ پر اپنی نگرانی میں گھر بنوایا۔ اور کسی قسم کی محرومی کا احساس نہ ہونے دیا۔ اور تمام معاملات میں ابو سے رہنمائی لیتے رہے۔ ابو اور پھوپھی اکلوتے بہن بھائی تھے۔
پھوپھی کی خواہش تھی کہ بیٹا حفظ کرے، تو اس نے ایف ایس سی کے بعد یہاں اسلام آباد آ کر حفظ کیا، پھر آگے تعلیم حاصل کی۔
غم ہونا، اور یاد رکھے جانا دونوں فطری عمل ہیں۔ حالات کے ستم کا شکار نہ ہوں تو غم وقت کے ساتھ کم ہو جاتا ہے، مگر اس کا مطلب یاد بھلا دینا نہیں ہے۔
البتہ خدانخواستہ اگر زندگی آزمائش بن جائے تو غم بھی ہمہ وقت تازہ رہتا ہے۔
ہمارے جاننے والوں میں دو سال قبل ایک نوجوان حادثہ کا شکار ہو کر چل بسا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ آنٹی کا حال یہ ہے کہ ابھی تک اس کا کمرہ روزانہ صاف کرتی ہیں، اور اس کی چیزیں کسی کو ہٹانے نہیں دیتیں۔