تلمیذ صاحب اور دیگر پروف ریڈرس کی توجّہ کے لئے

الف عین

لائبریرین
مہوش کے تانے بانے میں جو تقریبآً اسی عنوان کا تھا، کافی مختلف بات چیت کی گئی تھی، اس لئے ییہ الگ سے پیغام:
محفل کے ارکان ہی نہیں بلکہ اکثر ان ہیج استعمال کرنے والے کچھ اغلاط کرتے ہیں، ادھر میں نے سرور عالم راز صاحب کی پانچ کتابوں، حیدر قریشی کی تین کتابوں، یعقوب آسی کی دو کتابوں مرزا خلیل بیگ کی اور مزید دوسری کتابوں کی ان پیج فائلیں دیکھی ہیں، اور اس عرصے میں اب مزید کافی تجربہ ہو گیا ہے۔ اس لئے یہ طویل پیغام لکھ رہا ہوں اگرچہ اس سے پہلے بھی کچھ اغلاط کی نشاسن دہی کرتا آیا ہوں لیکن اب تلمیذ صاحب، جویریہ مسعود اور جو بھی اس سلسلے میں سامنے آنا چاہیں، ان کی توجہ کے لئے یہ طویل پیغام۔ دوسرے ارکان چاہیں تو نہ پڑھیں۔

بہتر ہو کہ آپ اپنے ورڈ پروسیسر میں کاپی پیسٹ کر کے ڈاکیومینٹ بنائیں اور ااس میں اس طرح ڈھونڈھو اور بدلو کے عمل سے ان اغلاط کو بدل دیں۔

محفل میں کوئ اتّفاق سے ہی یہ کیریکٹرس استعمال کرتا ہے؛
*تنوین (تلمیذ صاحب نے بھی ایک پیغام میں الف اور ڈبل کوٹس استعمال کئے ہیں، بیشتر محض الف لکھ کر چھوڑ دیتے ہیں)
*اٗلٹا پیش۔ یہ کچھ جگہ ضروری ہوتا ہے جیسے کماحقہٗ (افسوس کہ اردو نسخ ایشیا ٹائپ میں یہ درست نہیں دکھاتا)۔
*کچھ لوگ کہہ کو "کہ" لکھ دیتے ہیں۔
*اکثر لوگ اضافت کا استعمال نہیں کرتے۔ زرِ مبادلہ کو محض زر مبادلہ لکھ دیں گے۔ یہاں کسرۂ اضافت ضروری ہے۔
*ان پیج ٹائپ کرنے والے اکثر "ؤ" کو "ئو" بھی لکھتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ وہاب اعجاز کی فائلوں میں تو اکثر محض "و" استعمال کیا گیا ہے۔
*بیشتر حضرات و خواتین تشدید کبھی استعمال نہیں کرتے۔ کہیں کہیں تو یہ ضروری ہوتا ہے، اگرچہ کبھی کبھی میں بھی چھوڑ دیتا ہوں اور اصلاح نہیں کرتا۔

*اور اگر آپ عروض سے واقف ہیں تو ان اغلاط کو بھی پکڑ سکیں گے جو غیر عروض داں کرتے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ کہاں "مرا" درست ہے اور کہاں " میرا" ، ترا یا تیرا۔ بحر کی ضرورت کے مطابق۔ اسی طرح آسماں یا آسمان وغیرہ۔
*نثر میں لائبریری کے ارکان کبھی کبھی وقفہ بھول جاتے ہں۔ کاما، سیمی کولن اور وقفہ کا مناسب استعمال بھی پروف ریڈرس دیکھیں۔

پروف ریڈنگ میں ان باتوں کا خاص خیال رکھیں۔
 

جیہ

لائبریرین
راہنمائے پروف ریڈران و ہدایت نامہِ کاتبان و ٹائپسٹان

السلام علیکم استادِ محترم

نہایت کارآمد اور مفید پیغام بلکہ ہدایت نامہ ہے۔ میں نے غور سے پڑھا اور سمجھ لیا ہے۔

ان سب میں، میں یہ غلطی ( جس کو میں غلط اب بھی نہیں سمجھتی) وہ ہے کہہ کو کہ لکھنا۔ اب اس کو کہہ ہی لکھوں گی۔۔

آپ کو ایک مزے کی بات بتاتی ہوں۔۔ آج کل میں زاویہ 2 کی پروف ریڈنگ کر رہی ہوں ۔ ان میں چند باب محب علوی صاحب نے ٹائپ کئے ہیں۔ جہاں بھی لفظ چیغ یا چیخیں آیا ہے، محب علوی صاحب نے “ چینخ اور چینغیں“ ٹائپ کیا ہے۔ اب پتہ نہیں کہ یہ پنجابی میں چینغ ہے یا کسی اور زبان کا لفظ۔ حالانکہ اصل کتاب میں چیخ، چیغیں ہی لکھا ہے۔۔۔
 

دوست

محفلین
بہت اچھے۔ کھڑی زبر تو اکثر مجھ سے پڑ جاتی ہے۔ اس لیے کہ شفٹ آئی پر ٰ ہے۔
محب بھائی نے جو غلطیاں‌ کی ہیں ان کی وجہ پنجابی نہیں۔ یہ کوئی نفسیاتی گرہ سمجھ لیں۔ جیسے میرے ساتھ ہے کچھ بھی ہو میں‌کھڑی زبر کی غلطیاں‌ لازمی کرتا ہوں۔ ہاتھ بہک ہی جاتا ہے۔ کچھ ایسا حال محب بھائی کے ساتھ ہوگا۔ یہ لاشعوری ہوتا ہے۔ ایک غلطی ہوتی ہے پھر پکی ہوتی جاتی ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
نہایت ہی معلوماتی ہدایت نامہ ہے اعجاز صاحب کی جانب سے پروف ریڈرز خصوصا‘‘ میرے لئے ۔ لیکن اپنے تختے(کرلپ کا صوتی تختہ) پر اضافتوں کی جگہ کے تعین کے بارے میں ابھی اتنا تجربہ نہییں ہے مجھے۔ کیونکہ عام تحریر میں ہم لوگ اعراب کا اتنا خیال نہیں کرتے۔ الفاظ زیادہ تر ویسے ہی سمجھ میں آ جاتے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
تحریروں میں اعراب لگانا واقعی ایک اہم بات ہے ۔ اس سے تحریر کا تسلسُل قائم رہتا ہے ۔ آبِ گُم لکھتے ہوئےمیں نے یہ بات نوٹ کی کہ کتاب میں بہت کم جگہ اس بات کا خیال رکھا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک جگہ لکھا ہے کہ “ اس کار سے اچھی تو اس گھوڑے کی چال تھی ۔ “
اگر یہ جملہ اعراب کے ساتھ یُوں ہوتا کہ “ اِس کار سے اچھی تو اُس گھوڑے کی چال تھی ۔“ تو تحریر کو رَوانی میں پڑھنے میں اور بھی مزا آتا ۔
دہم جماعت میں اپنے اُردو کے اُستاد جناب سید اقتدار علی اکبر کے ہاتھ سے بڑی زبردست مار کھائی تھی کہ میں نے “ اُس آسمان کو اِس آسمان کیوں پڑھا ۔“ اُن کا کہنا تھا کہ آسمان تمہارے پاؤں کی نیچے تو نہیں ہے جو تُم “ اِس آسمان “ پڑھ رہے ہو ۔
 

تلمیذ

لائبریرین
ظفری ، میرا خیال ہے کتب بینی کا وافر تجربہ رکھنے والے اہل مطالعہ لوگوں کیلئے اعراب کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہیں۔ البتہ بچوں یا کم آ موز لوگوں کی رہنمائی کیلئے یہ کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ جیسے عربی بچے بھی اعراب کے بغیر قران کریم بغیر کسی دقّت کے پڑھ لیتے ہیں جبکہ ہمیں غلطی کے امکان سے بچنے کیلئے اعراب کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
محترم تلمیذ صاحب ! آپ کی بات بلکل بجا اور درست ہے ۔ مگر یہاں اس بات کا تذکرہ میں نے یہ سوچ کر کیا تھا کہ اگر لائیبریری ارکان اگر مشہور مصنفوں کی کتابیں یونی کوڈ میں ٹائپ کر کے نیٹ پر لے آتے ہیں تو ضروری نہیں کہ یہاں ہر قاری کتب بینی کا وافر تجربہ رکھتا ہوگا ۔ یہ تحریریں ہر عام والنًاس کے لیئے ہونگی ۔ ہوسکتا ہے کوئی میری طرح الفاظوں یا جملوں کی فطرت سمجھنے سے قاصر رہے اور کہیں بوریت کا شکار نہ ہوجائے کہ تحریر کی ایک سطر کو پڑھنے کے بعد وہ اسے دوبارہ پڑھ کر اپنا تسلسل برقرار رکھنے کی کوشش کرے ۔ ( جس کی مثال میں نے اپنے پچھلے پیغام میں دی تھی ) اور دوسرا یہ کہ اب ایسا بھی نہ ہو کہ قرآن کی طرح ہر لفظ پر اعراب لگائیں جائیں۔
بس جہاں ضرورت ہو اور تحریر کو ایک تسلسل میں پڑھنے میں دقت پیش آرہی ہو ۔ وہیں یہ قدم اُٹھا لیا جائے تو بہتر ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
ظفری ہر لفظ پر اعراب کی بات میں نہیں کر رہا ہوں، محض زیر زبر تو اکثر سمجھ میں آ جاتے ہیں اور محض جہاں کنفیوژن ہو، وہاں لگائے جا سکتے ہیں، جیسے چور پر اُلٹا پیش لگائیں تب ہی آپ چوٗر پڑھ سکتے ہیں ورنہ یہ چوری کرنے والا سمجھا جائے گا۔ میرا اشارہ بطورِ خاص کسر ۂ اضافت اور ہمزۂ اضافت سے تھا۔ اور تشدید بھی کہیں ضروری ہوتی ہے۔
ایک بات بلکہ مشاہدہ مزید یہ کہ اردو نسخ ایشیا ٹائپ میں نہ صرف اُلٹا پیش درست نہیں لگتا بلکہ زیر کی پوزیشن بھی اتنے نیچے ہے کہ اگلی سطر کا زبر نظر آتا ہے۔ یہاں اوپر ہی دیکھو۔ بطورِ خاص کی اضافت کہیں کے کاف کا زبر دکھائ دے رہی ہے۔
 

دوست

محفلین
بہت کم اور عمومًا غلط تلفظ سے بولے جانے والے الفاظ پر بھی اعراب ہوں۔ مجھے اب آکر احساس ہوا ہے کہ میری اردو لکھنے میں‌ ٹھیک اور بولنے میں انتہائی خراب ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
اعراب کی ضرورت سیاق وسباق کے ساتھ بھی منسلک ہے۔ اگرلفظ سیاق وسباق کے حوالے سے بآسانی قابل فہم ہے تو پھر تو اعراب کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی تاہم اگر معانی کے مبہم ہوجانے کا اندیشہ ہو تو پھر بے شک اعراب لگا لئے جائیں۔

اعجاز اختر نے کہا:
بلکہ زیر کی پوزیشن بھی اتنے نیچے ہے کہ اگلی سطر کا زبر نظر آتا ہے۔ یہاں اوپر ہی دیکھو۔ بطورِ خاص کی اضافت کہیں کے کاف کا زبر دکھائ دے رہی ہے۔

اعجازصاحب ، تانے بانے میں ظاہر ہونے والے جواب میں تو زیر کی پوزیشن بالکل صحیح جگہ پر نظر آ رہی ہے۔
 
Top