محمدظہیر

محفلین
آپ بھی عمومی زندگی میں ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کیجیے۔
جی ، کسی مشکل وقت میں کیمرہ کھولنے والوں کی میں نے کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے
آپ لاری کی بات کرتے ہیں۔ ابھی کچھ ہی سال قبل اسی طرح دو افراد کو سر عام ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا اور تماشائی مجمع سے کسی ایک نے بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
یہ سڑک حادثہ نہیں ہے مجمع میں کوئی اصلی مرد بھی ہونا چاہیے کہ ایسے وقت میں کچھ کر سکے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہاں زیادہ تر سوشل میڈیا گروپس میں بےہودہ گفتگو نہیں کی جاتی۔ عموماً پوسٹس اسی بارہ میں ہوتی ہیں جسکے لئے گروپ بنایا گیا ہو۔ لیکن ظاہر ہے، ٹھرکی قسم کے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ یورپ و امریکہ میں انکی قلت نہیں۔
میرا موضوع گروپس کی نوعیت نہیں ہے۔
 

شیزان

لائبریرین
افسوسناک عمل ہے۔۔۔ سوشل میڈیا کے اس لائیکس اور شیئرنگ والے ٹرینڈ نے معاشرتی بےحسی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
ایسی وڈیوز دیکھتے ہوئے اکثر یہ خیال گزراکہ وڈیو بنانے والا خود کتنا بڑا بےحس ہے کہ مدد کی بجائے فلم بنانے میں مصروف ہے۔
اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین
 

آوازِ دوست

محفلین
چند دن پہلے کی بات ہے شہر سے باہر جاتی سڑک پر ایک کار سے کتا ٹکر گیا۔کار والا بغیررکے نکلتا چلا گیا۔ کتا شدید زخمی حالت میں سڑک پر کراہ رہا تھا۔ ہم جائے حادثہ سے کچھ فاصلے پر تھے۔ قبل اس کے ہم کتے تک پہنچتے۔ دو لڑکے موٹر سائیکل پر اس کے پاس رکے۔ جیب سے موبائل نکالا اور مرتے کتے کی ویڈیو بنانے لگے۔ ایک آدھے منٹ کی ویڈیو بنانے کے بعد وہ دونوں موٹر سائیکل پر بیٹھے اور یہ جا وہ جا۔ ہم کتے کے پاس پہنچے تو وہ مر چکا تھا۔ میں نے اور میرے دو ست نے کتے کو گھسیٹ کر ایک طرف کیا۔ دو چھوٹی چھوٹی لکڑیوں کی مدد سے ایک گڑھا کھودا۔ اس میں کتے کو دفنا کر ہم دونوں پاس کے کھال پر بیٹھ کر ہاتھ پاؤں دھونے لگے۔ بات کچھ ایسی خاص نہ تھی کہ ذہن سے چپک جاتی۔

اس واقعے کے ایک یا دو دن بعد ایک واقف کار سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں معاشرے میں بڑھتی بےحسی بھی زیرِ موضوع آگئی۔ ان کا فرمانا تھا کہ لوگ اب ظالم ہوگئے ہیں۔ ان کے اندر انسانیت نام کو نہیں رہی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جیب سے موبائل نکالا۔ اور واٹس ایپ پر مجھے ایک مرتے کتے کی ویڈیو دکھانے لگے۔ کتا تکلیف سے آوازیں نکال رہا تھا۔ اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ ہل سکتا۔ رفتہ رفتہ اس کی آوازیں مدہم ہوتی چلی گئیں۔ یہ ویڈیو ایک منٹ کی بھی نہ تھی۔

"دیکھا آپ نے جنااااب!" انہوں نے مجھے سوچ میں گم پا کر کہا۔" کیسے وہ ظالم کار والا اس کو ٹکر مار کر نکلتا بنا۔ اس نے رکنے کی بھی زحمت نہیں کی۔"

"آپ کو کس نے بتایا کہ اس کو کار نے ٹکر ماری ہے؟" اگرچہ میں اس سوال کا جواب جانتا تھا لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں میں نے پوچھ لیا۔

"میرے چھوٹے بھائی نے مجھے بتایا ہے۔ یہ ویڈیو اسی نے بنائی ہے۔" انہوں نے فخریہ انداز میں جواب دیا۔

"کار والے نے جان بوجھ کر ٹکر نہیں ماری تھی۔ کتے اکثر سڑک پر گاڑیوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ میں نے اسلام آباد میں خنزیروں کو بھی گاڑیوں سے ٹکرا کر مرتے دیکھا ہے۔ لیکن میری نظر میں زیادہ بےحس وہ لڑکے تھے جو وہاں مرتے کتے کی ویڈیو بناتے رہے۔ اور مرنے کے بعد اس کی لاش کو سڑک کے ایک طرف بھی نہ کیا اور اپنی راہ لیتے بنے۔ " میں نے اپنی سوچ ان کے سامنے بیان کرنے کی حماقت کردی۔

اوہ جاؤ بھئی! انہوں نے انتہائی ترش لہجے میں کہا۔ لیکن اس کے آگے وہ کچھ بول نہیں پائے چند ثانیے بعد اٹھ کر چل دیے۔ مجھے خدا حافظ کہنے کی زحمت بھی نہیں کی۔

اکثر سوشل میڈیا چینلز جیسے فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل پلس وغیرہ پر میں نے دیکھا ہے کہ لوگ "دیکھیں اصل چہرہ"، "یہ ہیں ہمارے معاشرے کے مکروہ چہرے "، "انسانیت کے نام پر دھبہ" یا ان سے ملتے جلتے عنوانات کے ساتھ ویڈیوز شئیر کرتے ہیں۔ ان ویڈیوز میں عموماً بااثر افراد اپنے ملازمین یا دست نگر لوگوں پر ظلم و تشدد کرتے پائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ویڈیو بنانے والے میں اتنا دم تو ہے کہ وہ اس کو یوٹیوب، فیس بک و دیگر چینلز پر اپلوڈ کر سکتا ہے۔ لیکن ویڈیو بنانے کے دوران وہ کبھی بھی کسی معاملے میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ چاہے کتنے ہی ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں۔ مظلوم مرتا مر جائے۔ لیکن اس ویڈیو بنانے والے کے ہاتھ نہیں کانپتے۔ دوران ویڈیو کیمرہ کی ہلکی سی لرزش بھی نظر نہیں آتی۔ وہ کبھی مظلوم کی داد رسی کی کوشش نہیں کرتا۔ کوشش تو ایک طرف پوری ویڈیو میں اس کی طرف سے شاید ہی کوئی لفظ بھی اس کے خلاف نکلتا ہو۔ مزید مشاہدہ یہ بھی ہے کہ یہ ویڈیوز چھپ کر نہیں بنائی جاتیں۔ کیوں کہ زیادہ تر ایسی ویڈیوز میں کیمرے کا زاویہ ایک نہیں ہوتا۔ ہر زوایے سے گھوم پھر مظلوموں کی آہ و بکا ریکارڈ کی جاتی ہے۔ تاکہ وہ پتھر دل جو فیس بک، یوٹیوب یا ایسے دیگر چینلز پر اس ویڈیو کو دیکھیں۔ ان کے دل پگھل جائیں۔ اور وہ بھی عملی طور پر لعن طعن کرکے ایک صحت مندذہن رکھنے کا ثبوت دے سکیں۔ کیا "خود نمائی" اور "لائکس" کے چکر میں ہم انسانیت کی بنیادی اقدار بھی بھلا بیٹھے ہیں۔

بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر آگ کا درخت ہوتا تو شعلہ اس کا پھل ہوتا ۔ "ظلم کی توفیق ہے ہر ظالم کی وراثت" کے مصداق ہر ظالم ظلم میں تو مصروف ہے۔ لیکن یہ جو بالکل ایک نئی طرز کی نسل دریافت ہوئی ہے۔ یہ کن میں شمار ہوتی ہے۔ یہ جو ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کر کے درد سمیٹتے ہیں۔ یہ کس کے طرفدار ہیں۔ ظالم کے یا مظلوم کے؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ اب یہاں پر ایک تیسری درجہ بندی کی بھی ضرورت ہے۔
بہت اچھی تحریر ہے جو ہمارے اِردگرد موجود سنگ دِل لوگوں کے سپاٹ چہروں پر چسپاں حساسیت اور رحم دِلی کےخوبصورت ماسک اُتار کر اُن کا اصلی روپ دِکھا رہی ہے لیکن میر خیال ہے کہ صورت حال اِس سے المیے سے بہت آگے نکل چُکی ہے۔ ہمارے قاتل اور تماشبین عہد میں اَب انسانیت، اخلاقیات اور ناموس و کردار کےقتل کی عکس بندی کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے خواہ یہ زندہ اور مجبور انسانوں کو سربریدہ لاشوں میں بدلنے کی بزدلانہ اور گھناؤنی واردات ہو یا دیگرجانداروں کی اذیت اور جان کنی سے لُطف اُٹھانے کی مریضانہ حرکت ہو ، خواہ یہ عورت کی معاشی اور جسمانی کمزوری کے وحشیانہ استحصال کا شیطانی نظارہ ہو یا سانحہ قصورجیسے واقعات کا رقصِ ابلیس ہو۔ ہم شرفِ انسانیت کو ظاہر کرنے والی اعلیٰ اقدار کی ترقیء معکوس کے خلائی دور میں جی رہے ہیں۔ مذکورہ واقعہ کسی کار حادثے میں مرنے والے کُتّے کی افسوسناک موت سے زیادہ دم توڑتی انسانیت کی شرمناک فلم بندی کا ہے۔
 

زیک

مسافر
ایک وقت تھا جب ہمارے پاس موبائل فون اور کیمرے نہیں تھے۔ ان دنوں ہم جائے حادثہ کے گرد ہجوم کی صورت کھڑے ہو کر بے حسی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اب وقت بدل گیا ہے اب سوشل میڈیا پر ایسی باتیں کی جاتی ہیں۔
 

arifkarim

معطل
ایک وقت تھا جب ہمارے پاس موبائل فون اور کیمرے نہیں تھے۔ ان دنوں ہم جائے حادثہ کے گرد ہجوم کی صورت کھڑے ہو کر بے حسی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اب وقت بدل گیا ہے اب سوشل میڈیا پر ایسی باتیں کی جاتی ہیں۔
یہ تماشائیوں والا ماحول ہمیں ایک عرصہ یہاں قیام کے باوجود بھی نہیں ملا۔ اکثر پاکستان میں دیکھا تھا کہ اگر کوئی لائن مین بھی کام کر رہا ہو تو اسکے گرد 100 بندے کھڑے ہوکر تماشہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ الحمدللہ یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ یعنی یہ کوئی معاشرتی عارضہ ہے۔ جو ہر قوم میں یکسر مختلف انداز سے ظاہر ہوتا ہے۔
 

سلمان حمید

محفلین
بہت ہی ضروری بات کر دی تو نے نینے، ہم میں سے بے حس وہ ہے جو خود کو ذمہ دار نہ سمجھے ورنہ ذمہ داری لینے پر آئیں تو بہت لمبی قطار لگ جاتی ہے جو ہم میں سے اکثریت کو منظور نہیں۔ کبھی وقت ملے تو ان پر بھی لکھنا جو دل دہلا دینے والی خبریں پڑھ کر اور تصاویر یا ویڈیوز دیکھ کر کچھ دیر کے لیے تو بہت غمناک ہو جاتے ہیں اور مجھ جیسے حساس تو کچھ لمحوں کے لیے قومے میں جانے سے پہلے اور واپس آنے کے بعد خود بھی ذمہ دار سمجھتے ہوئے بہت کچھ بدل دینے کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور پھر کچھ منٹوں کے بعد وہ خبر، بس ایک خبر ہی رہ جاتی ہے :(
 

عبدالحسیب

محفلین
ممکن ہے۔۔۔۔ انسان کو "انڈر ایسٹیمیٹ" نہ کریں۔۔۔
انڈر ایسٹیمیٹ کرنے پر ہی تو بات یہاں تک آگئی ہے۔ اب تو بس محو حیرت والا معاملہ رہ جاتا ہے۔
یہ میری عزت افزائی ہوگی۔ آپ کو اجازت کی ضرورت نہیں :)
جزاک اللہ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
افسوسناک عمل ہے۔۔۔ سوشل میڈیا کے اس لائیکس اور شیئرنگ والے ٹرینڈ نے معاشرتی بےحسی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
ایسی وڈیوز دیکھتے ہوئے اکثر یہ خیال گزراکہ وڈیو بنانے والا خود کتنا بڑا بےحس ہے کہ مدد کی بجائے فلم بنانے میں مصروف ہے۔
اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین
بجا ارشاد۔۔۔۔

بہت اچھی تحریر ہے جو ہمارے اِردگرد موجود سنگ دِل لوگوں کے سپاٹ چہروں پر چسپاں حساسیت اور رحم دِلی کےخوبصورت ماسک اُتار کر اُن کا اصلی روپ دِکھا رہی ہے لیکن میر خیال ہے کہ صورت حال اِس سے المیے سے بہت آگے نکل چُکی ہے۔ ہمارے قاتل اور تماشبین عہد میں اَب انسانیت، اخلاقیات اور ناموس و کردار کےقتل کی عکس بندی کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے خواہ یہ زندہ اور مجبور انسانوں کو سربریدہ لاشوں میں بدلنے کی بزدلانہ اور گھناؤنی واردات ہو یا دیگرجانداروں کی اذیت اور جان کنی سے لُطف اُٹھانے کی مریضانہ حرکت ہو ، خواہ یہ عورت کی معاشی اور جسمانی کمزوری کے وحشیانہ استحصال کا شیطانی نظارہ ہو یا سانحہ قصورجیسے واقعات کا رقصِ ابلیس ہو۔ ہم شرفِ انسانیت کو ظاہر کرنے والی اعلیٰ اقدار کی ترقیء معکوس کے خلائی دور میں جی رہے ہیں۔ مذکورہ واقعہ کسی کار حادثے میں مرنے والے کُتّے کی افسوسناک موت سے زیادہ دم توڑتی انسانیت کی شرمناک فلم بندی کا ہے۔
درست کہا آپ نے۔۔۔۔ ہمیں اس چلن کو بدلنے میں کچھ حصہ ڈالنا ہوگا۔۔۔۔

نین بھائی طبیعت ٹھیک نہیں آپ کی شاید۔۔
عرصہ سے ٹھیک نہ تھی۔۔۔ اب لاعلاج قرار دے دیا گیا ہوں۔۔۔ :p

لائکس اور شیئرنگ والے بٹنز کا غلط استعمال خود معاشرتی بے حسی کی عکاس ہے۔ اسمیں بٹنوں کا کیا قصور؟
یہ بات درست ہے۔

ایک وقت تھا جب ہمارے پاس موبائل فون اور کیمرے نہیں تھے۔ ان دنوں ہم جائے حادثہ کے گرد ہجوم کی صورت کھڑے ہو کر بے حسی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اب وقت بدل گیا ہے اب سوشل میڈیا پر ایسی باتیں کی جاتی ہیں۔
بالکل سچی بات۔۔۔۔

بہت ہی ضروری بات کر دی تو نے نینے، ہم میں سے بے حس وہ ہے جو خود کو ذمہ دار نہ سمجھے ورنہ ذمہ داری لینے پر آئیں تو بہت لمبی قطار لگ جاتی ہے جو ہم میں سے اکثریت کو منظور نہیں۔ کبھی وقت ملے تو ان پر بھی لکھنا جو دل دہلا دینے والی خبریں پڑھ کر اور تصاویر یا ویڈیوز دیکھ کر کچھ دیر کے لیے تو بہت غمناک ہو جاتے ہیں اور مجھ جیسے حساس تو کچھ لمحوں کے لیے قومے میں جانے سے پہلے اور واپس آنے کے بعد خود بھی ذمہ دار سمجھتے ہوئے بہت کچھ بدل دینے کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور پھر کچھ منٹوں کے بعد وہ خبر، بس ایک خبر ہی رہ جاتی ہے :(
یہ بھی ہے سلمانے۔۔۔ لیکن یہ تو ہمارے اختیار میں ہے۔۔۔ اس کو تو ہم نے خود ہی ٹھیک کرنا ہے۔۔۔

انڈر ایسٹیمیٹ کرنے پر ہی تو بات یہاں تک آگئی ہے۔ اب تو بس محو حیرت والا معاملہ رہ جاتا ہے۔

جزاک اللہ :)
آدمی کا آدمی کرتا ہے اکثر یوں شکار
:)
گیت سنا مت اے دیوانے پتھر کی دیواروں کو
سر۔۔۔ آپ کی محبت ہے۔۔۔
 
ہجوم میں ہر انسان ہجوم کا حصہ ہوتا ہے لیکن وہ اپنے علاوہ لوگوں کو ہجوم کہتا ہے
دورے حاضر کا سب سے بڑا علمیہ تو سمارٹ فون اور اس سے متعلقہ سوشل میڈیا اپلیکیشنز ہیں...
لکھنے کو تو بہت کچھ چاہتا ہے اس موضوع پر لیکن ابھی اردو لکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آج ویڈیو بنائی ہے۔ کل دیکھیے گا مرتے ہوئے کتے کے ساتھ اپنی سیلفی بھی بنالیں گے۔
بالکل۔۔۔

ہجوم میں ہر انسان ہجوم کا حصہ ہوتا ہے لیکن وہ اپنے علاوہ لوگوں کو ہجوم کہتا ہے
دورے حاضر کا سب سے بڑا علمیہ تو سمارٹ فون اور اس سے متعلقہ سوشل میڈیا اپلیکیشنز ہیں...
لکھنے کو تو بہت کچھ چاہتا ہے اس موضوع پر لیکن ابھی اردو لکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے
سکون سے لکھیے۔۔۔۔۔ کچھ جلدی نہیں۔۔۔۔
 

فاخر رضا

محفلین
جو نہ ظالم کا ہاتھ روکے، نہ مظلوم کی مدد کرے، وہ ظالم کا مددگار ہے اور اس کا حساب ظالم کے ساتھ ہی ہونا چاہیے. کسی تیسری درجہ بندی کی ضرورت نہیں ہے.
بہت اچھی تحریر ہے
 
مدیر کی آخری تدوین:
حادثات کے بعد مردوں کی جیبیں خالی کرنے والے اور عورتوں کے زیور اتارنے والے بهی انسان ہی ہوتے ہیں اور انهیں اپنی ذاتی گاڑیوں میں ہسپتالوں میں پہنچانے والے بهی۔

کسی بهی قسم کے واقعہ پر انسان یا انسانوں کے گروہ کا ردعمل دوسروں سے مختلف ہوسکتا ہے اور واقعہ مزکورہ میں بهی ایسا ہی ہوا ہے۔ یہ عمومی انسانی رویہ ہی ہے۔
البتہ دکھ والی بات ضرور ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر آگ کا درخت ہوتا تو شعلہ اس کا پھل ہوتا ۔ "ظلم کی توفیق ہے ہر ظالم کی وراثت" کے مصداق ہر ظالم ظلم میں تو مصروف ہے۔

بغیرِ ظلم توقّع مدار از ظالم
کہ نخلِ شعلہ اگر بار می دہد شرر است

شیخ حسین شہرت شیرازی

ظالم سے ظلم کے علاوہ کسی اور چیز کی توقع مت رکھ کیونکہ شعلوں کا درخت اگر پھل بھی دے گا تو وہ شرارہ ہی ہوگا۔
 
Top