سارہ بشارت گیلانی
محفلین
تماشا ہے یہ لفظوں کا وگرنہ شاعری کیا ہے
وہ ہے رنگین اک دهوکہ فقط اور عاشقی کیا ہے
وہ امیدوں کی سب شمعیں بجهاتا جا رہا ہے تو
مرے گهر میں مگر پھیلی ہوئی یہ روشنی کیا ہے
بہت خاموش بیٹھے تهے وہ میرے نام پہ چونکے
کهلا یہ راز یوں کہ آرزو اک ان کہی کیا ہے
یا حوریں ہیں، محل ہیں یا ہیں میٹھے دودھ کی نہریں
خدا کو ہی منانا ہے فقط اور بندگی کیا ہے
وہ مجھ پہ کهل رہے ہیں راز کہ دیوانہ کرتے ہیں
مگر یہ ہوش میں آنا ہی تو ہے بے خودی کیا ہے
پلٹتے ہیں مرے دن یوں ہوئے دشمن مرے اپنے
یہی بس دیکھ کر جانا ہے کہ آخر مخلصی کیا ہے
بے ایمانی ہے حق تلفی ہے چوری ہے یہاں پر تو
مرے اس شہر میں پھیلی ہوئی یہ خامشی کیا ہے
وہ یہ کہتا ہے اس جگ میں نہیں دوجا کوئی مجھ سا
نہیں ہے یہ اگر تو پهر کہو کہ سادگی کیا ہے
وہ ہے رنگین اک دهوکہ فقط اور عاشقی کیا ہے
وہ امیدوں کی سب شمعیں بجهاتا جا رہا ہے تو
مرے گهر میں مگر پھیلی ہوئی یہ روشنی کیا ہے
بہت خاموش بیٹھے تهے وہ میرے نام پہ چونکے
کهلا یہ راز یوں کہ آرزو اک ان کہی کیا ہے
یا حوریں ہیں، محل ہیں یا ہیں میٹھے دودھ کی نہریں
خدا کو ہی منانا ہے فقط اور بندگی کیا ہے
وہ مجھ پہ کهل رہے ہیں راز کہ دیوانہ کرتے ہیں
مگر یہ ہوش میں آنا ہی تو ہے بے خودی کیا ہے
پلٹتے ہیں مرے دن یوں ہوئے دشمن مرے اپنے
یہی بس دیکھ کر جانا ہے کہ آخر مخلصی کیا ہے
بے ایمانی ہے حق تلفی ہے چوری ہے یہاں پر تو
مرے اس شہر میں پھیلی ہوئی یہ خامشی کیا ہے
وہ یہ کہتا ہے اس جگ میں نہیں دوجا کوئی مجھ سا
نہیں ہے یہ اگر تو پهر کہو کہ سادگی کیا ہے