تماشا ہے یہ لفظوں کا وگرنہ شاعری کیا ہے - برائے اصلاح


تماشا ہے یہ لفظوں کا وگرنہ شاعری کیا ہے
نہ ہو یہ رنگ جس میں وہ بھی لیکن زندگی کیا ہے۔۔۔۔ یہ بہتر ہے؟

وہ امیدوں کی سب شمعیں بجها کر جا چکا کب کا
مرے گهر میں مگر پھیلی ہوئی یہ روشنی کیا ہے

بہت خاموش بیٹھے تهے وہ میرے نام پہ چونکے
ہوا یوں منکشف مجھ پر تمنا ان کہی کیا ہے

یوں مجھ پر کهل رہے ہیں راز اب دیوانہ کرتے ہیں ۔۔ ایسے کیسا ہے؟
اگر یہ ہوش میں آنا ہے تو یہ بے خودی کیا ہے

دغا بازی و حق تلفی ہے چوری ہے یہاں ہر سو! اب کیسا ہے؟
مگر اس شہر میں پھیلی ہوئی یہ خامشی کیا ہے

یہ حوریں ہیں، محل ہیں یا ہیں میٹھے دودھ کی نہریں
خدا کو ہی منانا ہے فقط اور بندگی کیا ہے۔۔۔۔۔

میرے ٹیپیکل انداز میں۔۔ یہ ایک طنز سے بھرا ہوا شعر ہے۔۔ اگر اس کو اس ہی لحاظ سے دیکھا جائے تو تب کیا یہ وزن کے اعتبار سے درست ہے؟ جناب شاہد شاہنواز صاحب، جناب الف عین صاحب
 

الف عین

لائبریرین
تماشا ہے یہ لفظوں کا وگرنہ شاعری کیا ہے
نہ ہو یہ رنگ جس میں وہ بھی لیکن زندگی کیا ہے۔۔۔ ۔ یہ بہتر ہے؟
÷÷ دوسرا مصرع رواں نہیں، اسے بہتر کیا جا سکتا ہے، فوری کچھ اس طرح سوجھا ہے
نہ ہو کچھ رنگ ہی جس میں، وہ لیکن زندگی کیا ہے۔
شاہد شاہنواز کوئی اور بہتر متبادل
وہ امیدوں کی سب شمعیں بجها کر جا چکا کب کا
مرے گهر میں مگر پھیلی ہوئی یہ روشنی کیا ہے
۔۔درست
بہت خاموش بیٹھے تهے وہ میرے نام پہ چونکے
ہوا یوں منکشف مجھ پر تمنا ان کہی کیا ہے
÷÷درست
یوں مجھ پر کهل رہے ہیں راز اب دیوانہ کرتے ہیں ۔۔ ایسے کیسا ہے؟
اگر یہ ہوش میں آنا ہے تو یہ بے خودی کیا ہے
۔۔دوسرا مسرع اگر یوں ہو تو بہتر ہو گا
اگر یہ ہوش میں آنا ہے، پھر یہ بے خودی کیا ہے
دغا بازی و حق تلفی ہے چوری ہے یہاں ہر سو! اب کیسا ہے؟
مگر اس شہر میں پھیلی ہوئی یہ خامشی کیا ہے

یہ حوریں ہیں، محل ہیں یا ہیں میٹھے دودھ کی نہریں
خدا کو ہی منانا ہے فقط اور بندگی کیا ہے۔۔۔ ۔۔
اس میں بھی روانی کی کمی ہے، کوئی متبادل بعد میں سوچتا ہوں، اوزان تو اس کے خطا نہیں ہو رہے ہیں، بس روانی کی کمی ہے۔
میرے ٹیپیکل انداز میں۔۔ یہ ایک طنز سے بھرا ہوا شعر ہے۔۔ اگر اس کو اس ہی لحاظ سے دیکھا جائے تو تب کیا یہ وزن کے اعتبار سے درست ہے؟ جناب شاہد شاہنواز صاحب، جناب الف عین صاحب
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تماشا ہے یہ لفظوں کا وگرنہ شاعری کیا ہے
نہ ہو یہ رنگ جس میں وہ بھی لیکن زندگی کیا ہے۔۔۔ ۔ یہ بہتر ہے؟
÷÷ دوسرا مصرع رواں نہیں، اسے بہتر کیا جا سکتا ہے، فوری کچھ اس طرح سوجھا ہے
نہ ہو کچھ رنگ ہی جس میں، وہ لیکن زندگی کیا ہے۔
شاہد شاہنواز
کوئی اور بہتر متبادل
ہے تو، لیکن بہتر ہے کہ نہیں، یہ غور کرنا پڑے گا۔۔۔
1) نہ ہو گر شاعری ممکن تو آخر زندگی کیا ہےِ؟ ۔۔
2) نہ ہو گر شاعری کا رنگ، آخر زندگی کیا ہے؟
÷÷درست
دغا بازی و حق تلفی ہے چوری ہے یہاں ہر سو! اب کیسا ہے؟
مگر اس شہر میں پھیلی ہوئی یہ خامشی کیا ہے
÷÷ مجھے تو ٹھیک لگ رہا ہے۔۔۔
یہ حوریں ہیں، محل ہیں یا ہیں میٹھے دودھ کی نہریں
خدا کو ہی منانا ہے فقط اور بندگی کیا ہے۔۔۔ ۔۔
اس میں بھی روانی کی کمی ہے، کوئی متبادل بعد میں سوچتا ہوں، اوزان تو اس کے خطا نہیں ہو رہے ہیں، بس روانی کی کمی ہے۔
وہ حوریں ہوں، محل ہوں یا ہوں میٹھے دودھ کی نہریں ۔۔ بہتر ہے میرے خیال میں تو۔
روانی کی کمی شاید دوسرے مصرعے میں ہے۔۔۔ لیکن معنوی اعتبار سے اس شعر کے حوالے سے میں اپنی رائے دے چکا ہوں ۔۔ ہوسکتا ہے مجھ سے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو ، اس لیے میری رائے یہاں کسی کام کی نہیں۔۔۔
÷÷ سارہ بشارت گیلانی ۔۔۔ اوزان کا یہاں بھی بتا دوں کہ اس بحر میں بھی آپ بس تھوڑا سا خیال رکھیں گی تو یہاں بھی اوزان خطا ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوسکتا۔ اور وہ خیال رکھنا محض اتنا ہے کہ آپ لکھتے ہوئے ذہن کو قابو میں رکھیں کہ خیال کے جوش میں بحر کے ارکان کم یا زیادہ نہ ہوں۔۔ یہ چار رکنی بحر ہے: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔۔ اقبال: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے ۔۔۔ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
تماشا ہے یہ لفظوں کا وگرنہ شاعری کیا ہے
یہ شیوا ہے دیوانوں کا فقط اور عاشقی کیا ہے
// یوں رواں ہو گا۔
یہ لفظوں کا تماشا ہے ، وگرنہ شاعری کیا ہے
یہ دیوانوں کا شیوا ہے فقط اور عاشقی کیا ہے
اگرچہ شعر دو لخت محسوس ہو رہا ہے۔

وہ امیدوں کی سب شمعیں بجها کر جا چکا کب کا
مرے گهر میں مگر پھیلی ہوئی یہ روشنی کیا ہے
// پہلا مصرع درست، دوسرے کو یوں کر دو
تو پھر پھیلی ہوئی یہ میرے گھر میں روشنی کیا ہے

بہت خاموش بیٹھے تهے وہ میرے نام پہ چونکے
یوں مجھ پر منکشف ہے اک تمنا ان کہی کیا ہے
//شاہد کی اصلاح سے متفق ہوں۔
ہوا یوں منکشف مجھ پر تمنا ان کہی کیا ہے

وہ مجھ پہ کهل رہے ہیں راز کہ دیوانہ کرتے ہیں
مگر یہ ہوش میں آنا ہے پهر یہ بے خودی کیا ہے
// وہ مجھ پہ کهل رہے ہیں راز جو دیوانہ کرتے ہیں
اگر یہ ہوش میں آنا ہے، پھر یہ بے خودی کیا ہے؟

دغا بازی ہے حق تلفی ہے چوری ہے یہاں ہر سو!
مگر اس شہر میں پھیلی ہوئی یہ خامشی کیا ہے
//پہلا مصرع یوں زیادہ بہتر اور رواں ہو گا۔
یہاں ہر سمت حق تلفی، دغا ہے، غصب و قبضہ ہے

یہ حوریں ہیں، محل ہیں یا ہیں میٹھے دودھ کی نہریں
خدا کو ہی منانا ہے فقط اور بندگی کیا ہے
//درست
 
Top