سب سے پہلے تو حرامی کو چھ نمبر (کا فونٹ) دے کر اس لفظ سے محبت کے اظہار پر آپ کا شکریہ!
بعد ازاں آپ کی جرّات پر مبارک باد کہ جون ایلیا کو اردو ادب کا لہجہ سکھانے چلے ہیں۔ تب تو یقیناً روحِ ذوقؔ کو بھی آپ کے حضور زانوئے تلمیذ تہہ کرنا پڑے گا کہ وہ یوں فرماتے ہیں:
پہنچا ہے شب کمند لگا کر وہاں رقیب
سچ ہے حرام زادے کی رسّی دراز ہے
(ذوق)
اردو لغت کے مطابق "حرامی" جب بطور صفت استعمال ہوتا ہے تو یہ "شریر" یا "بد ذات" کے معنوں میں آتا ہے۔
اب آتے ہیں آپ کے دوسرے سوال کی جانب کہ جون ایلیا نے مولویوں کو حرامی کیوں کہا؟ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ آپ جب عالمِ بالا کوچ فرما جائیں گے تو یہ سوال روحِ جون سے کیجیے گا کہ وہی درست جواب عطا فرما سکتے ہیں۔
لیکن آپ کی تشفی کی خاطر عرض ہے کہ یہاں معاملہ (بقول ایک دوست کے جنھیں پردہ داری مقصود ہے) یوں ہے کہ جیسے لڈو مٹھائی تو ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر مٹھائی لڈو ہی ہو اسی طرح کچھ مولوی حرامی بھی ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر مولوی حرامی ہی ہو اور درج بالا انشائیے میں حضرت مولانا قبلہ و کعبہ جون ایلیا رحمۃ اللہ علیہ کا روئے سخن ایسے ہی شریر (حرامی) مولویوں کی جانب ہے۔
امید ہے اس جواب سے کافی حد تک معاملہ آپ کی سمجھ میں آ چکا ہو گا لیکن اگر مزید تسلی چاہتے ہیں تو قبلہ م م مغل صاحب سے رجوع فرمائیے جنھوں نے یہ مبنی بر حق انشائیہ ارسال فرمایا تھا۔