باب پنجم : نتیجہ و اختتام
( آخری باب )
تحقیق کے قرین صواب ہونے کے دلائل
اس تحقیق کے صائب ہونے کے حق میں مندرجہ ذیل دلائل دیے جا سکتے ہیں:
۱۔ حروف مقطعات کے ہر حرف کا علیحدہ علیحدہ قراء ت کیا جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان میں سے ہر حرف اپنا علیحدہ مفہوم رکھتا ہے۔ بصورت دیگر، ان کے اس طرح تلاوت ہونے کی اور کوئی معقول وجہ تلاش کرنا مشکل ہے۔ یہ تحقیق اس اعتبار سے مناسبت رکھتی ہے۔
۲۔ یہ حروف اس کلام کا حصہ بنے جس کے مخاطبین عربی بولنے والے تھے۔ اللہ نے اس کلام کے بھی عربی میں ہونے کی یہی وجہ بتائی۔ چنانچہ یہ بالکل معقول توقع ہو گی کہ ان حروف کا تعلق بھی عربی سے ہو۔ موجودہ تحقیق چونکہ حروف کے مصداق ان چیزوں کو بتلاتی ہے جو عربی اور عبرانی کی مشترک اساسی زبان میں علامات کی حیثیت رکھتے تھے، اس سبب بھی یہ تحقیق عین موزوں ہے۔
۳۔ قرآن کا یہ اسلوب کہ وہ معلوم و معروف علوم کو ہی اپنے فہم کے لیے بنیاد بناتا ہے، بالکل واضح ہے۔ چنانچہ ان حروف کے بارے میں بھی یہ توقع کرنا کہ یہ کسی معلوم علم پر ہی اپنی اساس استوار کرتے ہوں گے، ایک بالکل معقول توقع ہے۔یہ تحقیق چونکہ ایسے ہی ایک مسلم علم کو بنیاد بناتی ہے جو عبرانی حروف کے ماخذ کی حیثیت سے آج بھی معلوم و معروف ہے، اس وجہ سے اس تحقیق کو بڑی تقویت مل جاتی ہے۔
۴۔ پھر اس تحقیق کی رُو سے حروف مقطعات میں مستعمل حروف کے معانی بھی اُن کے معروف مصداق تک ہی محدود ہیں، بلکہ ایک آدھ مقام کے علاوہ مستند مصادر میں مذکور مصداق سے دائیں بائیں پھرنے کی حاجت پیش ہی نہیں آئی۔ قرآن چونکہ الفاظ کو اپنے معروف معانی میں ہی استعمال کرتا ہے، اس اعتبار سے بھی یہ تحقیق قرآن کے عمومی اسلوب کے عین مطابق ہے۔
۵۔ عربی حروف تہجی کے وہ حروف جو جوڑا جوڑا واقع ہوئے ہیں: جیسے س ش، ص ض، ط ظ، ع غ، ح خ وغیرہ؛ حروف مقطعات میں ان میں سے صرف ایک، یعنی بغیر نقطوں والے زوج کا استعمال ہونا بھی اس تحقیق کو بہت وقیع کر دیتا ہے، کیونکہ عربی و عبرانی کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ایسے حروف کے جوڑے اپنی اصلی شکل میں بغیر نقطوں ہی کے تھے جو اپنے معنی و مصداق کی وحدانیت پر ہی دلالت کرتے ہیں اور زبان دانوں کا دعویٰ بھی یہی ہے۔
۶۔ پھر اس تحقیق کے مستنبط مصداق و معانی کی تائید اکثر تو حروف مقطعات کے ورود کے متصلاً بعد والی آیات سے ہو جاتی ہے یا پھر ایسے قرینے سے ہو جاتی ہے جو اسی سورہ یا قرآن کے ہی کسی اور مقام میں امتیازی حیثیت سے بیان ہو گیا ہوتا ہے۔
۷۔ پھر حروف مقطعات کے بہت سے مرکب ایک سے زیادہ سورتوں میں جوں کے توں استعمال ہوئے ہیں۔ اور پھر ایسی سورتیں ترتیب مصحف میں رکھی بھی متصل گئی ہیں۔ اور عموماً ان سورتوں کی حروف مقطعات سے متصل بعد والی آیات بھی ایک ہی جیسی ہوتی ہیں۔ ان خصائص سے یہ توقع بھی بڑی معقول لگتی ہے کہ ان سب سورتوں میں ایک ہی مرکب کے ایک ہی معنی ہونے چاہییں۔ یہ تحقیق اس مانگ کو بھی پورا کرتی ہے۔
مجموعی نتائج تحقیق
آغاز میں بیان کردہ اصولوں کے فرداً فرداً اطلاقات دیکھنے کے بعد یہاں میں ان مجموعی نتائج کو تحریر کرتا ہوں جو انفرادی اطلاقات کے انضمام و تجزیہ کے نتیجے میں حروف مقطعات کے استعمالات و حکمت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
۱۔ حروف مقطعات کے ورود کے وہ مقامات جہاں اِن کے وقوع کے متصلاً بعد والی آیت ’’و‘‘ سے شروع نہیں ہوتی، وہاں یہ آیت اِن حروف کے فہم کے لیے ایک قرینہ ہے۔ اِن میں سے وہ مقامات خاص اہمیت کے حامل اور تحقیق میں مؤید ہیں جہاں ’’ذَالِکَ‘‘ یا ’’تِلْکَ‘‘ سے باقاعدہ اشارہ بھی کر دیا گیا ہے۔ میرے نزدیک یہ اللہ تعالیٰ نے اور وجوہات کے ساتھ ساتھ اس لیے بھی کیا ہے تا کہ ان حروف کے مفاہیم پر غور کرنا آسان ہو جائے۔ چنانچہ وہ مقامات جہاں ’’و‘‘ نے اگلی آیت کا آغاز کیا ہے، وہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ حرف مقطعہ کا مصداق مضمون سورہ میں کہیں آگے جا کر ہی ملتا ہے۔
۲۔ حروف مقطعات جس سورہ میں بھی استعمال ہوئے ہیں، مضمون کی مناسبت سے استعمال ہوئے ہیں۔ اگر سورتیں بڑی تھیں اور مضامین بہت تو پھر یہ حروف صنف کی مناسبت سے استعمال ہوئے ہیں۔ ایسا اُن حروف میں ہوا ہے جو ایک سے زیادہ سورتوں میں آئے ہیں۔ جیسے ا ل م، ا ل ر، ح م۔ یعنی اِن گروہِ سُوَر کو جس مشترک مضمون نے باندھ رکھا ہے، اسی کی مناسبت سے حروف مقطعات لائے گئے ہیں۔ جیسے پاکی اور ہدایت ایک صنف ہے، حکمت ایک صنف، اور قرآن کے نزول کے لیے اختیار کیا گیا طریقۂ کار ایک صنف۔
۳۔ حروف مقطعات ہمیشہ سورتوں کے شروع میں ہی آئے ہیں، اس لیے انھیں سورتوں کا نام شمار کیا جاسکتا ہے۔ قرآن کی سورتیں چونکہ زیادہ تر خطاب کی صنف سے مماثلت رکھتی ہیں، اس لیے ان کے لیے نام کوئی ضروری تو تھے نہیں، اسی لیے جو نام ہمیں عموماً ملتے ہیں، وہ بس شناخت کنندہ (identifier) کی حیثیت رکھتے ہیں۔تاہم، کہیں کہیں اللہ تعالی نے ان کا نام خود بھی رکھ دیا ہے۔
۴۔ جو حروف ایک سورہ کے شروع میں آئے ہیں، اُن کو سورہ کا نام کہا جا سکتا ہے۔ جو حروف ایک سے زیادہ سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں، انھیں گروہی نام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
۵۔ سوائے ایک مقام کے باقی سب جگہ حروف مقطعات ایک ہی آیت میں اکٹھے وارد ہوئے ہیں۔ صرف حم عسق ۳۲ میں یہ دو آیات پر مشتمل ہیں۔ وہاں یہ اس لیے ہوا ہے، کیونکہ عسق دراصل حم پر استدراک ہے، یعنی باقی مقامات کے بر خلاف اس مقام پر اِن دونوں مرکبات کا مضمون ایک ہی درجے پہ نہیں، بلکہ عسق اصل میں حم کے ایک ذیلی مضمون کی تفصیل کر رہا ہے۔
۶۔ اشکال سے مضامین کی نمایندگی کرنا اگرچہ ایک بڑا حسین اور کارآمد طریقہ معلوم پڑتا ہے، مگر اللہ نے ایسا کیوں کیا، کیا اُس دور کے عرب اس استعمال سے واقف تھے، جن سورتوں میں یہ حروف نہیں آئے وہاں کیوں نہیں آئے، اِن سوالات سے یہ تحقیق تعرض نہیں کرتی۔ تاہم ان کے جواب کے لیے تحقیق ہونی چاہیے۔
اختتامیہ
یہ تحقیق اس ضمن کی ایک ابتدائی کاو ش ہے۔ میرے نزدیک نظریۂ فراہی اصول اور اطلاق، دونوں میں صائب ثابت ہوا ہے۔ اگرچہ اطلاقات میں سے کچھ میں بہتری کی گنجایش ابھی باقی ہے۔
میری تحقیق میں اگر کوئی غلطی ہے تو وہ یقیناً میری محنت یا سمجھ کے فقدان یا کوتاہی کی عکاس ہے۔ جولوگ اس تحقیق کو کوتاہیوں سے پاک کرنے میں میرے مددگار بنیں، ان کا میں پیشگی مشکور ہوں۔
___________________
۲ عبرانی حروف کی تاریخ و تعارف کے لیے میں نے ان مقامات کو مددگار پایا ہے:
۱۔ انسائیکلوپیڈیا یہودیاہ: عبرانی حروف تہجی، جلد ۱ صفحات ۶۸۹۔۷۲۸، جلد۸ صفحہ ۵۵۴ وغیرہ
۲۔ یہودی انسائیکلوپیڈیا
۳۔ ویکیپیڈیا
۴۔ مستند لغات کے دیباچے۔
۵ یہ حقیقت ہے کہ حروف کی شکلیں اور منشا اشیا تو مستند مصادر میں مذکور ہیں۔ مگر یہ شکلیں / اشیا کن معانی پر دلالت کرتی ہیں، اگرچہ ان کے بیان سے غیر مستند مصادر بھرے پڑے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ مستند مصادر ۔۔۔۔۔ اکا دکا حروف کے علاوہ ۔۔۔۔۔ ان کو موضوع نہیں بناتے۔ تاہم، جیسا کہ آپ آگے دیکھیں گے ان معانی کا استنباط فہم عامہ کے استعمال سے براہ راست حروف کی مصداق اشیا سے ہو جاتا ہے۔
۷ یہ اب آن لائن بھی پڑھا جا سکتا ہے
http://www.jewishencyclopedia.com/۔
۸ اس راے کی تصدیق کے لیے کسی بھی مستند لغت کی مراجعت کی جا سکتی ہے۔
۹ مثال کے طور پر ’’ط‘‘۔ فؤرسٹ اور کچھ اور لغت نویس سانپ کے مقابل میں ٹوکری یا بل کھانے کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ جسینیَس سانپ اور ٹوکری دونوں کو بیان کر دیتا ہے۔ چنانچہ میں نے ’’ط‘‘ کے پورے نام ’’طیط‘‘ یعنی بڑا سانپ کو ترجیح دی ہے۔
۱۰ جیسے بیل سے طاقت یا طاقت ور مراد لینا۔
۱۱ جن لوگوں نے اس سے گائے مر ادلی ہے، انھوں نے غلطی کی ہے۔
۱۲ بیسیوں مقامات پر کہیں براہ راست اللہ کو چرواہا کہا گیا ہے اور کہیں اللہ کی مخلوق کو بھیڑوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو:
http://bible.knowing-jesus.com/topics/God,-As-Shepherd۔
۱۳ اس سے ’ذالک‘ اور ’تلک‘ کے استعمال میں جو الجھنیں مفسرین کو پیش آئی ہیں، وہ بھی حل ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ ’ذالک‘ اور ’تلک‘ اہل نحو کے یہاں گفتگو میں پہلے سے موجود کسی شے کی طرف اشارے کے لیے آتے ہیں۔
۱۴ مثلاً سورۂ بقرہ، آل عمران، لقمان اور السجدہ میں۔
۱۵ مثلاً سورۂ بقرہ، آل عمران، السجدہ میں۔
۱۶ مثلاً سورۂ لقمان میں۔
۱۷ ص کی تصویری علامت مستند مصادر میں صرف بیان ہوئی ہے۔ اس کی قدیم علامت (pictograph) ان میں دستیاب نہیں۔ اسی لیے میں نے قدیم فونیشیائی رسم الخط یہاں نقل کر دیا ہے۔ اگرچہ غیر مستند مصادر اس کی تصویری علامت کچھ یوں ۔۔۔۔۔ بتاتے ہیں۔
۱۸ انسائیکلوپیڈیا یہودیا: دوسرا ایڈیشن، جلد ۱۷، صفحہ ۶۵۵، دیکھیے صاد (Sade)۔
۱۹ یہاں اگرچہ یہ امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ ’’م‘‘ سے یہاں مراد وہ بستی ہو جو پانی کے کنارے واقع تھی۔ اس اعتبار سے م اور ص دونوں اصحابِ سبت ہی کی علامت ہو جائیں گے۔ تاہم یہ تاویل کمزور ہے، اس لیے میں نے اسے اختیار نہیں کیا۔
۲۰ الاعراف۷: ۱۶۳۔ ۱۶۶۔
۲۱ بہت سے نیم مستند مصادر قدیم کتبات سے یہ بھی اخذ کرتے ہیں کہ یہ حرف اصل میں پورے لفظ ’’ھا‘‘ ہی کے قائم مقام ہے۔ اور اس کا مطلب یہی بتاتے ہیں کہ جیسے اچانک کسی اہم یا شان دار چیز کو دیکھ کر انسان اعلان کے لیے ہاتھ اٹھا لیتا ہو۔ مثلاً دیکھیے:
Biblical Archaeology Review...
۲۲ ۳۸: ۴۵۔ یعنی ہاتھوں اور آنکھوں والے۔ مگر اعلیٰ عربی میں اس کا ترجمہ یوں کیا جائے گا کہ بہت قدرت اور بصیرت رکھنے والے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کی جو تاریخ ہمیں بتلائی ہے، وہ ان درویشانہ افسانوں سے کہیں مختلف ہے جو عام طور پر لوگ نیک لوگوں کے بارے میں گمان کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ نے ان نفوس قدسیہ کے بارے میں یہ باور کرایا ہے کہ میرے پیغمبر دنیاوی فنون میں بڑی مہارت رکھنے والے اور بڑے دنیا بیں لوگ تھے۔ یہ تعبیر بھی یہی بتا رہی ہے۔
۲۳ رسم آشوری میں یہ یوں لکھا جاتا تھا:۔۔۔۔۔۔
۲۴ انسائیکلوپیڈیا یہودیا: (Encyclopedia Judaica)، دوسرا ایڈیشن، جلد ۱۸، صفحہ ۴۸۳۔۴۸۴، دیکھیے ’’شن‘‘(Shin)۔
۲۵ یہ معانی صرف غیر مستند مصادر میں ہی ملتے ہیں۔ مثلاً دیکھیے:
https://en.wikipedia.org/wiki/Shin_(letter)۔
۲۶ دیکھیے:
https://en.wikipedia.org/wiki/Heth۔
۲۷ دیکھیے آغاز میں بیان کیے گئے مصادر میں ’’Edward Fuerst‘‘کی فرہنگ۔
۲۸ الشورٰی ۴۲: ۳۔
۲۹ الانعام ۶: ۱۰۳۔
۳۰ آیت ۵۲۔
۳۱ ۸۲: ۱۰۔
۳۲ الشوریٰ ۴۲۔