امن وسیم

محفلین
حروف مقطعات پر نظریہ فراہی کے اطلاقات
( عدنان اعجاز )

میں نے اس مضمون میں کچھ ترمیم کی ہے اور اسے کئی حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ جنہیں میں مرحلہ وار ابواب کی شکل میں بھیجوں گا۔
 
آخری تدوین:

امن وسیم

محفلین
باب اول : حروف مقطعات کے معانی و مطالب ( اختصار کے ساتھ )

فی الحال میں حروف مقطعات کے معانی و مطالب مختصر انداز میں بیان کر رہا ہوں۔ جن کی وضاحت ( تفصیل کے ساتھ ) اگلے مراسلوں میں ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حروف مقطعات کے مصداق و معانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا ل م

عربی حرف : ا
قدیم عبرانی حرف : الف
شکل اور مصداق کا بیان : بیل
معانی : طاقت، طاقت ور، قوی

عربی حرف : ل
قدیم عبرانی حرف : لامد
شکل اور مصداق کا بیان :چرواہے کی لاٹھی
معانی : چرواہا، سکھانا، ہدایت دینا

عربی حرف : م
قدیم عبرانی حرف : میم
شکل اور مصداق کا بیان:پانی کی لہریں
معانی : پانی

مطلب: طاقت ور، چرواہا، پانی
مراد : اللہ کا نازل کردہ پانی۔ یعنی قرآن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا ل م ص

عربی حرف : ص
قدیم عبرانی حرف : صاد
شکل اور مصداق کا بیان:مچھلی پکڑنے کاکانٹا
معانی : آلۂ شکار، شکار کرنا، نیک آدمی۔۱۷؂
۔۔۔۔ صادِق، کھلا ہوا پھول ۱۸؂
۔۔۔۔ پھول یا پھولوں کی ایک قطار

مطلب: ا ل م کا مطلب پہلے بیان کیا جا چکا ہے، یعنی قرآن۔
ص، واقعۂ اصحاب سبت کی علامت کی حیثیت سے آیا ہے۔
مراد : یعنی قرآن میں ہفتے کے دن والی قوم کا واقعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا ل ر اور ا ل م ر

عربی حرف : ر
قدیم عبرانی حرف : ریش
شکل اور مصداق کا بیان:انسان کا سر
معانی : سر، انسان

مطلب: اللہ کی طرف سے (اترنے والی) حکمت، یعنی قرآن۔
اسی طرح ا ل م ر میں ہدایت و حکمت کا مفہوم جمع ہو گیا ہے، چنانچہ مراد پھر بھی قرآن ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ک ھ ی ع ص

عربی حرف : ک
قدیم عبرانی حرف : کاف، کف
شکل اور مصداق کا بیان:ہاتھ، ہتھیلی
معانی : ہاتھ، ہتھیلی، پھیلایا ہوا ہاتھ

عربی حرف : ھ یا ہ
قدیم عبرانی حرف: ھے، ھا
شکل اور مصداق کا بیان:آدمی ہاتھ اٹھائے ہوئے، کھڑکی
معانی:وہ دیکھو، آگاہ ہو جاؤ، خبردار

عربی حرف : ی
قدیم عبرانی حرف : ید
شکل اور مصداق کا بیان : بازو
معانی : بازو

عربی حرف : ع
قدیم عبرانی حرف : عین
شکل اور مصداق کا بیان : آنکھ
معانی : آنکھ، دیکھنا

مطلب: کیا خوب دعا مانگی مانگنے والے نے اور ذکر مہارت و بصیرت کے حامل نیک بندوں کا۔
مراد : ک ھ مرکب میں حضرت زکریا علیہ السلام کی اس دعا کے لیے آئے ہیں جو اس آیت کے متصلاً بعد شروع ہو جاتی ہے، جبکہ ی ع ص ان سب انبیا و رسل کے لیے آئے ہیں جن کا تذکرہ اس سورہ میں یکے بعد دیگرے ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ط ہ
عربی حرف : ط
قدیم عبرانی حرف : طیط
شکل اور مصداق کا بیان: سانپ، ٹوکری
معانی : بڑا سانپ، ٹوکری، بل کھانا

مطلب: دیکھو پُر ہیبت سانپ، یا کیا کہنے موسیٰ علیہ السلام کے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ط س م اور ط س

عربی حرف : س
قدیم عبرانی حرف : شن، شین
شکل اور مصداق کا بیان : دانت
معانی : تیر کمان۲۴؂، دانت، سامنے کے دو دانت، کاٹنا۔ دبانا، تیز کرنا۔ ۲۵؂

مطلب: سانپ، دانت، پانی۔
مراد : یعنی سانپ جو اپنے دو دانت نکالے پھنکار رہا ہو کی علامت، اورموسیٰ علیہ السلام کے پانی کو پھاڑنے اور قوم فرعون کے اس میں غرق ہونے کی علامت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ی س

مطلب: دانتوں پر مکے کی ضرب۔
مراد : یعنی ی س عام محاورے میں ’’مکے سے دانت توڑنے‘‘ کی تمثیل کے لیے آئے ہیں۔ ان سے مقصد مکذبین کو اللہ کے عذاب کی پیشین گوئی اور اس سے ڈرانا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ص

مطلب: میرے صالح بندے
مراد : اس سورہ میں مخاطبین کے اعتراضات سے گریز کر کے تربیت پر توجہ مبذول کی گئی ہے۔ اور اس تربیت کے لیے کچھ ’’صالحین‘‘ کا انتخاب کیا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ح م

عربی حرف : ح
قدیم عبرانی حرف : حیط، حاط
شکل اور مصداق کا بیان:دیوار، جنگلا
معانی : دیوار، دیوار میں اینٹوں کی ایک قطار، جنگلا، باڑ میں گھیرنا، احاطہ کرنا

مطلب: علیحدہ علیحدہ حصوں میں اترنے والی ہدایت یا رفتہ رفتہ مکمل ہونے والی ہدایت،
مراد : یعنی قرآن۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ع س ق

عربی حرف : ق
قدیم عبرانی حرف : قف یا قوف
شکل اور مصداق کا بیان : سر اور گردن کا پچھلا حصہ
معانی : سر اور گردن کا پچھلا حصہ، یا سوئی کا ناکہ، کلہاڑی کی آنکھ

مطلب: نگاہ نہیں پہنچ سکتی۔
مراد : کوئی بھی اللہ کو دیکھ نہیں سکتا۔ اس لیے جس کو بھی جب بھی وحی ہوئی ہے، خدا کو دیکھے بغیر ہی ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ق

مطلب: نگران۔ یعنی وہ فرشتے جو انسان کے دائیں اور بائیں بیٹھے اس کا ریکارڈ رکھ رہے ہیں۔
مراد : کراما کاتبین۔ سورۂ انفطار میں بھی انھیں نگران ہی کہا گیا ہے یعنی گردن کے قریب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ن

عربی حرف : ن
قدیم عبرانی حرف : نون
شکل اور مصداق کا بیان:مچھلی، سانپ
معانی : مچھلی، سانپ

مطلب: مچھلی،
مراد : یعنی مچھلی والے پیغمبر یونس علیہ السلام۔
 

امن وسیم

محفلین
باب دوم : حروف مقطعات کا تعارف

حروف مقطعات کے معنی و مفہوم کے بارے میں اگر قدیم مفسرین کی آرا کا استقصا کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ کسی مضبوط علمی بنیاد پر مبنی نہیں ہیں ۔ البتہ، جدید مفسرین میں مولانا حمید الدین فراہی کا نقطۂ نظر قابل غور علمی استدلال پر مبنی ہے۔ اگر اسے اختیار کیا جائے تو اِن حروف کے مفہوم تک رسائی کا مستند اور مضبوط علمی راستہ واضح دکھائی دیتا ہے۔ مولانا فراہی کا موقف یہ ہے کہ عربی اورعبرانی زبانوں کے حروف ایک مشترک اساس رکھتے ہیں۔ یہ حروف ان حروف سے ماخوذ ہیں جو عرب قدیم میں رائج تھے۔ یہ حروف انگریزی اور ہندی کے حروف کی طرح صرف آواز ہی نہیں بتاتے تھے، بلکہ چینی زبان کے حروف کی طرح معانی اور اشیا پر بھی دلیل ہوتے تھے اور جن معانی یا اشیا پر دلیل ہوتے تھے، عموماً انھی کی صورت و ہیئت پر لکھے جاتے تھے۔

زیر نظر تحقیق اِسی زاویۂ نظر سے تحقیق و جستجو کی ایک کاوش ہے ۔

عربی و عبرانی حروف ۲؂

عبرانی حروف جن مادی اشکال کی تمثیل سے بنے ہیں، وہ اشکال بالاجمال معلوم اور عبرانی لغات میں مذکورہیں۔ ان حروف کی تاریخ ایک اندازے کے مطابق تقریباً چار ہزار (۴۰۰۰) سال پرانی ہے ۔ حروف کی منشا شکلوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ اس دور کے انسان کے ماحول میں موجود اشیا تھیں۔ آثار قدیمہ سے ملنے والے کتبات سے اس خیال کو بھی تقویت ملتی ہے کہ آغاز میں حروف لکھے بھی انھی شکلوں کی ساخت کی طرح جاتے تھے۔ مگر تاریخ کے مختلف ادوار میں رسم الخط کے تغیر سے عبرانی حروف کی ساخت بدلتی رہی؛ جیسے مثال کے طور پر رسم عبری (ہبرو) اور رسم آشوری (آشوریئن) وغیرہ۔ چنانچہ آج کے رسم الخط میں ان اشکال سے اگر کچھ بُعد محسوس ہو تو اُس کی یہی وجہ ہے۔
ذرا سی تحقیق سے یہ بات بھی آشکار ہو جاتی ہے کہ عربی حروف اب بھی عبرانی حروف کی قدیم ساخت سے بہت مماثلت رکھتے ہیں، بلکہ عبرانی ماہرین لغات عبرانی حروف و الفاظ کی اکثر پیچیدگیوں کو عربی سے تقابل کے ذریعے سے ہی حل کرتے ہیں ۔ بایں ہمہ، ان کی آوازیں تو بالکل ایک ہی ہیں اور ہمیشہ ایک ہی رہی ہیں۔ رہے اِن حروف کے پورے نام (جیسے ’’ا‘‘ کا ’’الف‘‘) تو وہ بھی تقریباً ایک ہی ہیں۔ بلکہ اگر کچھ ایسی مناسب حال تبدیلیاں کر لی جائیں جو عبرانی اور عربی زبان دانوں نے تجویز کی ہیں تو ’’تقریباً‘‘ کا لفظ اس باب میں بھی حذف ہو جاتا ہے۔
مثال کے طور پہ، ’’ا‘‘ عربی کی طرح عبرانی میں بھی ’’الف‘‘ہی ہے اور آواز بھی ایک ہی ہے۔ ’’ب‘‘، عربی میں ’’با‘‘ اور عبرانی میں ’’بیت‘‘ ہے، مگر آواز ایک ہی ہے۔’’ص‘‘، عربی اور عبرانی میں ’’صاد‘‘ ہی ہے اور ایک ہی آواز دیتا ہے وغیرہ۔
چنانچہ یہ بلا تامل ماننا پڑتا ہے کہ عربی حروف تہجی لازماً عبرانی حروف تہجی ہی ہیں یا کسی ایک ہی مشترک مصدر سے پھوٹی ہیں، اور جو شکلیں یا پلٹوگرام عبرانی حروف کی منشا ہیں، وہی لا ریب عربی کی بھی منشا ہیں۔
اب آئیں ذرا یہ جانتے ہیں کہ حروف اور ان کی نشاءتی شکلوں کا آپس میں کیا تعلق ہے ، یہ شکلیں کتنے معانی پر دلالت کرتی ہیں اور مختلف شکلیں مل کر کیسے ایک خیال کے لیے بنیاد بنتی اور کیسے ان کا مجموعہ ایک پورے مربوط مفہوم کو اداکرتا ہے۔ یہ جاننا اس لیے ضروری ہے تا کہ حروف مقطعات میں ان کا مفہوم سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔

حروف، شکلوں اور معانی کا باہمی تعلق

جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے کہ ہر حرف کسی مادی چیز کی علامت ہے جو اس چیز کی شکل کی نمایندگی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر عبرانی و عربی حروف تہجی کا پہلا حرف ’’ا‘‘۔ اس کی نمایندہ شکل ایک بیل کے سر کا خاکہ ہے۔ بیل کو ہی عبرانی میں ’’الف‘‘ کہتے ہیں۔ اسی لیے ’’ا‘‘ کو بھی الف ہی پڑھتے ہیں۔ اسی طرح ’’ب‘‘ہے۔ اس کی نشاء تی شکل ایک گھر کی تصویر ہے۔ گھر کو عبرانی و عربی میں ’’بیت‘‘ کہتے ہیں، اسی لیے عبرانی میں ’’ب‘ ‘کو بیت پڑھتے بھی ہیں ۔

اب یہ سمجھ لیجیے کہ یہ حروف جن قدیم عرب اشیا کی ساخت پر بنے ہیں، قدیم زبان میں یہ اشیا اپنے مادی مصداق کے ہمراہ اس شے کی خصوصیات کے لیے معنوی اعتبار سے بھی استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ یہ ایک بہت ضروری نکتہ ہے ۔۵؂ مثلاً بیل چونکہ طاقت اور قوت کا حامل ہوتا ہے، اور قدیم عرب، بلکہ موجودہ دور کے دیہاتی علاقوں میں آج بھی بیل طاقت و ہیبت کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے، اس لیے الف کا مصداق معنوی اعتبار سے طاقت اور طاقت ور،یعنی اسم اور فعل، دونوں کے اظہار کے لیے استعمال ہو سکتا تھا۔ اسی طرح ’’ب‘‘ یعنی گھر رہنے کی جگہ کے ساتھ ساتھ خاندان کے معنی بھی دے سکتا تھا اور کسی چیز کے اندر ہونے کے بھی۔ اسی طرح مختلف حروف مل کر ایک حتمی خیال کی نشان دہی بھی کر سکتے تھے۔
یہ حروف کے امتزاج سے حاصل ’’خیال‘‘ اصل میں شکلوں اور ان کے مراد معانی کے امتزاج ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کو اہرام مصر کی تمثالی زبان (Egyptian Hieroglyphs) سے بڑے اچھے طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ قدیم مصری اقوام نے انفرادی شکلوں ہی کے امتزاج سے الفاظ اور جملے بنائے اور پھر ہر شکل کو اس کی صوتی، صورتی یا معنوی (phonograms, logograms or semagrams) حیثیت میں استعمال کیا۔ شکلوں کو صوتی اعتبار سے پڑھنا ہو یا معنوی اعتبار سے، اس کے لیے انھوں نے تعینات (determinatives) کا استعمال ایجاد کیا۔ جن لوگوں کو اس مصری تمثالی زبان میں کچھ دل چسپی ہو، وہ اس کا مطالعہ کریں۔ اس سے ان کو حروف اور ان کی شکلوں سے استدلال کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
تاہم، قدیم عبرانی حروف تہجی کی ایجاد کے نتیجے میں ان منشا اشیا اور ان کے معنوی اطلاقات اپنا اثر کھو بیٹھے اور اشکال کے نمایندہ حروف فقط صوتی تاثیر کے حامل ہوئے۔ یعنی الف کو بس ’’اَ‘‘ کی آواز کے لیے، بیت کو ’’ب‘‘ کی آواز وغیرہ ہی کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ باوجود اس کے، حروف کی تحریری ساخت اور پورا نام اپنے ماخذ اشیا کی نمایندگی ہمیشہ کرتے رہے۔ اگرچہ رسم الخط کے تغیر کے زیر اثر تحریری ساخت کچھ بدلتی رہی، مگر حروف کا پورا نام ہمیشہ ایک ہی رہا

حروف مقطعات پر قدیم حروف سے استنباط

قرآن مجید کی جن سورتوں کا آغاز حروف مقطعات سے ہوتا ہے، یہ ثابت ہے کہ اولین قاری ۔۔۔۔۔ یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔ سے آج تک یہ حروف وہاں علیحدہ علیحدہ اور اپنے پورے نام سے ہی پڑھے جاتے ہیں۔ اسی طرح اولین قرآنی نسخوں سے آج تک یہ لکھے بھی اسی طرح جاتے ہیں۔ پھر عموماً یہ جہاں کہیں بھی وارد ہوئے ہیں، پوری آیت ہی شمار کیے گئے ہیں۔ پھر یہ بھی لازمی ہے کہ یہ آیت کوئی نہ کوئی معنی تو رکھتی ہو گی۔ وقوع کی یہ ندرتیں لامحالہ اس بات کی ضامن ہیں کہ ان حروف کا ہر ہر حرف اپنے وجود سے مستنبط معنی ہی کو بنیاد بناتا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ فراہی صاحب نے ان حروف کے اپنے مصداق و معانی کی طرف توجہ دلائی۔
چنانچہ میری اس تحقیق کے نتیجے میں یہ ثابت ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان حروف کو اپنے قدیم انفرادی مطالب میں ہی استعمال کیا ہے۔ اور اس استعمال سے صرف حروف کے مادی مصداق ہی کو مراد نہیں لیا، بلکہ قدیم زبانوں کی طرح ان مصداقوں کے واضح خصائص کو بطور مجازی معانی بھی مراد لیا ہے۔
چنانچہ ان حروف کے مصداق کی تخریج اور ان کے معانی کی کھوج کے لیے میں نے معروف عبرانی و کلدانی اشتقاقی لغات کو اپنی تحقیق کی بنیاد بنایا ہے۔ پھر ان پر مزید تدبر کے لیے مستند انسائیکلوپیڈیا کو بھی زیر مطالعہ رکھا ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
باب سوم : تحقیق

عبرانی حروف کی چند الجھنیں

اس سے پہلے کہ ہم اس نظریے کا اطلاق فرداً فرداً قرآن کے ہر مقام پر کریں، ان شکلوں کے علم کی چند الجھنوں کا جاننا ضروری ہے:

۱۔ اکثر عبرانی حروف کی منشاء ومبداء اشکال اور ان کے مصداق من جملہ معلوم ہیں۔ عموماً یہ شکلیں بڑی واضح ہیں اور جن اشیا کے وہ خاکے ہیں، ان خاکوں سے اصل اشیا کا ادراک بڑی آسانی سے حاصل ہو جاتا ہے۔ حرف کا پورا نام بھی اس کی تصدیق کر دیتا ہے۔ مگر کچھ حروف اور ان کی محولہ شکلوں میں یہ ہوا ہے کہ اس کا ماخذ موضوع بحث اور محل اختلاف ہے۔
۲۔ ایک تو ہیں حروف کی ماخذ شکلوں کے مادی مصداق۔ ایک ہیں وہ غیر مرئی (abstract) خیالات و معانی جن کی وہ شکلیں عکاسی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ’’بیل‘‘ سے ’’طاقت‘‘ مراد لینا۔ یہ دوسری قسم کے انکشافات مستند مصادر میں شاذ ملتے ہیں۔ چنانچہ ان کے اخذ و فہم کے لیے میں نے غیر مستند ذرائع کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ مگر یہ کوئی خاص باعث نزاع نہیں ہوتا، کیونکہ جو شے یہ طے کرتی ہے کہ اس سے کون سے معنی مراد ہو سکتے ہیں، اصلاً اس پہ منحصر ہوتا ہے کہ جس شے کی وہ تصویر ہے، یہ براہ راست کس معنی کی عکاس ہے اور کیا اس سے یہ مفہوم بلا تامل و تردد مراد لیا جا سکتا ہے کہ نہیں۔ تاہم واقعہ ہے کہ حروف مقطعات میں یہ نزاع کم ہی کہیں دامن گیر ہوئی ہے۔
۳۔یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ وہ عبرانی حروف جو کسی قدر قریب المخارج اور کسی قدر ہم آواز ہیں اور منہ یا حلق میں قریبی مقامات سے ادا کیے جاتے ہیں، ان کے متعلق عبرانی اور عربی کے مابین تعین میں کچھ اشکال لاحق ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدیم عبرانی میں عربی کی طرح ’’ع اور ا ‘‘، ’’ح اورھ‘‘، ’’ب اور و‘‘، ’’ث اور س‘‘اور ’’ط اور ت‘‘ وغیرہ اگرچہ علیحدہ حروف ہی تھے، اور ہیں، مگر ان کے تلفط میں فرق کرنا قدیم ناطقین کے لیے ہی غالباً کچھ گراں ہو گیا تھا۔ نتیجۃً بولنے میں اب ان کے درمیان کوئی خاص فرق باقی نہیں رہا۔ تاریخ سے معلوم پڑتا ہے کہ قدیم زمانے میں یہ آپس میں اسی سبب سے کچھ گڈ مڈ ہوئے ہیں اور فرہنگ نویسوں کو بھی ان میں کچھ اشتباہ لاحق ہوا ہے۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ عربی میں یہ اب بھی بالکل اپنی صحیح آواز پر باقی ہیں۔ چنانچہ عبرانی میں وہ حرف جس کے بارے میں اشکال ہو جائے، اس کے استعمالات دیکھ کر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ عربی میں کون سا حرف ہے اور اسی طرح بہ صورت معکوس بھی۔ خود ماہرین فن بھی اس مقصد کے لیے لغات میں جا بجا عربی زبان کے تقابل ہی سے استفادہ کرتے ہیں ۔۸؂
۴۔اسی طرح وہ حروف کے جوڑے جن میں ایک نقطوں والا اور ایک نقطوں کے بغیر ہوتا ہے، وہ جوڑے بھی بعض اوقات کچھ الجھن کا شکار کر سکتے ہیں۔ جیسے ’’س ش‘‘یا ’’ح خ‘‘یا ’’ع غ‘‘یا ’’ص ض‘‘یا ’’ط ظ‘‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کے جوڑے جس زبان میں بھی ہیں، ان کی آواز میں فرق تو اگرچہ ہمیشہ سے روا رکھا گیا، مگر تحریر میں ان کے مابین فرق بہت بعد میں اختیار کیا گیا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ حاملین زبان کے لیے ان کے استعمالات میں فرق کرنا اس قدر سہل اور واضح تھا کہ نقطوں کے بغیر بھی انھیں کبھی کوئی اشکال نہیں ہوتا تھا۔ خود ہماری زبان اُردو کی تاریخ بھی ایسی ہی ہے۔ چنانچہ ہوا یہ کہ بعد میں آنے والی نسلوں کی مہارت جب زبان میں کم ہوئی یا فتوحات و ہجرت کے باعث ایک زبان جب دوسری جگہ پہنچی تو لوگوں نے پہلے سے موجود تحریروں کے حروف کے تعین میں کوتاہیاں کیں جس کے نتیجے میں نقطے یا ’’داغش‘‘ ایجاد ہوئے۔اس کو بھی مثال سے سمجھیں۔ عبرانی حروف تہجی میں مثلاً ش اور س دونوں کے لیے ایک ہی حرف ہے جسے ’’شِن یا شین‘‘کہتے ہیں، مگر سب ماہرین مانتے ہیں کہ اسی کو ’’س‘‘ اور ’’ش‘‘دونوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور اس کی علامت کے لیے محققین اب ش اور س کی آواز مراد لینے کے لیے ایک نقطہ پہلے یا آخری شوشے پر لگا دیتے ہیں۔ تاہم، اس الجھن سے بھی اس موجودہ تحقیق پر کوئی اثر اس لیے نہیں پڑا، کیونکہ حروف مقطعات میں ایسے جڑواں حروف جن کا ایک ساتھی بغیر نقطوں کے اور ایک بمع نقطوں کے ہے، ان میں سے بغیر نقطوں والے ہی کو استعمال کیا گیا ہے تا کہ کوئی اشکال واقع ہی نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے نظریۂ فراہی کو ایک اعتبار سے مزید تقویت بھی آپ سے آپ مل جاتی ہے۔

تحقیق کے رہنما اصول

ان مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے جن اصولوں کی بنیاد پر عبرانی حروف کی اساسی شکلوں سے حروف مقطعات کا استنباط کیا ہے، وہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ حروف مقطعات کے کسی حرف کے معنی جاننے کے لیے سب سے پہلے اس بات کا تعین کیا گیا ہے کہ یہ عبرانی میں کون سا حرف ہے۔ اکثر حروف میں یہ چونکہ آواز اور نام کے اعتبار سے بالکل ایک ہیں، اس لیے اس میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ چند حروف جیسے ’’س‘‘، ’’ط‘‘، ’’ح‘‘وغیرہ جہاں ان کے عبرانی مثنیٰ کی تعیین میں یہ اشتباہ ممکن تھا کہ مثال کے طور پر عبرانی میں بالترتیب سامخ ہے یا شین (Samekh or Shin)، تیت ہے یا تاو (Tet or Tav)، خیت ہے یا ہیہ (Chet or Hey)، ان کے استعمالات دیکھ کر اور معروف عبرانی لغات کی مراجعت کر کے ان کی تعیین یقین سے کر لی گئی ہے۔
۲۔ کوئی عبرانی حرف کس شے کی علامت ہے، اس کے لیے حرف کا پورا عبرانی نام (جیسے ’’ا‘‘ کا ’’الف‘‘) اور حرف کی بنیاد بننے والی چیز (جیسے ’’ا‘‘ کا ’’بیل‘‘)، دونوں کو شامل عوامل رکھا گیا ہے۔ بعض فرہنگ نویس جب ایک ہی حرف کے مصداق میں اختلاف کر بیٹھتے ہیں تو گیند لا محالہ محقق ہی کے کورٹ میں آ جاتی ہے ۔ ۹؂ چنانچہ میں نے اپنی راے کسی ایک کے حق میں اور ایک کے خلاف دینے کے لیے یہ اصول اختیار کیا ہے کہ حرف کی وہ منشا شے زیادہ قابل اعتبار سمجھی جائے کہ حرف کا پورا نام بھی جس کی تائید کر دے۔
۳۔مصداق کے چناؤ کے بعد اس کے مجازی معنی/معانی کا معاملہ آتا ہے۔ یہ پہلو چونکہ ابھی تک کوئی قطعی سائنس نہیں بنا اور موضوع تحقیق ہے، اس لیے بہر حال اس معاملے میں قیاس اور گمان کا سہارا لینا پڑا ہے۔ مگر اسے قیاس کے مقابل میں اگر وراثی ادراج (extrapolation) کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ تاہم، میں نے معانی کے اخذ کے لیے خود کو مصداق شے کی واضح ترین خصوصیات تک محدود رکھا ہے ۔۱۰؂
۴۔ حروف کے انفرادی مفاہیم اخذ کرنے کے بعد اگر کسی مقام پر یہ مرکب کی صورت میں وارد ہوئے ہوں تو ان مفاہیم کا ایک دوسرے سے ربط تلاش کیا گیا ہے۔ یعنی یہ دیکھا گیا ہے کہ دو یا تین یا زیادہ حروف مل کر کسی ایک حقیقت کی طرف اشارہ تو نہیں کر رہے۔ اگر کر رہے ہوں تو اُس کو بھی بیان کر دیا گیا ہے۔
۵۔ اس سب کے بعد ان مفاہیم کی مناسبت ان سورتوں میں بھی تلاش کی گئی ہے جن میں یہ وارد ہوئے ہیں۔ اگر حروف کے مرکب ایک سے زیادہ سورتوں میں جوں کے توں آئے ہیں تو ان کے بارے میں ایک مجموعی راے بھی قائم کر لی گئی ہے۔
ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اب آئیے ترتیب مصحف کے اعتبار سے حروف مقطعات کے مصداق و معانی معلوم کرتے ہیں۔
 

امن وسیم

محفلین
باب چہارم : حروف مقطعات کے مصداق و معانی
تفصیل کے ساتھ ( حصہ اول )

ا ل م

بیان

الف: الف عبرانی میں بیل (Ox)کو کہتے ہیں۔ قدیم عبرانی حرف لکھا بھی بیل کے سر کی طرح جاتا تھا۔ بیل چونکہ عظیم طاقت و ہیبت کی علامت ہوتا ہے، اس لیے اس سے طاقت مراد لینا بالکل واضح ہے ۔ ۱۱؂ یہاں یہ طاقت ور کے مفہوم میں آیا ہے۔
لام: ’’ل‘‘ کا پورا نام عبرانی میں ’’لامد‘‘ ہے، جس کے معنی چرواہے کی لاٹھی (Shephard’s Staff/Ox goad) کے ہیں۔ لغات کے استقصا سے پتا چلتا ہے کہ یہ عربی کے ’’ل‘‘ کی طرح ہمیشہ اپنی ساخت سے چرواہے کی لاٹھی کی ہی طرح لکھا بھی جاتا رہا ہے۔ چنانچہ اس سے یہاں مراد چرواہا ہے۔ زمانۂ قدیم کی دیہاتی زندگی سے واقف لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ چرواہے کی ذات مراد لینے کے لیے یہ کس قدر مناسب اور بین اشارہ ہے۔
الف لام: حروف مقطعات میں الف اور لام جہاں کہیں بھی آئے ہیں، اکٹھے ہی آئے ہیں۔ یہ اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔ مگر میری راے میں یہ اتفاق نہیں۔ میرے نزدیک الف لام کا ہر جگہ اکٹھا استعمال اس لیے کیا گیا ہے، کیونکہ یہ مل کر ایک ہی شخصیت کی طرف اشارے کے لیے آئے ہیں۔ طاقت ور چرواہے سے دراصل مراد اللہ ہے۔ بائیبل سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اس میں چرواہے کی تعبیر جا بجا اللہ کے لیے استعمال ہوئی ہے۔۱۲؂ بلکہ ’’ال‘‘ بائیبل میں اور یہودیوں کے ہاں آج تک اللہ کی طرف اشارے کے لیے مختلف ناموں میں مضاف الیہ کی حیثیت سے لاحقے (suffix) کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جیسے اسرائیل، جبرائیل، سموئل وغیرہ۔ عبرانی میں یہ نام دراصل اسرَاِل، جبرَاِل، سمواِل ہیں، یعنی ان کا اختتام ’’ئیل‘‘ پر نہیں ’’اِل‘‘ پر ہوتا ہے۔ چنانچہ ’’ال‘‘ حروف مقطعات میں جہاں کہیں بھی آئے ہیں، طاقت ور چرواہا، یعنی اللہ مراد لینے کے لیے ہی آئے ہیں۔
میم: ’’م‘‘ کا پورا نام عبرانی میں بھی میم ہی ہے اور اس کا مطلب پانی ہے اور یہی اس کا مادی مصداق بھی ہے۔ حروف مقطعات میں سے سب سے زیادہ مرکب اسی حرف پر اختتام پذیر ہوئے ہیں۔ لغات میں درج اس کی مختلف رسم الخط میں ساخت ہمیشہ پانی کی لہر جیسی ہی رہی ہے۔ بلکہ اگر غور کریں تو آج بھی عربی میں ’’م‘‘ کسی قدر لہر کے مشابہ ہے۔ چنانچہ اس سے مراد پانی کی ایک لہر بھی ہو سکتا ہے اور تھوڑا یا زیادہ پانی بھی۔ چنانچہ یہ یہاں پانی ہی کے لیے آیا ہے، پاک کرنے والی چیز کے لیے استعارے کے طور پر۔ پاکیزہ کرنے والی چیز کے طور سے ابراہیمی ادیان میں پانی کی حیثیت مسلم ہے۔
الف لام میم: ان سب حروف کا ملا کر تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان سے مراد اللہ کی طرف سے نازل ہونے والا کلام ہے جو لوگوں کی ہدایت و پاکیزگی کے لیے اتارا جا رہا ہے۔ چنانچہ یہ قرآن کا صفاتی نام ہوا۔ اس پر قرائن کی شہادت بھی دال ہے۔ جن سورتوں کے شروع میں یہ وارد ہوئے ہیں، ان میں سے متعدد میں متصلاً بعد ’’یہ کتاب‘‘ ۱۳؂ کہہ کر اور ساتھ ہی ’’ہدایت‘‘ ۱۴؂ کا باعث بتا کر اس کی طرف جلی اشارہ بھی کر دیا گیا ہے۔کہیں ’’م‘‘ سے پوری کتاب مراد لے لی گئی ہے،۱۵؂ اور کہیں ’’م‘‘ سے آیات مراد لے لی گئی ہے۔۱۶؂ یعنی کہیں کل کی طرف براہ راست اشارہ ہے اور کہیں اجزا کی طرف اشارے سے بالواسطہ کل کی طرف۔ پھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ حروف جن دو حقائق سے مرکب ہیں، یعنی اللہ اور ہدایت، اگر ایک سورہ کے شروع ہوتے ہی اس کے ہدایت ہونے کے پہلو پہ زور ہے (مثلاً سورۂ بقرہ)، تو دوسری میں اس کے من جانب اللہ ہونے پہ (مثلاً سورۂ السجدہ)۔ الغرض اس طرح کے قرائن بھی اس تاویل میں صریح معاون ہیں۔

سورتوں سے مناسبت:
یہ حروف ان سورتوں کے شروع میں آئے ہیں جن میں اللہ نے ماننے والوں کی پاکیزگی کے لیے ہدایات دی ہیں۔ جو بالترتیب یہ ہیں: البقرہ، آل عمران، العنکبوت، الروم، لقمان اور السجدہ۔ ان میں پہلی دو اصل میں ترتیب نزولی کے اعتبار سے آخر ی ہیں۔ چنانچہ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ وہ سورتیں ہیں جو باقی مضامین کے ہمراہ ماننے والوں ،یعنی مسلمان یہود اور نصاریٰ ، کے تذکرے سے شروع ہوتی ہیں اور پھر ان کی تعریف کے لیے نشانیاں بتاتی ہیں یا ان کی اصلاح و تعلیم کے لیے ہدایات دیتی یا انھیں ایمان لانے کے لیے اکساتی ہیں۔ ان میں پہلی دو مدنی اور باقی مکی ہیں۔ مگر سب باعتبار مضمون ہم آہنگ ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جو بات آغاز میں اجمال سے کی جاتی تھی بعد میں تفصیل سے کر دی گئی ہے۔ ممکن ہے کسی کو مکی حصے میں یہ اشتباہ ہو کہ یہ مدنی حصے جیسا نہیں ہے تو یہ نزول قرآن کے مراحل سے نا واقفیت کی وجہ سے ہو گا، کیونکہ جو ان سے آگاہ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مکی قرآن اصل میں کفار قریش سے بحث کرتا ہے۔ اسی دوران میں نازل ہونے والی جو سورتیں ماننے والوں کو علیحدہ شناخت دیتی اور ان کی تطہیر کرتی ہیں، وہ اسی ’الم‘ کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔ چنانچہ یہ ایک ہی جنس کی سورتیں ہیں جو ہجرت کے باعث مضمون میں اچانک ارتقا کر گئی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا ل م ص

بیان:

ا ل م ۱۹؂ یہاں بھی اسی معنی میں ہے جو پہلے بیان ہوا ہے۔ بعد والی آیت میں ’’کتاب‘‘ سے اسی طرف اشارہ ہے۔
ص: ’’ص‘‘ ان حروف میں سے ہے جن کی شکل تو معلوم ہے، مگر یہ شکل کس چیز کی ہے، اس کے تعین میں اختلاف ہے۔ اور پھر ظاہر ہے، شکل کا اختلاف تصوراتی مفہوم کے تنوع پر منتج ہوتا ہے۔ تاہم جو تعین سب سے مشہور اور قرین قیاس ہے، وہ یہ ہے کہ یہ مچھلی کے شکار کے لیے استعمال ہونے والے کانٹے کا خاکہ ہے۔ ’’ص‘‘ کو عبرانی اور عربی دونوں میں ’’صاد‘‘ پڑھتے ہیں جس کے معنی شکار کرنے کے ہیں، چنانچہ یہی معنی صائب معلوم پڑتے ہیں۔ پھر مفہوم کے اعتبار سے یہ شکار، شکار کرنے، شکار ہونے وغیرہ کے مفاہیم رکھتا ہے۔ یہاں پر اس معنی کا مصداق بھی بڑا واضح ہے۔ اس سورہ میں پانی کے قریب واقع ایک بستی والوں کا ذکر ہے جنھوں نے سبت کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔ یعنی مچھلی کا شکار سبت کے دن کرنا شروع کر دیا تھا، جبکہ یہ ممنوع تھا۔ اس کی پاداش میں ان پر خدا کے عذاب کا بیان ہے۔۲۰؂ اگرچہ اِن اصحاب سبت کا تذکرہ اور سورتوں میں بھی آیا ہے، مگر اس تفصیل و امتیاز کے ساتھ نہیں جس کے ساتھ یہاں آیا ہے۔ چنانچہ ص سے اسی کی طرف واضح اشارہ ہے۔
اس حرف کا ایک اور معروف نام ’’صادق‘‘ بھی ہے۔ چنانچہ اس اعتبار سے یہ نیک آدمی کے معنی دیتا ہے۔ بعض حضرات اسے عبرانی میں ’’صاد‘‘ کے بجاے پڑھتے ہی ’’صادق‘‘ ہیں۔ اگرچہ اس کی وجہ زبان دانوں نے گمان کرتے ہوئے عبرانی حروف تہجی کی ترتیب میں اگلے حرف ’’ق‘‘ کے ساتھ تیزی سے ملا کے پڑھنا بتائی ہے، مگر میرے نزدیک یہ کوئی قوی استدلال نہیں۔ میری راے میں پہلے مصداق (یعنی شکار) کی رُو سے ہی یہ نیکی اور نیک آدمی کے لیے استعمال ہوا ہو گا۔ شکار ہونا، قید ہونا، قبضے میں ہونا، گرفتار ہونا وغیرہ ایسی تعبیرات ہیں جن کا ابراہیمی مذاہب میں استعمال کسی کو اپنے لیے مخلص کر لینے کے معنی میں عام ہے۔ خود ’’اسرائیل‘‘ اور ’’عبداللہ‘‘ وغیرہ کے الفاظ بھی اسی زاویے سے فرماں برداری کے مفہوم پر دال ہیں۔ پھر جس طریقے سے یہ عبرانی اور عربی کے الفاظ میں مستعمل ہے، اس سے بھی اس تاویل کو تقویت ملتی ہے۔ صوم ہو یا صلوٰۃ، صبر ہو یا صدقہ، صالح ہو یا صادق، سب کا اس حرف سے شروع ہونا اس راے کو معقول بنا دیتا ہے۔ اگرچہ یہاں یہ معنی مراد نہیں، تاہم اور مقامات پر یہ اس معنی میں آیا ہے، جو آگے مذکور ہیں، بلکہ اگرچہ میں نے پھول کے معنی کو نظر انداز کر دیا ہے، مگر اس سے بھی اس معنی کی تائید ممکن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا ل ر اور ا ل م ر

بیان:

’’ا‘‘ اور ’’ل‘‘ کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
ر: ’’ر‘‘ عبرانی میں ’’human head‘‘ یعنی ’’انسانی سر‘‘ کی علامت ہے۔ یہ عبرانی میں ’’ریش‘‘ پڑھا جاتا ہے جو عربی میں ’’راس‘‘ کے قائم مقام ہے اور اس کے معنی دونوں زبانوں میں ’’سر‘‘ ہی کے ہیں۔ اگرچہ یہی معنی مستند مصادر میں زیادہ بیان ہوئے ہیں، تاہم اس کے دو معانی ممکن نظر آتے ہیں: ایک سر، اور دوسرا انسان۔ مگر میں نے پہلے معنی کو ترجیح اس بنیاد پر دی ہے کہ علامت اور اس کا پورا نام، دونوں مل کر اسی کی تائید کر رہے ہیں، کیونکہ اگر صرف سر کی علامت سے پورا انسان مراد لینا ہوتا تو الف کی طرح اس کا پورا نام پورے مصداق کے معنی رکھتا۔ مجاز کے اعتبار سے سر چونکہ عقل و حکمت کا محل ہے، اس لیے میرے نزدیک یہ یہاں حکمت کے لیے ہی استعارہ ہے۔
ا ل ر: چنانچہ الف لام را سے مراد اللہ کی جانب سے نازل ہونے والی حکمت ہے۔ یہ بالکل الف لام میم کی طرح قرآن ہی کا ایک اور صفاتی نام ہے۔ وہاں پاکیزگی کے لیے ہدایت کے پہلو پر ارتکاز تھا اور یہاں عقل و حکمت پر۔ جن سورتوں کے آغاز میں یہ وارد ہوئے ہیں، ان میں سے اکثر میں متصلاً بعد کتاب کے تعلق سے حکمت یا عقل کا ذکر بھی اس تاویل کا قرینہ ہے۔ پھر ا ل م کی طرح ان حروف میں بھی دو ہی حقائق ہیں۔ ایک پُر حکمت ہونے کا اور ایک من جانب اللہ ہونے کا۔ چنانچہ کسی سورت میں ایک رخ سے ابتدا ہوئی ہے اور کسی میں دوسرے سے۔
ا ل م ر: سورۃ الرعد کی اس ترکیب میں قرآن کی دونوں صفات جمع کر دی گئی ہیں، یعنی ہدایت و حکمت۔ اسی لیے اللہ کی طرف میم اور را، دونوں کی نسبت اکٹھی ہو گئی ہے۔

سورتوں سے مناسبت:
یہ حروف ان سورتوں کے شروع میں آئے ہیں جن میں پہلے گزری ہوئی امتوں میں ان کے رسولوں کے انذار کی تاریخ بتائی گئی ہے اور پھر جو نتائج ان کے انکار کی صورت میں برآمد ہوئے، ان پر متنبہ کیا گیا ہے۔ یہ اصل میں مضمون حکمت ہے۔ یعنی قریش جو مخاطبین اول تھے جو قرآن کے نور و ہدایت ہونے سے دلیل نہیں پکڑ رہے تھے، انھیں ایام اللہ کے ذکر سے توجہ دلائی گئی ہے کہ عقل سے کام لو... یہ صرف کسی واعظ کا کلام نہیں، بلکہ اس کے نتیجے میں اسی طرح پوری قوم کا فیصلہ ہونا ہے جس طرح اس سے پہلے ہوتا رہا ہے۔ تم اگر پاکیزگی کو اہمیت نہیں بھی دیتے تو کم از کم میرے عذاب سے ہی عبرت پکڑ لو۔ سورتیں یہ ہیں: یونس، ہود، یوسف، رعد، ابراہیم اور حجر۔ ان میں سے رعد میں ا ل م ر آیا ہے۔ یہ اس لیے کہ یہ بھی اصل میں ہے تو ا ل ر ہی کے قبیلے سے، مگر چونکہ اس کا انداز کافی کچھ ا ل م کی سورتوں جیسا ہو گیا ہے، یعنی اس میں رسولوں کے منکرین کے ساتھ ساتھ رسولوں کے ماننے والوں پر بھی ارتکاز ہے، اس لیے اس میں م اور ر، دونوں آ گئے ہیں۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دوہرے رنگ کی سورہ ہے ۔ الم اور الر کی سورتوں کے تقابل سے ان حروف کا استعمال بالکل واضح ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ک ھ ی ع ص

بیان

ک: ’’ک‘‘ ایک کھلی ہوئی ہتھیلی کی صورت ہے۔ اس کو عبرانی میں ’’کاف‘‘ یا ’’کف‘‘ پڑھتے ہیں جو ہاتھ اور ہتھیلی ہی کے معنی رکھتا ہے۔ عربی میں بھی اس سے یہی مراد ہے۔ میرے نزدیک یہ یہاں دعا مانگنے والے، یعنی زکریا علیہ السلام کی طرف اشارے کے لیے آیا ہے، کیونکہ پھیلایا ہوا ہاتھ مانگنے کے لیے معروف استعارہ ہے۔ اس سورہ کا آغاز چونکہ اس غیر معمولی دعا سے ہوا ہے جو انھوں نے بیٹے کی پیدایش کے لیے مانگی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا، اس لیے اسی واقعے کی علامت کے طور پر کھلا ہوا ہاتھ آیا ہے۔
ھ یا ہ: ’’ھ یا ہ‘‘ کی شکل بعض لوگوں نے یہ بتائی ہے کہ آدمی ہاتھ اٹھائے ہوئے، جیسے کسی بڑی عمدہ، اعلیٰ یا پر ہیبت چیز کو دیکھ رہا ہو، اور بعض وہ کھڑکی بتاتے ہیں جس میں سے کوئی جھانک رہا ہو، بلکہ یہ دعویٰ بھی روایت ہوا ہے کہ اس کی شکل معلوم ہی نہیں ہے ۔۲۱؂ اس کے مصداق میں اس اشتباہ کو میں اشتباہ نہیں، بلکہ ایک ہی خیال کے دو رخ سمجھتا ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قدیم عبرانی اور عربی میں یہ دونوں طرح لکھا بھی جاتا ہے۔ یعنی ’’ھ‘‘ جو ہاتھ اٹھائے ہوئے شخص کی ساخت لیے ہوئے ہے، اور ’’ہ‘‘ جو کھڑکی کی طرح ہے۔ مگر سب کے نزدیک عبرانی میں یہ آگاہ ہو جاؤ اور خبردار (lo and behold) کے معنی دیتا ہے۔ یہی معنی اس کے عربی ’’ھا‘‘ میں بھی معروف ہیں اور قرآن میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک یہاں یہ اسی معنی میں ما قبل کی قدردانی کے لیے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا پر تبصرہ فرما رہے ہیں کہ کیا خوب دعا مانگی۔
ی: ’’ی‘‘ کو عبرانی میں ’’ید‘‘ پڑھتے ہیں جو دونوں زبانوں میں ’’ہاتھ‘‘ کے معنی میں آتا ہے۔ خیال رہے کہ قدیم زبانوں میں ’’ہاتھ‘‘ اصل میں ’’بازو‘‘ کے لیے بولا جاتا تھا۔ چنانچہ اسی کی عکاسی اس کی شکل بھی کرتی ہے جو ایک پورے بازو کی تصویر ہے۔ یہ کام، کام کرنے اور مضبوطی کے معنی میں استعمال ہوسکتا ہے۔ یہاں یہ مہارت اور قدرت رکھنے والوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سورۂ ص میں جو یہ ’اُولِی الْاَیْدِیْ وَالْاَبْصَارِ‘۲۲؂ آیا ہے، اسی معنی میں یہاں یہ علامت کی صورت میں استعمال کر دیا گیا ہے۔ اشارہ ہے اس سورہ میں پے در پے مذکور ان پیغمبروں کی طرف جو خدا کے وفا دار ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے فنون کے اعتبار سے بڑے ماہر اور بڑا اختیار رکھنے والے بھی تھے۔
ع:’’ع‘‘ کو عبرانی اور عربی میں ’’عین‘‘ پڑھتے ہیں جس کے معنی ’’آنکھ‘‘ کے ہیں۔ چنانچہ یہی اس کی شکل بھی ہے۔ یہ آنکھ، دیکھنے، بصارت وغیرہ کے معنی میں استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں پر یہ محولہ بالا آیت سورۂ ص میں مذکور ’’آنکھوں والے‘‘ ہی کے معنی میں ہے۔ یعنی اصحاب بصیرت (visionaries) کے معنی میں۔
ص:’’ص‘‘ کی تفصیل پہلے گزر چکی۔ یہ یہاں اپنے دوسرے معنی یعنی ’’صدیقین و صالحین‘‘ کے معنی میں ہے۔ چنانچہ ی ع ص مل کر ’’وہ نیکو کار جو بڑے سبک دست اور صاحب بصیرت تھے‘‘ کی علامت کے طور پر آئے ہیں۔
ک ھ ی ع ص: چنانچہ ک ھ مرکب میں حضرت زکریا علیہ السلام کی اس دعا کے لیے آئے ہیں جو اس آیت کے متصلاً بعد شروع ہو جاتی ہے، جبکہ ی ع ص ان سب انبیا و رسل کے لیے آئے ہیں جن کا تذکرہ اس سورہ میں یکے بعد دیگرے ہوا ہے۔ ان سب انبیا کی طرف ’’صاحب قدرت و بصیرت صادقین‘‘ کے نمایندہ حروف سے اشارہ بڑا مناسب اور سورہ کے مضمون کی نہایت موزوں عکاسی ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
باب چہارم : حروف مقطعات کے مصداق و معانی
تفصیل کے ساتھ ( حصہ دوم )

ط ہ

بیان

ط:’’ط‘‘ کے معانی ’’ٹوکری‘‘ اور ’’سانپ‘‘ کے بتائے گئے ہیں۔ اسے عبرانی میں ’’طیط‘‘ پڑھتے بھی ہیں جو بڑے سانپ کے لیے آتا ہے، اسی لیے میں نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ پھر عبرانی اور عربی، دونوں میں ہی یہ آج بھی ایسے لکھا جاتا ہے جیسے کوئی سانپ لٹھ مار کر سر سیدھا اٹھا کر بیٹھا ہو۔۲۳؂ یہاں اس سے مراد موسیٰ علیہ السلام ہیں جن کا عصا معجزے کے طور پہ سانپ میں تبدیل ہو جایا کرتا تھا۔
ط ہ: چنانچہ ط ہ بالکل اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کی علامت کی حیثیت سے آیا ہے، جیسے پچھلی سورہ میں ک ھ زکریا علیہ السلام کی طرف اشارے کے لیے۔ مصداق اس سورہ کا مضمون ہے جو تفصیل سے موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ط س م اورط س

بیان:

’’ط‘‘ کا بیان پہلے گزر چکا۔
س: ’’س‘‘ کو عبرانی میں ’’شن یا شین‘‘ پڑھتے ہیں جو عربی میں ’’سن یا سین‘‘ کے مترادف ہے۔ دونوں ہی زبانوں میں سنّ کے معنی ’’دانت‘‘ ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس حرف کے مصداق کو ’’تیر کمان‘‘ بھی بتایا گیا ہے، تاہم جیسا کہ آغاز میں تصریح موجود ہے، میں نے ان آرا کو ترجیح دی ہے جو حروف کے پورے نام سے بھی ثابت ہوں۔ اس لیے میرے نزدیک دانت ہی راجح مصداق ہے۔ چنانچہ ط اور س کے استعمال سے گویا اللہ نے ان سورتوں کے آغاز میں ایک بڑے سانپ کی تصویر ڈال دی ہے جو اپنے دونوں دانت نکال کے لٹھ مار کر بیٹھا ہے۔ تاہم یہ بھی اصل میں واقعۂ موسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارے ہی کے لیے آئے ہیں جن کے اتمام حجت میں اس عصا / سانپ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔
م: جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا میم سے مراد پانی ہے۔ البتہ یہاں میرے نزدیک اس کا استعمال ا ل م کے بر خلاف حقیقی معنوں میں پانی ہی کے لیے ہوا ہے۔ اشارہ ہے اس واقعے کی طرف جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مار کر پانی کو چیر دیا تھا۔ پھر خود اپنی قوم کو لے کر پار ہو گئے تھے اور فرعون غرق ہو گیا تھا۔
ط س م: چنانچہ یہ تینوں حروف واقعۂ موسیٰ علیہ السلام کی علامات ہیں۔ سورۂ نمل میں چونکہ واقعۂ موسیٰ علیہ السلام اختصار سے بیان ہوا ہے اور پانی کے پھٹنے اور فرعون کے اس میں غرق ہونے کا ذکر نہیں ہے، اس لیے م گرا دیا گیا ہے۔

سورتوں سے مناسبت:
یہ تین سورتوں کے شروع میں آئے ہیں: شعراء ، نمل اور قصص۔ ان سورتوں میں ابتدا واقعۂ موسیٰ علیہ السلام سے ہوتی ہے اور سواے سورۂ نمل کے باقی دونوں سورتوں میں یہ واقعہ مختلف زاویوں سے تفصیل سے بیان ہوا ہے، اس لیے ابتدا میں علامات نے ہی اس کی نشان دہی کر دی ہے۔ پھر تینوں سورتوں میں متصلاً بعد ’’یہ آیات‘‘ کے الفاظ سے ان آیات کی طرف اشارہ ہے جن کو حروف مقطعات کی اِن علامات سے ذکر کر دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ی س

بیان:

ی اور س کا بیان اگرچہ پہلے گزر چکا ہے، تاہم ی کے بارے میں کچھ مزید معروضات ذیل میں مذکور ہیں۔
ی: جیسا کہ کھیعص کے ذیل میں بیان ہو چکا، ی کو عبرانی میں ’’ید‘‘ پڑھتے ہیں جس کے معنی عبرانی اور عربی، دونوں ہی میں ہاتھ کے ہیں۔ مگر یہ ہاتھ اس مفہوم میں ہے جس میں ہم آج کل بازو کہتے ہیں۔اس کی تصدیق حرف کی تصویری علامت اور قدیم رسم الخط سے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس قدیم ساخت پر غور کریں تو صاف معلوم پڑتا ہے کہ بازو کی جس تصویر پر یہ حرف بنا ہے اور پھر مختلف رسم الخط میں کچھ تبدیل ہوتا رہا ہے، ان کے استقصا سے پتا چلتا ہے کہ بازو کے آخر میں ہاتھ کی ساخت ایک مکے (fist) جیسی ہے۔ پھر ہاتھ ہی کی صورت پر دو حروف تہجی کی سمجھ نہیں آتی سوائے اس کے کہ یہ دونوں حروف دو مختلف خیالات کی نشان دہی کے لیے بنے تھے۔ ک میں جو ہاتھ ہے، وہ کھلا ہوا ہے اور ایسے ہے، جیسے پھیلایا ہوا ہو۔ اس لیے اس سے مانگنا یا کمزوری کا پہلو بالکل نمایاں ہے، جبکہ ی میں یہی ہاتھ بند ہے جو مضبوطی اور قوت کی علامت ہے۔
ی س: مندرجہ بالا استنباط اگر درست ہے تو ’’س‘‘ کی مناسبت سے اس کو یہاں مُکّے کے معنی میں لینا بالکل مبرہن ہے۔ یعنی ی س عام محاورے میں ’’مکے سے دانت توڑنے‘‘ کی تمثیل کے لیے آئے ہیں۔ ان سے مقصد مکذبین کو اللہ کے عذاب کی پیشین گوئی اور اس سے ڈرانا ہے۔

سورہ سے مناسبت:
اس سورہ سے ان حروف کی مناسبت بیان کرنا کچھ ویسا ہی مشکل ہے، جیسا سورۃ النصر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا استنباط؛ یعنی فہم لطیف مطلوب ہے۔ سورہ دراصل ایک اعلان ہے اس سرکاری مخاصمت کا جس کا انتخاب خود مشرکین قریش نے اپنی تکذیب سے کر دیا تھا، بلکہ وہ اب اقدام کے لیے پر تول رہے تھے جس کو بھانپتے ہوئے اسی سورہ میں اس طرح کے اقدامات کے نتائج سے گویا پہلے ہی آگاہ بھی کر دیا گیا ہے، اگرچہ کنایوں میں ہی۔ بہر حال سورہ کا عمود یہی بتلاتا ہے کہ جیسے خدا اب ’دوسری‘ طرف جانے کا اعلان کر رہے ہیں، یعنی اس کش مکش کی طرف جو عذاب کے لیے ہمیشہ سے خدا کی سنت رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ص

بیان

سورۂ مریم کی طرح اس سورہ میں بھی اس کا استعمال ’’صادقین و صالحین‘‘ کی علامت کے لیے ہی ہوا ہے۔ اس کی تفصیل و تخریج کے لیے اوپر ’’ا ل م ص‘‘ میں ص کے بیان پر ایک نظر ڈال لیجیے۔

سورہ سے مناسبت:
اس سورہ میں مخاطبین کے اعتراضات سے گریز کر کے تربیت پر توجہ مبذول کی گئی ہے۔ اور اس تربیت کے لیے کچھ ’’صالحین‘‘ کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ اس انتخاب کی وجہ ان کی زندگی کے کچھ ایسے واقعات بنے ہیں جو انسان کی فطری کمزوریوں کے عکاس ہیں۔ ان کی نشان دہی کر کے نفس کی جانب سے بھی ہر وقت پُر اندیش رہنے کی نصیحت کی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ح م

بیان

ح: ’’ح‘‘ کی ماخذ صورت ایک ’’اینٹوں کی دیوار‘‘ ہے یا ’’جنگلا‘‘ ہے، اور ’’حاط‘‘ یا ’’حیط‘‘ سے دونوں زبانوں میں مراد بھی گھیراؤ اور احاطہ ہی ہے ۔ چنانچہ اس سے وہ تمام معانی مراد لینا معروف و معقول ہے جو اوپر بیان ہوئے اور جو مستند مصادر میں مذکور بھی ہیں۔غالباً اسی مفہوم میں ارتقا کر کے لوگوں نے اس سے کٹہرا اور چار دیواری بھی مراد لی ہے۔ ۲۶؂ مزید برآں اپنے مصداق کے اعتبار سے یہ بالکل اس لفظ کے مساوی ہے جس کو خود اللہ نے قرآن کے اجزا کے لیے اصطلاح بنایا ہے، یعنی سورہ۔ سورہ کے بھی بعینہٖ یہی معنی ہیں۔ چنانچہ دیوار یا دیوار میں اینٹوں کی ایک قطار یا باڑ کے الفاظ کا انتخاب اسی مجازی معنی پر دلالت کرتا نظر آتا ہے کہ جس طرح متعدد اینٹوں سے رفتہ رفتہ ایک دیوار مکمل ہوتی ہے یا متعدد دیواروں اور جنگلوں سے ایک عمارت یا احاطہ مکمل ہوتا ہے، اسی طرح یکے بعد دیگرے اترنے والی سورتوں سے رفتہ رفتہ خدا کی ہدایت، یعنی قرآن مکمل ہوتا ہے۔ علیحدہ علیحدہ حصے جو ایک کے بعد ایک کسی کل کو مکمل کرتے ہوں کی تعبیر کے لیے دیوار یا جنگلے کا بطور علامت استعمال نہ صرف یہ کہ سمجھ میں آتا ہے، بلکہ نہایت موزوں ہے۔
ح م: علیحدہ علیحدہ اور رفتہ رفتہ اترنے والے پانی سے قرآن کی صفت تنزیل کی تشبیہ دی گئی ہے، یعنی قرآن کے نزول کے اس طریقۂ کار کو کسی عمارت کی تعمیر کے طریقۂ کار سے تعبیر کر دیا ہے تا کہ لوگوں کے معلوم علم سے ان کو مثال دے دی جائے۔ یہی وجہ ہے جن سورتوں میں یہ وارد ہوئے ہیں ان میں متصلاً بعد قرآن کے نزولی اہتمام ہی کے تذکرے سے آغاز ہوا ہے۔ چنانچہ ا ل م اور ا ل ر کی طرح ح م بھی قرآن کا ایک اور صفاتی نام ہوا۔

سورتوں سے مناسبت:
یہ حروف ان سورتوں کے شروع میں آئے ہیں جن میں قرآن کے نزول اور وحی کے انداز کی وضاحت کو مرکزیت حاصل ہے۔ وہ یہ ہیں: غافر، فصلت (یا حٰآ السجدہ)، شوریٰ، زخرف، دخان، جاثیہ اور احقاف۔ اس میں شوریٰ میں ع س ق اضافی ہے جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ع س ق

بیان

ع: جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ع آنکھ کی علامت ہے۔ چنانچہ یہاں آنکھ سے بینائی مراد ہے،یعنی نظر، دیکھنا وغیرہ۔
س: یہ بھی پہلے بیان ہو چکا کہ ’’سن‘‘ سے عبرانی اور عربی، دونوں میں دانت ہی مراد ہے۔ البتہ یہ مجازی اعتبار سے کن معانی پر دلالت کرتا ہے، یہ مستند مصادر میں کہیں مذکور نہیں۔ ورود کے اِس مقام پہ چونکہ س کا حقیقی مصداق، یعنی دانت کی ظاہری صورت نہ تو سورہ کے مضمون سے کوئی مناسبت رکھتی محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے ما قبل و مابعد استعمال ہونے والے حرف سے کوئی مطابقت رکھتی نظر آتی ہے۔ اس لیے مجھے اس کے مجازی معنی پر قیاس آرائی کرنے کے لیے غیر مستند ذرائع کو بھی مطالعہ میں لانا پڑا۔ چنانچہ تحقیق سے اس کے تین مطالب کچھ قرین قیاس معلوم پڑتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے کھا جانا مراد ہے۔ دوسرا یہ کہ اس سے بولنا یا گویائی مراد ہے۔ یہ دونوں بظاہر معقول استنباط ہیں، مگر اس کے قبول میں مجھے یہ تردد ہے کہ عبرانی حرف ’’ف‘‘ (فے، فا) منہ کی علامت بھی رکھتا ہے اور عبرانی و عربی میں اس سے مراد بھی منہ ہی کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ میرے نزدیک یہ دونوں مطالب ’’ف‘‘ کے ساتھ زیادہ نہیں تو کم از کم اتنی ہی مناسبت رکھتے ہیں جتنی دانتوں کے ساتھ۔ تاہم ’’سن‘‘ کو بعض غیر مستند مصادر کاٹنے اور روکنے کے معنی میں بھی لیتے ہیں۔ یعنی جس طرح سامنے کے دو دانت کاٹنے اور منقطع کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں یا پھر منہ کے دروازے پر سے چیزوں کے لیے ایک آڑ بن جاتے ہیں، اسی پر قیاس کرتے ہوئے س روکنے اور منقطع کرنے کے معنی رکھتا ہے۔ چنانچہ میں نے اسی کو یہاں اختیار کیا ہے، اگرچہ مجھے اس پر پوری طرح تسلی نہیں ہو سکی۔
ق: ’’ق‘‘ کے مصداق کے بارے میں بھی مصادر میں کچھ اشکال ہے۔ بعض اسے سر اور گردن کے پچھلے حصے سے تعبیر کرتے ہیں اور بعض اسے اس سوراخ کی علامت بتلاتے ہیں جو سوئی یا کلہاڑی کے دستے میں ہوتا ہے۔ اسے عبرانی میں ’’قُف یا قوُف‘‘ پڑھتے ہیں۔ اگر اسے قوف سے مانا جائے تو سوئی کا ناکہ یا کلہاڑی کا سوراخ زیادہ موزوں لگتے ہیں، کیونکہ قُوف کا معنی یہی ہے۔ چنانچہ جن لوگوں نے اسے قوف سے مانا ہے، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے مراد دائرے میں حرکت بھی ہو سکتی ہے۔ پھر اگر اسے قف سے مانا جائے تو سر اور گردن کا پچھلا حصہ زیادہ موزوں معنی ہے۔ فوء رسٹ۲۷؂ نے اس کی تخریج عربی کے ’’قف‘‘ سے کی ہے جس کے معنی گردن کے پچھلے حصے کے ہی ہیں اور اسی راے کو صائب کہا ہے۔میں نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے۔ اس لیے بھی، کیونکہ اگر عبرانی حرف کی قدیم اور موجودہ ساخت پر غور کریں تو یہی راے قوی معلوم پڑتی ہے ۔
تو جب اس کے معنی سر اور گردن کا پچھلا حصہ ہوا تو مجازاً یہ قربت کی بھی تعبیر ہوئی اور کسی ایسے شخص کی بھی جو نہایت قریب اور نگران ہو۔ چنانچہ یہاں میں نے ماقبل کی مناسبت سے اس کو قریب ہونے کے معنی میں لیا ہے۔ اس کی مزید تفصیل سورۂ ق میں آتی ہے۔
ع س ق: بر محل ع سے مراد نظر ہوئی، ق سے مراد قریب ہونا، اور س سے مراد رکنا۔ الغرض، اس مرکب سے مراد یہ ہوئی کہ نظر قریب نہیں پہنچ سکتی۔ اگر اس کے یہی مطلب ہیں تو پھر اگلی ہی آیت۲۸؂ بالکل مناسب حال واقع ہوئی ہے۔ یعنی ’’اسی طرح (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کی طرف اور آپ سے پہلوں کی طرف اللہ زبردست اور حکمت والے نے وحی کی‘‘ میں اسی طرح سے واضح اشارہ ما قبل مرکب کی طرف ہے اور مراد یہی ہے کہ کوئی بھی اللہ کو دیکھ نہیں سکتا۔ اس لیے جس کو بھی جب بھی وحی ہوئی ہے، خدا کو دیکھے بغیر ہی ہوئی ہے۔ایک اور مقام پر یہ جو ’لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ‘ ۲۹؂ آیا ہے، یہ حروف علامت کی شکل میں یہی بات کہہ رہے ہیں۔

سورہ سے مناسبت:
اس سورہ میں چونکہ آیت ۵۱۔ ۵۲ میں یہ کہہ کر کہ کسی انسان سے اللہ رُو برُو کلام نہیں کرتا، وحی کی تین صورتیں بیان کر دی گئی ہیں، اس لیے اس مضمون کی مناسبت سے ح م کے بعد ایک علیحدہ آیت میں ع س ق کہہ کر اسی امر کی طرف اجمالاً اشارہ بھی کردیا ہے۔ دیکھا جائے تو آیت ۳ کا ’کَذَالِکَ‘ اسی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اور بعد میں جب اس ’کَذَالِکَ‘ کی تفصیل کی گئی ہے تو وہاں ۳۰؂ یہی ’کَذَالِکَ‘ پھر سے دوہرا بھی دیا ہے تا کہ ہر قاری اس اشارے کو سمجھ بھی سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ق

بیان:

ق کا بیان اگرچہ اوپر گزر چکا ہے، مگر کچھ مزید معروضات درج ذیل ہیں۔
ق: جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا، ق کا مصداق سر اور گردن کا پچھلا حصہ ہے۔ چنانچہ مجاز میں یہ بہت قریب ہونے یا ہونے والے کے لیے استعارہ ہے۔ یہاں، یعنی سورۂ ق میں یہ اُن فرشتوں کے لیے آیا ہے جن کا ذکر آیات ۱۷۔ ۱۸ میں ہوا ہے۔ وہاں یہ جو الفاظ ہیں کہ ’رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ‘ یعنی ’’حاضر باش نگران‘‘، اِن کے لیے ہی ق میں اشارہ ہے، بلکہ رقیب بنا ہی رقب سے ہے جو عربی میں گردن ہی کا مصدر ہے۔ اور سورۂ انفطار میں بھی انھیں نگران ہی کہا گیا ہے۳۱؂ ۔ اس لیے یہ بالکل واضح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ن

بیان

ن: ’’ن‘‘ کو عبرانی اور عربی میں ’’نون‘‘ پڑھتے ہیں اور اس کا مطلب مچھلی ہی ہوتا ہے۔ یہاں مچھلی کی علامت سے دراصل مراد وہ پیغمبر ہیں جنھیں مچھلی نے نگل لیا تھا۔ یعنی یونس علیہ السلام جن کا تذکرہ آیات ۴۸۔۵۰ میں ہوا ہے۔ انھیں دوسرے مقام پر خود قرآن نے ذوالنون کہہ کر اس میں کوئی شک نہیں رہنے دیا کہ ن سے مراد مچھلی ہی ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
باب پنجم : نتیجہ و اختتام
( آخری باب )

تحقیق کے قرین صواب ہونے کے دلائل

اس تحقیق کے صائب ہونے کے حق میں مندرجہ ذیل دلائل دیے جا سکتے ہیں:
۱۔ حروف مقطعات کے ہر حرف کا علیحدہ علیحدہ قراء ت کیا جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان میں سے ہر حرف اپنا علیحدہ مفہوم رکھتا ہے۔ بصورت دیگر، ان کے اس طرح تلاوت ہونے کی اور کوئی معقول وجہ تلاش کرنا مشکل ہے۔ یہ تحقیق اس اعتبار سے مناسبت رکھتی ہے۔
۲۔ یہ حروف اس کلام کا حصہ بنے جس کے مخاطبین عربی بولنے والے تھے۔ اللہ نے اس کلام کے بھی عربی میں ہونے کی یہی وجہ بتائی۔ چنانچہ یہ بالکل معقول توقع ہو گی کہ ان حروف کا تعلق بھی عربی سے ہو۔ موجودہ تحقیق چونکہ حروف کے مصداق ان چیزوں کو بتلاتی ہے جو عربی اور عبرانی کی مشترک اساسی زبان میں علامات کی حیثیت رکھتے تھے، اس سبب بھی یہ تحقیق عین موزوں ہے۔
۳۔ قرآن کا یہ اسلوب کہ وہ معلوم و معروف علوم کو ہی اپنے فہم کے لیے بنیاد بناتا ہے، بالکل واضح ہے۔ چنانچہ ان حروف کے بارے میں بھی یہ توقع کرنا کہ یہ کسی معلوم علم پر ہی اپنی اساس استوار کرتے ہوں گے، ایک بالکل معقول توقع ہے۔یہ تحقیق چونکہ ایسے ہی ایک مسلم علم کو بنیاد بناتی ہے جو عبرانی حروف کے ماخذ کی حیثیت سے آج بھی معلوم و معروف ہے، اس وجہ سے اس تحقیق کو بڑی تقویت مل جاتی ہے۔
۴۔ پھر اس تحقیق کی رُو سے حروف مقطعات میں مستعمل حروف کے معانی بھی اُن کے معروف مصداق تک ہی محدود ہیں، بلکہ ایک آدھ مقام کے علاوہ مستند مصادر میں مذکور مصداق سے دائیں بائیں پھرنے کی حاجت پیش ہی نہیں آئی۔ قرآن چونکہ الفاظ کو اپنے معروف معانی میں ہی استعمال کرتا ہے، اس اعتبار سے بھی یہ تحقیق قرآن کے عمومی اسلوب کے عین مطابق ہے۔
۵۔ عربی حروف تہجی کے وہ حروف جو جوڑا جوڑا واقع ہوئے ہیں: جیسے س ش، ص ض، ط ظ، ع غ، ح خ وغیرہ؛ حروف مقطعات میں ان میں سے صرف ایک، یعنی بغیر نقطوں والے زوج کا استعمال ہونا بھی اس تحقیق کو بہت وقیع کر دیتا ہے، کیونکہ عربی و عبرانی کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ایسے حروف کے جوڑے اپنی اصلی شکل میں بغیر نقطوں ہی کے تھے جو اپنے معنی و مصداق کی وحدانیت پر ہی دلالت کرتے ہیں اور زبان دانوں کا دعویٰ بھی یہی ہے۔
۶۔ پھر اس تحقیق کے مستنبط مصداق و معانی کی تائید اکثر تو حروف مقطعات کے ورود کے متصلاً بعد والی آیات سے ہو جاتی ہے یا پھر ایسے قرینے سے ہو جاتی ہے جو اسی سورہ یا قرآن کے ہی کسی اور مقام میں امتیازی حیثیت سے بیان ہو گیا ہوتا ہے۔
۷۔ پھر حروف مقطعات کے بہت سے مرکب ایک سے زیادہ سورتوں میں جوں کے توں استعمال ہوئے ہیں۔ اور پھر ایسی سورتیں ترتیب مصحف میں رکھی بھی متصل گئی ہیں۔ اور عموماً ان سورتوں کی حروف مقطعات سے متصل بعد والی آیات بھی ایک ہی جیسی ہوتی ہیں۔ ان خصائص سے یہ توقع بھی بڑی معقول لگتی ہے کہ ان سب سورتوں میں ایک ہی مرکب کے ایک ہی معنی ہونے چاہییں۔ یہ تحقیق اس مانگ کو بھی پورا کرتی ہے۔

مجموعی نتائج تحقیق

آغاز میں بیان کردہ اصولوں کے فرداً فرداً اطلاقات دیکھنے کے بعد یہاں میں ان مجموعی نتائج کو تحریر کرتا ہوں جو انفرادی اطلاقات کے انضمام و تجزیہ کے نتیجے میں حروف مقطعات کے استعمالات و حکمت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
۱۔ حروف مقطعات کے ورود کے وہ مقامات جہاں اِن کے وقوع کے متصلاً بعد والی آیت ’’و‘‘ سے شروع نہیں ہوتی، وہاں یہ آیت اِن حروف کے فہم کے لیے ایک قرینہ ہے۔ اِن میں سے وہ مقامات خاص اہمیت کے حامل اور تحقیق میں مؤید ہیں جہاں ’’ذَالِکَ‘‘ یا ’’تِلْکَ‘‘ سے باقاعدہ اشارہ بھی کر دیا گیا ہے۔ میرے نزدیک یہ اللہ تعالیٰ نے اور وجوہات کے ساتھ ساتھ اس لیے بھی کیا ہے تا کہ ان حروف کے مفاہیم پر غور کرنا آسان ہو جائے۔ چنانچہ وہ مقامات جہاں ’’و‘‘ نے اگلی آیت کا آغاز کیا ہے، وہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ حرف مقطعہ کا مصداق مضمون سورہ میں کہیں آگے جا کر ہی ملتا ہے۔
۲۔ حروف مقطعات جس سورہ میں بھی استعمال ہوئے ہیں، مضمون کی مناسبت سے استعمال ہوئے ہیں۔ اگر سورتیں بڑی تھیں اور مضامین بہت تو پھر یہ حروف صنف کی مناسبت سے استعمال ہوئے ہیں۔ ایسا اُن حروف میں ہوا ہے جو ایک سے زیادہ سورتوں میں آئے ہیں۔ جیسے ا ل م، ا ل ر، ح م۔ یعنی اِن گروہِ سُوَر کو جس مشترک مضمون نے باندھ رکھا ہے، اسی کی مناسبت سے حروف مقطعات لائے گئے ہیں۔ جیسے پاکی اور ہدایت ایک صنف ہے، حکمت ایک صنف، اور قرآن کے نزول کے لیے اختیار کیا گیا طریقۂ کار ایک صنف۔
۳۔ حروف مقطعات ہمیشہ سورتوں کے شروع میں ہی آئے ہیں، اس لیے انھیں سورتوں کا نام شمار کیا جاسکتا ہے۔ قرآن کی سورتیں چونکہ زیادہ تر خطاب کی صنف سے مماثلت رکھتی ہیں، اس لیے ان کے لیے نام کوئی ضروری تو تھے نہیں، اسی لیے جو نام ہمیں عموماً ملتے ہیں، وہ بس شناخت کنندہ (identifier) کی حیثیت رکھتے ہیں۔تاہم، کہیں کہیں اللہ تعالی نے ان کا نام خود بھی رکھ دیا ہے۔
۴۔ جو حروف ایک سورہ کے شروع میں آئے ہیں، اُن کو سورہ کا نام کہا جا سکتا ہے۔ جو حروف ایک سے زیادہ سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں، انھیں گروہی نام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
۵۔ سوائے ایک مقام کے باقی سب جگہ حروف مقطعات ایک ہی آیت میں اکٹھے وارد ہوئے ہیں۔ صرف حم عسق ۳۲؂ میں یہ دو آیات پر مشتمل ہیں۔ وہاں یہ اس لیے ہوا ہے، کیونکہ عسق دراصل حم پر استدراک ہے، یعنی باقی مقامات کے بر خلاف اس مقام پر اِن دونوں مرکبات کا مضمون ایک ہی درجے پہ نہیں، بلکہ عسق اصل میں حم کے ایک ذیلی مضمون کی تفصیل کر رہا ہے۔
۶۔ اشکال سے مضامین کی نمایندگی کرنا اگرچہ ایک بڑا حسین اور کارآمد طریقہ معلوم پڑتا ہے، مگر اللہ نے ایسا کیوں کیا، کیا اُس دور کے عرب اس استعمال سے واقف تھے، جن سورتوں میں یہ حروف نہیں آئے وہاں کیوں نہیں آئے، اِن سوالات سے یہ تحقیق تعرض نہیں کرتی۔ تاہم ان کے جواب کے لیے تحقیق ہونی چاہیے۔

اختتامیہ

یہ تحقیق اس ضمن کی ایک ابتدائی کاو ش ہے۔ میرے نزدیک نظریۂ فراہی اصول اور اطلاق، دونوں میں صائب ثابت ہوا ہے۔ اگرچہ اطلاقات میں سے کچھ میں بہتری کی گنجایش ابھی باقی ہے۔
میری تحقیق میں اگر کوئی غلطی ہے تو وہ یقیناً میری محنت یا سمجھ کے فقدان یا کوتاہی کی عکاس ہے۔ جولوگ اس تحقیق کو کوتاہیوں سے پاک کرنے میں میرے مددگار بنیں، ان کا میں پیشگی مشکور ہوں۔

___________________

۲؂ عبرانی حروف کی تاریخ و تعارف کے لیے میں نے ان مقامات کو مددگار پایا ہے:
۱۔ انسائیکلوپیڈیا یہودیاہ: عبرانی حروف تہجی، جلد ۱ صفحات ۶۸۹۔۷۲۸، جلد۸ صفحہ ۵۵۴ وغیرہ
۲۔ یہودی انسائیکلوپیڈیا
۳۔ ویکیپیڈیا
۴۔ مستند لغات کے دیباچے۔

۵؂ یہ حقیقت ہے کہ حروف کی شکلیں اور منشا اشیا تو مستند مصادر میں مذکور ہیں۔ مگر یہ شکلیں / اشیا کن معانی پر دلالت کرتی ہیں، اگرچہ ان کے بیان سے غیر مستند مصادر بھرے پڑے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ مستند مصادر ۔۔۔۔۔ اکا دکا حروف کے علاوہ ۔۔۔۔۔ ان کو موضوع نہیں بناتے۔ تاہم، جیسا کہ آپ آگے دیکھیں گے ان معانی کا استنباط فہم عامہ کے استعمال سے براہ راست حروف کی مصداق اشیا سے ہو جاتا ہے۔

۷؂ یہ اب آن لائن بھی پڑھا جا سکتا ہےhttp://www.jewishencyclopedia.com/۔
۸؂ اس راے کی تصدیق کے لیے کسی بھی مستند لغت کی مراجعت کی جا سکتی ہے۔
۹؂ مثال کے طور پر ’’ط‘‘۔ فؤرسٹ اور کچھ اور لغت نویس سانپ کے مقابل میں ٹوکری یا بل کھانے کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ جسینیَس سانپ اور ٹوکری دونوں کو بیان کر دیتا ہے۔ چنانچہ میں نے ’’ط‘‘ کے پورے نام ’’طیط‘‘ یعنی بڑا سانپ کو ترجیح دی ہے۔
۱۰؂ جیسے بیل سے طاقت یا طاقت ور مراد لینا۔
۱۱؂ جن لوگوں نے اس سے گائے مر ادلی ہے، انھوں نے غلطی کی ہے۔
۱۲؂ بیسیوں مقامات پر کہیں براہ راست اللہ کو چرواہا کہا گیا ہے اور کہیں اللہ کی مخلوق کو بھیڑوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو:http://bible.knowing-jesus.com/topics/God,-As-Shepherd۔
۱۳؂ اس سے ’ذالک‘ اور ’تلک‘ کے استعمال میں جو الجھنیں مفسرین کو پیش آئی ہیں، وہ بھی حل ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ ’ذالک‘ اور ’تلک‘ اہل نحو کے یہاں گفتگو میں پہلے سے موجود کسی شے کی طرف اشارے کے لیے آتے ہیں۔
۱۴؂ مثلاً سورۂ بقرہ، آل عمران، لقمان اور السجدہ میں۔
۱۵؂ مثلاً سورۂ بقرہ، آل عمران، السجدہ میں۔
۱۶؂ مثلاً سورۂ لقمان میں۔
۱۷؂ ص کی تصویری علامت مستند مصادر میں صرف بیان ہوئی ہے۔ اس کی قدیم علامت (pictograph) ان میں دستیاب نہیں۔ اسی لیے میں نے قدیم فونیشیائی رسم الخط یہاں نقل کر دیا ہے۔ اگرچہ غیر مستند مصادر اس کی تصویری علامت کچھ یوں ۔۔۔۔۔ بتاتے ہیں۔
۱۸؂ انسائیکلوپیڈیا یہودیا: دوسرا ایڈیشن، جلد ۱۷، صفحہ ۶۵۵، دیکھیے صاد (Sade)۔
۱۹؂ یہاں اگرچہ یہ امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ ’’م‘‘ سے یہاں مراد وہ بستی ہو جو پانی کے کنارے واقع تھی۔ اس اعتبار سے م اور ص دونوں اصحابِ سبت ہی کی علامت ہو جائیں گے۔ تاہم یہ تاویل کمزور ہے، اس لیے میں نے اسے اختیار نہیں کیا۔
۲۰؂ الاعراف۷: ۱۶۳۔ ۱۶۶۔
۲۱؂ بہت سے نیم مستند مصادر قدیم کتبات سے یہ بھی اخذ کرتے ہیں کہ یہ حرف اصل میں پورے لفظ ’’ھا‘‘ ہی کے قائم مقام ہے۔ اور اس کا مطلب یہی بتاتے ہیں کہ جیسے اچانک کسی اہم یا شان دار چیز کو دیکھ کر انسان اعلان کے لیے ہاتھ اٹھا لیتا ہو۔ مثلاً دیکھیے:
Biblical Archaeology Review...
۲۲؂ ۳۸: ۴۵۔ یعنی ہاتھوں اور آنکھوں والے۔ مگر اعلیٰ عربی میں اس کا ترجمہ یوں کیا جائے گا کہ بہت قدرت اور بصیرت رکھنے والے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کی جو تاریخ ہمیں بتلائی ہے، وہ ان درویشانہ افسانوں سے کہیں مختلف ہے جو عام طور پر لوگ نیک لوگوں کے بارے میں گمان کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ نے ان نفوس قدسیہ کے بارے میں یہ باور کرایا ہے کہ میرے پیغمبر دنیاوی فنون میں بڑی مہارت رکھنے والے اور بڑے دنیا بیں لوگ تھے۔ یہ تعبیر بھی یہی بتا رہی ہے۔
۲۳؂ رسم آشوری میں یہ یوں لکھا جاتا تھا:۔۔۔۔۔۔
۲۴؂ انسائیکلوپیڈیا یہودیا: (Encyclopedia Judaica)، دوسرا ایڈیشن، جلد ۱۸، صفحہ ۴۸۳۔۴۸۴، دیکھیے ’’شن‘‘(Shin)۔
۲۵؂ یہ معانی صرف غیر مستند مصادر میں ہی ملتے ہیں۔ مثلاً دیکھیے:https://en.wikipedia.org/wiki/Shin_(letter)۔
۲۶؂ دیکھیے:https://en.wikipedia.org/wiki/Heth۔
۲۷؂ دیکھیے آغاز میں بیان کیے گئے مصادر میں ’’Edward Fuerst‘‘کی فرہنگ۔
۲۸؂ الشورٰی ۴۲: ۳۔
۲۹؂ الانعام ۶: ۱۰۳۔
۳۰؂ آیت ۵۲۔
۳۱؂ ۸۲: ۱۰۔
۳۲؂ الشوریٰ ۴۲۔
 

عرفان سعید

محفلین
نہایت شاندار شراکت!

بہت بہت شکریہ!

امام حمید الدین فراہی کا قرآن پر عظیم الشان اور غیر معمولی تحقیقی کام عوام الناس کی نگاہوں سے اوجھل رہا ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جس عبقری اور نادر اسلوبِ فکر کی بنا امام فراہی ڈال کر گئے تھے، آج ان بنیادوں پر مزید کام کیا جارہا ہے اور دنیا کے سامنے بھی آرہا ہے۔

ایک املا کی تصحیح فرما لیں
حروف مقطعات پر نظریہ فراحی کے اطلاقات
فراہی
 

امن وسیم

محفلین
نہایت شاندار شراکت!

بہت بہت شکریہ!

امام حمید الدین فراہی کا قرآن پر عظیم الشان اور غیر معمولی تحقیقی کام عوام الناس کی نگاہوں سے اوجھل رہا ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جس عبقری اور نادر اسلوبِ فکر کی بنا امام فراہی ڈال کر گئے تھے، آج ان بنیادوں پر مزید کام کیا جارہا ہے اور دنیا کے سامنے بھی آرہا ہے۔

ایک املا کی تصحیح فرما لیں

فراہی
جی سر درست فرمایا آپ نے

املا کی طرف توجہ دلانے کا شکریہ
میں نے تصحیح کر دی ہے۔
 

سیما کرن

محفلین
باب دوم : حروف مقطعات کا تعارف

حروف مقطعات کے معنی و مفہوم کے بارے میں اگر قدیم مفسرین کی آرا کا استقصا کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ کسی مضبوط علمی بنیاد پر مبنی نہیں ہیں ۔ البتہ، جدید مفسرین میں مولانا حمید الدین فراہی کا نقطۂ نظر قابل غور علمی استدلال پر مبنی ہے۔ اگر اسے اختیار کیا جائے تو اِن حروف کے مفہوم تک رسائی کا مستند اور مضبوط علمی راستہ واضح دکھائی دیتا ہے۔ مولانا فراہی کا موقف یہ ہے کہ عربی اورعبرانی زبانوں کے حروف ایک مشترک اساس رکھتے ہیں۔ یہ حروف ان حروف سے ماخوذ ہیں جو عرب قدیم میں رائج تھے۔ یہ حروف انگریزی اور ہندی کے حروف کی طرح صرف آواز ہی نہیں بتاتے تھے، بلکہ چینی زبان کے حروف کی طرح معانی اور اشیا پر بھی دلیل ہوتے تھے اور جن معانی یا اشیا پر دلیل ہوتے تھے، عموماً انھی کی صورت و ہیئت پر لکھے جاتے تھے۔

زیر نظر تحقیق اِسی زاویۂ نظر سے تحقیق و جستجو کی ایک کاوش ہے ۔

عربی و عبرانی حروف ۲؂

عبرانی حروف جن مادی اشکال کی تمثیل سے بنے ہیں، وہ اشکال بالاجمال معلوم اور عبرانی لغات میں مذکورہیں۔ ان حروف کی تاریخ ایک اندازے کے مطابق تقریباً چار ہزار (۴۰۰۰) سال پرانی ہے ۔ حروف کی منشا شکلوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ اس دور کے انسان کے ماحول میں موجود اشیا تھیں۔ آثار قدیمہ سے ملنے والے کتبات سے اس خیال کو بھی تقویت ملتی ہے کہ آغاز میں حروف لکھے بھی انھی شکلوں کی ساخت کی طرح جاتے تھے۔ مگر تاریخ کے مختلف ادوار میں رسم الخط کے تغیر سے عبرانی حروف کی ساخت بدلتی رہی؛ جیسے مثال کے طور پر رسم عبری (ہبرو) اور رسم آشوری (آشوریئن) وغیرہ۔ چنانچہ آج کے رسم الخط میں ان اشکال سے اگر کچھ بُعد محسوس ہو تو اُس کی یہی وجہ ہے۔
ذرا سی تحقیق سے یہ بات بھی آشکار ہو جاتی ہے کہ عربی حروف اب بھی عبرانی حروف کی قدیم ساخت سے بہت مماثلت رکھتے ہیں، بلکہ عبرانی ماہرین لغات عبرانی حروف و الفاظ کی اکثر پیچیدگیوں کو عربی سے تقابل کے ذریعے سے ہی حل کرتے ہیں ۔ بایں ہمہ، ان کی آوازیں تو بالکل ایک ہی ہیں اور ہمیشہ ایک ہی رہی ہیں۔ رہے اِن حروف کے پورے نام (جیسے ’’ا‘‘ کا ’’الف‘‘) تو وہ بھی تقریباً ایک ہی ہیں۔ بلکہ اگر کچھ ایسی مناسب حال تبدیلیاں کر لی جائیں جو عبرانی اور عربی زبان دانوں نے تجویز کی ہیں تو ’’تقریباً‘‘ کا لفظ اس باب میں بھی حذف ہو جاتا ہے۔
مثال کے طور پہ، ’’ا‘‘ عربی کی طرح عبرانی میں بھی ’’الف‘‘ہی ہے اور آواز بھی ایک ہی ہے۔ ’’ب‘‘، عربی میں ’’با‘‘ اور عبرانی میں ’’بیت‘‘ ہے، مگر آواز ایک ہی ہے۔’’ص‘‘، عربی اور عبرانی میں ’’صاد‘‘ ہی ہے اور ایک ہی آواز دیتا ہے وغیرہ۔
چنانچہ یہ بلا تامل ماننا پڑتا ہے کہ عربی حروف تہجی لازماً عبرانی حروف تہجی ہی ہیں یا کسی ایک ہی مشترک مصدر سے پھوٹی ہیں، اور جو شکلیں یا پلٹوگرام عبرانی حروف کی منشا ہیں، وہی لا ریب عربی کی بھی منشا ہیں۔
اب آئیں ذرا یہ جانتے ہیں کہ حروف اور ان کی نشاءتی شکلوں کا آپس میں کیا تعلق ہے ، یہ شکلیں کتنے معانی پر دلالت کرتی ہیں اور مختلف شکلیں مل کر کیسے ایک خیال کے لیے بنیاد بنتی اور کیسے ان کا مجموعہ ایک پورے مربوط مفہوم کو اداکرتا ہے۔ یہ جاننا اس لیے ضروری ہے تا کہ حروف مقطعات میں ان کا مفہوم سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔

حروف، شکلوں اور معانی کا باہمی تعلق

جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے کہ ہر حرف کسی مادی چیز کی علامت ہے جو اس چیز کی شکل کی نمایندگی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر عبرانی و عربی حروف تہجی کا پہلا حرف ’’ا‘‘۔ اس کی نمایندہ شکل ایک بیل کے سر کا خاکہ ہے۔ بیل کو ہی عبرانی میں ’’الف‘‘ کہتے ہیں۔ اسی لیے ’’ا‘‘ کو بھی الف ہی پڑھتے ہیں۔ اسی طرح ’’ب‘‘ہے۔ اس کی نشاء تی شکل ایک گھر کی تصویر ہے۔ گھر کو عبرانی و عربی میں ’’بیت‘‘ کہتے ہیں، اسی لیے عبرانی میں ’’ب‘ ‘کو بیت پڑھتے بھی ہیں ۔

اب یہ سمجھ لیجیے کہ یہ حروف جن قدیم عرب اشیا کی ساخت پر بنے ہیں، قدیم زبان میں یہ اشیا اپنے مادی مصداق کے ہمراہ اس شے کی خصوصیات کے لیے معنوی اعتبار سے بھی استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ یہ ایک بہت ضروری نکتہ ہے ۔۵؂ مثلاً بیل چونکہ طاقت اور قوت کا حامل ہوتا ہے، اور قدیم عرب، بلکہ موجودہ دور کے دیہاتی علاقوں میں آج بھی بیل طاقت و ہیبت کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے، اس لیے الف کا مصداق معنوی اعتبار سے طاقت اور طاقت ور،یعنی اسم اور فعل، دونوں کے اظہار کے لیے استعمال ہو سکتا تھا۔ اسی طرح ’’ب‘‘ یعنی گھر رہنے کی جگہ کے ساتھ ساتھ خاندان کے معنی بھی دے سکتا تھا اور کسی چیز کے اندر ہونے کے بھی۔ اسی طرح مختلف حروف مل کر ایک حتمی خیال کی نشان دہی بھی کر سکتے تھے۔
یہ حروف کے امتزاج سے حاصل ’’خیال‘‘ اصل میں شکلوں اور ان کے مراد معانی کے امتزاج ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کو اہرام مصر کی تمثالی زبان (Egyptian Hieroglyphs) سے بڑے اچھے طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ قدیم مصری اقوام نے انفرادی شکلوں ہی کے امتزاج سے الفاظ اور جملے بنائے اور پھر ہر شکل کو اس کی صوتی، صورتی یا معنوی (phonograms, logograms or semagrams) حیثیت میں استعمال کیا۔ شکلوں کو صوتی اعتبار سے پڑھنا ہو یا معنوی اعتبار سے، اس کے لیے انھوں نے تعینات (determinatives) کا استعمال ایجاد کیا۔ جن لوگوں کو اس مصری تمثالی زبان میں کچھ دل چسپی ہو، وہ اس کا مطالعہ کریں۔ اس سے ان کو حروف اور ان کی شکلوں سے استدلال کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
تاہم، قدیم عبرانی حروف تہجی کی ایجاد کے نتیجے میں ان منشا اشیا اور ان کے معنوی اطلاقات اپنا اثر کھو بیٹھے اور اشکال کے نمایندہ حروف فقط صوتی تاثیر کے حامل ہوئے۔ یعنی الف کو بس ’’اَ‘‘ کی آواز کے لیے، بیت کو ’’ب‘‘ کی آواز وغیرہ ہی کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ باوجود اس کے، حروف کی تحریری ساخت اور پورا نام اپنے ماخذ اشیا کی نمایندگی ہمیشہ کرتے رہے۔ اگرچہ رسم الخط کے تغیر کے زیر اثر تحریری ساخت کچھ بدلتی رہی، مگر حروف کا پورا نام ہمیشہ ایک ہی رہا

حروف مقطعات پر قدیم حروف سے استنباط

قرآن مجید کی جن سورتوں کا آغاز حروف مقطعات سے ہوتا ہے، یہ ثابت ہے کہ اولین قاری ۔۔۔۔۔ یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔ سے آج تک یہ حروف وہاں علیحدہ علیحدہ اور اپنے پورے نام سے ہی پڑھے جاتے ہیں۔ اسی طرح اولین قرآنی نسخوں سے آج تک یہ لکھے بھی اسی طرح جاتے ہیں۔ پھر عموماً یہ جہاں کہیں بھی وارد ہوئے ہیں، پوری آیت ہی شمار کیے گئے ہیں۔ پھر یہ بھی لازمی ہے کہ یہ آیت کوئی نہ کوئی معنی تو رکھتی ہو گی۔ وقوع کی یہ ندرتیں لامحالہ اس بات کی ضامن ہیں کہ ان حروف کا ہر ہر حرف اپنے وجود سے مستنبط معنی ہی کو بنیاد بناتا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ فراہی صاحب نے ان حروف کے اپنے مصداق و معانی کی طرف توجہ دلائی۔
چنانچہ میری اس تحقیق کے نتیجے میں یہ ثابت ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان حروف کو اپنے قدیم انفرادی مطالب میں ہی استعمال کیا ہے۔ اور اس استعمال سے صرف حروف کے مادی مصداق ہی کو مراد نہیں لیا، بلکہ قدیم زبانوں کی طرح ان مصداقوں کے واضح خصائص کو بطور مجازی معانی بھی مراد لیا ہے۔
چنانچہ ان حروف کے مصداق کی تخریج اور ان کے معانی کی کھوج کے لیے میں نے معروف عبرانی و کلدانی اشتقاقی لغات کو اپنی تحقیق کی بنیاد بنایا ہے۔ پھر ان پر مزید تدبر کے لیے مستند انسائیکلوپیڈیا کو بھی زیر مطالعہ رکھا ہے۔

حروف مقطعات پر نظریہ فراہی کے اطلاقات
( عدنان اعجاز )

میں نے اس مضمون میں کچھ ترمیم کی ہے اور اسے کئی حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ جنہیں میں مرحلہ وار ابواب کی شکل میں بھیجوں گا۔
یہ لڑی تو بہت پرانی ہے مگر میرے والد محترم نے بھی ایک کتاب حروف مقطعات کی شرح میں تحریر فرمائی ہے۔ جس کا نام ہے،" واہ میرے خدا"۔
 
Top