عمر سیف
محفلین
تمھیں جانے کی جلدی تھی
تو اپنی جلد بازی میں
تم اپنے لمس کی کرنیں، نظر کے زاویے، پوروں کی شمعیں
میرے سینے پر بھڑکتا چھوڑ آئے ہو
وہاں تکیے کے نیچے
کچھ سنہرے رنگ کی ٹوٹی ہوئی سانسیں
کسی نوزائیدہ خوشبو کے تازہ خوا بچے
بستر کی شکنوں میں گِرے کچھ خوبرو لمحے
ڈریسنگ روم میں ہینگر سے لٹکی ایک صد رنگی ہنسی کو
بس اچانک ہی پسِ پردہ لٹکتا چھوڑ آئے ہو
تمھیں جانے کی جلدی تھی اب ایسا ہے کہ جب بھی
بےخیالی میں سہی لیکن کبھی جو اس طرف نکلو
تو اتنا یاد رکھنا
گھر کی چابی صدر دروازے کے بائیں ہاتھ پر
ایک خول میں رکھی ملے گی
اور تمھیں معلوم ہوگا
کپڑوں کی الماری ہمیشہ سے کھلی ہے
سیف کی چابی تو تم نے خود ہی گُم کی تھی
سو وہ تب سے کھلا ہے اور اس میں کچھ
تمھاری چوڑیاں، اک آدھ انگوٹھی اور ان
کے بیچ میں کچھ زرد لمحے اور ان لمحوں کی گرہوں
میں بندھی کچھ لمس کی کرنیں، نظر کے زاویے
پوروں کی شمعیں، اور سنہرے رنگ کی ٹوٹی ہوئی
سانسیں ملیں گی اور وہ سب کچھ جو میرا اور
تمھارا مشترک سا اک اثاثہ ہے سمٹ پائے
تو لے جانا
مجھے جانے کی جلدی ہے
تو اپنی جلد بازی میں
تم اپنے لمس کی کرنیں، نظر کے زاویے، پوروں کی شمعیں
میرے سینے پر بھڑکتا چھوڑ آئے ہو
وہاں تکیے کے نیچے
کچھ سنہرے رنگ کی ٹوٹی ہوئی سانسیں
کسی نوزائیدہ خوشبو کے تازہ خوا بچے
بستر کی شکنوں میں گِرے کچھ خوبرو لمحے
ڈریسنگ روم میں ہینگر سے لٹکی ایک صد رنگی ہنسی کو
بس اچانک ہی پسِ پردہ لٹکتا چھوڑ آئے ہو
تمھیں جانے کی جلدی تھی اب ایسا ہے کہ جب بھی
بےخیالی میں سہی لیکن کبھی جو اس طرف نکلو
تو اتنا یاد رکھنا
گھر کی چابی صدر دروازے کے بائیں ہاتھ پر
ایک خول میں رکھی ملے گی
اور تمھیں معلوم ہوگا
کپڑوں کی الماری ہمیشہ سے کھلی ہے
سیف کی چابی تو تم نے خود ہی گُم کی تھی
سو وہ تب سے کھلا ہے اور اس میں کچھ
تمھاری چوڑیاں، اک آدھ انگوٹھی اور ان
کے بیچ میں کچھ زرد لمحے اور ان لمحوں کی گرہوں
میں بندھی کچھ لمس کی کرنیں، نظر کے زاویے
پوروں کی شمعیں، اور سنہرے رنگ کی ٹوٹی ہوئی
سانسیں ملیں گی اور وہ سب کچھ جو میرا اور
تمھارا مشترک سا اک اثاثہ ہے سمٹ پائے
تو لے جانا
مجھے جانے کی جلدی ہے