قتیل شفائی تمہاری انجمن سے اُٹھ کے دیوانے کہاں جاتے

تمہاری انجمن سے اُٹھ کے دیوانے کہاں جاتے
جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے
نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
تمہاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی
تم آنکھوں سے پلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہوا، کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
قتیلؔ اپنا مقدر غم سے بے گانہ اگر ہوتا
تو پھر اپنے پرائے ہم سے پہچانے کہاں جاتے

قتیلؔ شفائی
 

طارق شاہ

محفلین
بہت اچھی غزل انتخاب کی ہے تشکّر شیئر کرنے کے لئے !
قتیل صاحب بہت ہی خوب شاعر تھے اور بہت ہی خوب تحریروں کے خالق ہیں
الله مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ دے ،

اس غزل کی شروع کے تین اشعار ربط کے تناظر میں دیکھیں تو بہتری کے خواہاں نظر آتے ہیں
کچھ اس طرح کا زیادہ مربوط ہوتا۔

تمہاری انجُمن سے اُٹھ کے دِیوانے کہاں جاتے
نئے، ہر روز بنتے ہیں جو افسانے کہاں جاتے

نہ مِلتا دیر و کعبہ کے نِکالوں کو جو مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے اِنساں خُدا جانے کہاں جاتے

تغافل سے حسِینوں کی، رہیں قائم یہ میخانے !
سب آنکھوں سے اگر پیتے تو پیمانے کہاں جاتے

چلو اچھّا ہُوا، کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے

قتیل اپنا مُقدّر غم سے بے گانہ اگر ہوتا
تو پھر اپنے پرائے ہم سے پہچانے کہاں جاتے


ویسے ہی اجتماعی آگاہی اور فلاح کے لئے رائے دی یا یوں لکھا
تشکّر
بہت خوش رہیں :)
 

شمشاد

لائبریرین
تو میں بھی تو شاعری ہی کی بات کر رہا ہوں۔ آپ کیا سمجھیں میں کس کی بات کر رہا ہوں؟
 

فلک شیر

محفلین
چلو اچھا ہوا، کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
خیال یہ ہے، کہ اس ٹکر کا شعر کم ہی ہوتا ہے کہیں بھی....................سبحان اللہ
عجیب چیز ہے یہ
 
Top