تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو! بھولے بسرے چہرے!

screenshot_430.png

عذرا شیروانی جو 1940ء کو پیدا ہوئی ۔عذرا شیروانی کا شمار پاکستان کی لیجنڈ اداکاراؤں میں میں ہوتا ہے ان کے شوبز کیرئیر کا دورانیہ 35سال ہے۔ پی ٹی وی کے ڈرامہ سیریل ”تنہائیاں“ میں آپا بیگم کی حیثیت سے کردار ادا کر کے عذرا نے بے پناہ شہرت حاصل کے ۔ عذرا شیروانی نے بے شمار ٹیلی وژن ڈراموں میں اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھائے مگر انکل عرفی اور تنہائیاں میں ان کی یادگار پرفارمنس کو ٹی وی ناظرین کبھی فراموش نہ کرسکیں گے۔ وہ ان اداکاراؤں میں شامل تھیں جنہیں مدنظر رکھ کر خصوصی کردار تخلیق کئے جاتے تھے۔ عذرا شیروانی امریکا ہی میں آسودۂ خاک ہیں ۔
 
screenshot_432.png

ظہور احمد 18 ستمبر 1934ء کو ناگ پور بھارت میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے جن اسٹیج ڈراموں میں کام کیا۔ ان میں نظام سقّہ اور تعلیم بالغان کے نام سرفہرست ہیں جبکہ ان کی فلموں میں ہیرا اور پتھر، ارمان، بادل اور بجلی، شہر اور سائے، مسافر، دل والے اور پیسہ بولتا ہے کے نام شامل ہیں۔ ظہور احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے جن ڈراموں میں یادگار کردار کئے ان میں شریف آدمی، مولا پہلوان، جس کا کوئی نام نہ تھا، خدا کی بستی، دیواریں، چنگیز خان، نور الدین زنگی، پردیس،آہن اور آخری چٹان کے نام خصوصاً قابل ذکر ہیں۔
 
screenshot_434.png

نور محمد لاشاری بھان سعید آباد کے مقام کوٹ لاشاری کے رہنے والے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد وہ محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوگئے اور تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ انہوں نے استاد بخاری کی ناٹک منڈلی سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔ ان کی ابتدائی اسٹیج ڈراموں میں بیجل کا نام سرفہرست ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے وابستہ رہے اور صداکاری کے جوہر دکھاتے رہے۔ 1967ء میں جب کراچی میں ٹیلی وژن اسٹیشن قائم ہوا تو انہوں نے ہفتہ وار سندھی ڈرامے ناٹک رنگ سے اپنی اداکاری کا آغاز کیا۔ وہ پاکستان ٹیلی وژن کے سینئر اداکاروں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے معروف ڈرامہ سیریلز میں جنگل،دیواریں، چھوٹی سی دنیا، چاند گرہن، دشت اور ماروی کے نام سرفہرست ہیں۔
 
screenshot_438.png

گلاب چانڈیو پاکستان کے معروف اداکار گلاب چانڈیو بالعموم ڈراموں میں منفی کردار ادا کرتے ہیں اور اپنے مکالمات کی ادائیگی کی وجہ سے معروف ہیں۔ وہ اب تک 300سے زائد اردو سندھی ڈراموں اور 6فلموں میں اداکاری کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ سیاست میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور تحریک انصاف سے منسلک ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 14 اگست 2015ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا ہے ۔
 
screenshot_440.png

طاہرہ واسطی کو 1980 اور 1990 کے عشرے میں ٹیلیویژن کی صف اول کی اداکاراؤں شمار کیا جاتا تھا۔انہوں نے 1968-69 میں پاکستان ٹیلی ویژن سے اداکاری کا آغاز کیا اور ان کا پہلا معروف ڈرامہ سیریل ’جیب کترا‘ تھا۔ یہ ڈرامہ اردو کے مایہ ناز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی ایک کہانی پر تیار کیا گیا تھا۔طاہرہ واسطی کی خاص پہچان ان کی پُروقار اور پُرکشش شخصیت تھی جس کی وجہ سے انہیں شاہانہ انداز کے کرداروں کے لیے انتہائی پسندیدہ قرار دیا جاتا تھا۔طاہرہ واسطی انیس سو چوالیس میں سرگودھا میں پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی ۔ بعد ازاں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور منتقل ہوگئیں۔معروف ٹی وی پروڈیوسر قاسم جلالی کے مطابق وہ جتنی اچھی اداکارہ تھیں اتنی ہی اچھی مصنفہ بھی تھیں خاص کر سائنس فکشن پر وہ بہت اچھا لکھتی تھیں۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے کئی ڈرامے تحریر کیے جن میں کالی دیمک جو ایڈز کے موضوع پر لکھا گیا۔طاہرہ واسطی کو 1980 اور 1990 کے عشرے میں ٹیلیویژن کی صف اول کی اداکاراؤں شمار کیا جاتا تھا۔اس دور میں انھوں نے کئی مشہور ڈراموں میں کام کیا تاہم ڈرامہ سیریل افشاں میں یہودی تاجر کی بیٹی اور آخری چٹان میں ملکہ ازابیل کے کرداروں نے غیر معمولی شہرت دی۔ ان کے دیگر مشہور تاریخی ڈراموں میں غرناطہ ، شاہین اور ٹیپو سلطان شامل ہیں۔
 

لاریب مرزا

محفلین
screenshot_424.png
راحت کاظمی کا شمار انتہائی پڑھے لکھے فنکاروں میں ہوتا ہے پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم کے پڑھے لکھے اداکاروں میں ایک نام راحت کاظمی کا بھی ہے جو 30 جون 1946ءمیں بھارت کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے۔ 1968ءمیں سول سروس جوائن کی اور انفارمیشن آفیسر مقرر ہوئے تاہم 1976ءمیں اس نوکری سے استعفیٰ دیدیا ۔1976 میں نوکری سے استعفی دے کر اداکاری شروع کر دی۔ راحت کاظمی نےپاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے قُربتیں اور فاصلے، تیسرا کنارا، پرچھائیاں، ذِکر ہے کئی سال کا، ننگے پاؤں وغیرہ میں کامیاب اور لازوال اداکاری کے جوہر دیکھ لائے۔ راحت کاظمی نے کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں میں بطور استاد بھی خدمات انجام دی ہیں ۔
ان کے مشہور ڈرامے دھوپ کنارے کا ذکر نہیں ہوا۔ وہی تو ہمیں سب سے زیادہ پسند ہے۔ :)
 
لیجنڈ اداکار محمد علی کی آج بارہویں برسی منائی جا رہی ہے
465157_3952997_updates.jpg
محمد علی پاکستان فلم انڈسٹری کا بہت بڑا نام اور ایک لیجنڈ اداکار تھے،آج ان کے مداح ان کی بارھویں برسی پر انہیں یاد کر رہے ہیں۔
محمد علی کافلمی سفر 1962 میں ’چراغ جلتا رہا‘ سے شروع ہوا، پھر محمد علی کے فن کا چراغ برسوں روشن رہا۔
شہنشاہ جذبات محمد علی، فلم انڈسٹری کی سنہری تاریخ انکے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔
آگ کا دریا، انسان اور آدمی،شمع، آئینہ اور صورت، کنیز، جانے انجانے ، بھروسہ اور صاعقہ جیسی فلموں کی طرح محمد علی جیسے فنکار بھی روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
محمد علی اور اداکارہ زیبا کی شادی 29 ستمبر 1966 کو ہوئی۔ حقیقی زندگی میں بھی یہ جوڑی انتہائی کامیاب رہی، باوقار شخصیت اور جاندار آواز،تلفظ کی ادائیگی اور زبان پر گرفت، محمد علی کا ہی خاصہ تھی۔
محمد علی کو دس نگار ایوارڈز، پرائیڈ آف پرفارمنس اور تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
یوسف علی نے اپنے فنی سفر کا آغاز اسٹیج ڈراموں سے کیا تھا۔ انہیں ڈراما سیریل 'چھوٹی سی دنیا' سے لازوال شہرت ملی۔ تاہم، اس کے بعد وہ طویل عرصہ پردہء سکرین سے غائب رہے۔ جب پلٹ کر آئے تو ڈراما سیریل 'نجات' میں اپنی بہترین کارکردگی کے باعث خوب داد سمیٹی۔ ان کا انتقال 1993ء میں ہوا۔
yousif-ali-actor.png
 
اسد امانت علی خان

475595_3558154_updates.jpg

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘ سے اولین شناخت اور مقبولیت حاصل کرنے والے کلاسیکل گائیک اسد امانت علی کومداحوں سے بچھڑے گیارہ برس بیت گئے۔پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھنے والےنیم کلاسیکل گائیکی کے نمائندے گلوکار اسد امانت علی خان 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اپنی گائیکی کا آغاز 10 سال کی عمر سے کیا۔اسد امانت علی خان نے انشا جی کی لکھی اور اپنے والد امانت علی خان کی گائی غزل 'انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘ سے اولین شناخت اور مقبولیت حاصل کی۔اس کے علاوہ انہوں نے فلموں کے لیے بھی بے شمار گانے گائے۔ ان کا پنجابی گانے’عمراں لنگھیاں پباں بھار‘ نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔اسد امانت علی خان کوان کی فنی خدمات کے صلے میں صدارتی ایوارڈ ’پرائڈآف پرفارمنس‘ سے بھی نوازا گیا۔8اپریل 2007 کو 52 سال کی عمر میں لندن میں انھیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ جو فن موسیقی کا ایک درخشاں ستارہ تھا غروب ہو گیا۔
 
Top