محمد تابش صدیقی
منتظم
اب دیکھیےسر محمد خلیل الرحمٰن تدوین میں یہ غلطی ہو گئی ہے
اب دیکھیےسر محمد خلیل الرحمٰن تدوین میں یہ غلطی ہو گئی ہے
یہ ناز خیالوی کی تم اک گورکھ دھندہ ہو کا حصہ ہے یہ ان کی نہیں اک گورکھ دھندہ ہو اور ویسا بھی یہ صاحب نوجوان شاعر ہیں ضیاء رسول امینینت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کے کھنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی
طور ہی برق تجلی سے مٹھا دیتے ہو
نار نمرود میں ڈھلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہے کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعان
نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو
دیکھے یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شاہ مصر بنا دیتے ہو
جزب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں ان الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چھڑا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جسکو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں رلا دیتے ہو
جستجو لے کہ تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلا کا بنا دیتے ہو
جوتھ سسی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوے تل میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو مہیوال تصور کرلے
اسکو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرادیتے ہو
نت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہویہاں پر محترم نے پوسٹ کی ہے لیکن اس بھی اپنا نام شامل نہیں کیا ہوا اس کا مطلب یہی ہے کے یہ ناز خیالوی کی ہی ہےنت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کے کھنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی
طور ہی برق تجلی سے مٹھا دیتے ہو
نار نمرود میں ڈھلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہے کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعان
نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو
دیکھے یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شاہ مصر بنا دیتے ہو
جزب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں ان الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چھڑا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جسکو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں رلا دیتے ہو
جستجو لے کہ تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلا کا بنا دیتے ہو
جوتھ سسی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوے تل میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو مہیوال تصور کرلے
اسکو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرادیتے ہو
یہ ناز خیالوی کی تم اک گورکھ دھندہ ہو کا حصہ ہے یہ ان کی نہیں اک گورکھ دھندہ ہو اور ویسا بھی یہ صاحب نوجوان شاعر ہیں ضیاء رسول امینی
ٹھیک ہے مولانا۔میں آپ سے متفق ہوں ۔میں نے غلطی فہمی کی بنیاد پر امینی صاحب کا نام شامل کر دیا۔نت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہویہاں پر محترم نے پوسٹ کی ہے لیکن اس بھی اپنا نام شامل نہیں کیا ہوا اس کا مطلب یہی ہے کے یہ ناز خیالوی کی ہی ہے
یہ تو آپ خود بھی کر سکتے ہیں عنوان پر جا کرمحمد خلیل الرحمٰن محمد تابش صدیقی صاحبان آپ سے گزارش ہے کہ عنوان میں سےضیاءرسول امینی کا نام حذف کر دیں اور ناز خیالوی کا نام شامل فرما دیں۔شکریہ
بھائی میں نے اختیارت کے آپشن میں دیکھا ہے ۔عنوان تبدیلی کا آپشن نہیں آ رہا ہے۔اس لیے مدیر حضرات کو زحمت دی ہے۔یہ تو آپ خود بھی کر سکتے ہیں عنوان پر جا کر
گورکھ دھندا کا مطلب ہے۔ سمجھ میں نہ آنے والاالسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اما بعد ! میرے دوستوں میں مرحوم ناز خیالوی کا یہ کلام کہ "تم اک گورکھ دھندہ ہو" مرحوم نصرت فتح علی خان کی آواز میں ہر روز سنتا ہوں لیکن اس جملے کی مطلب یا معنی سے قاصر ہوں " تم اک گورکھ دھندہ ہو" اس جملے کا مطلب یا معنی کیا ہے ؟ برائے مہربانی معلومات دیجئے ۔
اس نظم کا اردو ترجمہ نہیں دیا گیا سید ناصر شہزادپروفیسر موہن سنگھ نے ایک پنجابی نظم "رب" لکھی تھی جو انکی مشہور کتاب "ساوے پتر" میں شامل ہے ناز خیالوی نے "تم اک گورکھ دھندہ ہو" کا آئیڈیا اسی نظم سے لیا تھا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں نظمیں ہی شاہکار ہیں دونوں نظمیں یہاں پیش کی جا رہی ہیں پڑھیے اور اپنی قیمتی رائے سے نوازیئے
( پنجابی نظم رب" کا اردو ترجمہ بھی موجود ھے )
"ربّ" ۔۔۔۔ شاعر : پروفیسر موہن سنگھ
نظم کافی لمبی ہے اور پیشہ مصرفیات سے وقت کم ہی ملتا ہےاس نظم کا اردو ترجمہ نہیں دیا گیا سید ناصر شہزاد