سلمان دانش جی
معطل
ا
فونٹ پر غیر ضروری بحث سے اہم یہ سوال ہے کہ غزل میں مقطع میں ردیف کا جاتے سے آتے میں بدل جانا کیا جدید سخن گوئی اور عروض کا کوئی نیا اصول ہے؟ اگر ہے تو اس کا کوئی حوالہ شوالہ؟ یا اسے غزل کی بجائے نظم کہا جائے گا؟
اچھی غزل ہے صاحبہ۔ لیکن بہتر ہوتا کہ پہلے اصلاح کے دھاگے میں اساتذہ کی نظر سے گزر جاتی۔ کچھ مصرعوں میں بھی، جو ، کہ جیسے الفاظ کی کہیں نشست اور کہیں موجودگی مصرعوں کو چٹکیاں کاٹ کاٹ کر شرارت کر رہی ہے۔تم بھی اب شہر سے ڈر جاتے ہو حد کرتے ہو
دیکھ کر مجھ کو گزر جاتے ہو، حد کرتے ہو
تم تو کہتے تھے ربابؔ اب میں تری مانوں گا
پھر بھی تم دیر سے گھر آتے ہو، حد کرتے ہو
فوزیہ رباب
فونٹ پر غیر ضروری بحث سے اہم یہ سوال ہے کہ غزل میں مقطع میں ردیف کا جاتے سے آتے میں بدل جانا کیا جدید سخن گوئی اور عروض کا کوئی نیا اصول ہے؟ اگر ہے تو اس کا کوئی حوالہ شوالہ؟ یا اسے غزل کی بجائے نظم کہا جائے گا؟
آخری تدوین: