محب علوی
مدیر
تم بھی ہم جیسے ہی نکلے ,,,,آئینہ مسعود اشعر
ابھی چند برس پہلے ہی فہمیدہ ریاض نے دہلی کی ایک تقریب میں اپنی نظم ” تم بھی ہم جیسے ہی نکلے “ سنانا شروع کی تھی تو ایک صاحب اس پر پستول نکال کر کھڑے ہو گئے تھے۔بڑی مشکل سے ان پر قابو پا یا گیا اور پچھلے ہفتے ہندی کی مشہور ناول نگار اور شاعر کسم انسل اکادمی ادبیات پاکستان لاہور میں بیٹھی کہہ ر ہی تھیں کہ آپ کی طرح ہمارا بھی برا حال ہے ۔ آپ اردو زبان کو رو رہے ہیں ہمارے ہاں ہندی پڑھنے والے کم ہوتے جارہے ہیں۔پہلے ہندی کے ادبی رسالے بے شمار نکلتے تھے اور اب صرف گنتی کے دوتین ہی رہ گئے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ بھی معلوم نہیں کیسے چل رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے رسالہ”ہنس “ کا ذکر کیا جسے آج کل ہندی کے ممتاز افسانہ نگار راجندر یادو چلا رہے ہیں۔یہ رسالہ اردو کے(شاید) پہلے افسانہ نگار پریم چند نے اس وقت نکالا تھا جب وہ اردو چھوڑ کر صرف ہندی میں افسانے لکھنے لگے تھے ۔ انہوں نے اردو میں لکھنا اس لئے بھی چھوڑا تھا کہ اس زبان سے انہیں کوئی مالی فائدہ نہیں تھا ،ہندی میں لکھنے سے پیسہ ملتا تھا۔ ان کے بعد ان کے صاحب زادے امرت لال یہ رسالہ چلاتے رہے۔پھر شاید کچھ عرصے کے لئے وہ بند ہو گیا تھا۔ لیکن بہر حال اب پھر نکل رہا ہے ،مگرکسم انسل کے بقول وہ لشٹم پشٹم ہی چل رہا ہے۔وہ کہہ رہی تھیں کہ آ ج کی نسل انگریزی پڑھ رہی ہے۔ان کے اپنے بچے بھی ہندی نہیں پڑھتے صرف انگریزی پڑھتے ہیں ۔وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ انگریزی کے سواکسی مقامی زبان میں بھی ادب لکھا جاسکتا ہے۔حال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص انگریزی میں ایک برا بھلا ناول لکھ لیتا ہے تواس کی شہرت فوراً ہو جاتی ہے۔اخباروں میں اس پر زور شور سے تبصرے ہوتے ہیں،اس کے انٹر ویو چھپتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بہت بڑا ناول نگار مانا جانے لگتا ہے۔ادھرہندی والوں کا یہ حال ہے کہ انہیں اپنی کتاب چھپوانے کے لئے کوئی پبلشر نہیں ملتا۔اس کا ذمہ دارانہوں نے ایک تو الیکٹرانک میڈیا کو ٹھہرایا، جس نے آدھی انگریزی اور آدھی ہندی اردو کرکے اپنی زبان ہی بگاڑ دی ہے اور دوسرے حکومت کو، جس کا سارا کاروبار انگریزی میں ہوتا ہے ۔ان کا خیال تھا کہ جب تک کسی زبان کے ساتھ لو گوں کامعاشی مفاد وابستہ نہیں ہو گا اس زبان کا حشر یہی ہو جائے گا۔ ان کی باتیں سن کر مجھے ایک پرو گرام یاد آ گیا۔ کمپیئر نے ہمارے تین نامور ادیبوں اور شاعروں کو اکٹھا کیا تھااور ان کے ساتھ مل کر اردو زبان کا سوگ منایا تھا۔اب یہ سوگ مناناہی ہوا نا کہ ان تینوں نے جو باتیں کیں ان سے یہی معلوم ہو تا تھا کہ بے چاری اردو زبان اب چند دن کی ہی مہمان رہ گئی ہے۔ ایک دن آپ سوکر اٹھیں گے تو خبر ملے گی وہ نصیبوں جلی اللہ کو پیاری ہو گئی ۔ایک معروف صحافی ہی تھے جنہوں نے چلتے چلتے کہہ دیا کہ ایسی بھی بری حالت نہیں جیسی ہم بیان کررہے ہیں۔ لیکن ان کی بات اس لئے دب گئی کہ اس پروگرام کا پورا ماحول ہی کچھ اور تھا۔اور یہ ماحول اس لئے ایسا بنا تھا کہ شروع میں ہی حاضرین میں بیٹھے لڑکوں اور لڑکیوں سے ایسا سوال کیا گیا تھا جو شاید ان سے کرنے کا نہیں تھا ۔اب اگر بزنس ایڈمنسٹریشن ، معاشیات اور کمپیوٹر سائنس کے بچوں سے سوال کیا جائے کہ وہ ن۔ م راشد یا میرا جی کو جانتے ہیں تو وہ کیا جواب دیں گے ؟ انہوں نے میٹرک ، او لیول یا اے لیول تک جو اردو پڑھی ہے اس میں جدیدشاعر پڑھائے ہی نہیں جاتے تو ان غریبوں کو کیسے معلوم ہو گا کہ یہ لوگ کون تھے ۔اور پھر انتظار حسین کے ساتھ یہ بات منسوب کر دی گئی کہ اردو کا آدھا ادب تو ختم ہو چکا ہے ۔اب نتظار حسین چیخ رہے ہیں کہ بھائی ،میں نے یہ کب کہا تھا ؟ مگر ان کی کوئی نہیں سنے گا ، ٹی وی پر جو آ گیا اس پر سب یقین کر لیں گے ۔جو نوجوان لڑکے لڑکیاں اس پروگرام میں موجود تھے وہ تو شاید اردو ادب سے واقف نہوں لیکن ہمارے ملک میں ان کے علاوہ بھی لوگ رہتے ہیں اور وہ اردو ادب پڑھتے ہیں ۔ہندی میں شاید ادبی رسالے کم ہو رہے ہوں مگر اردو میں ان کی تعداد ایسی کم بھی نہیں ہے ۔آخر لوگ پڑھتے ہی ہوں گے جبھی تو وہ نکل رہے ہیں اور ادب بھی لکھا جا رہا ہے ۔ اچھا برا پہلے بھی لکھا جاتا تھا ،اچھا برا اب بھی لکھا جارہا ہے ۔ اس لئے ابھی سے اس کا سوگ مناناسمجھ میں نہیں آتا۔ا نگریزی کی بات یہ ہے کہ وہ ایک عالمی زبان ہے۔اس میں لکھا ہوا زیادہ شہرت پا جاتا ہے ۔اس کی ایک وجہ تو یہ کہ ہم اس سے مرعوب ہیں ۔دوسرے سچی بات یہ ہے کہ اس میں بہت لکھا جارہا ہے اور واقعی اچھا لکھا جارہا ہے لیکن اگر آپ گنتی کریں تو مغربی لکوں میں ادبی رسالوں کی تعداد اتنی بھی نہیں جتنی ہمارے ہاں ہے اور اگر آپ انگلستان کے کسی تعلیمی ادارے میں جاکر یہ سوال کریں کہ اے ایس بائٹ کون ہے؟ اوروہ مرد ہے یا عورت ؟تو آپ کو وہاں بھی وہی جواب ملے گا جو ہمارے لڑکوں لڑکیوں نے دیا ۔ حالانکہ اے ایس بائٹ جدیدانگریزی ناول کا بڑا نام ہے۔وہ اپنے ناولوں پر کئی ممتاز ادبی انعام حا صل کر چکی ہے ۔ سوال اس سے کیاجانا چاہئے جس کا وہ شعبہ ہو۔ بہر حال بات وہی ہے جو کسم انسل نے کہی۔ زبانیں اس لئے زندہ رہتی ہیں کہ ان کے ساتھ صرف جذبات یاثقافت ہی نہیں لوگوں کا معاشی مفاد بھی وابستہ ہو تا ہے۔اب ہماری زبان یا زبانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار ہماری حکومتیں، ہمارانظام تعلیم اورذرائع ابلاغ ہیں، جس میں الیکٹرانک میڈیا سب سے آ گے ہے ۔وہ تو شکر ہے کہ کمپیئر مذکور جیسے میزبان صحیح معنی میں اردو ہی بولتے ہیں ورنہ جب تک انگریزی کی ٹانگ نہ توڑ لی جائے اس وقت تک ان میزبانوں کے منہ سے بات ہی نہیں نکلتی ۔ ہندی کے مقابلے میں اردو کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس کے پاس غزل جیسی میٹھی اور رسیلی صنف موجود ہے۔غزل کے صرف دو مصرعوں میں وہ سب کچھ کہہ دیا جا تا ہے جو نثر میں دفتر کے دفتر لکھ کر بھی نہیں کہا جا سکتا بلکہ غزل کا ایک مصرع ہی انسانی جذبات کی ان گہرائیوں کو چھو لیتا ہے جس کے لئے دوسری زبان کے شاعروں نے کئی کئی صفحے کی نظمیں لکھی ہیں۔ ہندوستان میں اردو زبان کا بڑے سے بڑا دشمن بھی اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے کے اردو کا شعر ہی پڑھتا ہے۔ ہندوستان کی پوری فلمی صنعت کا دارو مدار ہی اردو پر ہے۔ فلموں میں اردو کا شاعر ہی انعام حا صل کرتا ہے چاہے وہ جاوید اختر ہو یا گلزار۔اب وہ اسے ہندی کہتے ہیں تو یہ ان کی ڈھٹائی ہے ۔ اب یہاں مجھے ایک اور بات یاد آگئی ۔ادھر ساری دنیا پر انگریزی چھا رہی ہے اور ادھر انگریز اس بات سے پریشان ہے کہ ساری دنیا اس کی زبان بولنے لگی ہے اس لئے اس کی اپنی چوہدراہٹ ختم ہو تی جا رہی ہے۔ایک تو اس کی چوہدراہٹ ختم ہو رہی ہے دوسرے اسے یہ بھی احساس ہو رہا ہے کہ دوسرے ملکوں میں جہاں انگریزی بولی اور لکھی جاتی ہے وہاں اس کے ساتھ مقامی زبانیں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ یعنی انگریز اور امریکی تو صرف ایک زبان جا نتا ہے اور دوسرے ملکوں والے کئی کئی زبانوں پر قدرت رکھتے ہیں ۔ اس لئے اب وہاں مہم چلائی جا رہی ہے کہ اپنے بچوں کو انگریزی کے ساتھ دوسری زبانیں بھی پڑھائی جائیں ۔ یہ بات ایک سروے میں کہی گئی ہے جو حال ہی میں برٹش کونسل نے کرایا تھا۔ میرا خیال ہے اس سروے سے ہم بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ انگریز اگر ہماری زبان پڑھنے پر مجبور ہو رہاہے تو ہم کیوں اپنی زبان کی بے عزتی کریں۔ لیکن بات وہیں پر آکر ٹھہرتی ہے کہ اس کی ساری ذمہ داری حکومتوں اورذرائع ابلاغ پر عائد ہو تی ہے۔
ابھی چند برس پہلے ہی فہمیدہ ریاض نے دہلی کی ایک تقریب میں اپنی نظم ” تم بھی ہم جیسے ہی نکلے “ سنانا شروع کی تھی تو ایک صاحب اس پر پستول نکال کر کھڑے ہو گئے تھے۔بڑی مشکل سے ان پر قابو پا یا گیا اور پچھلے ہفتے ہندی کی مشہور ناول نگار اور شاعر کسم انسل اکادمی ادبیات پاکستان لاہور میں بیٹھی کہہ ر ہی تھیں کہ آپ کی طرح ہمارا بھی برا حال ہے ۔ آپ اردو زبان کو رو رہے ہیں ہمارے ہاں ہندی پڑھنے والے کم ہوتے جارہے ہیں۔پہلے ہندی کے ادبی رسالے بے شمار نکلتے تھے اور اب صرف گنتی کے دوتین ہی رہ گئے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ بھی معلوم نہیں کیسے چل رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے رسالہ”ہنس “ کا ذکر کیا جسے آج کل ہندی کے ممتاز افسانہ نگار راجندر یادو چلا رہے ہیں۔یہ رسالہ اردو کے(شاید) پہلے افسانہ نگار پریم چند نے اس وقت نکالا تھا جب وہ اردو چھوڑ کر صرف ہندی میں افسانے لکھنے لگے تھے ۔ انہوں نے اردو میں لکھنا اس لئے بھی چھوڑا تھا کہ اس زبان سے انہیں کوئی مالی فائدہ نہیں تھا ،ہندی میں لکھنے سے پیسہ ملتا تھا۔ ان کے بعد ان کے صاحب زادے امرت لال یہ رسالہ چلاتے رہے۔پھر شاید کچھ عرصے کے لئے وہ بند ہو گیا تھا۔ لیکن بہر حال اب پھر نکل رہا ہے ،مگرکسم انسل کے بقول وہ لشٹم پشٹم ہی چل رہا ہے۔وہ کہہ رہی تھیں کہ آ ج کی نسل انگریزی پڑھ رہی ہے۔ان کے اپنے بچے بھی ہندی نہیں پڑھتے صرف انگریزی پڑھتے ہیں ۔وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ انگریزی کے سواکسی مقامی زبان میں بھی ادب لکھا جاسکتا ہے۔حال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص انگریزی میں ایک برا بھلا ناول لکھ لیتا ہے تواس کی شہرت فوراً ہو جاتی ہے۔اخباروں میں اس پر زور شور سے تبصرے ہوتے ہیں،اس کے انٹر ویو چھپتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بہت بڑا ناول نگار مانا جانے لگتا ہے۔ادھرہندی والوں کا یہ حال ہے کہ انہیں اپنی کتاب چھپوانے کے لئے کوئی پبلشر نہیں ملتا۔اس کا ذمہ دارانہوں نے ایک تو الیکٹرانک میڈیا کو ٹھہرایا، جس نے آدھی انگریزی اور آدھی ہندی اردو کرکے اپنی زبان ہی بگاڑ دی ہے اور دوسرے حکومت کو، جس کا سارا کاروبار انگریزی میں ہوتا ہے ۔ان کا خیال تھا کہ جب تک کسی زبان کے ساتھ لو گوں کامعاشی مفاد وابستہ نہیں ہو گا اس زبان کا حشر یہی ہو جائے گا۔ ان کی باتیں سن کر مجھے ایک پرو گرام یاد آ گیا۔ کمپیئر نے ہمارے تین نامور ادیبوں اور شاعروں کو اکٹھا کیا تھااور ان کے ساتھ مل کر اردو زبان کا سوگ منایا تھا۔اب یہ سوگ مناناہی ہوا نا کہ ان تینوں نے جو باتیں کیں ان سے یہی معلوم ہو تا تھا کہ بے چاری اردو زبان اب چند دن کی ہی مہمان رہ گئی ہے۔ ایک دن آپ سوکر اٹھیں گے تو خبر ملے گی وہ نصیبوں جلی اللہ کو پیاری ہو گئی ۔ایک معروف صحافی ہی تھے جنہوں نے چلتے چلتے کہہ دیا کہ ایسی بھی بری حالت نہیں جیسی ہم بیان کررہے ہیں۔ لیکن ان کی بات اس لئے دب گئی کہ اس پروگرام کا پورا ماحول ہی کچھ اور تھا۔اور یہ ماحول اس لئے ایسا بنا تھا کہ شروع میں ہی حاضرین میں بیٹھے لڑکوں اور لڑکیوں سے ایسا سوال کیا گیا تھا جو شاید ان سے کرنے کا نہیں تھا ۔اب اگر بزنس ایڈمنسٹریشن ، معاشیات اور کمپیوٹر سائنس کے بچوں سے سوال کیا جائے کہ وہ ن۔ م راشد یا میرا جی کو جانتے ہیں تو وہ کیا جواب دیں گے ؟ انہوں نے میٹرک ، او لیول یا اے لیول تک جو اردو پڑھی ہے اس میں جدیدشاعر پڑھائے ہی نہیں جاتے تو ان غریبوں کو کیسے معلوم ہو گا کہ یہ لوگ کون تھے ۔اور پھر انتظار حسین کے ساتھ یہ بات منسوب کر دی گئی کہ اردو کا آدھا ادب تو ختم ہو چکا ہے ۔اب نتظار حسین چیخ رہے ہیں کہ بھائی ،میں نے یہ کب کہا تھا ؟ مگر ان کی کوئی نہیں سنے گا ، ٹی وی پر جو آ گیا اس پر سب یقین کر لیں گے ۔جو نوجوان لڑکے لڑکیاں اس پروگرام میں موجود تھے وہ تو شاید اردو ادب سے واقف نہوں لیکن ہمارے ملک میں ان کے علاوہ بھی لوگ رہتے ہیں اور وہ اردو ادب پڑھتے ہیں ۔ہندی میں شاید ادبی رسالے کم ہو رہے ہوں مگر اردو میں ان کی تعداد ایسی کم بھی نہیں ہے ۔آخر لوگ پڑھتے ہی ہوں گے جبھی تو وہ نکل رہے ہیں اور ادب بھی لکھا جا رہا ہے ۔ اچھا برا پہلے بھی لکھا جاتا تھا ،اچھا برا اب بھی لکھا جارہا ہے ۔ اس لئے ابھی سے اس کا سوگ مناناسمجھ میں نہیں آتا۔ا نگریزی کی بات یہ ہے کہ وہ ایک عالمی زبان ہے۔اس میں لکھا ہوا زیادہ شہرت پا جاتا ہے ۔اس کی ایک وجہ تو یہ کہ ہم اس سے مرعوب ہیں ۔دوسرے سچی بات یہ ہے کہ اس میں بہت لکھا جارہا ہے اور واقعی اچھا لکھا جارہا ہے لیکن اگر آپ گنتی کریں تو مغربی لکوں میں ادبی رسالوں کی تعداد اتنی بھی نہیں جتنی ہمارے ہاں ہے اور اگر آپ انگلستان کے کسی تعلیمی ادارے میں جاکر یہ سوال کریں کہ اے ایس بائٹ کون ہے؟ اوروہ مرد ہے یا عورت ؟تو آپ کو وہاں بھی وہی جواب ملے گا جو ہمارے لڑکوں لڑکیوں نے دیا ۔ حالانکہ اے ایس بائٹ جدیدانگریزی ناول کا بڑا نام ہے۔وہ اپنے ناولوں پر کئی ممتاز ادبی انعام حا صل کر چکی ہے ۔ سوال اس سے کیاجانا چاہئے جس کا وہ شعبہ ہو۔ بہر حال بات وہی ہے جو کسم انسل نے کہی۔ زبانیں اس لئے زندہ رہتی ہیں کہ ان کے ساتھ صرف جذبات یاثقافت ہی نہیں لوگوں کا معاشی مفاد بھی وابستہ ہو تا ہے۔اب ہماری زبان یا زبانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار ہماری حکومتیں، ہمارانظام تعلیم اورذرائع ابلاغ ہیں، جس میں الیکٹرانک میڈیا سب سے آ گے ہے ۔وہ تو شکر ہے کہ کمپیئر مذکور جیسے میزبان صحیح معنی میں اردو ہی بولتے ہیں ورنہ جب تک انگریزی کی ٹانگ نہ توڑ لی جائے اس وقت تک ان میزبانوں کے منہ سے بات ہی نہیں نکلتی ۔ ہندی کے مقابلے میں اردو کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس کے پاس غزل جیسی میٹھی اور رسیلی صنف موجود ہے۔غزل کے صرف دو مصرعوں میں وہ سب کچھ کہہ دیا جا تا ہے جو نثر میں دفتر کے دفتر لکھ کر بھی نہیں کہا جا سکتا بلکہ غزل کا ایک مصرع ہی انسانی جذبات کی ان گہرائیوں کو چھو لیتا ہے جس کے لئے دوسری زبان کے شاعروں نے کئی کئی صفحے کی نظمیں لکھی ہیں۔ ہندوستان میں اردو زبان کا بڑے سے بڑا دشمن بھی اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے کے اردو کا شعر ہی پڑھتا ہے۔ ہندوستان کی پوری فلمی صنعت کا دارو مدار ہی اردو پر ہے۔ فلموں میں اردو کا شاعر ہی انعام حا صل کرتا ہے چاہے وہ جاوید اختر ہو یا گلزار۔اب وہ اسے ہندی کہتے ہیں تو یہ ان کی ڈھٹائی ہے ۔ اب یہاں مجھے ایک اور بات یاد آگئی ۔ادھر ساری دنیا پر انگریزی چھا رہی ہے اور ادھر انگریز اس بات سے پریشان ہے کہ ساری دنیا اس کی زبان بولنے لگی ہے اس لئے اس کی اپنی چوہدراہٹ ختم ہو تی جا رہی ہے۔ایک تو اس کی چوہدراہٹ ختم ہو رہی ہے دوسرے اسے یہ بھی احساس ہو رہا ہے کہ دوسرے ملکوں میں جہاں انگریزی بولی اور لکھی جاتی ہے وہاں اس کے ساتھ مقامی زبانیں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ یعنی انگریز اور امریکی تو صرف ایک زبان جا نتا ہے اور دوسرے ملکوں والے کئی کئی زبانوں پر قدرت رکھتے ہیں ۔ اس لئے اب وہاں مہم چلائی جا رہی ہے کہ اپنے بچوں کو انگریزی کے ساتھ دوسری زبانیں بھی پڑھائی جائیں ۔ یہ بات ایک سروے میں کہی گئی ہے جو حال ہی میں برٹش کونسل نے کرایا تھا۔ میرا خیال ہے اس سروے سے ہم بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ انگریز اگر ہماری زبان پڑھنے پر مجبور ہو رہاہے تو ہم کیوں اپنی زبان کی بے عزتی کریں۔ لیکن بات وہیں پر آکر ٹھہرتی ہے کہ اس کی ساری ذمہ داری حکومتوں اورذرائع ابلاغ پر عائد ہو تی ہے۔