نوید ناظم
محفلین
تم تو سنتے نہیں فغاں ورنہ
ہم کو کرنا تھا غم بیاں ورنہ
جھانک کر دیکھتا نہیں دل میں
درد اپنا بھی ہے نہاں ورنہ
تم زمیں کو لپیٹ لو اپنی
ہم نہ لے جائیں آسماں ورنہ
برق سے بے خبر ہمیں رکھا
ہم بناتے نہ آشیاں ورنہ
اس سے غم کو نکال دیتا ہوں
کیونکہ لمبی ہے داستاں ورنہ
یوں نہ ہم پر ستم روا رکھو
کیا کہے گا تمھیں جہاں ورنہ
آج ہم سے رقیب بچتا کیوں
آ گئے ہیں وہ درمیاں، ورنہ!
داغِ دل آج بے مزہ کیوں ہے
لطف دیتا ہے یہ نشاں ورنہ
شکر ہے دشت مل گیا ہم کو
ہم نے رہنا تھا بے اماں ورنہ
ہم کو کرنا تھا غم بیاں ورنہ
جھانک کر دیکھتا نہیں دل میں
درد اپنا بھی ہے نہاں ورنہ
تم زمیں کو لپیٹ لو اپنی
ہم نہ لے جائیں آسماں ورنہ
برق سے بے خبر ہمیں رکھا
ہم بناتے نہ آشیاں ورنہ
اس سے غم کو نکال دیتا ہوں
کیونکہ لمبی ہے داستاں ورنہ
یوں نہ ہم پر ستم روا رکھو
کیا کہے گا تمھیں جہاں ورنہ
آج ہم سے رقیب بچتا کیوں
آ گئے ہیں وہ درمیاں، ورنہ!
داغِ دل آج بے مزہ کیوں ہے
لطف دیتا ہے یہ نشاں ورنہ
شکر ہے دشت مل گیا ہم کو
ہم نے رہنا تھا بے اماں ورنہ