تم جدا ہوئے ، پر بہار آئی ہے ---- محمد اظہر نذیر

تم جدا ہوے، پر بہار آئی ہے
یہ ہے کہ بڑی بے قرار آئی ہے

گل بھی گلشن بھی لگ رہا ویراں
ہوا بھی دیکھو بڑی سوگوار آئی ہے

چاندنی کل جو تھی بہت ہی حسین
آج یوں لگتا ہے بے نکھار آئی ہے

اُداسی شب کی دیکھو، چادرِ حسن
مجھ کو لگتا ہے وہ اُتار آئی ہے

لگا کہ جی بھی نہ پائیں گے اظہر
زندگی ہے کے شب گزار آئی ہے

اُستادِ محترم،
اُسی خواہش کے ساتھ کی پہلی بار ٹھیک ہو، گزارش راہنمائی کی
مشکور
اظہر
 

ایم اے راجا

محفلین
اُداسی شب کی دیکھو، چادرِ حسن
مجھ کو لگتا ہے وہ اُتار آئی ہے

لگا کہ جی بھی نہ پائیں گے اظہر
زندگی ہے کے شب گزار آئی ہے

اظہر صاحب بہت خوب باقی اصلاح کے لیئے استذہ کرام تشریف لاتے ہی ہوں گے، انشاءاللہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
قلم کو کچھ دیر روکیے اظہر صاحب اور غور کیجیئے یعنی اپنے اشعار پر خود بھی غور و فکر کی عادت ڈالیں! یہ بحر آپ کے قابو میں نہیں آ رہی سو زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔

گل بھی گلشن بھی لگ رہا ویراں

چاندنی کل جو تھی بہت ہی حسین

یہ دو مصرعےچھوڑ کر سارے کے سارے اشعار بے وزن ہیں، ردیف میں 'ہے' کی وجہ سے مطلع اور ہر دوسرا مصرع بے وزن ہو گیا۔ اور دیگر مصرعے بھی اوپر والے دو کے سوا بے وزن ہیں۔

غور فرمائیں :)
 
محترم آستاد،
شرمندہ ہوں کہ تقطیع میں غلطی ہو جاتی ہے، یقین مانیے لگن سچی ہے
ذرا دیکھیے تقطیع ٹھیک کی یا نہیں؟
از راہِ کرم یہ بھی بتایے کے آخر میں فعولن رکھتے ہوے کیا " آئی ہے" بھی ٹھیک ہو گا؟
والسلام
اظہر




تم جدا ہوئے پر بہار آ گئی
یہ ہے کہ بڑی بے قرار آ گئی

گل بھی گلشن بھی لگ رہا ویران
یہ تو دیکھو ہوا سوگوار آ گئی

چاندنی کل جو تھی بہت ہی حسین
آج یہ لگتا ہے کھو نکھار آ گئی

دیکھ لے شب اُداس سی چادر
مجھ کو لگتا ہے اب اُتار آ گئی

لگا کے زندگی بجھی اظہر
وہ ہے کے پہلی شب گزار آ گئی

2 1 2 2 1 2 1 2 1 1 2

تم ج دا ہو ءے پر ب ہا ر آ گ ء
یہ ہ کہ بڑ ی بے ق را ر آ گء

گل ب گل شن ب لگ ر ہا و ی را
یہ ت دے کو ہ وا س گو ا ر آ گ ء

چا ن دن کل ج تی ب ہت ہی ح سی
آج ی لگ تا ہ کو ن کا ر آ گ ء

دے ک لے شب اُ دا س سی چ ا در
مج ک لگ تا ہ اب ا تا ر آ گء

لگ ا کے زن د گی ب جی ا ظ ہر
وہ ی کے پہہ ل شب گ زا ر آ گ ء
 

الف عین

لائبریرین
ایک تو یہ ڈجیٹل بائنری تقطیع میری سمجھ میں نہیں آتی۔ لیکن لگتا ہے کہ خود ساختہ بحر میں اظہر نے تقطیع کی ہے۔ یہ مروجہ بحر نہیں لگتی۔
 

الف عین

لائبریرین
اوہو، اس بحر کی کوشش کی تھی!!
لگا کے زندگی بجھی اظہر
وہ ہے کے پہلی شب گزار آ گئی
کی تقطیع میں ’لگا‘ کی تقطیع غلط ہے۔ "لگ اَ‘ کیا گیا ہے۔ یہ غلط تلفظ ہے۔
دوسرے مصرع میں ’کے‘ در اصل ’کہ‘ ہے، اس کو طویل بنانا غیر فصیح ہے۔
اور ساری ردیفوں میں ’آ گئی‘ کو ’آ گی‘ باندھنا غلط ہے۔ یا جس طرح تم نے تقطیع کی ہے، اس میں ’ی‘ گرائی گئی ہے۔ ’آ گء‘ یہ بھی غلط ہے۔
 
فاعلاتن مفاعلن فعلن

اُستاد جی،
معزرت قبول کیجیے، ایک بار پھر کوشش کی ہے، اب دیکھیے تو
مشکور
اظہر

تم جدا ہو مگر آ گئی بہار
دل بجھا ہے، آیا نہیں قرار

گل بھی گلشن بھی لگ رہا ویراں
کس قدر پھیل چکا ہے غبار

چاندنی کل جو تھی بہت ہی حسین
ابر میں ڈوبی، کھو چکی نکھار

شب کو دیکھو، قبائے جمیل کو
خاص پہنا، مگر دیا اُتار

یوں لگا زندگی بجھی اظہر
وہ تو ایسے ہی شب کو آئی گزار
 
آساتزہ کرام،
شرمندگی ہے کہ کیا کہوں، کوشش ایک اور کرتا ہوں، درخواست ہے کہ برداشت کیجیے
ممنون
اظہر


تم ہوے ہو جدا، بہار آئی
دل بجھا سا ہے، بے قرار آئی

گل بھی گلشن بھی لگ رہا ویراں
ہر سو پھیلا ہے اب غبار آئی

چاندنی کل جو تھی بہت ہی حسین
ابر میں ڈوبی، بے نکھار آئی

شب کو دیکھو، قباے جمیل کو
یوں ہی لگتا ہے ، اب اُتار آئی

یوں لگا زندگی بجھی اظہر
بن ترے شب ہی وہ گزار آئی


تم ہوے ہو ---- فاععلاتن
جدا بہا ---- مفا علن
ر آ ئ ---- فَعِ لن

دل بجھا سا ---- فاعلاتن
ہے بے قرا ----- مفاعلن
ر آ ئ ----- فَعِ لن
 

محمد وارث

لائبریرین
شب کو دیکھو، قباے جمیل کو

سوائے اس مصرعے کے، باقی شعر اب وزن میں ہیں۔

اور صحیح کام اب شروع ہوتا ہے :)

کوئی بھی شعر واضح مطلب نہیں دے رہا!
 
تم ہوے ہو جدا، بہار آئی
دل بجھا سا ہے، بے قرار آئی

گل بھی گلشن بھی لگ رہا ویراں
ہر سو پھیلا ہے اب غبار آئی

چاندنی کل جو تھی بہت ہی حسین
ابر میں ڈوبی، بے نکھار آئی

شب قبائے جمیل اپنی کو
یوں ہی لگتا ہے ، اب اُتار آئی

یوں لگا زندگی بجھی اظہر
بن ترے شب ہی وہ گزار آئی


شب ق با ئے---- فاععلاتن
ج می ل اپ---- مفا علن
ن ی کو---- فَعِ لن

محترم اُستاد،
اب بھی کیا؟ مضمون اور مفاہیم کی بہتری کو سلسلے میں مدد کیجیے از راہِ کرم
شرمندہ
اظہر

 
تم ہوئے جب جدا، بہار آئی
دل بجھا، وہ بھی بے قرار آئی

گل بھی گلشن بھی لگ رہا ویراں
نحس اتنی یہ کیوں نہار آئی

وادیاں ہیں یہاں تلاش رہی
روشنی بھی وھاں پکار آئی

شام پھیلی مگر سہانی نہ تھی
حسن ناپید، بے نکھار آئی

چاندنی کل جو تھی بہت ہی حسین
ابر میں ڈوبی، بے نکھار آئی

شب قبائے جمیل اپنی کو
یون ہی لگتا ہے اب اُتار آئی

یوں لگا زندگی بجھی اظہر
بن ترے ایک شب گزار آئی

اُستاد محترم،
کچھ قابلِ قبول ہوئی کیا؟
والسلام
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں بھی وارث کی اصلاح کے باوجود شعر مہیں تفہیم کے قرینے کی کمی ہے۔ مفہوم بھی الٹا ہے، محبوب کے جدا ہونے سے بہار آئی؟
گل بھی گلشن بھی لگ رہا ویراں
ہر سو پھیلا ہے اب غبار آئی
ردیف ’آئ‘ کا فاعل کون ہے؟ اگر غبار ہے تو وہ مذکر ہے، اس کے ساتھ ’آئ‘ غلط ہے۔

گل بھی گلشن بھی لگ رہا ویراں
نحس اتنی یہ کیوں نہار آئی
ؔنہار‘؟ کیا ’بہار‘ میں ٹائپو ہو گئی ہے؟ ویسے نہار کے دو مطلب ہیں، ایک عربی کا، بمعنی دن، وہ مذکر ہے، دوسرا ہندی کا نِہار، جو فعل ہے، مراد دیکھنا، ’آئ‘ اس لے ساتھ بھی درست نہیں۔

وادیاں ہیں یہاں تلاش رہی
روشنی بھی وھاں پکار آئی
موزوں تو ہو گیا لیکن اس کا مطلب؟ ’ہیں یہاں تلاش رہی‘ کی ترتیب بھی اچھی نہیں لگ رہی ہے، فاعل کون ہے جو تلاش کر رہا ہے؟
شام پھیلی مگر سہانی نہ تھی
حسن ناپید، بے نکھار آئی

چاندنی کل جو تھی بہت ہی حسین
ابر میں ڈوبی، بے نکھار آئی

ان دونوں اشعار میں قافیہ مشترک ہے، جو غلط ہے، ’بے‘ فارسی کا سابقہ ہے، جب کہ نکھار ہندی ہے، اس طرح چوں چوں کا مربا بنانا جائز نہیں ۔

شب قبائے جمیل اپنی کو
یون ہی لگتا ہے اب اُتار آئی
بمعنی ’اپنی قبائے جمیل کو‘ تو درست ہے، لیکن ’قبائے جمیل اپنی کو‘ کانوں کو بھلا نہیں لگتا۔

یوں لگا زندگی بجھی اظہر
بن ترے ایک شب گزار آئی
کون گزار آئی، زندگی؟ شعر ایسا ہونا چاہئے جو ایسے سوالوں کا کچھ تو جواب دے۔ اگر چہ ابہام بھی شعر کا حسن ہے، کہ دو تین ممکن معانی برامد ہو رہے ہوں لیکن اگر کوشش سے بمشکل ایک معنی برامد ہو، تو یہ تفہیم و ابلاغ کی نا کامی ہے۔
 
اُستادِ گرامی ،
ایک کوشش اور کیے لیتے ہیں، یقین جانیے اردو سے ناواقفیت آڑے آ جاتی ہے اور کچھ مقامات پر وقت زیادہ لگ جاتا ہے، امید ہے آپ میری کم علمی کو درگزر فرمائیں گے- مقطع میں مصرع اولا میں زندگی کی طرف اشارہ ہے تو مصرع تانیا میں اُسی نسبت سے کہنے کی کوشش کی ہے کہ محبوب کے بن ایک رات گزر ہی گئی جب کہ لگتا تھا کہ زندگی تمام ہوئی- اگر اجازت ہو تو ایسے ہی رکھ لوں؟
والسلام
اظہر

تم جدا ہو، مگر بہار آئی
دل بجھا، وہ بھی بے قرار آئی

گل بھی گلشن بھی لگ رہا ویراں
صبح بھی غم کو یوں اُبھار آئی

وادیوں مین تجھے تلاش کیا
گھاٹیوں میں ہوا پکار آئی

شام پھیلی مگر سہانی نہ تھی
چین ناپید، دکھ ہزار آئی

چاندنی کل جو تھی بہت ہی حسیں
ابر میں ڈوبی، بے نکھار آئی

شب قبائے جمیل اپنی کو
یوں ہی لگتا ہے اب اُتار آئی

یوں لگا زندگی بجھی اظہر
بن ترے ایک شب گزار آئی
 

الف عین

لائبریرین
نہیں اظہر، مقطع کا مطلب یہ نہیں نکلتا جو الفاظ استعمال کئے ہیں اور الفاظ کی جو ترتیب ہے، اس سے یہ تفہیم نہیں ہوتی۔
باقی اشعار میں بھی کچھ میں‌تو وہی اعتراضات باقی ہیں اب بھی، اور کچھ میں نئے اسی قسم کے اعتراضات ہیں۔ مزید تفصیل کی ضرورت ہے کیا؟
 
اُستادِ گرامی،
آپ کا حکم سر آنکھوں پر، استدعا وہی کہ خطا معاف- ایک کوشش کی ہے اب دیکھیے جناب
والسلام
اظہر


تم جدا ہو، مگر بہار آئی
بے کسی، وہ بھی بے قرار آئی

گل بھی گلشن بھی لگ رہا ویراں
بے خودی، کر کے غم سنگھار آئی

عاشقی نے تجھے تلاش کیا
شاعری ہر جگہ پکار آئی

شام پھیلی مگر سہانی نہ تھی
دلکشی، کھو چکی نکھار آئی

چاندنی کل جو تھی بہت ہی حسین
روشنی تجھ پہ ہی نثار آئی

شب قبائے جمیل اپنی کو
خامشی سے کہیں اُتار آئی

منتظر زندگی جو تھی اظہر
آخری حد بھی اب گزار آئی
 
Top